مذہبی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں؟

انتخابات کا بخار اتر چکا ہے، سیاسی کارکن دوبارہ اپنے معمول کے کام دھندوں میں لگ گئے ہیں۔ جو جماعتیں انتخابات میں تسلی بخش کارکردگی نہ دکھا سکیں انہوںنے اپنی شکست کے اسباب تلاش کرنے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے تو سیاسی خطرے کے پیش نظر باقاعدہ ڈنڈا اٹھالیا ہے اور پوری تنظیم کو ادھیڑکر رکھ دیا ہے۔ البتہ مذہبی جماعتوں نے اس نوعیت کی کمیٹیاں بنانے کا تکلف نہیں کیا ہے، شاید ان کے خیال میں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ قومی اسمبلی میں اپنی 13نشستوں کو بھی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ کیا واقعی ان جماعتوں کی کارکردگی توقع کے عین مطابق رہی ہے اور انہیں کسی قسم کی خوداحتسابی کی ضرورت نہیں ہے۔ آج کے کالم میں اس حوالے سے کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں۔

انتخابی میدان میں اترنے والی مذہبی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام، متحدہ دینی محاذ، جماعت اسلامی، جے ےو آئی (نظریاتی)، جے یو پی، سنی تحریک، سنی اتحاد کونسل وغیرہ شامل ہیں۔ جے یو آئی (ف) نے قومی اسمبلی کی 10 نشستیں حاصل کیں اسے 14لاکھ 61 ہزار 371ووٹ ملے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی 13 جبکہ بلوچستان اسمبلی کی 6نشستیں اس کے حصے میں آئیں۔ جماعت اسلامی کو قومی اسمبلی کی 3نشستیں مل پائیں، اس نے 9 لاکھ 63ہزار909ووٹ حاصل کیے۔ اسے کے پی اسمبلی کی 7 اور پنجاب اسمبلی کی ایک نشست ملی۔ متحدہ دینی محاذ کوئی نشست حاصل نہ کرسکا البتہ اسے 3لاکھ 60ہزار 297ووٹ ملے۔ محاذ کے حوالے سے کچھ گزارشات الگ کالم میں بھی کروںگا۔ جے یو آئی (نظریاتی) نے ایک لاکھ 3ہزار98 ووٹ لیے مگر اسے بھی پارلیمان کا حصہ بننا نصیب نہ ہوسکا۔ بریلوی مکتب فکر کی جماعتیں مولانا نورانی کے انتقال کے بعد سے قیادت کے بحران سے دوچار ہیں، اس لیے اس مکتب فکر کی جماعتیں کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکیں۔ جے یو پی (نورانی گروپ) کو 67ہزار966، سنی اتحاد کونسل کو 37ہزار732، سنی تحریک کو 25ہزار 485ووٹ ملے۔ یہ تینوں جماعتیں بھی کوئی سیٹ نہ نکال سکیں۔ اگر اہل تشیع جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی کافی پیچھے نظر آتی ہیں۔ مجلس وحدت المسلمین کو 41ہزار 520 ووٹ ملے۔ البتہ یہ جماعت بلوچستان اسمبلی کی ایک نشست نکالنے میں کامیاب رہی۔ ساجد نقوی کی اسلامی تحریک کو 2ہزار 694ووٹ ملے، اس جماعت نے پیپلزپارٹی سے اتحاد کیا تھا۔

انتخابی نتائج سے صاف واضح ہوتا ہے کہ کوئی بھی مذہبی جماعت صف اوّل کی جماعتوں میں جگہ نہیں پاسکی ہے۔ اگر ساری مذہبی جماعتوں کے ووٹ جمع بھی کرلیے جائیں تو وہ 29لاکھ کے لگ بھگ ہوتے ہیں۔ اب آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کل ڈالے گئے 4کروڑ 53لاکھ 88 ہزار 404 ووٹوں میں 29لاکھ ووٹوں کی کیا حیثیت ہے۔ مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں سیکولر جماعتوں نے کہیں زیادہ ووٹ لیے ہیں۔ ان سیکولر جماعتوں میں سے ٹیسٹ کیس کے طور پر اگر تحریک انصاف کو ہی سامنے رکھ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس جماعت نے 76لاکھ 79 ہزار 954ووٹ حاصل کیے ہیں۔ یعنی ساری مذہبی جماعتوں کے ووٹوں سے دگنے سے بھی زاید ووٹ اسے پڑے۔ ایک ایسی جماعت جس کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کوئی نمایندگی نہیں تھی، آج اس کے پاس 90 کے قریب نشستیں ہیں۔ مذہبی جماعتیں کہیں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں البتہ کچھ وزارتیں یا چند شرائط کے عوض کسی کی حکومت کا حصہ ضرور بن سکتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ مذہبی جماعتیں قیادت کے منصب پر فائز ہونے کی بجائے کسی کے ساتھ لگ کر کام نکالنے والی جماعتوں کی صف میں آگئی ہیں۔

میرا خیال ہے اب وہ موقع آگیا ہے، ہمیں اس بات پر کھلی بحث کرنا چاہیے کہ مذہبی جماعتیں آخر کیا چاہتی ہیں؟ اگر ان کے پیش نظر محض چند نشستوں کا حصول ہے تاکہ پارلیمان میں پہنچ کر مذہبی حلقوں کی نمایندگی کی جاسکے تو پھر یہ انقلاب کے نعرے کیسے ہیں؟ سیدھی سی بات ہے، چند حلقوں کا انتخاب کرکے ساری توانائیاں ان پر صرف کرکے بھی کچھ نشستیں نکالی جاسکتی ہیں، اس کے لیے پورے ملک میں امیدوار کھڑے کرکے ان کی ضمانتیں ضبط کروانے کی کیا تُک ہے؟ اگر مذہبی جماعتوں کا مقصد محض چند نشستوں کا حصول نہیں بلکہ اسلامی حکومت کا قیام ہے تو پھر اپنے آپ سے یہ سوال پوچھاجانا چاہیے کہ کیا موجودہ حکمت عملی سے یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ جے یو آئی سمٹتے سمٹتے خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع تک محدود ہوکر رہ گئی ہے جبکہ جماعت اسلامی دیر کی پارٹی بن گئی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں ایسی جماعتیں کیسے اسلامی نظام کے نفاذ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے بعض لوگ عوام کو ہی ”مجرم“ ٹھہرادیں مگر کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ مذہبی جماعتیں ہی عوام سے کٹ کر رہ گئی ہوں؟ عام لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں کہیں بھی نظر نہیں آتی، دینی جماعتوں میں شعبہ دعوت وتبلیغ کا تصور تک نہیں رہاہے،بس پرانے کارکنان سے ہی کام چلایا جارہا ہے۔ معاف کیجیے گا، ایسا لگتا ہے جے یو آئی اور جماعت اسلامی بھی بعض مذاہب کی طرح نسلی جماعتیں بن چکی ہیں، جو خاندان ان جماعتوں سے وابستہ چلے آرہے ہیں، انہی کے بچے ان جماعتوں کا حصہ بنتے ہیں، باقی نئے لوگوں کے لیے شاید نوانٹری ہے۔ جلسے، جلوس، اخباری بیانات، بینر اور پوسٹر بھی دعوت کا حصہ ہیں لیکن یہ فرد، فردپر محنت کا متبادل نہیں ہوسکتے۔ مذہبی جماعتوں کو اپنے وجود کو سکڑنے سے بچانے کے لیے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کو اپنے نیٹ ورک میں لانا ہوگا، یہ کام اسی وقت ممکن ہے جب روزانہ کی بنیاد پر عوامی رابطہ مہم چلائی جائے۔ بلاشبہ عوام آج بھی علماءکے قدردان ہیں بس انہیں جوڑنے کی ضرورت ہے۔
جماعت اسلامی نے اپنی انتخابی مہم امریکا مردہ باد کے نعرے پر چلائی، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستانیوں کی اکثریت امریکا سے نفرت کرتی ہے مگر جماعت اسلامی کو یہ حقیقت بھی سامنے رکھنا چاہیے تھی کہ 2013ءکے انتخابات میں امریکا 2002ءکی طرح کا ایشو نہیں تھا۔ جے یو آئی نے اپنی انتخابی مہم کا محور تحریک انصاف کی مخالفت کو رکھا۔ جے یو آئی کے رہنماؤں کے بیانات سے پی پی حکومت اور نوازشریف کے حوالے سے نرم گوشے کا تاثر ابھرا۔ حالانکہ لوگ پی پی حکومت سے بیزار تھے جس کا نتیجہ 11مئی کو سامنے بھی آگیا۔ شاید جے یو آئی نے خیبرپختونخوا کے مخصوص حالات کے پیش نظر یہ حکمت عملی اپنائی تھی لیکن سارا زور عمران خان پر رکھنے کی وجہ سے وہ عوامی مسائل کے حوالے سے اپنا نکتہ نظر زیادہ مو ¿ثر طریقے سے سامنے نہیں لاسکی۔ لوگ لوڈشیڈنگ، بدامنی، بے روزگاری، مہنگائی کے ذمہ داران کے خلاف سننا چاہتے تھے مگر انہیں صرف عمران خان کے قصے سنائے جاتے رہے۔ دوسری طرف عمران خان نے مذہبی لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے امریکی جنگ کے خلاف سخت موقف اختیار کیے رکھا اور ساتھ ساتھ سابقہ حکومتوں کی کارکردگی اور عوامی مسائل کو بھی اپنا موضوع بنایا جس کی وجہ سے لوگ ان کے خلاف ہونے والی باتوں سے کچھ خاص متاثر نہیں ہوئے۔ جے یو آئی نے انتخابی مہم کے دوران فتوے نما بیانات کا بھی سہارا لیا۔ جوشِ خطابت میں عمران خان کو قادیانی اور یہودی ایجنٹ تک ٹھہرادیا گیا۔ یقینا عزت مآب علمائے کرام نے یہ سارا کام خلوص نیت سے کیا تھا، وہ واقعتا تحریک انصاف کی اچھل کود کو مسلم تہذیب وتمدن کے خلاف سمجھتے ہوںگے، لیکن چونکہ معاملہ سیاسی رنگ اختیار کرگیا تھا، اس لیے عوام نے علمائے کرام کے بیانات کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر لیا۔ اگر سیاسی مقابلہ بازی میں فتوؤں کا سہارا نہ لیا جاتا تو شاید یہ زیادہ مناسب بات ہوتی۔

ٹھیک ہے، سےاست نام ہی جوڑتوڑ کا ہے، لیکن عوام مذہبی رہنماؤں سے ذرا مختلف قسم کی توقع رکھتے ہیں، دیگر سیاست دانوں کی طرح صبح کچھ، شام کچھ والی پالیسی نے مذہبی قیادت کے امیج کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ ہر حالت میں حکومت کا حصہ بننے کے لیے ”گرنے“ کی حد تک چلے جانے سے عوام کو ہنسنے کا موقع ملتا ہے۔ تاریخ تو یہی ہے کہ ہمارے اکابرین نے حکومت کا حصہ نہ ہونے کے باوجود بڑے بڑے معرکے سر کیے، اب بھی حکومت کا حصہ بنے بغیر بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔

حالیہ انتخابات کے دوران مذہبی جماعتوں کے درمیان اتحاد کا معاملہ بھی کافی زیربحث رہا۔ اکابر علمائے کرام اخبارات کے ذریعے متحد ہونے کی اپیل کرتے رہے، انفرادی طور پر بھی ملاقاتیں کیں مگر کسی نے ان کی ”درخواست“ پر کان نہیں دھرے، سچ پوچھیں تو مذہبی جماعتوں کے اس رویے نے لوگوں کے دل چھلنی کردیے ہیں۔ اگر مذہبی جماعتیں متحد ہوجاتیں تو جس طرح آج مذہبی رہنما نوازشریف کے پیچھے پھر رہے ہیں، یہی نوازشریف انتخابات سے قبل ان کے قدموں میں بیٹھے ہوتے، اپنے اتحاد کی وجہ سے مذہبی جماعتیں بہتر بارگینگ پوزیشن میں ہوتیں اور اس کے نتیجے میں پارلیمان میں ان کی نشستیں بھی بڑھ جاتیں، دینی اتحاد قائم نہ ہونے پر لوگ بہت غصے میں ہیں، لوگ پوچھ رہے ہیں، اگر ساری سیاست اسلام کے لیے ہورہی ہے تو انا کے بت کیوں نہیں ٹوٹتے؟ پی پی، ن لیگ حتیٰ کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم سے مذہبی جماعتوں کا اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے مگر یہ آپس میں نہیں مل سکتے۔ پہلے سیکولر حلقے طعنہ دیتے تھے اب مذہبی کارکنان بھی کہنے لگے ہیں کہ ”دینی جماعتوں کو اسلام سے زیادہ اسلام آباد کی فکر ہے“ گزشتہ روز ایک سنجیدہ محفل میں کہا جارہا تھا کہ ”مذہبی جماعتوں نے اکابرین کو صرف ووٹ کیش کرانے کے لیے رکھا ہوا ہے، باقی ان کی سنتا کوئی نہیں ہے۔“ بلاشبہ مذہبی سیاسی قیادت کے لیے اپنی ہی صفوں سے اس طرح کی آوازیں اٹھنا انتہائی خطرناک صورت حال کی طرف اشارہ کرتی ہیں-
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 121047 views i am a working journalist ,.. View More