کیا ہم اُمید کرسکتے ہیں؟؟

 جب تلک ایک قوم کا تصور نہیں اُبھرے گاہم ٹیلے کے ذروں کی مانند بس اُسوقت یکجارہیں گے جب تک کے کوئی آندھی‘ کوئی طوفان نہیں آجاتا۔بعد از طوفان ہم ٹیلے سے ذروں کے چھوٹے چھوٹے ڈھیروں میں بدل جائیں گے(خدانہ کرے)۔

ہے کوئی جو اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر کراچی کی سلگتی آگ کو ٹھنڈا کرے۔ہے کوئی جو فقہ وفرقہ کے بطن سے معرض وجود میں آئے فتنہ وفسادکو محبت کے گلستان میں بدل سکے۔ہے کوئی جو بلوچستان میں موجود غیرملکی سرگرمیوں کو طشت ازبام کرسکے۔کیاسب اپنی اپنی نوکری بچائے ہوئے ہیں؟کیا سیاسی مفادات ملکی مفادات سے زیادہ اہم ہیں؟کیا ہم سب کو موت نہیں آنی ؟جب آنی ہے تو ڈر کس بات کا؟ کیاہم اب بھی جمہوریت اورآمریت کے لغوی واصطلاحی معنوں سے محضوظ ہوتے رہیں گے یا قوم تک ثمرات بھی پہنچنے دیں گے؟

اخباریں کہتی ہیں کہ قومی حکومت وجود میں آرہی ہے۔گوکہ یہ بات خوش آئند ہے کہ ایک پارٹی کو کم وبیش مرکز میں حکومت سازی کیلئے کوئی مسئلہ درپیش نہیںاور وہ اگلے الیکشن میں گلہ نہ کرسکے گی کہ ہم بیساکھیوں پرکھڑے تھے‘لیکن آنکھیں بند کرلینے سے بلی کے حملے سے نہیں بچاجاسکتا۔کیا ہم نے پنجابی ‘سندھی‘بلوچی ‘شیعہ ‘سنی ‘دیوبندی بن کر ووٹ نہیں دیا؟؟آپ ارکان اسمبلی کی فہرست اُٹھالیں تو حیران ہوں گے کے چالیس سے پچاس فیصد ووٹ (مباداکہ شرح زائدیاکچھ کم ہو)برادری اور فرقہ بندی کی بنیاد پردیاگیا؟ تو پھر آپ ایک قوم کیسے ہوگئے؟آپ تو کہتے ہیں ہماری دوستی بھارت سے نہیں ہوسکتی کیونکہ ہم دوقومی نظریہ کی بنیاد پر الگ ہوئے ۔لیکن زمینی حقائق بتارہے ہیں کہ ہم سب کلمہ پڑھنے کے باوجودرنگ ونسل کے ایک مخصوص حصار سے نکل نہیں پائے۔اور جو نکلے وہ جماعتی حصارمیں مقیدہوکررہ گئے‘کوئی پی ٹی آئی کاجیالاہے تو کوئی ن لیگ اور پی پی پی کا رکھوالا۔ لگاﺅ سے انکارممکن نہیں لیکن الیکشن کے بعد عوام کو صرف ملک کا متوالا ہوناچاہیئے لیکن بدقسمتی سے ایسانہیں ہے۔سب کا اپنااپناسچ اور اپنااپناحق ہے۔ہر گروہ کلمہ گو اور پاکستانی ہونے کے باوجود دوسرے کوقابل گردن زدنی قراردیتاہے۔دوسرے کو برداشت کرنے کا کتناپیارا انداز اسلام نے ہمیں سکھایا(مفہوم)”کافروں کے جھوٹے خداکو جھوٹامت کہومباداکہ وہ تمہارے سچے خداکوجھوٹاکہیں“۔لیکن لیکن ہم کو تو مقتدر طبقے (سیاسی ودینی )نے شیشے کی مانند توڑ کرکرچیوں میں ایسے بدلاہے کہ کوئی معجزہ ہی ہمیں اکھٹاکرے توکرے۔

اب ضرورت ا س امر کہ ہے کہ حکمران جماعت اس افواہ کاسختی سے نوٹس لے جس میں کراچی سے گوادرتک کی پٹی کو جدا کرنے کی بات کی جارہی ہے۔زبانی جمع خرچ بہت ہوچکا‘نوٹس بھی بہت ہوئے لیکن عمل تو امراءنے کرنااورکرواناہے۔بلوچستان اور کراچی میں موجود غیرملکی عناصر کا نہ صرف پردہ چاک کیاجائے بلکہ مجرموں کوکٹہرے میں لایاجائے اور ہمارے جن بھائیوں کوہم سے جداکرنے کی سعی کی جارہی ہے انکے تحفظات دورکیئے جائیں ۔تھانہ کلچر‘نوکرشاہی اورسردارانہ نظام کو جڑسے اُکھاڑنے کیلئے فوری اور موئثراقدامات کیئے جائیں‘اچھے پولیس افسران وبیوروکریٹس کے تبادلوں کے بجائے انکی حوصلہ افزائی کی جائے۔ٹیکس چوروں ‘بھتہ خوروں اور کسی بھی تعصب کی بناءپر عوام کو ورغلانے والے کے لیئے سخت سے سخت سزانہ صرف مقررکی جائے بلکہ بلاتخصیص اس پرعمل بھی کروایاجائے۔گوکہ الیکشن کے بعد کی مثبت حکمت عملی کے بعد لوگوں کو میاں صاحب سے بہت سے اُمیدیں بندھ گئی ہیں۔لیکن کیاہم اُمید کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے تمام مسائل کے حل کیلئے میاں صاحب ‘اپوزیشن اور عوام مثبت کردار اداکریں گے؟ ”لفظ عوام“پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیںیہ ایک حقیقت ہے کیونکہ اکثردیکھنے میں آیاہے کہ اگر عدالت فیصلہ دے تو دوسرافریق(مجرم) اپنے چاہنے والوں سمیت میدان میں سرتاپااحتجاج بن جاتاہے۔عوام کو الیکشن کے بعد نیوٹرل ہوکر محض ملکی مفادات کی جنگ کرناہوگی وگرنہ تاریخ کے اوراق پرانکے لیئے بھی کوئی اچھے الفاظ ثبت نہ ہوں گے۔جہاں سیاستدانوں کو رسہ گیر‘بے رحم اورآرام پرست لکھاجائے گاوہیں عوام کو بھی مفادپرست ‘خائن اور تنگ نظرکہنے سے مورخ کو کوئی نہ روک سکے گا۔

جب تلک ایک قوم کا تصور نہیں اُبھرے گاہم ٹیلے کے ذروں کی مانند بس اُسوقت یکجارہیں گے جب تک کے کوئی آندھی‘ کوئی طوفان نہیں آجاتا۔بعد از طوفان ہم ٹیلے سے ذروں کے چھوٹے چھوٹے ڈھیروں میں بدل جائیں گے(خدانہ کرے)۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174641 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.