مجرم کون

ثناء اﷲ پاکستانی کو جموں جل میں کلہاڑوں کے وار کرکے شہید کر دیا گیا۔ثناء اﷲ بھارت کیوں گیاتھا اور اسے کس جرم میں سزا ہوئی تھی اسکا احوال ابھی سامنے نہیں آیا۔بھارت میں پھنس جانے والے پاکستانیوں کے جرائم عموماً معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں جن میں سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنیوالے ماہی گیر،غلطی سے بارڈر کراس کرنیوالے کسان،مزدور،دیہاتی یا پھر بھارت یاترا کرنیوالے شوقین۔ پاک بھارت سرحد پر دونوں جانب آبادی ہے اور دونوں جانب کے کسانوں کے کھیت ہیں اور ایک دوسرے کا حال احوال بھی پوچھ لیتے ہیں۔بھارت نے پاکستان کی سرحد پر آہنی باڑ لگا رکھی ہے جو کہ کئی کلومیٹر بھارتی علاقے کے اندر ہے جبکہ بھارتی کسانوں کی زمینیں اس باڑ سے باہر پاکستانی سرحد کے قریب زیرو پوائنٹ پر ہیں۔
پاک بھارت سرحد بھی ایک المیہ ہے کہ یہ سرحد جغرافیائی اصولوں کے منافی بنائی گئی ہے جس کی وجہ سے آئے روز بھارتی خفیہ ایجنسیاں کسانوں کے بھیس میں پاکستانیوں کا شکار کرتی رہتی ہیں۔باؤنڈی کمیشن قائم ہوا تو پنجاب کے بڑے زمیندار اور جاگیرداروں نے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پٹواریوں کے نقشوں کے مطابق دونوں ممالک کی سرحدوں کا تعین کیا تاکہ ان کی زمینوں اور مزارعے محفوظ رہیں اور آنیوالے دور میں ان کے خاندان پاکستان پر حکمرانی کرتے رہیں۔باؤنڈری کمیشن کے ابتدائی فیصلے کے مطابق تقسیم اضلاع کی صورت میں ہونی تھی تاکہ مسلم میجارٹی کے اضلاع پاکستان اور ہندو میجارٹی اضلاع بھارت میں شامل ہو سکیں۔اگر تقسیم کے اس منصوبے کو تسلیم کر لیا جاتا تو گرداسپور کی تحصیل پاکستان کے حصے میں آتی اور بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کا راستہ نہ ملتا۔پنجاب کے بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں جن میں سر فہرست دولتانے اورممدوت شامل تھے نے ساز باز کے ذریعے پہلے اکثریتی اضلاع کی تجویز رد کروائی اور پھر تحصیل کی حدود کو بھی رد کروا کر پٹوار خانوں کے تحت عملدرآمد کو یقینی بنوایا۔پنجاب کے بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں کی بد نیتی خود ان کے کام بھی نہ آئی اور سلیمانکی کے سامنے ستلج پار کا سارا علاقہ بھارت میں چلا گیا۔اس بد نیتی اور خود غرضی کے نتیجے میں گرداسپور اور شکر گڑھ کے علاقے بھی بھارت کو مل گئے اور بھارت کو پنجابی زمینداروں نے کشمیر تحفے میں پیش کر دیا۔مشہور کشمیری مصنف اور محقق جناب جی ایم میر نے اپنی تصنیف کشمیر تقسیم ہند کا ادھورا ایجنڈا اور کشمیر کی جغرافیائی حدود میں اس سازش پر مفصل روشنی ڈالی ہے حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو کشمیریوں کی غلامی اور جبر کے اصل ذمہ دار پنجابی جاگیردار ،سیاستدان اوربڑے زمیندار ہیں۔

پٹوار خانوں کی تقسیم کا بھارت بھر پور فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ پنجاب کا کسان فصل کی بیجائی اور کٹائی کے مواقع پر بھارتیوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ بھارتی سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے کارندے ہر روز مختلف مقامات پر اپنے کسانوں کیلئے باڑ پر لگے گیٹ کھولتے ہیں اور پھر شام سے پہلے اپنے کسانوں کو باڑ کے اندر لیجا کر گیٹ بند کر دیتے ہیں۔بھارتی کسانوں کے ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے کارندے پاکستانی کسانوں کے بچوں کو بھی اغواء کر لیتے ہیں اور اسی آڑ میں اپنے دہشت گردوں،جاسوسوں اور سمگلروں کو بھی پاکستان میں دھکیل دیتے ہیں۔چونکہ بہت سابھارتی علاقہ آہنی باڑ کے باہر بھی ہے جہاں بھارتی ایجنٹ راتوں کو زمین پر کام کے لئے آنیوالے پاکستانی کسانوں کو اچک لیتے ہیں اور انھیں جاسوس،دہشت گرد اور پتہ نہیں کیا کیا بنا کر سزائیں دیتے ہیں۔ان غریب کسانوں اور مزدوروں پر ہونے والے ظلم کے ذمہ دار بھی وہ خود غرض جاگیر دار اور زمین دار ہیں جن کی ہوس و حرص کی وجہ سے آج نہتے اور معصوم پاکستانی بھارتی درندگی اور بربریت کا شکار ہو رہے ہیں۔

پاکستانی میڈیا خاص کر امن کی آشا کے عاشقوں کے پاس بھارتی سیاستدانوں،فنکاروں،اداکاروں اور پاکستان دشمن غداروں کے شہر سے موجود ہیں۔انھیں ٹیگور،دلجیت سنگھ سے لیکر راجیش کھنہ تک کے جنم اور مرن دن یاد ہیں جسپر وہ با قاعدہ خوش اور افسردگی کا اظہار کرتے ہیں مگر انھیں بھارتی جیلوں میں بند پاکستانیوں کا بلکل پتہ نہیں اور نہ ہی کرزائی کے دوست سلیم صافی نے کبھی افغانستان کی جیلوں میں پڑے ہزاروں پاکستانیوں کی رہائی پر کوئی جرگہ کیا ہے۔ظاہر ہے کہ بھارت اور افغانستان کے عقوبت خانوں میں سڑنے والوں میں کوئی جمعیت علمائے اسلام، اے این پی یا پھر ایم کیو ایم کا ووٹر،سپورٹر،ہمدرد اور غم گسار نہیں۔اول تو بھارتی اور افغان،جمیعت،اے این پی اور ایم کیو ایم والوں پر ہاتھ ہی نہیں اٹھاتے اور اگر ایسا ہو جائے تو معذرت کے ساتھ چھوڑ دیا جاتا ہے۔میڈیا والوں کو بھارتی جاسوس اور دھشت گرد سر بجیت سنگھ سے جتنا انس تھا اسکا عشر عیشربھی ثناء اﷲ کیلئے سامنے نہیں آیا۔بھارت اور افغان جیلوں اور عقوبت خانوں میں پڑے پاکستانی مزدور،کسان اور غلطی سے بارڈر پار چلے جانیوالے غریب لوگ ہیں جو نہ زرداری صاحب کے اور نہ ہی عمران خان اور جناب نواز شریف کے ہمدرد ہیں۔ان کیلئے پاکستانی جاگیرداروں کی غلامی اور بھارتی اور افغانستان کی جیلوں کی قید اور تشدد کی زندگی ایک جیسی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی میڈیا جسے سربجیت سنگھ کا غم لگائے جا رہا تھا کے ضمیر پر ثناء اﷲ اور دوسرے قیدیوں پر ہونے والے ظلم کا کوئی اثر نہیں؟سرکاری دانشوروں اور لفافہ صحافیوں کو اکثر کہتے سنا ہے کہ میڈیا قوم کی آواز ہے۔مگر بد قسمتی سے ہمارا میڈیا بھارتی میڈیا کا ہم آواز ہے جسے پاکستانیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا کچھ احساس نہیں۔

بھارتی میڈیا نے تسلیم کیا ہے کہ سر بجیت سنگھ جسکا اصل نام کچھ اور تھا بھارتی خفیہ ایجنسی کا میجر تھا جسے قید کے دوران کرنل کے عہدے پر ترقییاب کیا گیا۔یہی وجہ تھی کہ اسکی آخری رسوم پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ادا کی گئی اور ملکی اور قومی سطح پر اسکا سوگ منایا گیا۔شائد یہ بات جنرل پرویز مشرف کو بھی پتہ تھی۔جس نے جان کر سر بجیت کی سزا پر عمل درآمد روک دیا تھا۔چودہ پاکستانیوں کے قاتل سے نرمی برتنا قومی جرم ہے جسکی سزا بھی جنرل مشرف کو ملنی چاہیئے۔صدرزرداری نے بھی اس قومی مجرم ،قاتل،دہشت گرد اور جاسوس سے ہمدردانہ رویہ قائم رکھا اور اپنے وزیر قانون کو سر بجیت سے ملنے جیل بھجوایا۔میڈیا کو چاہیئے کہ وہ فاروق نائیک سے پوچھے کہ وہ سربجیت کیلئے کیا پیغام لیکر گیا تھے۔کیا کبھی کوئی بھارتی وزیر ایسا کریگا؟اگر کریگا تو وہ بھارت کا وزیر نہ رہے گا بلکہ دنیا میں ہی نہ رہے گا۔یہ اعزاز بھی ہمارے سیاستدانوں،حکمرانوں اور وزیروں کو ہے کہ وہ پاکستان کے جھنڈے کی توہین کرتے ہوئے جھنڈا بردار گاڑیوں پر بیٹھ کر بھارتی جاسوسوں،دہشت گردوں اور پاکستان کی عزت اور سلامتی کو نقصان پہنچانے والوں کو جیلوں میں جاکر ملتے ہیں اور رہا کروا کر گھروں تک چھوڑنے جاتے ہیں۔

بھارتی صدر ابو الکلام نے افضل گرو کی سزائے موت پر دستخط کرنے پر کچھ دیر کر دی تو بھارتی پارلیمنٹ میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔اپوزیشن لیڈر نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ صدر جمہوریہ کے بال بہت لمبے ہوگئے ہیں۔اور اسکی آنکھوں پر پڑے رہے ہیں جسکی وجہ سے اسے نظر نہیں آتا۔حکومت کو چاہیئے کہ صدر کے بال کٹوا دے تاکہ وہ افضل گرو کی سزائے موت کے پروانے پر دستخط کرے۔

سربجیت سنگھ کی موت بھی ایک ڈرامے کی وجہ سے ہوئی۔منصوبے کے مطابق سربجیت کو بتایا گیا تھا کہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کو دوسرے قیدیوں کی موجودگی میں گالیاں دے جسپر قیدی اسکی ہلکی پھلکی پٹائی لگائینگے۔اس ہلکی مالش کے بعد اسے ہسپتال داخل کرکے بڑا ڈرامہ کیا جائے گا اور آخر بھارتی وزیر اعظم کی درخواست انسانی ہمدردی کا ڈھونگ رچا کر بھارت بھجوا دیا جائے گا۔لگتا ہے کہ قیدیوں کو اس سلسلے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ان کو اس سودے بازی میں شامل کیا گیا۔قیدیوں نے جذبہ حب الوطنی کے جوش میں سربجیت کو ضرورت سے زیادہ ڈوز دی جو اسکی موت اور پاکستان کی بد نامی کا باعث بن گئی چونکہ قیدیوں کی حفاظت بہر حال حکومت کی ذمہ داری تھی۔حکومت پاکستان،صدر مملکت اور صدر مشرف نے عدالتی حکم پر کیوں تاخیر کی اور قانون کے مطابق سربجیت کو سزا نہ دیکر پاکستان کی عدالتوں،آئین اور قانون کا مذاق کیوں بنایا،اسکے لیے وہ قوم کو جوابدیں ورنہ یہ جرم بھی ان کے سر ہے۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90693 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.