3پاکستان کے متنازعہ انتخابات کے
بعد باآلاخر تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں، پی پی پی سندھ اور پنجاب میں
مسلم لیگ (ن) ساد اکثریت کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہوچکی ہے ۔خیبر
پختونخوا میں چار اتحادی جماعتوں کے سہارے کھڑی تحریک انصاف ،پنجاب اور
سندھ میں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ سابق حکومت میں رہنے والی جماعتوں کا دوبارہ
بر سر اقتدار کا آنا ثابت کرتا ہے کہ فی الحال پاکستان کی عوام گروہی ،
نسلی اور مذہبی سیاسی وارثت کے منجدھار سے باہر نہیں آسکی ہے۔پنجاب میں جس
طرح یکطرفہ طور پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی ہے اور انھیں انتخابات
میں جو غیر متوقع کامیابی ملی اس پر صرف تحریک انصاف ہی حیران نہیں ہوئی
بلکہ دنیا بھی حیران ہے کہ کیا عمران خان کے جلسے ، ہاتھی کے دانت کی طرح
تو نہیں تھے ۔بہرحال نئی حکومتوں کو امریکہ نے اپنا پیغام ڈرون حملے کی
صورت میں دے دیا کہ قتدار کی بھاگ دوڑ میں چہرے کتنے ہی بدل جائیں ، امریکی
پالیسی پاکستان کے حوالے سے کسی صورت تبدیل نہیں ہوگی ۔ اسی طرح کالعدم
تحریک طالبان پاکستان کیجانب سے اپنی من پسند جماعتوں کو کامیاب کرانے کے
بعد مذاکرات کا دروازہ بند کرنے اعلان بھی معنی خیز نکلا کہ کل تک جو
عسکریت پسند اپنی بی ٹیموں کو کامیاب کرانے کیلئے عوام کو الیکشن مہم اور
انتخابات سے دور کرنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے ، ان کا ایک ڈرون
حملے پر مذاکرات نہ کرنے اعلان اُس وقت سامنے آیا جبکہ ان کی پسندیدہ
جماعتوں نے حلف بھی نہیں اٹھائے تھے اور امریکہ اپنی پالیسی کی مطابق ڈرون
حملے کرکے یہ پیغام دینے میں مصروف تھا کہ اُس کے نزدیک افغانستان کے
طالبان ، پاکستان کے عسکریت پسند گروپس سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور یہی
وجہ تھی کہ امریکہ کی جانب سے کالعدم تحریک پاکستان کے نائب امیر ولی
الرحمان کی ہلاکت کی تصدیق کے باوجود کسی بھی قسم کا تبصرہ نہیں کیا گیا تو
دوسری جانب امریکہ نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی طالبان کے
مذاکرات کی پیش کش واپس لینے کے معاملے پر بھی تبصرہ کرنے سے گریز کی راہ
اختیار کی ۔یقنی طور پر یہ عمل پاکستان کی عوام کیلئے جہاں حیران کن تھا تو
دوسری جانب طالبان کی پسندیدہ جماعتوں کیلئے ایک زور کا جھٹکا تھا ، جو
دھیرے سے لگایا گیا تھا ۔تاہم مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق نے
کالعدم طالبان پاکستان کی جانب سے اس عمل کی توجہیات تو بیان کیں گئیں ،
لیکن پاکستان کی عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عسکریت پسند جن جماعتوں کو
امن مذاکرات کیلئے ضامن بنانا چاہتے تھے ، جس میں ان کی منظور ِ نظر مسلم
لیگ(ن) ، جماعت اسلامی ، تحریک انصاف اور جمعیت علما ء اسلام (ف) تھیں تو
اب جبکہ ملک کی ایک بڑی عددی سیاسی طاقت بن کر مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم
نواز شریف اور پاکستان کے ساٹھ فیصد رقبے کے بلا شرکت غیرے مالک شہباز شریف
مسند اقتدار پر براجمان ہوچکے ہیں تو صرف ایک ڈرون حملے پر مذاکرات ختم
کرنے کا اعلان نا قابل فہم ہے۔ خاص طور پر تحریک انصاف کیلئے تو یہ اہم
مسئلہ درپیش ہے کیونکہ طالبان حمایت میں ان کے بڑے بلند بانگ دعوؤں کے بعد
پختون عوام بہرحال یہی دیکھنا چاہیتی ہے کہ ان کی جانب سے امن کے نام پر جو
مینڈیٹ عمران خان کو سونپا گیا ہے اُس پر یہ کتنا عمل در آمد کرتے ہیں؟۔
یقینی طور پر تحریک انصاف ، مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کے پاس ایسی
کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ وہ گھومائیں گے اور سب مسائل یکدم حل ہوجائیں
گے ، حالاں کہ مسلم لیگ اپنا پہلا یو ٹرن لے چکی ہے کہ لوڈ شیڈنگ پر اربوں
روپوں کی الیکشن مہم ، شہباز شریف کی صرف جذباتی تقاریر تھیں ، لوڈ شیڈنگ
کے خاتمے پر کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا ۔اس بیان سے تو صاف ظاہر
ہوگیا کہ ملک کے تیسری بار وزیر اعظم صاحب کے پاس کافی یو ٹرن موجود ہیں ،
زیادہ تر عوامی حلقوں میں یہ بات بھی باز گشت کر رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن)
چونکہ تحریک طالبان(پاکستان) کی پسندیدہ جماعت ہے اس لئے بیک ڈور چینل
استعمال کرتے ہوئے پاکستانی عسکریت پسند قوتوں سے درخواست کی گئی ہے حکومت
نے ابھی 700ارب روپے سے زیادہ معاشی توانائی کا بحران حل کرنے کی درکارہے
اس لئے ان سے مذاکرات کا فوری عمل شروع کیا گیا تو امریکہ ناراض ہوسکتا ہے
اور ان کے لئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے اس لئے بین الاقوامی اداروں سے قرض
حاصل کرنے اور نئے بجٹ کے آنے تک یہ مذاکرات کا عمل کسی طور پر روک دیا
جائے۔ اس لئے غالب امکان یہی بنا کہ جس حکومت نے ابھی تک حلف ہی نہیں
اٹھایا ، اور جو خیبر پختونخوا ، پنجاب اور وفاق میں طالبان کی منظور نظر
حکومتیں ہیں ، ان سے مذاکرات کا خاتمے کا علان بھی شائد کسی"چمک"کا نتیجہ
ہے ۔ تاہم اس حوالے سے کوئی بات حتمی نہیں کی جا سکتی ۔اسی حوالے سے ایک
بڑا گہرا اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ اس بار پھر سندھ میں پی پی پی کی
حکومت قائم ہوچکی ہے ۔اردو بولنے والوں اور سندھی بولنے والوں کے درمیاں ،
خلیج اور زیادہ نمایاں ہوچکی ہے کہ شہری علاقوں سے منتخب ہونے والی جماعت
ایم کیو ایم اس بار دس سال بعد اپوزیشن میں بیٹھی ہے۔سندھ میں دہشت گردی کے
حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ کراچی ہے ، جہاں مخصوص انداز میں تحریک
انصاف کو کراچی کی دوسری بڑی جماعت ثابت کرانے کے لئے انجنیئرڈ الیکشن
کرائے گئے ، لیاری کی نشستیں کالعدم امن کمیٹی کے اراکین کو دے دیں گئیں
اور باقی ماندہ سیٹوں پر تحریک انصاف کو شہری کی دوسری بڑی جماعت بنانے
کیلئے فرشتوں نے ووٹ ڈالے اور جس جماعت کے پاس پولنگ ایجنٹ بیٹھانے کے لئے
کارکناں نہیں تھے وہ حیرت انگیز طریقے سے ایم کیو ایم کے مقابلے پر دوسرے
نمبر پر ہی نہیں بلکہ کراچی سے ایک قومی اور تین صوبائی نشستوں پر کامیاب
بھی کرادی گئی ۔ اس قبل اے این پی کے صوبائی صدر یہ دعوی کرتے نظر آتے تھے
اس بار کراچی میں انھیں چار صوبائی اور ایک قومی نشست ملے گی اور ان کے
امیدوار گواہ ہیں کہ ان سے کہا گیا کہ آپ صرف الیکشن میں موجود رہیں یہ
سیٹیں ہمیں مل جائیں گی۔لیکن توقعات کے برعکس ہوا۔ اس حوالے سے بھی فکر اہل
قلم و عوامی تاثر یہی ہے کہ ایم کیو ایم کے مقابلے میں جماعت اسلامی جو
تمام اسلامی مکاتب فکر سے ایک الگ اسلامی نقطہ نظر رکھتی ہے اور پی پی آئی
کو لسانیت کا پرچارک بنا کر ایم کیو ایم کے خلاف کھڑا کیا تھا جو ناکام
ہوئے تو ایم کیو ایم کے مقابلے میں ناکامی کے بعد اے این پی کو موقع دیا
گیا کہ وہ بزور طاقت ایم کیو ایم کو پسپا کرے ۔ لیکن اے این پی بھی ناکام
رہی تو انھیں امن کمیٹی اور سندھی قدامت پسند قوم پرستوں جماعتوں کی کمک
بھی فراہم کی گئی ، جس سے نالاں ہو کر ایم کیو ایم دو بار حکومت سے الگ تو
ہوگئی لیکن انھیں پھر بھی پسپا نہیں کیا جاسکا ، اس لئے اس بار تحریک انصاف
کی صورت میں ایک نیا مکسچر بنایا گیا ، جس میں عسکریت پسند ، اے این پی سے
ناراض کارکنان ،قدامت پسند سندھ قوم پرست جماعتیں اور کالعدم امن کمیٹی ،
کراچی و حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے سامنے کھڑی کردی گئیں ہیں اور اس بات
کا قوی امکان موجود ہے کہ کراچی میں خیبر پختونخوا کی طرح شدت پسندوں کی
کاروائیاں ، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے آپریشن 92کا ری میک ، پی پی پی کیجانب
سے امن کمیٹی کو پہلے سے زیادہ پھر پور سپورٹ اور تحریک انصاف میں مختلف
قومیتوں کے اُن عناصر کی حوصلہ افزائی ، جو ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانا
چاہتی ہیں۔اس لئے مملکت میں آنے والی نئی حکومت کی پالیسوں کے خدو خال اور
متنازعہ الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ
کیلئے ایک آئیڈیل ہے ۔ جس میں انھیں افغانستان میں اپنی من پسند حکومت کے
قیام اور با حفاظت محفوظ واپسی کیلئے طے شدہ اسکرپٹ کامیاب ہوتا نظر آرہا
ہے۔دراصل پاکستان میں پیدا کی جانے والی مذہبی اور نسلی اثرات کی جیت رونما
ہوچکی ہے ، جس کا سہرا یقینی طور پر بین لاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو جاتا ہے۔اب
دیکھنا یہی ہے پاکستانی عوام کا حشر کیا ہوگا؟ |