بھارتی مسلمان نوجوان ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ریاستی
حراستی تشدد اور قتل کے شکار ہو رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ انصار برنی
اور عاصمہ جہانگیر جیسی انسانی حقوق کی علمبردار شخصیات بھارتی مسلمانوں
کےخلاف امتیازی سلوک اور ماورائے عدالت قتل پر آواز بلند کریں۔ اسی طرح
عالمی انسانی حقوق کے گروپوں تک بھی رسائی حاصل کرکے ان کے نوٹس میں بھارتی
مسلمان آبادی کے ساتھ ناانصافی اور تشدد و دہشت گردی کے معاملات لائے جائیں۔
اسی طرح جمعیت علمائے اسلام جیسی سیاسی جماعتیں جمعیت علمائے ہند کی تائید
و حمایت اور معاونت کرتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے
مظالم کی بھرپور مذمت کریں۔ حال ہی میں خالد مجاہد کو فیض آباد ضلعی عدالت
میں پیشی کے بعد واپس لکھنﺅ جیل آتے ہوئے پُراسرار حالات میں پولیس کے زیر
حراست ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔ اسے 2007ءمیں اسی سال دھماکوں کے الزام
میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس کے زیر اہتمام خالد مجاہد کا قتل اس بات کی
غمازی کرتا ہے کہ بھارتی ریاست میں مسلمانوں کی حالت زار کیا ہے اور بھارتی
ریاست کس طرح کا سلوک ان سے کرتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خالد مجاہد کے قتل کے
ذمہ دار وہ پولیس افسران ہیں جنہیں یہ خطرہ تھا کہ اگر خالد مجاہد کو رہا
کردیا گیا تو ان کےخلاف کارروائی کی جائیگی۔ بھارتی دہشت گرد اور ”را“ کے
جاسوس سربجیت سنگھ کی ہلاکت کے بعد بھارتی عوام اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں
ایسی فضاءپیدا کردی گئی ہے جس کے نتیجے میں پولیس کے زیر حراست خالد مجاہد
کو قتل کردیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں کسی اقلیت کے
ساتھ پولیس حراست میں ایسا ماورائے عدالت قتل کا واقعہ پیش آیا اور اگر
ایسا ہو جاتا تو بھارتی میڈیا چوبیس گھنٹے پاکستان دشمنی اور پراپیگنڈے میں
کوئی کسر نہ چھوڑتا لیکن بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ تقریباً
روز مرہ کے معمولات کی طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں لیکن مقام
افسوس ہے کہ پاکستانی میڈیا میں ایسے واقعات پر کوئی خبر، کالم یا ٹی وی
سکرین پر پٹی تک نہیں چلتی ہے۔ اگربھارتی میڈیا چند پاکستانی ہندو سکھ
خاندانوں کی انتظامی بنیادوں پر بھارت منتقلی پر آسمان سر پر اٹھا سکتا ہے
تو پاکستانی میڈیا اور عالمی برادری بھارت میں مسلمانوں کے خلاف روا رکھی
جانے والی ریاستی دہشت گردی کو منظر عام پر لا کر بھارت کا بھیانک چہرہ
کیوں نہیں بے نقاب کرتے۔ اس کالم کے آغاز میں ہی یہ سب کچھ لکھنے کے بعد اب
ذرا بھارتی پڑھے لکھے نوجوانوں پر روزگار کے دروازے بند کرنے کے لئے دہشت
گردی کے الزامات میں ان کی گرفتاریوں کی چند مثالیں نذرقارئین ہیں۔
حیدر آباد بھارت جہاں کچھ عرصہ قبل متعصب ہندو ذہنیت رکھنے والی پولیس
انتظامیہ نے شہر میں ہونے والے جڑواں بم دھماکوں اور مکہ مسجد بم دھماکہ کو
بنیاد بناتے ہوئے تحقیقات کے نام پر 100 سے زائد مسلم نوجوانوں کو حراست
میں لے لیا اور انہیں دردناک اذیتیں دیتے ہوئے انہیں ان کے ناکردہ جرائم کو
قبول کرنے کےلئے زور دیا جاتا رہا۔ تاہم بھارتی شہر حیدر آباد کے 18
نوجوانوں کو عدالت کی جانب سے سنگین مقدمات میں بری کردیا گیا۔ ان نوجوانوں
کو راج شیکھر ریڈی حکومت میں بے تحاشہ مظالم اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا
اور بالآخر انہیں جیلوں میں قید رکھا گیا تاہم ملک کی عدالت نے اپنے فیصلے
میں استغاثہ کے ثبوتوں کو ناکافی اور ادعاجات کو غلط قرار دیتے ہوئے ان
نوجوانوں کو بری کردیا۔ ان نوجوانوں پر پولیس نے ملک سے غداری، دہشت گردی
اور ایسے ہی سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے مقدمات دائر کئے تھے۔ ان کےخلاف
سنگین دفعات عائد کی گئی تھیں اور ان کی ضمانت کو روکنے کےلئے بھی ہر ممکنہ
کوششیں ہوئیں۔ پولیس ان نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے بعد ان پر اذیتیں دینے
کی بھی مرتکب رہی ہے اور انہیں عدالتوں میں پیش کرنے سے قبل شہر کے
گردونواح میں واقع اپنے نجی ٹارچر سیلز میں رکھ کر انسانیت سوز اذیتیں دی
گئیں۔ انہیں ان کے مذہب کے نام پر گالیاں دی گئیں۔ ان نوجوانوں کی داڑھیاں
نوچی گئیں اور بعض معاملات میں تو آندھرا پردیش پولیس نے عراق کی ابو غریب
جیل کی اذیتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ساتویں ایڈیشنل میٹروپولیٹن سیشن
جج کی عدالت نے ان تمام نوجوانوں کو استغاثہ کے ثبوت ناکافی ہونے کی بنیاد
پر بری کردیا۔ عدالت کا یہ فیصلہ سٹی پولیس کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں
کیونکہ اس نے ان نوجوانوں کو قوم دشمن اور دہشت گرد قرار دینے میں کوئی کسر
باقی نہیں رکھی ۔ پولیس نے جانبدار ذرائع ابلاغ کا تعاون حاصل کرتے ہوئے ان
نوجوانوں کو سماج میں یکا و تنہا بھی کردیا تھا اور ان کےلئے عام زندگی
گزارنا بھی دوبھر کردیا گیا تھا۔ ہر کوئی انہیں شک کی نظر سے دیکھ رہا تھا
اور حد تو یہ ہوگئی کہ خود حلقہ پارلیمنٹ حیدر آباد کی نمائندگی کرنے والے
رکن پارلیمنٹ کی نظر میں بھی بعض نوجوان مشکوک تھے اور انہوں نے ایک نوجوان
کے دہشت گرد ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ یہ اعتراف ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی
بار ہوا۔ پولیس اس حد تک اپنے مشن میں ضرور کامیاب ہوگئی تھی اور ان
نوجوانوں اور ان کے افراد خاندان کو بے تحاشا صعوبتوں کا شکار کردیا گیا
تھا لیکن اپنے ہتھکنڈوں اور حربوں کے باوجود پولیس عدلیہ کو مطمئن نہیں
کرسکی کہ یہ نوجوان ملک کے غدار اور دہشت گرد ہیں اسی لئے عدالت نے ان تمام
نوجوانوں کو باعزت بری کردیا۔
ان نوجوانوں کی برات سے قبل ریاستی حکومت نے چند نوجوانوں کو از خود ہی بے
قصور قرار دیا تھا اور یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئی تھی کہ سٹی پولیس نے
بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات دائر کئے تھے۔
حکومت کا یہ اعتراف دراصل اس کے گناہ کا اعتراف تھا تاہم اس اعتراف کے بعد
جو معاوضہ حکومت نے دینے کا اعلان کیا وہ ان نوجوانوں سے مذاق سے کم نہیں
تھا۔ حکومت نے ان نوجوانوں کو فی کس 30 ہزار روپے مارجن منی کے طور پر دیتے
ہوئے آٹو رکشا دلانے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ بے قصور نوجوانوں میں اکثریت
تعلیم یافتہ اور ہونہار طالب علموں کی تھی۔ ان نوجوانوں کو ان کی مہارت اور
پیشہ کے اعتبار سے مدد کرنے کی بجائے انہیں آٹو ڈرائیور بنانے کا فیصلہ کیا
گیا اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ قیادت کے دعویداروں نے بھی اس میں برابر
اپنا رول ادا کیا۔ |