طارق معمود چغتائی ایک نا قابل فراموش تاریخ رقم کر رہے تھے اور جب
انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں آزادی کا علم گھاڑا تو ہمارئے لیے ایک
انوکھا سفر تھا ۔موت و زندگی کے اس پر پر خطر سفر کی کامیابی کے بعد پھر
کسی تعصب کے امان اللہ خان و برسٹر سلطان محمود کی ،،ضرب حیدر ،،راجہ ممتاز
راٹھور کی ،،سفر شہادت ،،اور سردار سکندر حیات خان کی ،،انسانی زنجیر ،،بنانے
کے لیے ہمارئے جذبے ان کی رفاقت میں کبھی ماند نہیں پڑئے ،درحقیقت یہ مرحوم
طارق محمود چغتائی کی دیدہ دلیری اور جذبہ حب الوطنی ہم سب احباب و آشنا کے
لیے نہ صرف حوصلہ افزا رہی بلکہ قابل رشک بھی رہی دریں اثنا وہ دور بھی آیا
جب چشم فلک نے دیکھا کے سیز فار لائن روندنے کے اس جنون نے انہیں ٹیٹوال پل
کے افتتاح پر بھی ایسا کرنے پر مجبور کر دیا ۔اور یہ بات بھی واضع رہے کہ
مرحوم کا جذبہ مادیت پسندی کے اس پر اشوب دور میں جہاں مفادات اور آپا داپی
کی نظر ہو رہا ہے وہاں پر انہوں نے سیاسی خاندان سے قریبی تعلق رکھنے کے
باوجود بھی بچپن سے ہی تحریک آزادی کی تنظیموں سے اپنا ایک مضبوط اور انمٹ
تعلق جوڑئے رکھا اور دولت و حشمت کو لات ماری مگر خود اری اور خود اختیاری
پر کوئی حرف نہ آنے دیا اور یوں بچپن سے جوانی تک کا یہ سفر انہوں نے وطن
کشمیر کی خاطر ایک کشمیر کانفرنس میں جاتے ہوئے ،،دیولیاں ،،کے مقام پر اسے
سفر آخرت بنا دیا ۔انکی اس اچانک اور بے موقع وفات پر یقینا وآدی نیلم
بالخصوص اور آزاد کشمیر بلعموم ایک درد ناک دکھ اور غم میں ڈوب گئی اور اس
سے ہر آنکھ اشکبار اور ہر طرف فضا سو گوار ہو گئی ۔کسی کو یقین نہیں آرہا
تھا کہ طارق محمود اب ہم میں نہیں ہے ۔کیونکہ ہر ایک جانتا ہے اس نے ابھی
کہیںادھورئے کام نپٹانے ہیںجس کا اس نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے ۔قارئین
اکرام :وآدی نیلم کی پسماندگی اور دور افتادگی کے باعث اگرچہ زرائع رسل
ورسائل تعلیم ،صحت اور دیگر مسائل جو کہ پہلے ہی سے ایک قصہ پارینہ کی مثال
پیش کر رہے تھے وہاں بھارت افواج کی فائرنگ ،طوفانی سیلاب اور لرزا دینے
والے زلزلے نے یہاں کے باسیوں کو مزید تاریکی میں دھکیل دیا تھا اس طرح
انکے مسائل ،معاملات اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے ایک پوری جماعت اور ایک
ادارئے کے تعاﺅن کی ضرورت تھی وہاں اس مرد جری نے مسیح بن کر نا کافی وسائل
کے باوجود یہاں کی ایک نامور سماجی و ادبی شخصیت جاوید اسد اللہ کی رفاقت
میں یہاں کی سماجی ،سیاسی،علمی ،صحافی اورطلباءبرادری کے ساتھ مل کر مختلف
محازوں پر کام شروع کیا جن میں ،یوم نیلم ،کی تقریب کا اہتمام ،ضلعی نظم و
نسق کا احیا اور زرائع رسل و رسائل کی فراہمی ،شاہرائے نیلم کی بحالی ،فون
اور موبائل سروس کی فراہمی خاص طور پر قابل رشک ہیں یہ بھی واضع ہے انکی اس
انقلابی تحریک میں نیلم پریس کلب کی پوری ٹیم نے اہم کردار ادا کیا جسکا
سارا سہرا مذکور کو ہی جاتا ہے ۔انہوں نے وآدی کے ان بڑئے ایشوز کے علاوہ
علاقہ کے جملہ مسائل اور مشکلات کو اخبارات کے زریعے ارباب اختیار کے
ایوانوں تک پہنچایا اور نیلم ویلی کی تاریخی اور موجودہ اہمیت کو اجاگر
کرنے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی اہم شخصیات سے رابطہ کیااور انہیں
نیلم میں لایا ان کے ساتھ اچھے روابط پیدا کیے یہی وجہ ہے کہ آج مرحوم کی
ان خدمات کے صلہ میں جملہ صحافی برادری نے ان کی بے وقت موت کو نہ صرف نیلم
بلکہ پوری ایوان صحافت کے لیے ایک سانحہ قرار دیا بلکہ یہ امر خاص طور پر
قابل زکر ہے کہ اس کے دوست زوالفقار بٹ نے دوستی کی ایک ایسی لاج رکھی کہ
اپنی اخبار جموں و کشمیر ٹائمز کو بطور یاد گار رقم کرکے ان کے نام کو
صحافتی دنیا میں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا ہے۔یہ یقینا زوالفقار بٹ جیسے
دوستوں کی دوستی کے رشتے کو زوال رکھنے کی ایک اور انمٹ داستان ہے۔موضوع
بحث کے اس سلسلے کو آگئے بڑھاتے ہوئے راقم کے ساتھ اگر اپنی گفت شنید و
برحاست کی طرف اگر جنبش قلم کو تحریک کرئے تو اس کی بھی ایک طویل فہرست ہے
تاہم مضمون کی طوالت سے بچتے ہوئے نہایت ختصار سے بعض قابل زکر یادوں کا
اعادہ کرنا ناگزیر سمجھتا ہوں۔جس میں گزشتہ ڈیڈھ دہائی سے مشتمل واقعات
1992کا سیلاب ہو یا بھارتی ایک دہائی کی گولہ باری یا 2005کا تباہ کن زلزلہ
جسے آفات سماوی سے پیدا ہونے والے مسائل یا 1990سے قبل تحریکوں میں مرحوم
کا کردار سارئے جملہ گزرئے ہوئے واقعات جب بھی میری لائبریری کی نظر سے
گزرتے ہیں تو مجھے کئی اخباری تراشے ،کئی دعوت نامے،کہیں پمفلٹ اور کہیں ان
کی کوئی تاریخی محرکہ آرائی کی تصاویر یقینا میرئے دل و دماغ کو رولا دیتے
ہیں میں سوچتا ہوں یہ یاداشتیں اب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں ۔میرا دل تو
چاہتا تھا کہ میں طارق محمود چغتائی شہید کو کسی وقت ان یاداشتوں کا ایک
اہم البم بطور سرپرائز بنا کر دﺅں گا مگر قدرت خدا وندی کو کچھ اور ہی
منظور تھا۔میں آج اس دن کو یاد کر رہا ہوں کب کنڈلشاہی پاور پراجیکٹ کا کام
کھٹائی میں ڈالنے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف طارق محمود کو محمد حنیف
اعوان ،قاری محمد رفعیق اعوان ،مشتاق قریشی ،میر خورشید صیاد اور لیاقت علی
خان و دیگر کے ساتھ صف آرا دیکھا جس سے محمد حنیف اعوان اور مشتاق قریشی ،میر
خورشید لیاقت علی خان کے ساتھ صف آرا دیکھا جس سے محمد حنیف اعوان اور
مشتاق قریشی بارش کا پہلا قطرہ بنتے ہوئے گرفتار ہوگئے جبکہ باقی ساتھی ایک
احتجاجی تحریک کا حصہ بن گئے۔جاگراں پاور پراجیکٹ میں جب مقامی افراد کے
حقوق و مفادات کی بات ہوئی تو فرانسیسی گوروں کے ساتھ ان کے ایک کزن الطاف
چغتائی کے ساتھ مطالبات کی منظوری تک نعرہ حق بلند کر بیٹھے اور تمام
مزدوروں کی یونین بنا کر پوری وآدی کے حق داروں کو حق دلایا ۔1992کے سیلاب
سے جب نیلم ویلی کے تمام مواصلاتی رابطے منقطع ہو گئے اشیائے خورد ونوش کی
سخت قلت ہو گئی تو شیخ جلال خورشید ،میر تنویر حسین ایڈوکیٹ ،غلام نبی
بانڈئے اور احمد سعید خواجہ مرحوم کے ساتھ مظفرآباد تک اجتماعی ریلی نکالی
اور سابق وزیر خواجہ فاروق احمد اور غلام رسول مرحوم کے خصوصی حمایت سے
ہنگامی امداد منظور کروانے میں کامیاب ہو گئے ۔نیلم ڈویلپمنٹ بورڈ ضلع نیلم
کے قیام اور نیلم کی آمدن کی رائیلٹی کی بات ہوئی تو خواجہ محمد شفیق ،سید
ساید بہار ایڈوکیٹ ،سید اشتیاق علی بخاری ،ارسل خان صدیقی اور لیاقت علی
خان و دوسرئے احباب کے ساتھ 13اگست تا 15اگست کو سہ تنظیمی ہڑتال کرکے تمام
مظفرآباد کی ضلعی انتظامی مشینری کو آٹھمقام طلب کرانے میں کامیاب ہو گئے
1994کو نیلم ویلی کے مسائل کے حل کے لیے جب نیلم یوتھ اور نوجوان متحدہ
محاز نے لکڑی بند کرنے کی دھمکی دی تو طارق محمود نے نوجوان متحدہ محاز کے
پلیٹ فارم پر آٹھمقام سے جورا تک اپنے احتجاجی احباب کے ساتھ نہ صرف روڈ
بند کرایا بلکہ تحصیل انتظامیہ کے ساتھ کافی معاملات حل کرانے میں مختلف
جگہوں پہ جد وجہد کی ۔13فروری 1995کوجب خواجہ محمد شفیق ،ارسل خان ،لیاقت
علی خان ،شیخ جلال خورشید اور شیر علی اعوان نے نیلم کے مسائل اور بھارتی
گولہ باری کے خلاف یو این او آفس مظفرآباد تک لانگ مارچ کیا تو اس تحریک
میں نیلم بھر سے درجنوں افراد کو علی الاعلان شرکت کرا کر نیلم وآدی کے
غیور نوجوان ہونے کا ثبوت دیا ۔1996تا1999کی جب محمد شفیع حسرت کی سپورٹس
سرگرمیوں کی بات ہوئی تو ہر موقع پر انکی حمایت اور عمل تعاﺅن شامل احباب
رہا یہی وجہ تھی کہ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہر وقت ان
کی کال پر نہ صرف مظفرآباد بلکہ کوٹلی ،میر پور اور باہر کے مضافات تک ان
کی آواز پر لبیک کہتے تھے اور ان کے معاﺅن و مدد گار رہتے تھے۔میں ڈگری
کالج مظفرآباد میں بی ائے کا طالب علم تھا انہوں نے کوئی ڈیڑھ درجن مرتبہ
ہمیں اپنے مختلف کنونشنوںمیں اس طرح صفائی کے ساتھ لے جاتے تھے کہ ہم نے ان
کو کبھی بھی انکار نہ کر سکے۔یہ یقینا ان کی دوستی ،محبت اور ہر وقت خلوص
کا نتیجہ تھا جسے ہم دامے درمے سخن یاد کرنے میں کبھی کوئی وقیقہ روگزاشت
نہیں چھوڑیں گئے ۔مرحوم بذات خود بیک وقت کئی اوصاف کے اکیلے ہی مجموعہ تھے
جن میں انہیں قدرئے بلا شرکت غیر کمال کا ادراک بھی حاصل تھا ان کی کوششیں
یقینا ایک پوری قوم یا جماعت کے متوازی تھیں۔انہوں نے ہر وقت مظلوموں کا
ساتھ دیا اور وقت کے فرعونوں کے خلاف کلمہ حق بلند کیا صحافت میں ان کے آنے
کا مقصد بھی یہی تھا وہ مظلوموں اور غریبوں کی زبان بن کر ایوان اقتدار میں
ضرب حق لگائیں اور ان کی صدائیںضرور کاریگر بھی ہوئیں مگر کاش انہیں زندگی
نے زیادہ موقع نہ دیا اور یوں وہ ہم سب کو اپنی ڈھیر ساری یادیں دئے کر ہم
سے بچھڑ گئے مگر ہمارا مرحوم کے ساتھ یہ وعدہ ہے ہم انشااللہ ان کی صدائے
حق کو بلند کرتے رئیں گئے ۔جس طرح انکی وفات کے بعد ان کے احباب انہیں خراج
عقیدت پیش کرنے کے لیے انکی برسی پر تقاریب منعقد کرتے ہیںوہ تمام احباب
مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ نیلم کے بیٹے کو خراج عقیدت پیش کرکے ان ماﺅں
کے سرفخر سے بلند کرتے ہیں جنہوں نے ایسے سر بلند بیٹوں کو جنم دیا ۔اللہ
تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور
انہیں مظلوموں محتاجوں اور ستم رسیدوں کی مدد کرنے پر انکی آواز بننے پر
اجر عظیم عطا فرمائے(آمین) |