بہادر شاہ ظفر اور 1857

شاعری خود ادب ہے اور ادب کا بڑا حصّہ شاعری ہے شاعری کی تعریف مغرب تا مشرق خوب ہوئے لیکن کل ملا کر شاعری کا معاملہ آج بھی وہیں ہے کہ بقول شبلی :
’’جو جذبات الفاظ کے ذریعہ ادا ہوں شعر ہے‘‘

نہ جانے حضرت انسان کے سر میں یہ سودا کب سمایا کہ وہ اپنے دلی جذبات کو مشتہر کرے ضرورتاً بھی اور بغیر ضرورت کے بھی لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس امر نے دنیا میں آرٹ کی بنیاد ڈالی دی۔ یہ بات تو مسلّم ہے کہ اس روئے زمین پر کامیاب آرٹ کے جتنے بھی نادر نمونے ہیں وہ سب دلی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں شاعری بھی آرٹ ہے اور اس میں بھی کامیاب شاعر وہی قرار پاتا ہے جو دلی جذبات کو بخوبی شعر کے قالب میں ڈھال دیتا ہے۔ ملٹن نے شعر کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’شعر الفاظ کا ایسا استعمال ہے کہ اس سے تخیل دھوکہ کھا جائے۔ مصور رنگ کی مدد سے جو کام کرتا ہے اس کو الفاظ کے ذریعہ سر انجام دینے کی صنعت کا نام شاعری ہے‘‘

یہ مغربی مفکر کا خیال ہے لیکن فارسی میں نظامی عروضی السمر قندی نے بھی شعر کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’شاعری ایسی صنعت ہے جس کی بدولت موہومات کی ترتیب سے چھوٹی چیز بڑی اور بڑی چیز چھوٹی کر کے دکھائی جاتی ہے اور اچھی چیز کو بد نما اور بری چیز کو خوش نما ثابت کیا جاتا ہے تاکہ انسان کے جذبات مشتعل ہوں اور طبیعت پر انبساط یا انقباض کی کیفیت طاری ہو اور یہ دنیا میں مہتمم بالشان کارناموں کا سبب بنے ۔‘‘ (چہار مقالہ باب شاعری)

اپنے جذبات کو مشتہر کرنے سے دوسروں کے جذبات مشتعل ہوں اور اگر یہ کام قصداً کیا جائے تو ایسی شاعری بھی مقصدیت کے زمرے میں داخل ہو جائے گی۔یقیناً بہادر شاہ ظفر اسی زمرے میں شامل شاعر ہیں بھلے ہی ان کا تعلق کلاسکی عہد سے رہا ہو غزل اور بہادر شاہ ظفر کا ذکر آتے ہی اٹھارھویں اور انیسویں صدی پر محیط ادبی منظر نامے کا عکس ذہن کے پردے پر تھرکنے لگتا ہے بالخصوص اٹھارھویں صدی کا نصف آخری اور 19ویں صدی کا نصف اول حصّہ جو بہادر شاہ ظفر کا عہد بھی ہے(پیدائش 14اکتوبر 1775اور وفات 7نومبر1862)یہ دور نہ یہ کہ اردو شاعری کا ایک اہم دور ہے بلکہ یہ وہ عہد ہے جس میں سیاسی، سماجی، ثقافتی اور تہذیبی سطح پر جتنی تبدیلیاں ہندوستان میں ہوئیں شاید ہی کسی دور کو ایسا انقلابی رویّہ میسّر آ یا ہو۔

کہا جاتا ہے کہ آرٹ زمانۂ سکون میں پروان چڑھتا ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اردو شاعری کے بامِ عروج پر پہنچنے کا عہد نہایت ہی جاں سوز عہد ہے۔ ایسا عہد جس میں ہر سطح پر تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ علمی میدان میں سائنس کا عمل دخل اسی عہد میں بڑھ رہا ہے ہندوستان گیر پیمانے پر انگریزوں کا تسلط اسی دور میں قائم ہوا وطنیت کا جذبہ اسی دور میں برگ و بار لایا غزل کے مقابلے میں موضوعاتی نظموں کو انگریزوں کے ایما پر اسی دور میں رواج دیا گیا، تجربے کے طور پر ہی سہی اودھ کے نواب کو اسی دور میں گرفتار کیا گیا، مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو اسی عہد میں قید کر کے رنگون بھیجاگیا اور اسی عہد میں عام عوام میں ایک زبردست سیاسی تبدیلی یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ ملک گیر پیمانے پر انگریزوں کے خلاف احتجاج کے شعلوں نے ایک مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کر لی جسے انگریزوں نے 1857کا غدر کہا۔ اور اس جدو جہد میں پہلی بار اور شاید آخری بار بھی تمام ہندوستانی صرف اور صرف ہندوستانی بن گئے اور اسی جدو جہد نے یہ طے کر دیا کہ انگریزوں کو جلد یا دیر میں ہندوستان سے واپس جانا ہوگا۔
تبدیلیوں کا یہ دور، جدو جہد کے یہ صبح و شام اور افراط و تفریط کے اس ماحول میں بہادر شاہ کی شاعری پروان چڑھی۔

بہادر شاہ ظفر نے جب ہوش کی آنکھیں کھولیں تو اسے چہار دانگ ہندوستان تک پھیلی ہوئی حکومت قلعے کی چہار دیواری تک سمٹی ہوتی نظر آئی اور قلعے میں بھی ان کی حکومت کیسی جب کہ وہ انگریزوں کے ذریعہ دیئے جانے والے ایک لاکھ کے پنشن یافتہ تھے اور قلعے کے اندر بھی انگریزی ریزیڈنٹ کے احکام کو اولیت حاصل تھی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود بہادر شاہ ظفر بادشاہ تھے اور عوام کی ہمدردیاں اور محبتیں انھیں حاصل تھی۔ ظاہر ہے یہ ایک بڑی طاقت تھی اور اسی کے بل پر وہ بادشاہ کہے جاتے رہے۔
بہادر شاہ ظفر کے دور کو یوں بھی اہمیت حاصل ہے کہ اس دور میں تعلیم کا رشتہ سائنس سے جڑ گیا۔ پریس کی ایجاد ہوئی اور پہلی بار دہلی میں ایک ایسے کالج کی بنیاد پڑی جس میں جدید تعلیم کا انتظام کیا گیا۔ اخبارات کا اجرا ہوا اور سائنسی ایجادات کا اثر براہ راست معاشرے پر پڑنے لگا تھا۔ یہ ہی نہیں بلکہ اس دور میں ایک سے ایک صاحبِ فہم و ادراک شخصیات دہلی میں موجود تھیں جن کے افکار و خیالات آج بھی مستند سمجھے جاتے ہیں اور اس دور کے بعد ایسی نادر الوجود شخصیات بیک وقت دہلی میں پھر جمع نہ ہو سکیں۔ سرسید نے لکھا ہے کہ :
’’دہلی اہلِ کمال کا مرکز ہے ان اہلِ کمال میں اس دور کے اطبّا بھی شامل ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ظفر کے زمانہ تک یہی صورتِ حال تھی اہلِ علم میں حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ ان کے برادران عزیز شاہ عبدالقادر، شاہ رفیع الدین شاہ اسماعیل شہید شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی جیسے اہل علم موجود تھے جن کی وجہ سے بعد میں علم حدیث ہندوستان بھر میں پھیلا اور محدث ہونا بہت بڑے مذہبی و علمی وقار کی بات سمجھی جاتی ہے۔‘‘ (آثار الصنادید ،ص:517-518)

اس کے علاوہ مرزا غالب مولوی امام بخش صہبائی مومن خاں مومن، مولوی رشید الدین خاں ، مولانا فضل حق خیر آبادی ان کے والد مولانا فضل امام خیر آبادی، مفتی صدر الدین آزردہ جو مرزا غالب کے خاص دوست تھے مولانا مملوک علی اس زمانہ کے دہلی کالج کے معروف اساتذہ میں سے تھے ظفر کے استاد شیخ ابراہیم ذوق،حکیم آغا جان عیش، حافظ عبدالرحمن خاں احسان اس کے علاوہ ذوق کے پہلے ظفر اور ذوق دونوں کے استاد شاہ نصیر بھی اسی دور کے شاعر ہیں۔

میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس دور میں دہلی با کمالوں کا منبع تھا اور ایک سے ایک نابغۂ روزگار اہل کمال کا تعلق براہِ راست بہادر شاہ ظفر سے رہا اور اسی ماحول میں ان کی شاعری نے وجود حاصل کیا۔
بہادر شاہ ظفر کا تعلق آرٹ سے براہِ راست رہا اس سلسلے میں پروفیسر اسلم پرویز نے لکھا ہے کہ:
’’ظفر کو فنونِ لطیفہ سے بے حد دلچسپی تھی چنانچہ موسیقی، خطاطی، مصوری، نقاشی اور شاعری ان تمام فنون میں ظفر گہری دلچسپی لیتے تھے اور خود بھی کئی خطّوں میں امتیاز رکھتے تھے۔‘‘
(بہادر شاہ ظفر مقالہ برائے پی ایچ ڈی، ڈاکٹر اسلم پرویز ص:374)

اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ظفر جس دور کی نمائندگی کرتے ہیں اسی دور کی نمائندگی شاہ نصیر ذوق عالب اور مومن بھی کرتے ہیں لیکن ظفر کا معاملہ جن مراحل سے ہوتا ہے دوسرے ہمعصر شعرا کسی نہ کسی حد تک اس سے الگ ہیں ظفر بادشاہِ وقت بھی ہیں اور پنشن یافتہ بھی ان کے آباء و اجداد نے جس مغلیہ حکومت کی بنیاد ڈالی تھی اور جس کا شہرہ پوری دنیا میں تھا اس مملکت کو وہ دیکھ رہے تھے لیکن اس پر اپنا حکم نہیں چلا سکتے تھے جس قلعہ معلیٰ میں ان کا مسکن تھا وہاں بھی وہ کسی نہ کسی حد کے پابند تپھے ان کے آباء و اجداد نے جس دیوان عام، دیوان خاص یا رنگ محل میں جواہر لٹائے تھے آج وہاں وہ بنیوں سے قرض لینے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ وہ سارے حقائق ہیں جس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ظفر کو جو ذاتی تجربات ہوئے وہ اسی عہد کے دوسرے شعرا سے یکسر الگ اور ذاتی تھے اور یہی سبب ہے کہ ظفر کی شاعری کے اندرون میں کرب ایک لازمی جز کی حیثیت رکھتی ہے ایسا نہیں کہ اس کرب کی پر چھائیں عالب نصیر یا مومن کی شاعری پر نہیں پڑ رہی ہے لیکن ظفر کا یہ سارا کرب ذاتی کرب بن کر ان کی شاعری میں توانائی کا جوہر بن گیا ہے ؂
گلشنِ دہر میں گلچینِ خزاں کا ہو برا
جس نے بوئے ہیں مرے حق میں سراسر کانٹے
ہم صفیر و مری فریاد و فغاں گلشن میں
آہ کیا ہوتا جو پاس آ کے قفس کے سنتے
گل کچھ تو اس چمن کی ہوا کھا کے جھڑ پڑے
وہ کیا کریں کہ غنچہ بھی مرجھا کے جھڑ پڑے
کہوں بگولے کو کیا خاک میں بیاباں گرد
کہ میری طرح سے دیکھے کہاں نشیب و فراز
مجھے رونا تو یہ ہے مثلِ شبنم اے گلِ خنداں
کہ جب روتا ہوں تیرے روبرو تو اور ہنستا ہے
شمع جلتی ہے پر اس طرح کہاں جلتی ہے
ہڈی ہڈی مری اے سوزِ نہاں جلتی ہے

قفس، گلچیں، صیاد، گل، شمع، شبنم، فغاں، خزاں، چمن یہ سارے الفاظ ان چند اشعار میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور غور کریں تو ظفر کی پوری شاعری میں یہ الفاظ صرف لفظ بن کر نہیں رہ گئے بلکہ ہر لفظ کسی نہ کسی طویل داستان کا عنوان ہے اور اس لفظ کا سیاق اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ ظفر کے اندرون میں جو کرب کا طوفان پوشیدہ ہے یہ الفاظ اس کرب کی سفارت کر رہے ہیں اور ظاہر ہے وہ کرب اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی ہے۔

ظفر کی شاعری پر بات کرتے وقت اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کی سنگلاخ زمینوں کی سطح کو توڑنے میں پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں اور اس مشکل کام کو ظفر کی مشکل پسندی کا نام دے دیتے ہیں۔ ظفر کی مشکل پسندی تو اس دور سے مستعار ہے۔ ظفر سے ہم یہ توقع کیونکر کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے دور کے غالب رجحان مشکل پسندی سے باہر نکل کرناصر کاظمی یا بانی جیسی شاعری کرنے لگتے

ظفر کے استاد شاہ نصیر اور ذوق ہیں اور اس دور میں جو شعرا ہیں وہ ہیں مرزا جان عیش، حافظ عبدالرحمن عیش، حافظ عبدالرحمن احسان، میر نظام الدین ممنون مومن خاں مومن اور خود غالب اور اس دور میں شاعری کا معیار طئے کیا جاتا ہے سنگلاخ زمین اور مشکل سے مشکل ردیفوں کو استعمال کرنے کے طریقہ سے ظاہر ہے بادشاہِ وقت اس رنگ سے اپنے آپ کو الگ کیونکر کرتے جب کہ قلعہ معلّیٰ کا اندازِ بیان ہی نہیں وہاں کی نشست و برخاست وہاں کے لباس اور وہاں کی زبان عوام میں سندِ افتخار کا درجہ رکھتی ہے۔
مولانا محمد حسین آزاد نے جو سرخیل ہیں دشمنانِ اردو غزل کے، روایت کے، اقدار کے اور خاص طور پر مغلیہ حکومت کے اور ہمدرد ہیں انگریزوں کے انھوں نے آبِ حیات میں ایک مقام پر اپنے والد کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ اپنے دوست ذوق سے کہا کرتے تھے کہ :
’’بادشاہ تمہارا زمین کا بادشاہ ہے خوب خوب طرحیں نکالتا ہے لیکن انھیں سرسبز نہیں کر سکتا اس کا کیا ہوا تم کرتے ہو‘‘ (نوائے ظفر ص:7)

اس اقتباس سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ ظفر بادشاہ ذوق کے ہیں محمد حسین آزاد کے والد انھیں اپنا بادشاہ نہیں سمجھتے اور دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ محمد حسین اازاد کو اس رنگ کی شاعری سے کہ ہے جو رنگ اس دور کا غالب رنگ ہے اس کی وضاحت ان کے اس اقتباس سے بخوبی ہو جاتی ہے جس میں انھوں نے مصحفی کے حوالے سے اپنی بات کہی ہے :

’’الفاظ کو کم و بیش اور مضمون کو پس و پیش کر کے کچھ ایسا رکھ دیا ہے کہ جو حق استادی کا ہے وہ ادا ہو گیا ہے‘‘
(آبِ حیات ص:67 )

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ عہدِ ظفر میں شاعری کا رنگ مشکل پسندی سے موسوم تھا اور کامل استاد انہ شان ہی یہ تھی کہ مشکل سے مشکل زمین میں دوراز کار مضامین کو باندھا جائے جس سے سامعین پر رعب پڑے اور ایسا ہی ہوتا تھا۔ لیکن اگر شعر میں احساس کی شدت کا ذکر کیا جائے جو اس دور میں بہت کم شعرا کے کلام میں تھی تو اس میں ظفر کو ممتاز مقام حاصل ہے۔ ان کی شاعری میں جذبات، اور احساس کی شدّت پورے شباب پر ہے اور وہ اسے بیان کرنے میں کبھی بھی پس و پیش نہیں کرتے بلکہ جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے چلے جاتے ہیں۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے وہ میں ایک مشتِ غبار ہوں
میرا رنگ روپ بگڑ گیا مرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصلِ بہار ہوں

سوزِ غمِ فراق سے دل اس طرح جلا
پھر ہو سکا کسی سے نہ ٹھنڈا کسی طرح
ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے
پر جو شبِ غم ہے وہ ہم کہہ نہیں سکتے
آج تک معلوم یہ مجھکو نہیں کیا چیز ہوں
کون ہوں کیا شئے ہوں میں ناچیز ہوں یا چیز ہوں
اے ظفر کیا پوچھتے ہو کیا بتاؤں آپ کو
خاک ہوں میں خاک ہو ناکارہ ہوں ناچیز ہوں
لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں
کسی کی بنی ہے عالمِ نا پائدار میں

مندرجہ بالا اشعار میں غزل کا جو رنگ ہے یقیناً جدید ہے اور اپنے عہد کے عام رنگ سے ہٹ کر ہے حالانکہ سیاست اور معاشرے کی زبوں حالی کا ذکر کرنے کے لیے عہد ظفر میں ایک مایہ ناز صنف شہر آشوب موجود تھی اوراکثر شعرا اس صنف میں طبع آز مائی بھی کر رہے تھے لیکن ظفر نے اس صنف کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور غزل کے اشعار میں ہی وہ تمام کرب و حزن یکجا کر دیے شاعری کی تعریف کرتے ہوئے ایک انگریز مصنف نے لکھا ہے:
’’شاعری ادب ہے جو عام طور سے انسان سے گہرا اور اعلیٰ علاقہ رکھتا ہے۔ انسانی دلچسپی کے جز کے علاوہ اس میں جمالی دلچسپی بھی بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہے کیونکہ ان لوگوں میں جن میں تفکر کا ذریعہ ایسی زبان ہے جس میں شعر لکھا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ جمالی حسن کے ایسے نفیں سانچے تیار ہو جاتے ہیں کہ خیالات کو حسن کا رانہ رنگ عطا کر کے پڑھنے والوں کے قلوب کو متاثر کر سکتے ہیں۔‘‘
(ایم․ایچ لڈل۔ مقدمہ : سائنٹفک اسٹڈی آف پوئٹری)

ظفر کے یہاں جمالیاتی احساس کی فراوانی ہے حالانکہ وہ دور افرا تفری کا ہے لیکن بادشاہ بہر حال بادشاہ ہے لہٰذا ان کی شاعری کا بڑا حصّہ ان کے قلبی اور ذہنی واردات کا آئنہ ہے جس میں انھوں نے جسمانی اختلاط سے لے کر ذہنی آسودگی تک کے موضوعات کو شعری نزاکتوں کے ساتھ برت دیا ہے۔
جام ہے، شیشہ ہے، ساقی بھی ہے برسات بھی ہے
ان دنوں بادہ کشی دن بھی ہے اور رات بھی ہے
جوش مستی بھی ہے ہنگامِ ہم آغوشی بھی
خواہشِ وصل بھی ہے جائے ملاقات بھی ہے
وہ بھی سرمست ہے اور ہم بھی نشہ میں سرشار
ہاتھ گردن میں ہے اور لطف و عنایات بھی ہے
یار ہے یار کے ہے ساتھ ظفر بوس و کنار
اور اگر چاہیے کچھ بات تو وہ بات بھی ہے

جب انسان حالات کی چکّی میں بری طرح پس جاتا ہے اور ان حالات سے نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی تو وہ ذہنی طور پر ہی سہی اس کیفیت یا اس جبر سے فرار کی کوشش کرتا ہے اسیے میں نفسانی جذبات اس کے کام آتی ہیں اور وہ اس نشے میں مدہوش ہو کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔

بزرگوں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ جب کوئی معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے تو وہاں شعر و شاعری نیز فنونِ لطیفہ تیزی سے پروان چڑھتا ہے۔ اگر اس رائے کی روشنی میں ہم عہد ظفر کو دیکھیں تو اس قول کی صداقت صد فی صد درست ثابت ہوتی ہے کہ جہاں عہد ظفر کے پہلے سے ہی مغلیہ حکومت نام کو رہ گئی تھی اور پوری ہندوستانی تہذیب انگریزوں کے زیر اثر آ چکی تھی ہر شعبۂ زندگی میں اضمحلال کی کیفیت تھی لیکن شاعری کے لیے بالخصوص اور اردو ادب کے لیے بالعموم یہ سنہرا دور تھا۔ اور ادبی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو زبان و ادب نے اس دور میں جو نشانِ منزل مقرر کیے آج بھی ہم اس تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ظفر کی شاعری میں منظر نگاری کا بھی حسنِ امتزاج ہے اور اس سلسلے میں بھی ان کے قوتِ متخیلہ کی داد دینی پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر تنویر احمد علوی لکھتے ہیں۔

’’ایسے مواقع پر ظفر کی طبیعت طرفہ تماشائی بنی نظر آتی ہے اور یہاں بات تماشہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ظفر اس خوبصورت موقع پر اپنی طبیعت کی خوشیوں اور چہل بازیوں کا ذکر کرنے میں بھی تکلف نہیں کرتے۔ اس طرح کے شعروں میں زندگی کی جو لہر آگے بڑھتی اور رگ رگ میں پھیلتی محسوس ہوتی ہے اس کی لفظی تصویر پیش کرنے میں ظفر کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہے اور اس کا یہ تعلق زندگی سے بہت قریب کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘
(ذوق سوانح اور انتقاد ص:42)
کنارِ آب ہو، مہتاب ہو، ساغر ہو، مینا ہو
جو یہ سامانِ کل ہوں پھر تو چہلیں ہوں، تماشہ ہو
ہم سے شرماؤ نہ تم چشم حیا کو کھولو
مثلِ گل شوق سے اب بندِ قبا کو کھولو
شمشیر برہنہ مانگ غضب آنکھوں کی چمک پھر ویسی ہے
جوڑے کی گندھاوٹ قہرِ خدا بالوں کی مہک پھر ویسی ہے

تادرِ جاناں ہمیں اول تو جانا منع ہے
اور گئے تو حلقۂ در کا ہلانا منع ہے
حلقۂ در گر ہلایا بھی تو بولے کون ہے
اب بتائیں کیا کہ نام اپنا بتانا منع ہے
غل مچا کر گر پکارا بھی تو جھنجھلا کر کہا
جاؤ کیوں آئے تمھیں گھر میں بلانا منع ہے

ظفر کے یہ اشعار ان کے ذاتی محسوسا ت سے بہت قریب معلوم ہوتے ہیں لیکن ذاتی محسوسات و تجربات کو شعر کا قالب عطا کرنا ان کا کمال ہے۔ ایسے مواقع پر ان کی شاعری میں لفظیات کی دنیا ایک خاص قسم کی بے ساختگی کو پروان چڑھاتی ہے اور یہی بے ساختگی ان کی شاعری کا حسن ہے۔ اس سلسلے میں عشرت جہاں ہاشمی رقم طراز ہیں:
’’ظفر کی شاعری جن ذہنی امور اور حیاتِ گذراں کے جن کوائف کو پیش کرتے ہیں وہ ایک شہزادہ کی زندگی سے بہت قریب ہے۔ ٹھیک ہے کہ دوسروں کو بھی یہ مواقع ملتے ہیں لیکن عیشِ امروز کا یہ تصور اور آغوشِ انبساط سے لطف لینے کا یہ انداز، مسرور ہونے کی یہ خواہش اور کامیاب ہونے کی یہ خوشی سب کا حصّہ نہیں ہو سکتی۔بالخصوص اس کا شاعرانہ بیان‘‘

ظفر کے عہد میں تصوف کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی اور وہ خود بھی ’’میاں کالے صاحب‘‘ کے خاندان میں بیت تھے اور خود بھی دوسروں کو مرید کرتے تھے اسی لیے ان کو پیر و مرشد بھی کہا جاتا تھا۔ حالانکہ ان کی شاعری میں غالب رنگ تصوف کا نہیں لیکن چیدہ چیدہ اشعار اس امر کی چغلی کھاتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں کورے نہ تھے۔
میری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نطر میں نورِ جمال تھا
کھلی آنکھ تو نہ خبر رہی کہ وہ خواب تھا کہ خیال تھا

نہ وہ زمیں کے نہ ہے آسماں کے پردے میں
مگر ہے جلوہ نما دو جہاں کے پردے میں
دوئی کا پردہ اٹھا دل سے اور آنکھ سے دیکھ
خدا کے نور کو حسنِ بتاں کے پردے میں

ڈاکٹر اسلم پرویز نے ظفر کے سلسلے میں جو باتیں کی ہیں اس میں انھوں نے ظفر کے چار اہم رنگ کا ذکر کیا ہے لکھتے ہیں:
’’اول وہ کلام جس میں محض فنّی مہارت بہم پہنچائی ہے اور قادرالکلامی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دوم وہ کلام جس میں گیت نما غزلیں قوالیاں ٹھمریاں اور مخمس وغیرہ ہیں سوم وہ کلام ہے جس میں مذہبی اور تصوفانہ اشعار ملتے ہیں جس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ذہن پر مذہب اور تصوف کا گہرا اثر ہے، چہارم وہ کلام جن میں ان کی انفرادیت نمایاں اور فن کاری کار فرما ہے۔‘‘

اسلم پرویز کی رائے سے اختلاف کی گنجائش یو ں بھی نہیں کہ انھوں نے ظفر پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے لیکن عام طور پرظفر کی شاعری کا مخصوص رنگ ان کی شاعری میں موجود عشق و حسن کا تصور ہے جس کی جدیں معاملہ بندی سے جا ملتی ہیں لیکن مجھے بار بار یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ یہ ساری معاملہ بندی ان کا وہ فرار ہے جو وہ اپنے مسائل سے کرتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ پھر اپنے ہوش میں آتے ہیں اور حقائق سے نظریں ملتی ہیں تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں ؂
نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا
غمِ عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا
دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا
رہا پردہ میں اب نہ وہ پردہ نشیں کوئی دوسرا اس کے سوا نہ رہا
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

یا مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایا نہ بنایا ہوتا
روشِ گل میں کہاں یار ہنسانے والے
ہم کو شبنم کی طرح سب ہیں رلانے والے

یہ وہ رنگ ہے جس میں عہدِ بہادر شاہ کی صاف جھلک دکھائی دیتی ہے اور 1857کی پہلی جنگ آزادی جسے نا کام جنگ آزادی کہنا چاہیے کی نا کامی کا سارا کرب اس رنگ کے پس منظر میں صاف نظر آتا ہے۔

سرسید جس کے عینی شاہد ہیں۔ موصوف نے ان حالات کا مقابلہ کر نے کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کیا تھا اور 1857کے انقلاب کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا۔ انہوں نے اسباب بغاوتِ ہند اور تاریخ سر کشی بجنور لکھ کر 1857ء کی تاریخ کو محفوظ کرلیا ہے۔تقریباً 80ہزار دستاویزات آج بھی اردو اور فارسی میں 1857ء کے واقعات موجود ہیں جن تک رسائی ہمارے لئے لازمی ہے۔ اردو اور فارسی کے بغیر 1857ء کے انقلاب کو سمجھنا مشکل امر ہے۔ میرے یہ مضمون جہاں ادبی تاریخ کے محققین اور طلباء کے لئے نئے مواد کی فراہمی کا وسیلہ ہے وہیں ہندوپاک کی جدید تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ بھی ۔1857ء کے انقلاب کی سب سے بڑی خصوصیت ہندومسلم اتحاد تھا جو آج بھی اس ملک کی قومی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے یہ چند سطور اس ضرورت کی تکمیل میں سنگ میل کا حکم ثابت ہوگا۔
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 132607 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More