ترکی کے تاریخی شہر استنبول کے ایک پارک میں لگے درختوں
کو جڑوں سے اکھاڑنے کی مذمت میں حکومت کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے ملک
کے سرسٹھ شہروں تک پھیل گئے ہیں،ترکی کے وزیرداخلہ کے بیان کے مطابق منگل
کے بعد سے ملک کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف دوسو پینتیس مظاہرے ہوئے
ہیں۔حکومت کے خلاف مشتعل مظاہرین نے مظاہروں کے دوران سرکاری اور نجی املاک
کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچایا ۔مظاہرین نے کئی بسوں پرحملے کیے اور
رکاوٹیں کھڑی کرکے پولیس کا راستہ بند کردیا۔ پولیس نے مظاہروں کے دوران
تشدد کا راستہ اختیار کرنے والے سترہ سو سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا۔ ترک
وزیر داخلہ معمر گولر کا کہنا ہے کہ ”گرفتار کیے گئے افراد میں سے بیشتر کو
رہا کردیا گیا ہے۔“ استنبول کے تقسیم اسکوائر سے اتوار کی صبح پولیس کو ہٹا
لیا گیا تھا۔شہر کا یہ معروف چوک وزیراعظم رجب طیب اردگان کی حکومت کے خلاف
مظاہروں کا مرکز بن چکا ہے۔وہاں سے پولیس کی واپسی کو مظاہرین نے اپنی فتح
قرار دیتے ہوئے خوشی میں ڈانس کے علاوہ آتش بازی بھی کی۔ترک روزنامے حریت
کی اطلاع کے مطابق تقسیم چوک میں تو خوشی کا سماں تھا لیکن اس سے چند ہی
کلو میٹر کے فاصلے پر واقع وزیراعظم کے استنبول دفتر کے نزدیک پولیس اور
مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے استقلال ایونیو پر مظاہرین کو
منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔
مظاہرین انصاف اور ترقی پارٹی (اے کے) کی حکومت کے خلاف نعرے بازی کررہے
تھے اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے تھے۔ذرائع کے مطابق یہ ماضی
قریب میں ترکی میں سب سے بڑے حکومت مخالف مظاہرے ہیں۔وزیراعظم رجب طیب
اردگان نے ان مظاہروں کو غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے ان کے فوری خاتمے کا
حکم دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تقسیم سکوائر ’ایسا علاقہ نہیں بن سکتا
جہاں انتہا پسند دندناتے پھریں۔‘ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے
طاقت کے استعمال میں ’ کچھ غلطیاں‘ کیں اور مظاہرین پر طاقت کے استعمال کی
شکایات کی تحقیقات کروائی جائیں گی۔
واضح رہے کہ حکومت استنبول شہر کے مرکزی تقسیم اسکوائر کو وسیع کرنے کے
علاوہ اس کی تزئین نو کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کے لیے غازی پارک کے
بڑے اور پرانے درختوں کو جڑ سے اکھاڑنا اہم قرار دیا گیا تھا۔ترک حکام کے
مطابق اس نئے منصوبے کے تحت تقسیم چوک میں ایک شاپنگ مال کی تعمیر اور
خلافت عثمانیہ کے دور کی فوجی بیرکوں کی تعمیرنو کی جانی تھی۔ان درختوں کو
اکھاڑنے کے خلاف پارک میں کئی سو افراد نے مظاہرہ کرتے ہوئے دھرنادیا ۔
مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو آنسو گیس اور تیز دھار پانی کا
سہارا لینا پڑا۔جب مظاہرین نے تشدد کا راستہ اختیار کرلیا تو استنبول کی
عدالت نے پارک میں درختوں کی کٹائی کے عمل کے خلاف حکم امتناعی جاری کر
دیا۔وزیراعظم اردگان نے ایک بیان میں مظاہرین سے فوری طور پر اپنے احتجاج
کو بند کر نے کی اپیل کی تھی۔اس کے باوجود مظاہروں میں شدت آتی جارہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی میں ہونے والے مظاہروں کی وجہ صرف ایک پارک
سے چند درختوں کو اکھاڑنا قرار نہیں دیا جاسکتا، پس پردہ اس کی اصل وجہ کچھ
اور ہی ہے،جس کا اظہار ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان واضح الفاظ میں کرچکے
ہیں، دو روز قبل وزیر اعظم طیب اردگان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ
اپوزیشن سیکولر پارٹی مظاہرین کی پشت پناہی کر رہی ہے اور انھیں اکسا کر
امن وامان کا مسئلہ پیدا کرنا چاہتی ہے۔ مبصریں کا بھی کہنا ہے کہ یہ
مظاہرے اب حکومت کی جانب سے ترکی کی ’اسلامائزیشن‘ کی کوششوں کے خلاف
احتجاج کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ رجب طیب ارگان کی حکومت 2002 سے
ترکی میں برسرِ اقتدار ہے۔ ان کی جماعت (جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ)پارٹی کی سیاسی
جڑیں اسلام میں ہیں لیکن اردگان کہتے رہے ہیں کہ وہ ترکی میں سیکولر ازم کے
حامی ہیں۔ سیکولر قوتیں طیب اردگان کے ترکی میں اسلامی اقدامات سے سخت
خوفزدہ ہیں۔ترکی کی اسلام پسند حکومت، سیکولرفوج اورسیکولر قوتوں کے درمیان
محاذآرائی اس وقت سے شروع ہے جب سے ترکی میں اسلام پسندوں کا غلبہ ہونا
شروع ہوا ہے، کئی بار ترکی کی سیکولر فوج طیب اردگان کی حکومت کو گرانے کی
ناکام کوشش بھی کرچکی ہے۔سیکولر قوتوں کے لیے ہرگز ترکی میں اسلام پسند
حکومت قابل قبول نہیں ہے۔ ترکی میں 1924ءمیں سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد
سیکولر مصطفیٰ کمال اتاترک نے ترکی میں بھرپور طریقے سے سیکولرزم کو فروغ
دیا۔ کمال اتاترک نے نہ صرف ریاست کو مذہب سے الگ کر کے خالص سیکولر حکومت
قائم کی بلکہ علماءکرام کے اثر کو کم کرنے کے لیے ان پر بہت سی پابندیاں
عائد کیں۔جن میں ہر قسم کے مذہبی لباس پر پابندی ، خواتین کے حجاب پر
پابندی بھی شامل تھی۔مردوں اور خواتین کے لیے مغربی لباس کو فروغ دیا گیا۔
نکاح و طلاق کے قوانین میں ترامیم کی گئیں۔ خواتین پر یہ پابندی بھی عائد
کی گئی کہ وہ پبلک لائف میں اپنی مرضی کا لباس پہننے کی بجائے مغربی لباس
پہنیں۔ اس کے عہد میں مذہبی قوانین کو ختم کر دیا گیا اور مکمل سیکولر
قوانین کو رائج کیا گیا۔ یہ حکم جاری کیا گیا کہ اذان ترکی زبان میں دی
جائے اور قرآن مجید کی تلاوت ترکی زبان میں کی جائے۔نماز بھی ترکی زبان میں
پڑھی جائے۔ مغربی رقص و موسیقی کی محفلوں کو سرکاری سرپرستی فراہم کی۔ کمال
اتاترک نے مذہبی مدارس اور خانقاہوں پر پابندی عائد کر دی تاکہ مذہبی طبقے
کو کچلا جا سکے۔ان تمام پابندیوں کے باوجود طیب اردگان نے سیکولروں کی ہر
کوشش کو ناکام بنایا ہے۔ طیب اردگان نے پے در پے ترکی میں سیکولر قوتوں اور
فوج کو انتخابات کے ذریعے شکست فاش دی، آہستہ روی سے ترکی کے اسلام دشمن
قوانین کو ختم کیا، جن میں حجاب پر پابندی ،شراب اور دوسری کئی چیزوں پر
پابندی لگائی۔اسی حوالے سے ترکی میں نئی قانون سازی کی مناسبت سے سیکولر
حلقوں میں کچھ زیادہ ہی بے چینی پائی جاتی ہے۔اردگان حکومت نے گزشتہ ہفتے
ہی ایک نئے بل کی منظوری دی تھی، جس کے تحت شراب کی فروخت کو محدود کر دیا
گیا ہے۔ ترک کی سیکولر آبادی اس پر پریشان دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح حکومت
نے آبنائے باسفورس پر نئے پل کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے اور ماحول
دوستوں کے مطابق یہ پ ±ل شہر کے ختم ہوتے سبز علاقے میں مزید کمی کا باعث
بنے گا۔ مخالفین کے مطابق آبنائے باسفورس پر تعمیر کیے جانے والے پل کا نام
ایک متنازعہ عثمانی بادشاہ پر رکھا گیا ہے جس نے اقلیتی شیعہ آبادی کے قتل
عام کا حکم دیا تھا۔اب مخالفین ہر جانب سے مایوس ہوکر بھونڈے ہتھکنڈوں پر
اتر آئے ہیں۔بعض تجزیہ کار ترکی میں ہونے والے مظاہروں کا تعلق شام کی
صورتحال سے جوڑرہے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ترکی حکومت شام میں انقلابیوں کی
کھل کر حمایت کررہی ہے، عین ممکن ہے کہ وہ قوتیں جو انقلابیوں کی مخالف اور
بشارالاسد کی حمایتی ہیں، وہ ترک حکومت کو عدم استحکام کی طرف دھکیل کر
انقلابیوں کی قوت کو کمزور اور بشار الاسد کو مضبوط کرنا چاہتی ہوں۔ |