نواز شریف قسمت کا دھنی اور پہلا قدم

میاں نواز شریف قسمت کے دھنی ہیں ،عروج و زوال اور پھر عروج ،وزارت عظمیٰ سے اٹک قلعہ اور جلا وطنی پھر وزارت عظمیٰ ،13سال سات ماہ 18 دن شب وروز کی محنت کے صلہ میں اللہ نے ایک اور موقع عطا کیا۔اللہ کی قدرت میں دخل جائیز نہیں مگر اشاروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ میاں صاحب اب کی بار اس بے بس و بے کس عوام بارے بہت کچھ سوچیں گے ،عوام بھی انہیں آخری امید سمجھ کر بہت مختصر وقت منتظر رہے گی۔اس امید و یاس کے درمیان فضاءمیں معلق عوام شائد اب کی بار سخت امتحان لے ۔اس سے پہلے کہ بے زبان مخلوق خدا کسی پاگل پن کا شکار ہو ،نو منتخب حکومت کو قدم قدم احتیاط ،سنجیدہ پن ،فیصلہ کن کردار ،عوام کی بھلائی کے خوشنما نعرے دلکش تقریریں ،نان ایشوز کا سہارا اور کوئی بہانہ و سہارا نہیں عملی اقدامات اٹھانے پڑیں گے بلکہ اب عوام آنکھوں سے دیکھنا چاہئتی ہے کہ انہیں واقعی ووٹ کا صلہ مل پایا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں عوام نے اتحادیوں کی کارکردگی کے بدلے درست فیصلہ کیا لیکن ایک خطرہ جو مہیب سایہ کی طرح ہمارا پیچھا کر رہا ہے کہ ذرا سی غلطی پھر دامن گیر ہو سکتی ہے ۔میں کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ میاں نواز شریف کی پہلی تقریر کیسی ہو گی۔۔؟؟؟ یقینا ان کے پہلے خطاب سے ہی عمارت کا نقشہ سامنے آ جائے گا،اگر انہوں نے رونا دھونا لگا رکھا کہ ماضی میں فلاں کھا گیا ،خزانہ خالی ہے ،مسائل بہت ہیں کہاں سے شروع کیا جائے ۔یہ باتیں درست سہی مگر عوام اب بہلنے والے نہیں ،انہوں نے آپ کی جمہوریت کودیکھ لیا ،عوام مہنگائی ،بے روز گاری ،غربت اور مایوسی کے آخری درجہ پر پہنچ چکے ہیں ،اس کے باوجود عوام نے جمہورےت کو ایک موقع اور دیا ، جس کی قدر دانی میں پارلیمان قائم ہے ،عوام کی محبت اور بھر پور ساتھ فی سبیل اللہ نہیں بلکہ عوام اپنامعیار زندگی بہتر دیکھنا چائیتے ہیں۔ان حالات میں میاں نواز شریف ہیرو بن سکتے ہیں مگر انہیں روائتی خول سے باہر نکلنا پڑے گا۔ہمارے قانون میں بڑا سقم یہ ہے کہ کرپٹ مافیا کو بھاگنے کا راستہ مل جاتا ہے 20گریڈ سے اوپر اعلیٰ آفسران کو گھر روانہ کرنا ایک خواب ،معطل یا او ایس ڈی بھی ہوپھر بھی تنخواہ مراعات کا مستحق ،جب ایسے طبقے کے ہاتھ بھی لمبے ہوں تو کسی خوش فہمی میں رہنا احماقت ہو گی۔30ہزار سے زائد پاکستانی سعودیہ حکومت ڈی پورٹ کرنا چاہ رہی ہے مگر اب تک ہمارے سفارت خانے کا کردار ”سکتے “ کی صورت میں دکھائی دیتا ہے ۔تیل،بجلی کے نرخوں میں اضافہ ،بجلی کی یکدم طویل بندش کیا پیغام دے رہی ہے ۔ہر چیز 5روپے سے بیس روپے مہنگی ہو چکی ہے ،پرائس کمیٹیاں ”لکھے موسیٰ پڑھے عیسیٰ کی مثل کردار ادا کر رہی ہیں ،وہی گراں فروش اس کمیٹی کے ممبر ہوں تو کیا عوام کا جیب محفوظ رہے گا۔ان چوروں اور نوسربازوں سے عوام تنگ ہیں ۔پٹواری ایک قدم پیسوں بغیر نہیں چلتا،بلکہ ان کا اوڑنا بچھوناہی قائد اعظم کی ”خوبصورت تصویر “ہے ،کسی بھی ادارے میں چلے جائیں اگر ڈالر پاس ہوں تو قانون ہاتھ میں سمجھو،ظلم یہ ہے کہ ہسپتال جائے عبرت ہے مگر وہاں بھی پسند و نا پسند کی بنیاد پر مریض سے سلوک کیا جاتا ہے ۔بد دیانتی ،کام چوری ،ہیرا پھیری نے ہمارے دامن تراشیدہ کر رکھے ہیں۔جب اداروں میں ہر سطح عوامی مفادات و عزت نفس کے برعکس ماحول ہو تو بہتری کہاں سے عود آئے گی۔بات تو یہ ہے کہ حقیقتاًحکومت آفسر شاہی کے حصار میں مقید نظر آتی ہے۔پروٹوکول کا چسکا بڑا ہوتا ہے یہ ایسی لت ہے کہ چھوڑے بھی نہیں جاتی۔اس ساری صورت حال میں میاں نواز شریف کو کہاں سے اور کیسے شروعات کر کے کامیابی کا نقطہ آغاز کرنا ہوگا۔۔؟؟؟

ماہانہ بنیادوں پر تمام اداروں کی خفیہ پراگرس رپورٹ کی روشنی میں اداروں کا تطہیری عمل شروع کرنا پڑے گا جس کے لئے ادارے کے سربراہ کا بہتر انتخاب لازمی قرار دیا جائے اور اس ضمن میں ناقض کارگذاری کے حامل آفسران کو کسی بھی آرڈینس کے ذریعہ سزا کا مستحق قرار دیا جانا ہو گا۔ورنہ موجودہ سروس لاز میں یہ فرعون صفت بچتے بچاتے تنگ گلی سے گذر جائیں گے ۔میاں صاحب آپ بی ایم ڈبلیو پر نہیں سوار ہوئے ،آپ پروٹوکول میں کمی کریں بھی تو عوام کا کیا فائدہ،آپ وزیر اعظم ہاﺅس استعمال نہ کریں تو جہاں کہیں آپ کا ٹہراﺅ ہو گا وہاں کیا آپ فری رہیں گے ،خدا راہ اس سادی عوام کو اب بیوقوف نہ بنایا جائے ۔بلاشبہ اپنی مراعات میں کمی اچھی مثال ضرور ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ڈراموں کا کیا سین ہے،نچلے طبقہ سے اوپر تک حسب توقیق رشوت خوری ،قومی خزانہ کو لوٹنے کے ہزاروں راستہ ہیں” جن“ کو کیسے بند کیا جا سکتا ہے ۔وزارت عظمیٰ معمولی عہدہ نہیں رہا ، اسمبلی میں واضح اکثریت بھی کسی بہانہ سازی کا شکار نہیں ہو سکتی۔لہذا اب جب وزیر اعظم قلمدان سنبھالیں تو قابل عمل اقدامات اٹھانا پڑیں گے ۔عوام کو ریلیف ملا تو ” واہ واہ “مچے گی مگر خدانخواستہ عوام کی توقعات کے برعکس ”باری“لگانے تک سوچ کو محدود رکھا گیا تو پھر قوم کا اللہ حافظ ہو گا۔

محب الوطن ،صاف گو ،با کردار کابینہ بنائی جائے ،ہر کیبنٹ ممبر میں وہ صلاحیت بھی ہو کہ وہ ادارے کو کیسے درست سمت دے سکتا ہے ،اگر قصیدہ گو ،وارداتی عناصر امڈ آئے تو پھر یہ ناﺅ مہمان سمجھی جائے گی۔ایسی اشیاءضروریہ جن میں دالیں ،آٹا اور چاول آتا ہے ان کی تفصیلی فہرست بنائی جائے اور 50%سبسڈی دیکر عوام کو ارزاں نرخوں پر خوراک مہیا کی جائے۔اوگرا کا ما ہانہ ڈرامہ بازی بند کی جائے کم از کم چھ ماہ تک نرخوں کا ٹہراﺅ رکھا جائے۔سچی بات تو یہ ہے کہ مہنگائی کی جڑ اوگرا ہے جس کی غلط پالیسی سے پورا ملک مہنگائی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔اس کی تطہیر کون کرئے گا ،پولیس کی دوسرے اداروں سے تنخواہیں دوگنا ہیں مگر جرائم کی شرح خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔ان عوامل پر توجہ دینا ہوگی ،بیوروکریسی کے بھنگڑے دیکھو!!! سم کے حصول کے لئے 250روپے ٹیکس کا نفاذ کردیا اس سے کون متاثر ہوا؟؟؟ایسے فیصلے ایوان بالا میں مختلف دلیلوں سے بہتر انداز سے پیش کئے جاتے ہیں مگر عوام بے چاری پر جو لوڈ پڑتا ہے اسے کون اتارے گا ،نادرا نے بھی کمائی کا ایک دھندہ سمارٹ کارڈ کے نام پر شروع کیا ہوا ہے ،غریب کی سوچ اور ضرورت تک اس کا کیا فائدہ ،ایسے تو شہری درجہ بندی کا شکار ہوکر مایوسی کی دلدل میں چلے جائیں گے۔کسی بھی نجی دفتر ،پلازہ یا کسی سیکیورٹی پوائینٹ، پیٹرول پمپ ،ہوٹل،مارکیٹ،میرج ہال پر تعینات گارڈ سے پوچھا جائے کہ ان کی تنخواہ کتنی ہے تو حیران کن انداز سے آپ کو جواب ملے گا 5ہزار ،6ہزار،7،8اور 9ہزار روپے تک ملتے ہیں ،ذرا غور کریں کہ اتنی قلیل تنخواہ میں کسی کا گھر سکھی ہو سکتا ہے ،جب استحصال اس قدر ہو رہا ہو تو پھر لوگ کیا کریں گے ۔۔؟؟سرکاری اداروں کو عوامی فلاحی مراکز میں بدلنا ہو گا،کالم کی طوالت کے پیش نظر آج اتنا ہی کافی ،اگلی بار اسی سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے میاں نواز شریف کے پہلے خطاب کو معنی خیز بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
Bashir Ahmed Mir
About the Author: Bashir Ahmed Mir Read More Articles by Bashir Ahmed Mir: 32 Articles with 23514 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.