قرب و وصال چاہنا صرف اہلِ ہوس کی نشانی تو نہیں ہے، عشق
جب حدوں سے بڑھنے لگتا ہے تو عاشق وارفتگی میں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر
بس قرب ہی چاہتا ہے اسے انجام کی پرواہ نہیں ہوتی، انجام تو عقل والے سوچتے
ہیں عشق والوں کا یہ کام بھلا کب ہوتا ہے۔
شائد تمہیں میری بات لفظوں کا ہیر پھیر لگتی ہو یا فلسفہ، لیکن سمجھنا چاہو
تو اوپر سے نیچے تک ہر طرف ہر طرح کی مثال ہے۔
ذرا اوپر کی طرف دیکھو تو اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام کی طرف دیکھو، "لن
ترٰ نی" کہہ کر سمجھایا جا رہا ہے کہ اے مشتاق! "مت بڑھ، تُو تاب نہ لا سکے
گا۔" پر یہاں "رَبِّ اَرِنِیۡۤ " کی ضد ہے، چاہے انجام کچھ بھی ہو۔
اور پھر
اپنے سر کو جھکا کر دیکھو تو پروانے کی دیوانگی پر غور کرو، بس شمع کا قرب
چاہتا ہے انجام چاہے کچھ بھی ہو۔
اب درمیان میں دیکھو تو ذرا کون ہے؟
بس میں اور تم۔
ہاں مجھ میں دوری کا عذاب سہنے کی سکت نہیں ہے، اس سے بہتر تو راکھ ہو جانا
ہے۔ |