خوشبو کی مانندارد گرد موضوع تو بیشمار بکھرے پڑے ہیں مگر
جی نہیں چاہ رہا کہ انہیں سونگھ کر اِن کی افادیت تقسیم کر دی جائے۔رقص
کرتا ہوا قلم آج جِس موضوع کو نشانہ بنانے جا رہا ہے وہ کِسی خاص تعارف کا
محتاج نہیں لحاظہ جھومتے قلم کی روانی کو بیڑیاں ڈالنا مناسب نہ ہوگا۔ پتھر
کے زمانہ کے انسان سے کانسی کے دور کا انسان معرضِ وجود میں آیا اور پھر
یہی کانسی کے دور کا انسان لوہے کے دور کا موجد اور راہنما بنا ۔کہاں گیا
وہ دور....؟ جب ایک ہی کنویں سے دور دراز تک کے نہ صرف کھیت کھلیانوں کو
سراب کیا جاتا،میویشیوں کی پیاس بجھائی جاتی بلکہ میلوں کی مسافت طے کر تے
ہوئے آدم زاد اِسی نایاب کنویں کی جانب رخ کرتے اور پیاس بجھانے کے ساتھ
ساتھ جتنا ہو بنتا پانی کا ذخیرہ بھی اپنے ساتھ لیجاتے تھے۔ مشعلیں ،تیل
اور گھی کے چراغ ہی غنیمت تھے۔نہ ٹھنڈی،گرم مشینیں تھیں اور نہ کپڑوں کی
سلوٹیں نکالنے والی بجلی کی دشمن اِستری مگر زندگی میں ہر لحاظ سے سکون ہی
سکون تھا ۔بلا شبہ ضرورت ایجاد کی موجد ہے اِسی بانی نے اِنسان کو سائنسدان
بنا ڈالا ہے۔جِس طرح موسموں کا سائیکلون ہوتا ہے،سمندروں سے بادل پانی
چوستے ہیں پھر برستے ہیں ،پانی جمع ہوتا ہے اُسے پھر جزب کر کے برساتے ہیں۔
لگتا ہے انسان بھی عین اِسی طرح کے سائیکلون پر ہزاروں سال رینگتا ہوا واپس
اپنے آغازِ سفر کی طرف لوٹ رہا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اِس انسانی سائیکلون
جِس کی رفتار مائیکرون سے بھی لاکھ درجے کم پر سفر کرتی ہے انسان کو رفتہ
رفتہ ابتدا کی طرف لیکر جا رہی ہے جہاں سے وہ دوبارہ ترقی کا سفر شروع کرے
گا۔یہ ابھی پتھر کے دور کا زمانہ تو نہیں مگر کانسی اور لوہے کے دور سے
مشابہت رکھنا شروع کر چکا ہے ۔نہ بجلی ہے،نہ پانی،نہ گیس،نہ پیٹرول ،نہ امن
،نہ محبت،نہ انسانیت تو میں کیسے کہہ دوں کہ ہم ترقی یافتہ دور کا حصہ ہیں
ہم ترقی یافتہ نہیں ہم پاکستانی ہیںاور مرتے دم تک پاکستانی ہی رہیں گے ۔پاک
سر زمین کے باشندے ہونے پر ہمیں ناز ہے ۔بجلی نہیں نہ سہی، پانی نہیں نہ
سہی ،گیس نہیں نہ سہی مگر اِس سر زمین پر آج بھی شرم و حیا کی فصل تو وافر
مقدار میں کاشت ہوتی ہے نہ۔
واپڈا کی لگائی گئی تاریں پرندوں کی تفریح گاہیں اور پول اُن کے آشیانے بن
چکے ہیں ۔تھوڑی سی دیر کیلئے ایک آدھا فیس آنے کی اہم ترین وجہ یہی سمجھ
میں آتی ہے کہ اہلِ خانہ مخصوص لائٹ میں موم بتیاں اور چراغ ،ماچس وغیرہ
تلاش کر کے محفوظ کر لیں۔گزشتہ روز K.E.S.Cنے بجلی کے بلوں میں 17پیسہ فی
یونٹ اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے اور وصولی یکم جون3 201سے کی جانے
کی معتبر خبر ہے ۔یعنی کہ ”کھایا پیا کچھ نہیں.... گلاس توڑا بارہ آنہ“بجلی
تو آتی نہیں مگر بِل ہر مہینے باقائدگی سے آتے ہیں۔انرجی کے بحران پر قابو
پانہ آخر کیسے اور کیونکر ممکن ہوجبکہ کروڑوں ،کھربوں روپیے مالیت کے
چائینہ اور دیگر ممالک سے جنریٹر امپورٹ ہو رہے ہیں ۔اگر بجلی کی فراوانی
ممکن بنادی گئی تو اُن بزنس مین باعزت حضرات کا کیا ہو گا جنہوں نے اربوں
روپیہ سولر سسٹم پلانٹس کو اسٹاک کرنے میں انویسٹ کیا ہے ۔ابھی تو U.P.Sاور
اُس کی اسسریز اور بیٹریاں بنانے والوں کا تزکرہ دور ہے۔ہم پاکستانی انسان
دوست قسم کے لوگ ہیں ،ہمارے بااثر بھائیوں کے پیٹ بھرے بچوں کی روٹی کا
سوال ہے ۔”نوٹ : غریب کے بچے کی بھوک کا کوئی سوال نہ اُٹھائے کیونکہ
اُنہیں بھوکے پیٹ نرم گدوں اورA.Cکی ٹھنڈک سے زیادہ بہتر نیند آتی ہے“۔
آدھی رات کو جب حبس اور گرمی کی شدت محو رقص ہوتی ہے اور معصوم فرشتے تندور
میں سو رہے ہوتے ہیں تو عین اِسی وقت جلے پر مرحم رکھنے کیلئے اچانک بلب
روشن ہوجاتے ہیں اور بوسیدہ پنکھے میں بھی جان ڈلتی ہے معصومیت جاگ جاتی ہے
ننھے فرشتے حسرت اور صبر سے لبریز ماں کی جانب دیکھتے ہی سوال کرتے ہیں
”امی جان آپ ہمیشہ بجلی بچاتی ہیں میری ساری کمر کوئلہ بن چکی ہے اب کوئلے
پر مزید ہو ا نہ دیں کہ مزید شعلیں بھڑکیں گے خدارا پنکھا بند کردیں....اور
،اور معصوم فرشتوں کی التجاءبچاری ماں کے کانوں تک ابھی پہنچتی بھی نہیں کہ
واپڈا والے پہلے ہی سن لیتے ہیں ۔
بڑے میاں صاحب نے حلف اُٹھایا تو اُن کے منہ سے بھی نکل گیا کہ ”3ماہ میں
لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل ہوتا نظر آئیگا“مگر ہوجائے گا ایسا نہیں کہا کیونکہ
ایسا کرنا ....سولر سسٹم پلانٹ،U.P.Sاور جنریٹر کے تاجروں کے ساتھ سراسر
زیادتی ہوگی اور ہمارا مذہب کِسی کے ساتھ زیادتی کا درس نہیں دیتا۔میاں
نواز شریف صاحب نے مزید علم میں اضافہ فرمایا کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کیلئے
550ارب روپے کی ضرورت ہے اور اِس بات کا تو پہلے ہی اعلان کر دیا گیا ہے کہ
خزانہ خالی ہے ۔ ”نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی“مگر رادھا جھوم ضرور
سکتی ہے ۔ہمارے ہاتھوں میں تو آگے ہی کشکول ہے مزید 550ارب روپے کیلئے
بتائیں کشکول کا رُخ کِس ملک کی جانب کریں گے۔میں نے رات ایک حسین خواب
دیکھا میری عمر سو سے بھی تجاوُز کر چکی ہے اِن 70سالوں میں تقریباً سب کچھ
بدل گیا ہے اب باپ کی بیٹے کی نظر میں عزت نہیں رہی اور بیٹی بھی ماں کو
بیٹی سمجھنے لگی ہے ،پیدا ہوتا بچہ لاکھوں کا کرزئی ہے سب کچھ بدل چکا ہے
مگر مجھے حیرانگی ہورہی ہے کہ70سال گزر جانے کے بعد بھی جولائی اور اگست کی
شدید گرم راتوں میں فرشتے گرمی میں خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں
اورصاحبِ استطاعت طالبعلم جدید طریقوں کے U.P.Sاور سولر سسٹم کے ذریعے سے
روشنائی حاصل کر کے نکل کی تیاری میں مصروف ہیں جبکہ غریب طالبعلم آج بھی
موم بتی اور چراغوں کا سہارا لے کر علم کی پیاس بجھانے کی کوشش میں ہیں
۔انسان واپس اپنے گزشتہ کل میں ہے.... گیس اور گیس کے چولہے اشرافیہ کے
گھروں کی زینت ہیں اور غریب دوبارہ سے لکڑہاروں اور بھینسوں کی پاتھیوں کا
محتاج ہوگیا ہے۔اب 60% نہیں 100%غریب آبادیاں پینے کے صاف پانی کو ترس رہی
ہیں ۔میری آنکھ کھلی تو شکر ادا کیا کہ پاکستان میں اُسط عمر 60سے 65سال
ہے۔ |