حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعا لی
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ جس کسی نے پہاڑ سے گر
کر خود کشی کر لی وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اسی طر ح گرتا ہے
رہے گا ۔ جس کسی نے زہر پی کر خود کشی کر لی زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا اور
جہنم کی آگ میں اسے ہمیشہ ہمیشہ پیتا رہے گا اور جس نے دھار والی چیز مار
کر خود کشی کر لی تو وہ دھار دار آلہ اس کے ہاتھ میں ہو گا جس سے وہ جہنم
کی آگ میں مسلسل اپنا پیٹ چاک کر تا رہے گا۔‘‘
انسا ن اپنی زندگی کا آپ مالک نہیں ہے کیونکہ وہ زندگی کے ایک خلیہ کا بھی
خالق نہیں ہے ۔ زندگی تو اللہ رب العزت کی اما نت ہے انسان ان کی مدد سے
نیکی کی راہ میں اپنی جان قربان تو کر سکتا ہے لیکن اس کو ضا ئع نہیں کر
سکتا اور جو شخص یہ بدد یا نتی کر تا ہے وہ اللہ تعالی کی نظر میں بڑا باغی
اور مجرم ہے ۔ اسی لئے انسا ن سے سرزد ہو نے والے جرائم میں سب سے سنگین
اور گھنائو نا جر م خودکشی ہے ۔ جس نے خود کشی کی خوا ہ کسی ذریعہ سے کی ہو
اس نے ایک نفس کو قتل کر دیا جس کا ناحق اللہ تعالی نے حرام ٹھرایا ہے ۔
جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :
( اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو ، یقین ما نو کہ اللہ تمہا رے اوپر نہا یت
مہربا ن ہے ۔ )
اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان مشکلات کا مقا بلہ مضبوط قوت ارادی کے ساتھ کرے ،
کسی مصیبت سے گھبرا کر یا کسی امید کے پوری نہ ہو نے کی بنا پر زندگی سے
فرار کی راہ اختیار کر نا ہر گز جائز نہیں ہے ۔ مو من مجا ہدہ کے لئے پیدا
ہوا ہے بیٹھ رہنے کے لئے نہیں اور اس کی تخلیق کشمکش کے لئے ہو ئی ہے فرار
کے لئے نہیں ۔ اس کا ایمان اور اس کا اخلاق کار گاہ حیات سے فرار اختیار کر
نے سے اسے روکتا ہے ۔ اس کے پاس ایسا ہتھیار ہے جو کبھی خراب نہیں ہوتا اور
ایسا ذخیرہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہو تا وہ ہتھیار ایمان ہے اور وہ ایمان
محکم ہے اور وہ ذخیرہ اخلاق کی پختگی ہے۔
جو شخص اس قبیح جرم کا مرتب ہو اس کو رسول اللہ ﷺ نے سخت وعید فرمائی ہے کہ
وہ اللہ تعالی کی رحمت سے محروم اور اس کے غضب کا مستحق ہو گا ۔ آپ ﷺ کا
فرمان ہے کہ :’’ تم سے پہلے لو گو ں میں ایک شخص تھا اسے زخم لاحق ہوا تو
وہ گھبرا گیا اس نے (تنگ آکر ) خود کشی کر لی ۔ اللہ تعالی نے ارشاد
فرمایا ۔ میرے بندے نے اپنی جان کے خا تمے کے لئے مجھ سے آگے نکلنے کی کو
شش کی ۔ لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی ۔ ‘‘ ( بحوا لہ بخا ری ) ۔ یہ
مثا ل ہے ایسے شخص کی کو زخم کی تاب نہ لاکر خودکشی کر بیٹھا اور جنت کو
اپنے اوپر حرام کر لیا تو جو لوگ کاروبار میں تھوڑے سے نقصان ،امتحان میں
ناکام ہو جا نے یا کسی اور دنیاوی مسئلے کی بناء پر خود کشی کر بیٹھتے ہیں
ان کا معاملہ کس قدر شدید ہو گا ۔ اور ایسے ہی سزا پا نے والوں کے مستحق
ارشاد باری تعا لی ہے ۔ ( جہا ں پھر نہ مرے گا نہ جیئے گا ( بلکہ حالت نزاع
میں پڑا رہےگا ۔ ) ( الااعلی ۱۳)
ایک روایت میں اس طرح آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک جنازہ لایا
گیا جس نے تیز ہتھیار سے اپنے آپ کو قتل کر لیا تھا ۔ آپ ﷺ نے اس کی نماز
جنازہ نہیں پڑھائی ۔ ( بحوالہ مسلم)
یہاں ہر مسلمان کو یہ ضرور سو چنا چاہئے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے منا فقو ں کے
سردار عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے با ر
بار نہ پڑھا نے کی درخواست کے باوجود پڑھائی ۔ جبکہ صحا بہ کرام کے اصرار
کر نے والے کی نماز جنازہ پڑھا نے سے انکار فرمایا ۔ اس سے معلوم ہو تا ہے
کہ رسو ل اللہ ﷺ کے نزدیک خودکشی کس قدر گھنا ئو نا جرم اور کتنا قبیح عمل
ہت ۔ رحمت ُللعالمین ﷺ کے ان ارشادات کے ہو تے ہو ئے آپ ﷺ پر ایمان لانے
والے آپ ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے آپ ﷺ کو صا دق و امین تسلیم کر نے وا لے
بلکہ آپ ﷺ سے عشق و محبت کے دعوے داروں کے لئے اس قبیح جرم کا تصور کر نا
بھی ممکن ہے ۔ لیکن افسو س ! آج مسلمان قوم میں ایک تعداد ایمان کی کمزوری
اور اعمال کی شامت کی وجہ سے اس خطرناک مرض کا شکار ہو تی جا رہی ہے ۔ اگر
آپ غور کریں تو اس کا بنیادی سبب وہ بڑھی ہو ئی خواہشات ہیں جن کی تکمیل
نہ ہو نے پر انسا ن کو افسر دگی اور ڈپریشن کا مرض لاحق ہو جا تا ہے جو با
لآخر خو د کشی پر ختم ہو تا ہے ۔ اللہ تعالی ہر مسلمان کو اس کے ارتکاب سے
محفوظ فر ما ئے ، آمین یا رب العالمین ! |