کتّا ایک پرانا جانور ہے۔ ابو جہل سے بھی پہلے اس کے وجود
کی خبریں ملتی ہیں۔ ہر دور میں کتے کے مختلف استعمال ہوتے رہے ہیں۔ تاریخ
میں بعض مقامات پر کتے کو "شرف" بھی بخشا گیا۔ مجھے پہلی بار کتے کی اولاد
کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع لگ بھگ چوبیس سال قبل ملا۔ ابو جی کے
کسی دوست نے ایک عدد کتے کی بچی جسے عرفِ عام میں "کتّی" یا کتیا کہا جاتا
ہے، بھجوائی۔ جن صاحب نے بھیجی وہ کوئی فوجی تھے اور مزید یہ کہ پٹھان تھے۔
تاہم ان کے حسب نسب سے میں واقف نہیں ہوں۔ شاید کوہاٹ (خیبر پختونخواہ) سے
اس کتیا کی آمد ہوئی تھی اور یہ نومولود تھی۔ امّی کی گھریلو ذمہ داریوں
میں یہ بھی ایک اضافہ ہو گیا کہ وہ اس نئی "مہاین" کی دیکھ بھال بھی کریں
گی۔ امی کے ساتھ ساتھ ہم بھی بوتل میں دودھ ڈال کر اس "مہمان کتیا" کو دودھ
پلاتے۔ بعد ازاں "زمانہ شباب" میں اس کتیا کو گھر سے رخصت ہو کر زمینوں میں
بھجوایا جانا تھا جہاں اسے رات کے اندھیرے میں فصلوں پر حملہ آور ہونے والے
انسان نما درندوں کا مقابلہ کرنے کا ہدف دیا جانا تھا۔ اس کتیا کا نام بہت
دلچسپ تھا۔ ادب اور اصولِ صحافت کے پیشِ نظر میں یہاں نہیں لکھ سکتا، صرف
اتنا عرض کرتا ہوں کہ ہمسایہ ملک کی ایک بڑی "زنانہ" شخصیت سے اسے موسوم کر
دیا گیا تھا (یہ قصداً نہیں تھا بلکہ عرفاً تھا)۔ یہ کتیا اپنے حسن و جمال
میں آس پاس کے کم از کم چالیس دیہاتوں میں لاثانی تھی۔ مجھے پورا یقین ہے
کہ فی زمانہ منعقد کئیے جانے والے مقابلہ ہائے حسن کے معیار پر اسے پرکھا
جاتا تو کم از کم وہ "مس شکر گڑھ" ضرور منتخب ہو جاتی۔ اس کے لمبے لمبے کان
جو بعد ازاں جبری جرّاحت کے ذریعے کاٹ دئیے گئے، بلوری آنکھیں، گورا چٹّا
رنگ، پتلی پتلی ٹانگیں اور ماتھے پر ہلکا سا سیاہی مائل تلک اسے اپنی معاصر
"حسیناؤں" سے ممتاز کرتا تھا۔
اسی کتیا کی خاص اور سبق آموز بات یہ کہ وہ انسانی "حسیناؤں" کے بر عکس بہت
وفا دار تھی۔ گھر کے ہر فرد کو خوب پہچانتی، گاؤں کے باہر سے ہمارے ساتھ
گھر تک بطور محافظ چلتی، راستے میں اگر کوئی انسانی شکل میں بھونکنے کی
کوشش کرتا تو اسے آڑے ہاتھوں لیتی۔ یہ کتیا "زمانہِ امن" میں انتہائی خاموش
طبع واقع ہوئی تھی تاہم کسی قسم کے خطرے کی صورت میں وہ چاک و چوبند رہتی،
یعنی غیر ضروری کلام کا تکلف نہ کرتی تھی۔
ایک صبح کسی نے گھر پر بری خبر دی کہ ہماری کتیا ایک سڑک حادثہ میں شدید
زخمی ہو گئی ہے، موقع پر پہنچ کر اسے ابتدائی طبی امداد دی اور پھر زخمی
حالت میں اسے ایک مخصوص مقام پر منتقل کیا گیا، جہاں وہ علاج اور دیکھ بھال
کے باوجود مر گئی۔
اس وفادارا کتیا کے مرنے کے بعد زمینوں کی رکھوالی کے لئیے بہت بڑے بڑے
"کتے" لائے گئے، ان کے بڑے بڑے منہ، موٹی موٹی آنکھیں، دراز قد اور خوفناک
شکلیں تھیں۔ مگر یہ کتے صرف بھونکنے والے تھے۔ یہ کتے بھونکتے رہتے، لوگ
زمینوں سے چوریاں کرتے، کچھ جنگلی جانور بھی زمینوں اور فصلوں کو نقصان
پہنچاتے مگر یہ کتے اپنی مخصوص "بھونک" کے سوا کچھ بھی نہ کرتے۔ الٹا نقصان
کہ یہ کتے گندھک ملے دیسی گھی کے پراٹھے، دودھ اور نہ جانے کون کون سے کشتے
"تناول" کرنے کے باوجود "بھونکے کتے" کا کردار ہی ادا کرتے۔
بھونکنے والے جانور کا دوسری مرتبہ قریبی تجزیہ کرنے کا موقع اس وقت ملا جب
میں میرپور (کشمیر) کی ہوسٹل لائف میں پہنچا۔ کالج کا جغرافیہ بڑا عجیب و
غریب تھا۔ چھ سو کنال پر محیط کالج میں آڈیٹوریم، ہوسٹل، میس اور میرے کمرے
تک کے سفر میں گھنٹوں بھیت جاتے۔ میرا کمرے اس کونے میں واقع تھا جس کے
بالکل سامنے جنگل، اور پھر بہت زیادہ گہرائی، کچھ فاصلے پر ایک ندی، اس کے
بعد منگلا ڈیم سے متصل سڑک اور پھر منگلا ڈیم کے نیلے پانیوں والی ایک
جھیل۔
عشاء کی نماز کے فوری بعد میں کمرہ میں داخل ہو جاتا اور کمرہ بند۔ تھوڑا
مطالعہ اور ریڈیو سننے کے بعد میں سونے کا ارادہ کرتا تو بھونکنے کی آوازیں
شروع ہو جاتیں، میرے لئیے مشکل یہ ہوتی کہ سمجھ نہ پاتا تھا کہ بھونکنے
والا جانور کس نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ کبھی اس کے بھونکنے میں غصہ، کبھی
شرارت اور کبھی کوئی "چوّل" سی حرکت محسوس ہوتی کہ اس جنگل میں نہ تو کوئی
انسان ہے نہ کوئی اور جاندار تو ان کے بھونکنے کا کیا مقصد؟؟؟ ایک دن کالج
کے کچھ سٹاف اور طلباء نے مل کر پروگرام بنایا کہ آج رات شکار کے لئیے ندی
کنارے جائیں گے۔ حسبِ ارادہ ہم نکلے تو ہمیں پوری رات بھونکنے کی آوازیں
آتی رہیں مگر کوئی بھونکنے والا ہمارے نزدیک نہ آیا۔ اگر کہیں شک ہوتا تو
زور سے پاؤں زمین پر مار دیتے، یا غرّا دیتے تو آوازیں بند ہو جاتیں یعنی
وہ کتوں کی ایک نسل جسے گیدڑ کہا جاتا ہے، وہ تھے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ
ہماری وفا دار کتیا کے مر جانے کے بعد جو کتے ہم نے پالے تھے وہ بھی ایسے
ہی تھے۔۔۔ صرف کھانے والے۔۔۔ شکاری اپنا کام کرتے اور کتے بھونکتے ہی رہ
جاتے۔۔۔
انسان اللہ کی سب سے اچھی مخلوق ہے اس لئیے اسے کتوں کے ساتھ ملانا ایک
جرم، بد اخلاقی اور توہینِ تخلیقِ خدا تعالیٰ ہے۔ مگر کئی بزرگ شعراء اور
صوفیاء نے کتے کو انسان کی نسبت زیادہ وفا شعار اور پاسدار لکھا ہے۔ اگر
کتے کی اس عادت کو انسان کے ساتھ تقابل کیا جا سکتا ہے تو اس کی کچھ بری
عادات کا موازنہ بھی کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
بھونکنے والے کتے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو صرف بھونکتے ہیں۔ اگر
آپ تھوڑے سے آگے بڑھیں تو وہ دم دبا کر چیخیں مارتے ہوئے بھاگ نکلیں گے۔۔۔
دوسرے وہ جو ہر حال میں بھونکتے ہیں۔ یہ کتے انتہائی "لیچڑ" قسم کے ہوتے
ہیں۔ ان کی تربیت زیادہ تر فٹ پاتھ، کوڑے کے ڈھیر اور گندگی کے مراکز پر
ہوتی ہے۔ یہ کتے کسی بھی صورت چپ نہیں ہوتے۔ سمجھدار لوگ ان کتوں کی پرواہ
نہیں کرتے، کیونکہ ضروری تو نہیں کہ یہ کتا ہی ہو، ہو سکتا ہے وہ کتا نما
شیطان ہو۔۔۔ لہٰذا تعوّذ پڑھئیے اور سفر جاری رکھئیے۔
کتوں کا احترام بھی کیا جاتا ہے۔۔۔ خصوصا مسلمان پڑوسی کے کتے کا احترام
کرنا چاہئیے۔ ہمارے ایک ہمسائے بابا جی ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک کتا پال
رکھا تھا، بابا جی برطانیہ چلے گئے۔ اپنے مالک کی یاد میں کتا بہت رویا۔
مغرب کے قریب کتے کی بے چینی حد سے بڑھ گئی تو وہ اپنے مالک کی تلاش میں
ہمارے دروازے پر آلپکا۔ میں نے کتے تو دھتکارا تو چچا جی نے فرمایا یہ
ہمارے ہمسائے کا کتا ہے ، اس پر ظلم نہ کرو بلکہ وہ اپنے مالک کی یاد مین
در در پر دستک دے رہا ہے۔ ۔۔ اس سے سبق حاصل کرو۔
قارئینِ کرام!
کتوں کے بھونکنے سے سبق حاصل کیجئے۔ اگر کتا وفا دار ہو تو سبق اور اگر کتا
"بکواس" کرنے والا ہے تو اسے نظر انداز کیجئیے۔ اپنے قدم جما کر رکھئیے اور
منزل کی طرف رواں دواں رہئیے۔ کتا ہمیں یہ بھی سبق دلاتا ہے کہ ہمیشہ اپنے
بڑوں کا احترام کیجئیے۔ بزرگوں کا ادب، جس کا دانہ کھا لو اس کا احترام، جس
کی نسبت مل جائے اس سے وفا کرو اور کبھی دغا مت دو۔
کتے چغلی نہیں کرتے، نہ ہی غیبت کرتے ہیں، کتے اپنی قوم میں اختلاف اور
فساد برپا نہیں کرتے، کتے جس گھر میں رہتے ہیں وہاں سب کا احترام کرتے ہیں،
شکایتیں لگا کر لڑائی نہیں کرواتے۔ اسی گھر میں موجود کچھ بچے اس کتے کو
مارتے بھی ہیں، کتا ان سے تھوڑا دور ضرور ہو جاتا ہے مگر وہ فساد نہیں
کرواتا۔
ہمارے لئیے سبق کی بات یہ ہے کہ ہماری زندگی میں بھونکنے والے رکاوٹ نہ
بنیں۔ اگر کوئی بھونک رہا ہے تو اسے نظر انداز کریں ۔ کتا ہمیں ادب و
احترام بھی سکھاتا ہے۔۔۔ جس نے ایک لفظ بھی سکھایا اس کا احترام کیجئیے۔۔۔
خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم اگر کوئی کتا (نر یا مادہ ) آپ اور
آپ کے پیاروں کے بیچ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرے۔ آپ کے علم و حکمت کی راہ
میں رکاوٹ بنے، آپ کو آپ کے اساتذہ و مشائخ، والدین، دوست احباب اور عزیزوں
سے دور کرنے کی کوشش کرے تو اسے "شمشان گھاٹ" پہنچانے میں تاخیر نہ کیجئیے۔
خصوصا ایسا بھونکنے والا جس میں چغلی، غیبت اور فساد پھیلانے کی برائیاں
موجود ہوں اس کی "چتا" بھی جلا ڈالئیے۔ |