کتابوں ،خیالوں کی دنیا کتنی وسیع ہے ۔یہ آپ کی اپنی دنیا
ہے ۔دنیا کی منافقت،ریاکاری اور جھوٹ سے پاک ۔سیاستدان ہوں یا مختلف شعبہ
ہائے زندگی کی شخصیات،سب پبلک پراپرٹی ہیں۔ان پر بات کرنا اٹھارہ کروڑ عوام
کا ’’جبری حق ‘ہے۔’’حدادب‘‘رہتے ہوئے ’’خیالوں میں موصول‘‘ ہونے والی
کتابوں پر تبصرہ حاضر ہے۔
صدر کے شب و روز
یہ کتاب شائد عجلت میں لکھی اور چھپوائی گئی ہے۔کیونکہ کتاب میں جابجا
کمپوزنگ اور بائینڈنگ کی غلطیاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔سیاہ سرورق پر
سورج ڈوبتا ہوا مھسوس ہو رہا ہے لیکن اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے قطب نما
کی مدد سے سورج کی سمت مشرق کی جانب ظاہر کی گئی ہے۔کتاب پر مصنف کا نام
سرے سے ہی موجود نہیں بلکہ کتاب کا انتساب بھی ’’ایک پردیسی کے نام ‘‘
ہے۔کتاب ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے’’میں نے کبھی سورج چڑھتے نہیں دیکھا اس
کی وجہ نیند کا نہ آنا ہے۔گولیوں کے زیر اثر جب نیند آتی ہے تو پھر جلدی
آنکھ ہی نہیں کھلتی۔شام کاسورج دامن کوہ کی وادیوں میں گم ہو جاتا
ہے۔الیکشن کا بازار گرم ہونے کے بعد ٹھنڈا ہو گیا ہے ۔میرے جو کبھی اتحادی
تھے سنا اور ٹی وی پر دیکھا ہے ان کو بری طرح شکست ہوئی ہے۔ایک شیر ہے جس
نے ہر جانب ہو کا عالم طاری کر دیا ہے ۔ ویسے تیر بھی کوئی اچھی علامت نہیں
ہے‘‘۔کتاب کی بائینڈنگ کو ادھیڑ کر میں نے خود اس کی دوبارہ بائینڈنگ کی کہ
کہیں تبصرے میں غلطی نہ رہ جائے۔کتاب میں سے سے کوئی تصویر شامل نہیں کی
گئی ہے بلکہ ماضی کے اسیر قومی اور بین الا قوامی لیڈروں کی تصویریں شامل
کی گئی ہیں۔ آزاد شاعری کی تعریف کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے ’’آزاد شاعری
مجھے اس لئے پسند ہے کہ یہ آزاد ہوتی ہے۔کوئی مجھ جیسا ہی آزادی کا مفہوم
جان سکتا ہے۔‘‘ کتاب میں جا بجا اپنی بات سمجھانے یا الجھانے کے لئے آزاد
شاعری بھی فرمانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہر طرف ہو کا عالم ہے
یوں لگتا ہے آمریت ہو جیسے
شائد اپنا ہی بویا کاٹنا پڑ رہا ہے مجھ کو
جائیں تو جائیں کہاں
سمجھے گا کون یہاں میری زبان
کتاب بہت دکھی دل کے ساتھ لکھی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔کتاب میں سرخ روشنائی سے
بہت سے پیراگر اف ہیں جن میں ایک یک پیراگراف میں مصنف لکھتا ہے ’’ابھی بہت
وقت نہیں گزرا جب قوم، ملک ،سلطنت سب کچھ ہمارے لئے تھا ،ہم سب کی آنکھ کا
تارا تھے لیکن اب محسوس ہوتا جیسے ہم سب کی آنکھ کا شہتیر ہوں ۔ہم نے جن کو
زبان بخشی تھی وہ ہم پر ہی برس رہے ہیں ۔ہمارے تراشے ہوئے پتھر کے صنم بت
خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں۔میں تو یہ سمجھا تھا کہ پاکستان بدل گیا
ہوگا لیکن لگتا ہے پاکستان بالکل ہی بدل دیا گیا ہے‘‘۔
کتاب کے آخری صفحے کو پیلے رنگ کے پھولوں سے ڈھک دیا گیا جو شائد اداسی کا
اظہار کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں دل کی بات کہنے کے لئے علامتی آزاد
نظم کا انتخاب کیا گیا ہے۔
اگر یہ جمہوریت ہے
خوف کیوں زائل نہیں ہوتا
ڈر ،ڈر کیوں جاتا ہوں
دل تو اپنا اداس ہے ہمدم
شہر کیوں مجھے ڈراتا ہے
اب کے دیکھیں جمہوریت کیا گل کھلاتی ہے
اک بپھراسمندر ہے اور ہم تنہاہیں دوستو
سر کش موجیں اب کہ کیا ستم اٹھاتی ہیں
پوری کتاب پڑھ لینے کے بعد مبصر کو اعتراف ہے کہ وہ ایک لمحے کو بھی نہیں
جانچ سکا کہ کتاب سابق جرنیلی صدر کے بارے میں ہے یا موجودہ صدر کے دل کی
کتھا ہے ۔
میں کیوں ہاری
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی تین تصویریں سرورق پر موجود ہیں دو میں وہ مسلم
لیگ قاف اور پیپلز پارٹی کے جھنڈے کے لباس میں دکھائی گئی ہیں جبکہ تیسری
تصویر میں انہیں سوالیہ کے نشان کے ساتھ دکھایا گیا ہے اس تصویر کے ساتھ وہ
ایک لمبی لائن کا معائنہ کر رہی ہیں،یہ لائن اسلام آباد سے شروع ہوتی ہوئی
ان کے آبائی علاقے کوبے چک تک پھیلی ہوئی ہے۔سرورق پر ہی ایک کیپشن موجود
ہے’’سب ہی ادھر ہیں تو ادھر کون تھا۔۔۔۔۔‘‘کتاب پر مصنف کا نام عنقا
ہے۔کتاب کا پہلا صفحہ قومی اسمبلی کے حلف نامے سے شروع ہوتا ہے ۔لیکن تاریخ
سے پتہ چلا کہ یہ سابقہ دور کا حلف نامہ ہے جو ٹہکے ،شہکے کے لئے کتاب میں
شامل کیا گیا ہے۔کتاب میں جابجا سابقہ دور کی بڑی بڑی رنگین تصویروں کوکتاب
میں شامل کیا گیا ہے جس سے ڈاکٹر صاحبہ کی جاہ و حشمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
کتاب کے آخری چند صفحات موجودہ دور کے بارے میں ہیں جس میں ڈاکٹر صاحبہ
اپنے ہارنے پر حیرت ذدہ ہیں ’’میں نے اپنے حلقے کے عوام کے لئے اتنے کام
کئے حتی کہ ان کے لئے بڑی بڑی گاڑیاں اپنے ڈیرے پر اٹھا لائی اگر یہ مجھے
مزید موقع دیتے تو میں یہاں ’’میٹرو ہی میٹرو‘‘ کر دیتی لیکن میرے حلقے کی
عوام تانگے ،ریڑھوں اور بھونڈی رکشے پر ہی خوش ہے تو ان کی مرضی۔میں نے
اپنے ملک اور اپنے لوگوں کے لئے رو،رو کر وزارتیں لی ہیں ۔لیکن لوگوں نے
میری پارٹی کا غصہ بھی مجھ پر ہی نکال دیا ‘‘۔کتاب کا آخری صفحہ کا عنوان
میں کیوں ہاری ،کتاب کا نام بھی یہاں سے ہی لیا گیا ہے۔اس آخری صفحہ میں
اپنے ہارنے کے اسباب پر داکٹر صاحبہ لکھتی ہیں۔’’سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا
ہمارے صدر سمیت سب کو امید تھی کہ ہماری پارٹی اتنی سیٹیں لے جائے گی کہ ہم
پھر بھان متی کا کنبہ جوڑسکیں گے ہم بہت خوش تھے ۔لیکن اس یوتھ نے جنہیں ہم
نے اپنے دور اقتدار میں منہ بھی نہیں لگایا تھا نہ ہی کوئی اپنی حکومت ہوتے
کوئی اسیکم ان کے لئے متعارف کروائی تھی ان کو بلے اور لیپ ٹاپ کی بانسری
نے اپنے پیچھے لگالیا ۔حالانکہ پورے حلقے کی عوام مجھے اپنی بڑی بہن سمجھتی
ہے اس لحاظ سے میں اپنی یوتھ کی پھوپھو تھی لیکن یہی یوتھ خونی رشتوں کو
بھول کر خونی ہو چکی تھی۔میں نے اظہار یک جہتی کے لئے عین وقت ایک حلقے سے
بلے کے حق میں دستبردار ہوکر یہی سمجھی کہ اب جیت یقینی ہو گی لیکن میری یہ
حکمت عملی ہی شائد مجھے ہرانے کا سبب بنی ۔پارٹی بدلنے کا ٹوٹکا مجھے پہلے
ہی آزما لینا چاہیئے تھا‘‘آخر میں چند اشعار سے اپنا مدعا بیان کرنے کی
کوشش کی گئی ہے۔
ایک لمبا سفر ہے اور میں شکست خوردہ
کون کہتا ہے موت آئی تو مر جاؤں گی
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گی
سمندر میں اتر جاؤں گی |