میاں صاحب ۔۔۔آزمائش کا سفر

گذشتہ سے پیوستہ موضوع کو جاری رکھتے ہوئے آج مختلف مدارج میں مذکورہ سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ ،موضوع عام فہم ہے کہ جمہوری حکمران تاریخ پاکستان میں پہلی بار جمہوری حکومت سے جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کر رہے ہیں ۔زرداری صاحب لاکھ بڑے برے سہی مگر انہوں نے تاریخ میں یقینا بے مثل کام کر کے تا ابد اپنا نام روشن کر دیا ۔ورنہ ماضی میں ایوان صدر جھانکنا بھی جرم کہلاتا تھااور دفعہ 58ٹو بی سروں پر لٹکتی تلوار تھی ۔تعریف اپنی جگہ مگر حقیقت کو جھٹلانا قلم کار کو زیب نہیں دیتا۔زرداری نام تو ”زر “والے کا ہے مگر عوام 5برس خوب کھجل و خوار ہوئی جس کا نتیجہ بھی سامنے ہے۔دل کو مطمئن کرنے کے ہزار بہانے ہیں مگر یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ پی پی نے جتنی سیٹیں حاصل کی ہے یہ بھی انہیں آخری چانس پرملیں ہیں اگر نواز شریف نے حکمرانی بہتر انداز کی تو پھر ”باری“ بہت دور ہے ،ہاں البتہ اگر نواز حکومت اپنی کوتائی ،کمزوری اور سستی کی بھینٹ چڑ ھ گئی تو پھر یہ نصیب کی بات ہو گی۔

نواز شریف تک عوام کی آواز پہنچانا قلم کار کا فرض ،رہی یہ بات کہ کس پر عمل کرنا ، کہاں سے آغاز اقتدار کرنا ہے وہ فیصلہ انہی کے ہاتھ میں ہے،اب ایک دن کی دوری پہ وزارت عظمیٰ کا تاج میاں صاحب کو سجنا ہے ،اس خوشی کے موقع پر عوام کو کیا ملتا ہے ،یہ بھی قیادت کا امتحان و آزمائش ہے۔عمارت کی پہلی اینٹ بتا دیتی ہے کہ عمارت کا کیا نقشہ ہوگا،عوام نے جس محبت اور امید پر ن لیگ کا فاتح جھنڈا اسلام آباد میں گھاڑا ہے اب اس جھنڈے کی حرمت ،توقیر کا سوال ہے کہ نئے حکمرانوں کو پہلے دن سے صف بندی کر کے آگے چلنا پڑے گا۔سیاست کا جو روڈ میپ بن چکا ہے اس کی روشنی میں ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ ”باری کلچر“ جلد ناکام ہو جائے گا ،کیونکہ جن کے باہمی مفادات وابسطہ ہیں انہیں عوام ٹیسٹ کیس پر رکھیں گے ۔اب نواز شریف کی سیاست کا پتا لگے گا کہ وہ کیا ڈیلیور کر سکتے ہیں ۔غربت ،بے روزگاری بڑا مسئلہ ہیں اس بارے ماضی کی حکومت کا بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے عوام کی بڑی تعداد کو فیڈ بیک دیا گیا مگر اس عمل سے مجموعی کوئی فرق نہیں پڑا ۔ورنہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کبھی بھی نہ ہارتیں ۔اب حکومت کو پہلے روز عوام تک اپنی موجودگی کا احساس پیدا کرنا ہو گا۔مزدور کی یومیہ 500روپے اور غیر ہنر مند محنت کش کی کم از کم 15ہزار روپے ماہانہ اجرت مقرر کئے جانے کا اعلان کیا جائے ۔دوسری تجویز یہ ہے کہ تمام قومی ادارے جن سے منافع متوقع ہے ،ان میں ریلوے ،واپڈا ،سٹیل مل،پی ¾آئی اے سمیت جملہ اداروں کی ناقض کارکردگی کی بناءپر اداروں کے سربراہان سمیت ان کارندوں کو فارغ کیا جائے جو ایک مافیا کے طور لوٹ مار میں ملوث ہیں ۔تیسرا کام یہ کریں کہ اشیاءخورد و نوش پر پہلے مرحلہ 30فی صد سبسڈی دی جائے ان اشیاءمیں آٹا ،دالیں ،گھی ،چینی،چاول ترجیحاً شامل کئے جائیں ۔یہ غریب عوام کی خوارک ہے کم ا کم غریب کو اس کا حق پہنچنا چاہئے ۔چوتھی تجویز یہ ہے کہ عوام تک اقتدار کے ثمرات پہنچانے کے لئے فوری بلدیاتی انتخابات کا اعلان کر دیا جائے تاکہ گراس روٹ سے سیاسی تنظیم نو ہو ،عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر کہاوت ہے کہ ”گوشت کی چوکیداری بلی کے سپرد “ ایسی بلیاں ایوان اقتدار کا طوائف کرناشروع ہیں ۔بڑی احتیاط کی ضرورت ہے کہ عوام کے دشمنوں کو سمجھنا مشکل ہے کیونکہ وہ دوست اور جانثار بن کر کہیں ماضی قریب کے حکمرانوں کی طرح نہ لے ڈوبیں۔

بہرحال یہ سوچ کر اطمینان ہوتا ہے کہ میاں برادران 90کی دہائی والے نہیں ،انہیں سب نشیب و فراز سے آ گاہی ہے ۔اب کی بار وہ تاریخ کا حصہ بننے جا رہے ہیں ۔اگر انہوں نے تبدیلی لا سکی تو تا حیات جیت گے وگرنہ جانے والوں کا حال دیکھ لیں۔5 ویںبات یہ ذہین نشیں رکھیں کہ ہمارے ملک میں بے روزگاری شدت سے بڑھ رہی ہے اسے کنٹرول کرنے کے لئے زکوة اور بی آئی سی پی کے فنڈز روک کر ان کے مصارف بدلیں ۔بہتر یہ ہو گا کہ ہر شہر اور قصبہ میں خام مال کی سہولت دیکھ کر فیکٹریاں لگائی جائیں اور ان میں بے روزگاروں کی کھپت کرنے سے کافی بہتری متوقع ہے ،ایسی فاﺅنڈیشنز قائم کی جائیں جن سے عوام کو ہر طرح کے فوائد میسر آئیں ۔جہالت بھی بڑا مسئلہ ہے اس سے نمٹنے کے لئے یکساں نصاب تعلیم ،بلا امتیاز درسی کتب مفت فراہم کی جائیں ۔ملک کی بڑا تعلیمی ادارہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو فروغ دیا جائے اور ان کی فیسیں ،کورسز 50فی صد سبسٹڈی پر مہیا کی جائیں ۔نجی اداروں میں محنت کشوں کی اجرت انتہائی کم رکھی گئی ہے اور بر وقت بھی نہیں مل پا رہی ہے ،ملک کے تمام نجی اداروں کی جانچ پڑتال اور نگرانی کا نیٹ ورک قائم کیا جائے جہاں کوئی سرمایہ دار محنت کشوں کی حق تلفی کر رہا ہو اسے دس گنا جرمانے کے ساتھ آئندہ کے لئے متنبہ کیا جائے کہ وہ اجرت سرکار کی طے شدہ ادا کرنے کا بروقت پابند ہو گا ۔یہ وہ چند نہ نظر آنے والے نکات پیش خدمت کئے ہیں جو آپ کی شروعات میں عوام توقع کرتے ہیں ۔یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اگر عوام کو ”جانے “والوں کی طرح ڈیل کرنے کی مروجہ کوشش کی گئی تو پھر آئندہ عوام سے شکوہ نہ کرنا۔گذشتہ دنوں پارلیمنٹ لاجز کی صفائی کے دوران بتایا جاتا ہے کہ سینکڑوں اعلیٰ شراب کی بوتلیں کچرے سے ملیں ہیں ۔یہ بھیانک کردار کس کی نشاندہی کرتا ہے ۔اگر ”جانے“ والے با ہوش ہوتے اور رہتے تو انہیں عوام کی نفرت کا سامنا نہ کرنا پڑتا،ایسے عناصر سے میاں نواز شریف کو احتیاط برتنا پڑے گی ۔چند تجاویز کو زیر بحث لایا ہے کالم کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے اس امیدکے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ نئی حکومت عوام کی چاہت سے اپنا بے مثل کردار پیش کر کے وطن عزیز کو چار چاند لگائے گی۔

Bashir Ahmed Mir
About the Author: Bashir Ahmed Mir Read More Articles by Bashir Ahmed Mir: 32 Articles with 23516 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.