تھوکا ہوا مال

ایک صاحب کہنے لگے یہ بچے میری پہلی بیوی سے ہیں جن کو میں نے طلاق دے دی تھی ، جب ان سے پوچھا کیوں طلاق دی ؟ کہنے لگے بدزبان تھی، ان سے پوچھا اب اس کا نکاح ہوگیا؟ کہنے لگے تھوکے ہوئے مال کو کون چاٹتا ہے۔۔۔۔؟؟؟؟؟ (استغفراللہ)

ان صاحب نے جیسی بھی بات کی بہرحال ہمارے معاشرے کی صحیح تصویر کشی کی ہے۔اس کے مقابلہ میں صحابہ کے زمانے میں جو کچھ ہوتا تھا اسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو قرآن میں کہنا پڑا کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم بیوگان کے نکاح میں غیر معمولی رغبت کے باعث انہیں عدت گزرنے سے قبل بھی نکاح کے سلسلے میں کسی نہ کسی طرح ضرور یاد کرو گے، لہٰذا اس رغبت وشوق کی رعایت کی خاطر تمہیں اشارۃ اور گول مول طریقے سے عدت سے قبل بھی پیغام نکاح بھیجنے کی اجازت ہے۔

یاد رکھیے! کل آپ کی بیٹیوں میں سے بھی کسی کو طلاق ہو سکتی ہے، اگر آپ اپنے قول وعمل سے اپنی بیوی پر اضافی ترس کا ثواب حاصل کرنے کی خاطر اپنے خاندان کا جمود توڑنے کو تیار نہیں تو ممکن ہے کہ آپ کی کسی بچی یا پوتی، نواسی کو طلاق ہو اور وہ بھی ‘‘ تھوکے ہوئے مال’’ کی فہرست میں اس طرح سے داخل ہو جائے کہ آپ کے خاندان کا کوئی مناسب اور اس بچی کا ہم پلہ اور کفو اس سے نکاح کو ‘‘ تھوکے ہوئے مال کو چاٹنا’’ سمجھے اور اس نکاح پر آمادہ نہ ہو یا ممکن ہے کہ آپ کی کوئی بچی حسن وجمال والی نہ اور آپ کا متوقع داماد یہ سوچ کر اسے مسترد کردے کہ شادی زندگی میں صرف ایک بار ہوتی ہے، جیسا کہ آپ نے اپنی باری میں بھی یہی سوچاتھا تو مسلمانوں بتاو کیا یہ عورت پر ظلم نہیں ؟؟ اگر ظلم ہے تو ظالم کون ہے۔۔۔؟؟ کیا اب بھی وہ شخص ظالم نہیں جو استطاعت کے باوجود ان حالات میں بھی ایک زوجہ پر قناعت کو سعادت سمجھے۔۔۔۔؟

کئی ایسے واقعات بھی مشاہدے میں آتے رہتے ہیں کہ ایک شخص کی بیٹی کا رشتہ نہ ہوا، اس کی عمر بڑھنے لگی تو اس نے ہر طرف سے ناکام اور پریشان ہوکر بالاخر اپنی بیٹی کو کالج میں داخل کردیا کہ خود ہی کسی سے دوستی لگا کر شادی کرلو۔

اب آپ خود سوچیں اس صورت میں کیا ہوگا ۔۔۔؟؟ کیا وہ لڑکی دوستی لگا کر شادی کرلے گی۔۔۔؟؟ کیا ہوگا یہی نا کہ وہ کبھی ایک سے دوستی لگائے گی کبھی دوسرے سے ۔ لڑکوں کو تو کوئی مسئلہ نہیں شادی تو وہ اپنی مرضی سے کریں گے کیونکہ یہ زندگی میں صرف ایک بار کرنی ہے، البتہ اس لڑکی سے دوستی وقت گزاری اور شہوت پوری کرنے کے لئے لگائیں گے، اس طرح اس بے چاری کی عزت بھی تار تار ہو جائے گی اور شادی بھی نہیں ہوگی۔
Chaudhry Tahir Ubaid Taj
About the Author: Chaudhry Tahir Ubaid Taj Read More Articles by Chaudhry Tahir Ubaid Taj: 38 Articles with 61607 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.