دل ہمہ داغ داغ شد‘پنبہ کجاکجانہم

خدا کرے یہ دور تاریخی موڑ ثابت ہواور اسکی راہ میں کوئی پتھر‘کوئی ڈنڈا‘بندوق‘چپل ‘روبوٹ اورکھیڑی یا بوٹ نہ آئیں۔شنید ہے کہ ہم اقتدار سے اقدارکی جانب بڑھ رہے ہیں مولاکرے کہ یہ سب خلوص کہ ساتھ مثبت اندازمیں جاری رہے ۔

اسباب وعوارض وہی تھے جو دائیں بازوکی سرجری کے دوران سامنے آئے تھے لیکن اب کی بار مرض کو مرض عشق نہیں بننے دیاگیا۔اور یہی وہ عمل ہے جس کی تعریف ہردوست ودشمن کر رہاہے۔اور کیوں نہ کی جائے کہ تاریخ گواہ ہے کہ بلوچستان میں ہمیشہ سرداروں کی حکمرانی رہی۔اور ایک روایتی سردار عوام کا کتناخیرخواہ ہوسکتاہے اسکااندازہ بلوچ بھائیوں کی معاشی ‘سماجی وتعلیمی ترقی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ کسی وزیراعلی نے خوب کہاتھاکہ ”میں بھی نواب اورگورنربھی نواب ‘عوام کی خدمت کون کرے؟“۔اب ئانشاللہ عوام کی خدمت عوام کانمائندہ ضرورکرے گا۔میں یہ تو نہیں کہوں گاکہ جناب مالک بلوچ صاحب نیلسن مینڈیلایانتیش کمار(ریاست بہار‘انڈیا) بن جائیں بلکہ یہ کہوں گا کہ ”جناب ایسے بن جائیں کہ مورخ نیلسن صاحب اور نتیش کمار پر آپ کو ترجیح دے“ اور ظاہر ہے کسی سے بہتر بننے کیلئے اسکی ترجیحات اور گورننس کا مطالعہ کریں گے تواُس سے بڑھ پائیں گے۔اور رہی بات شیرشاہ سوری کی تو منتظم تو وہ بھی کمال کاتھا۔

عبدالمالک بلوچ کاتعلق ضلع کیچ تربت سے ہے۔عبدالمالک کی جائے پیدائش تربت کاعلاقہ جوسک ہے۔آپ پرائمری سے لے کرمیٹرک تک گورنمنٹ سکول تربت میں زیرتعلیم رہے۔تربت کالج سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔انٹرکی تعلیم کے دوران ہی سیاسی کیرئیرکاآغاز کیا۔اور بلوچ سٹوڈنٹ فیڈریشن کے نہایت فعال رکن اور ہراول دستہ میں شامل رہے۔ایم بی بی ایس کی ڈگری کے حصول کیلئے بولان میڈیکل کالج کارخ کیااورانیس سوبیاسی میں اپنے نام کے ساتھ لفظ ڈاکٹرکااضافہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔پھر کراچی کارخ کیااوراسپنرآئی ہسپتال سے ڈپلومہ حاصل کیا۔آنکھوں کی بیماریوں کامداواکیااوراسکے ساتھ ساتھ بلوچ عوام کی پسماندگی دورکرنے کیلئے بھی ان کی آنکھوں سے پردہ ہٹاتے رہے۔بلوچستان نیشنل مومنٹ کے پلیٹ فارم سے پہلی باررکن اسمبلی منتخب ہوکر 1990تک وزیرصحت کے طورپرخدمات انجام دیں۔1990سے 1993تک وزیرتعلیم کے عہدے پرفائز رہے ‘اورحصہ بقدرجثہ تعلیمی پسماندگی دورکرتے رہے۔2003میں جس وقت بلوچستان نیشنل ڈیموکیٹک اوربلوچستان نیشنل مومنٹ کاانضمام ہوااور ان دونوں کے بطن سے بلوچستان نیشنل پارٹی کاظہور ہواتوبلوچ قوم پرست رہنماءڈاکٹرعبدالئحی بی این پی کے مرکزی صدر منتخب ہوئے ۔ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ 2006میں سینیٹر الیکٹ ہوئے۔2008اور 2012کے نیشنل پارٹی کے انتخابات میں یکے بعددیگرے عبدالمالک بلوچ ہی صدرمنتخب ہوئے ۔گیارہ مئی کو وہ کیچ تربت سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے رومانوی داستان سسی پنوں کے ہیروکاخمیراُٹھا۔اورساتھ ہی یہ کیچ کاساحلی علاقہ سرداروں کے خون آشام پنجوں سے کافی حدتک دورہے۔تربت ان علاقوں کاسیاسی مرکزماناجاتاہے۔اوریہاں کے نوجوان خوددارہونے کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی مستقبل اور اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے ہیں۔جن کی زندہ اورمتحرک مثال عبدالمالک بلوچ ہیں۔

یہ پہلے وزیراعلی بلوچستان ہیں جن کاتعلق کسی سرداریاکسی نواب گھرانے سے نہیں ہے۔متوسط طبقے کی موئثرنمائندگی کرنے میں ان کاایک مقام ہے۔مسلم لیگ ن جو بلوچستان میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی اس نے انہیں وزیراعلی نامزد کرکے مسلم لیگ نے ثابت کیاہے کہ وہ مسلم لیگ (ن)نہیں بلکہ بذات خود معماران پاکستان میں شامل ہورہی ہے اور ن کے بجائے مسلم لیگ ہے جس کی جڑیںہرصوبہ میں ہیں اوارسکی ترجیحات میں پوراملک شامل ہے(خداکرے یہ عمل جاری رہے) ‘مبالغہ نہیں یہ حقیقت ہے کہ اگراس نے اپنااقتدارسے اقدارکاسفرجاری رکھاتووہ دن دورنہیں جب یہ ترکی کی جسٹس اینڈڈویلپمنٹ پارٹی کے ہم پلہ کہلائے گی۔اورعبدالمالک کی نامزدگی کادوسراخوشگوارپہلوپختونخواہ پارٹی کے رہنماءمحمودخان اچکزئی کی سپورٹ ہے۔محمودخان اچکزئی نے تمام پاکستانیوں کوپیغام دیاہے کہ وہ جمہوریت‘اخوت اوررواداری اپنائیں۔عبدالمالک بلوچ کوچاہیئے کے بلوچوں کی محرومیاں دورکرنے کیساتھ ساتھ پختون بھائیوں میں بڑھتے احساسات کاادراک کرتے ہوئے ان کاتدارک کریں ۔کیونکہ ”anger is just one letter short of danger“۔خداان کوثابت قدم رکھے ‘تکبرسے بچائے اور ان کے راستے ہموارکرے کیونکہ یہ ہمارے اُس صوبے کہ وزیراعلی ہیں جس کے بارے میں اگرکہاجائے”دل ہمہ داغ داغ شد‘پنبہ کجاکجانہم“(دل میں زخم ہی زخم ہیں ‘مرحم کہاں کہاں رکھاجائے)توہرگزغلط نہ ہوگا۔این پی کے رہنماءمیرحاصل بزنجوکاجملہ استعماری قوتوں کے منہ پرطمانچہ ہے۔جس میں انہوں نے کہاہے کہ ہم ثابت کریں گے کہ بلوچستان پاکستان کااٹوٹ انگ ہے اورصوبہ میں لاپتہ افراداورمسخ شدہ لاشوں کاسلسلہ بندکردیں گے“۔ءانشاللہ۔

خدا کرے یہ دور تاریخی موڑ ثابت ہواور اسکی راہ میں کوئی پتھر‘کوئی ڈنڈا‘بندوق‘چپل ‘روبوٹ اورکھیڑی یا بوٹ نہ آئیں۔شنید ہے کہ ہم اقتدار سے اقدارکی جانب بڑھ رہے ہیں مولاکرے کہ یہ سب خلوص کہ ساتھ مثبت اندازمیں جاری رہے ۔

sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188633 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.