اسلام پسند حکومتیں اور فروغ و
نفاذ اسلام کی تحریکیں چلانے والی تنظیمیں دنیا بھر میں مختلف قسم کی
مخالفتوں اور سازشوں سے دوچارہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں اسلام
دشمن ظاغوتی قوتیں نہ صرف متحد ہیں بلکہ مخالف اسلام تحریکوں کو منظم کرنے
اور سازشوں کو روبہ عمل لانے کے لئے ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ہیں
چنانچہ ترکی اور مصر میں وہاں کی اسلام پسند حکومتیں مشکلات، مسائل اور
مخالفتوں سے دوچار ہیں حزنیہ تو یہ ہے کہ اغیار کی ان سازشوں کے آلہ کار
ترکی اور مصر کے مسلمان ہیں اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ مصر و ترکی
میں شورش اور حکومت مخالف سرگرمیوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ صحیح صورت حال
پیش کرنے کی جگہ نمک مرچ لگاکر بات بڑھا چڑھا کر اور صورتِ حال کو سنگین سے
سنگین تر بتارہے ہیں۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بلند ترین عمارات،
گھنٹہ گھرہوٹلیں بلکہ خلاء میں ہوٹل قائم کرنے اور انواع و اقسام کی فضول
خرچیوں میں اربوں ڈالر خرچ کرنے والے مسلمان سرمایہ دار اور حکومتیں اسلام
کے مخالفوں کے مخالف اسلام پروپگنڈہ کو ناکام بنانے کے لئے قابل لحاظ حدتک
قابل قدر ذرائع ابلاغ کے قیام و فروغ کو ممکن بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی
ہیں۔
’’بہار عرب‘‘ کی آمد و کامیابی نے اسلام کے مخالفوں کو لرزہ براندام کردیا
تھا خاص طور پر مصر میں اسلام پسندوں کے برسراقتدار آنے سے صیہونی تحریک کو
کامیاب بنانے والوں خاص طور پر برطانیہ امریکہ اور اسرائیل کے پیروں تلے
زمین نکل چکی ہے۔ مارے جھنجھلاہٹ کے روزاول سے ہی سازشوں کا بازار گرم
کررکھا ہے اور شورش پسند یا تخریب پسند مبصر و ترکی میں مسلمان ہی ہیں۔ مصر
میں صدر مرسی کے لئے ہر قسم کی مشکلات کھڑی کرنے کی غداری مصر کی عدلیہ
کررہی ہے جو کہ حسینی مبارک کے دور کی ہے او ر اس المیہ پر غم و غصہ کرنے
سے قبل یہ بھی پڑھ لیں کہ استنبول میں ’’غازی پارک‘‘ میں کچھ تعمیری کام کے
منصوبہ کی مخالفت میں ترکی بھر میں احتجاجی مظاہرے، دھرنے اور ہنگامے ہورہے
ہیں ! صاحبو! کیا کسی بھی ملک میں کسی پارک کی سرسبزی کو بچانے کی خاطر ایک
شہر میں اس قدر ہنگامہ آرائی عوام اپنے طور پر کرسکتے ہیں؟ یہی نہیں بلکہ
اتنی سی بات پر ملک کے تقریباً 70 شہروں میں حکومت کے خلاف مظاہروں کا
انعقاد ممکن ہے؟ اور یہ تقریباً ناقابل قیاس و گماں باتیں صرف اور صرف
اسلام دشمنوں کی کسی ایسی سازش کے ذریعہ ممکن ہے جو ترکی سے ہزاروں میل دور
کہیں تیار کی گئی منصوبہ بند سازش کی گئی ہو۔ 2002ء میں ترکی کے اسلام پسند
اپنے اوپر اسلام پسندی کی مہر یا لیبل لگائے بغیر برسراقتدار آئے تھے اور
طیب اردغان وزیر اعظم بنے تھے۔ ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے ترکی کی فوج،
پارلیمان، عدلیہ اور انتظامیہ نے (جو مصطفےٰ کمال کی سیکولر دراصل اسلام
دشمن روایات پر عمل کرتی آرہی ہے) جا ن توڑ کوشش کی لیکن ناکام رہی تو اب
اپنے زرخرید تخریب کاروں اور شورش پسندوں کو آزمایاجارہا ہے اور استنبول کے
ممتاز تقسیم چوک کو قاہرہ کے ’’تحریر چوک ‘‘سے تشبیہ دے کر حکومت کی تبدیلی
یا زوال کا اشارہ دیا جارہا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں مسلمان بڑی آسانی سے اپنے ملی دھارے سے الگ
ہوجاتے ہیں وہ سب مل کر ﷲ کے حکم کے مطابق اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے نہیں
پکڑسکتے ہیں یا نہیں پکڑتے ہیں اس کی اصل وجہ تو عالم دین بتاسکتے ہیں، ہم
تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا ایمان کمزور ہے اسی لئے آسانی سے بکتے ہی نہیں
بلکہ بہک بھی جاتے ہیں اور سیکولرازم، اشتراکیت(کمیونیزم) اور بے دینی کے
نظریات آسانی سے قبول کرلیتے ہیں ’’اسلام کو نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ
کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں جدید تعلیم سے آراستہ اس قسم کے نعروں سے جلد
متاثر ہوتے ہیں اسی لئے ترکی، مصر ، عراق، لبنان وشام و غیرہ میں دین سے
بیزاری کی جڑیں زیادہ گہری ہیں کیونکہ یہاں خواندگی کا ہی نہیں اعلیٰ تعلیم
کا اوسط و معیار بلند ہے۔ علاوہ ازیں نو آبادیاتی اور اس کے خاتمے کے بعد
طویل عرصہ میں مخالف اسلام عناصر نے بڑی چالاکی و عیاری سے عوام کی دماغی
تطہیر (Brain Wash) کرتے ہوئے اسلام بیزاری اور اسلام کو قدامت پرستی کا
مظہر ہونے جیسے نظریات سے ان کے دل و دماغ کو آلودہ کردیا۔ منصوبہ بند
طریقوں سے غیر محسوس طور پر مسلمانوں کو دین کے راستے سے منحرف کیا۔
ترکی کے بعد مصر میں جنگ عظیم دوم کے دوران اور اس کے بعد شاہ مصر فاروق
مرحوم کے زمانے کے بعد کرنل ناصر کے زمانے حسنی مبارک کے دور حکومت کے
خاتمے تک مذہب سے دوری، اسلام بیزاری کو خوب فروغ حاصل ہوا خاص طور پر جب
انور سعادت نے اسرائیل سے دوستی کی تو مصری معاشرہ پر اسلامی اثرات اور بھی
کم ہوگئے چنانچہ حسنی مبارک کی عدلیہ میں بھی دین بیزاری رچ بس چکی ہے قبل
ازیں بھی بلکہ جب سے مرسی نے اقتدار سنبھالا ہے ان کے خلاف سیاسی سازشوں کے
ساتھ ہی حسنی مبارک کے دور کی عدلیہ نے مرسی کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کی ہیں
اور اب مصر کی عدالت عظمیٰ نے اسلام پسند حکومت کو اس شدید صدمہ سے دوچار
کیا جب اس نے (ان دو قوانین کو جن کے تحت پارلیمان کا ایوان بالا مجلس
شوریٰ اور مجلس دستور ساز کا انتخاب عمل میں آیا تھا) کاالعدم قرار دیا ۔
عدالت نے دستور کو برقرار رکھا ہے کیونکہ یہ عوامی استصواب سے منظور کروایا
گیاتھا جوکہ دسمبر 2012ء میں منعقد ہوا تھا ۔ مصر کی وہ حزب مخالف جو خود
کو سیکولر کہتی ہے جس کے اہم قائد امریکہ کے پسندیدہ اور اقوام متحدہ کی
جانب سے نگراں نیوکلیر کمیٹی کے صدر محمد البرداعی ہیں نے اس پر اظہار مسرت
کرتے ہوئے کہا کہ اب دستور کی تیاری قانون کے مطابق ہوگی۔ غور فرمائیے جس
حزب مخالف کے قائد امریکہ کے تابعدار البرداعی جیسے لوگ ہوں گے وہ کس تماش
کے ہوں گے؟ عدالت عظمیٰ نے صدر مرسی کے اختیارات پر بھی قدغن لگائی ہے یہ
اختیارات 1958ء سے صدر کے ہنگامی حالات میں اختیارات کے تحت نافذ العمل
ہیں۔ قبل ازیں حسنی مبارک کے دور میں ان کو چیلنج کیا گیا تھا لیکن عدلیہ
نے ان کو برقرار رکھا یعنی مصر کی عدلیہ دہرے معیارات کی شکار ہے۔ اسرائیل
کو مصر و ترکی کی اسلام پسند حکومتوں سے عمومی اور فلسطین سے خاص طور پر
زبردست خطرہ ہے یہ ہے کہ جس طرح مصر و ترکی نے فلسطین کی آزادی کی تحریک
اور فسلطینیوں کی ہر طرح مدد کی ہے اس سے اسرائیل بے حد خوف زادہ ہے۔ اس
لئے امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے ایجنٹ دونوں ملکوں میں اپنے زرخرید
غداروں بلکہ اسلام دشمنوں کی مدد سے مجرمانہ سازشوں میں مصروف ہیں۔
ترکی کے وزیر اعظم طیب اردغان نے کہا ہے کہ شورش پسندوں کی بے جواز ہنگامہ
آرائی سے حکومت اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کرے گی۔ سلطنت عثمانیہ کے زمانے کی
فوجی بیرکوں اور شاپنک سنٹرس کی تعمیر کا منصوبہ مکمل ہوگا۔
طیب اردغان نے ابتداء میں مظاہرین پر ضرورت سے زیادہ سختی کرنے کا اعتراف
کرکے بلاشبہ فراخ دلی مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی باور کیا
جارہا ہے کہ ترکی کی پولیس کی کچھ عناصر بھی اس مخالف حکومت سازش میں شریک
ہیں۔ سیکولرازم کے حامی ترکی میں خاصی تعداد میں اسی طرح موجود ہیں جیسے
اپنے ملک میں۔ انتظامیہ کے ہر شعبہ میں سنگھ پریوار والے سرگرم عمل ہیں۔ ان
ہی لوگوں نے غیر ضروری سختی عمداً کرکے صورت حال کو سنگین بنانا چاہا ہے۔
یہی صورتِ حال مصر میں خاص طور پر عدلیہ ہے۔
ترکی میں ذرا سی سختی کی گئی تو حقوق انسانی والے تڑپ کر رہ گئے لیکن
انسانیت کے ان غم خواروں اور فکر مندوں کو شائد امریکہ کے گوانتاناموبے کے
فوجیوں اور مانمار میں بدھ مت کے ماننے والوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل
عام، نسل کشی اور لوٹ مار نظر نہیں آتی ہے۔ صرف زخمی کرنے والوں کا ظلم ظلم
ہے اور قتل عام کرنے والوں کی سفا کی کو یہ سفا کی نہیں مانتے ہیں۔ ترکی
اور مصر کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا نہ کسی کو حق ہے نہ اس کا
کوئی جواز ہے۔ |