ہنڈرڈ ڈیز

مدتوں پہلے دیکھی ہوئی ایک ہندی فلم ہنڈرڈ ڈیز اچانک یاد آ گئی جس میں ہئروئن کا نام دیوی ہوتا ہے اور اس کی زندگی کا مقصد کسی کی تلاش ہے اپنے مقصد کے حصول کی خاطر وہ ماری ماری پھرتی ہے اور ہنڈرڈ ڈیز نامی اس فلم کی کہانی میں پانچ سال کی تلاش بسیار اور سعئی ناکام کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ دیوی کو اپنے دلہا کے گھر کی دیوار میں مدفون ایک لاش کا ڈھانچہ ملتا ہے اور یہ لاش اسی شخصیت کی ہوتی ہے جس کی تلاش میں دیوی پانچ برس ٹکریں مارتی ہے۔ اس فلم کے پانچ سالوں کی طرح ہمارے ہاں عام طور پر جمہوری حکومت کی مدت بھی پانچ برس ہوتی ہے اورظاہر ہے ان پانچ سالوں کے پہلے ہنڈرڈ ڈیز نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

حالیہ الیکشن کے نتیجے میں اقتدار کی دیوی کے دلہا میاں کا سہرا جناب نواز شریف کے سر سجا ہے اور یوں بے شمار مسائل کے کانٹوں سے سجی حکومتی سیج ان کی راہ دیکھ رہی ہے میاں صاحب نے اپنے حکومتی ہنی مون کے ابتدائی سو دنوں کا جو خاکہ مرتب کیا ہے وہ ہنی مون کی بجائے ان کا ایک سخت اور مشکل امتحان ہے ان کے اگلے پانچ برسوں کی کامیابی کا انحصار خاصی حد تک اپنے ابتدائی سو دن کی کامیاب یا ناکام کارکردگی پر ہے ۔ عام طور پر تو ہر حکومت اپنے ابتدائی سو دنوں کا ایجنڈا رسمی طور پر ہی پیش کرتی ہے اور اس کے حصول کے لئے کوئی خاص جد و جہد نظر نہیں آتی، لیکن میاں صاحب ایک منجھے ہوئی سیاستدان ، تجربہ کار حکمران اور مسائل کا ادراک رکھتے ہیں لہذا امید رکھنی چاہئے کہ وہ اپنے اس ایجنڈے پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے اور ’جوش خطابت‘ میں بھی وہ کوئی ایسی بات نہیں کریں گے جس کا حصول ناممکنات میں سے ہو اور ان کی کامیابی کے راستے میں رکاوٹ بن جائے۔میاں صاحب نے پانچ سالہ دور اقتدار کے پہلے سو دن کے لئے اپنے لمبے چوڑے منشور کو بنیاد بنا کر ایک دس نکاتی ایجنڈا ترتیب دیا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اپنے اس پروگرام پر عمل کرتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے آگے بڑھیں گے۔سردست ان کے اس ایجنڈے کے اہم نکات میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں خاطر خواہ کمی ، افراط زر میں کمی، لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال میں بہتری ، اعتماد سازی اور روزگار کی ہرممکن فراہمی سر فہرست ہیں ۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بارے میں تو ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں خاطر خواہ کمی کے لئے ایک سو پچاس ارب روپے ماہانہ کا خرچ اٹھے گا اورملک کی معاشی صورت ایسی نہیں کہ اتنی بڑی رقم کا انتظام کیا جا سکے تو اس کا مطلب ہے کہ سو دن کے حکومتی ایجنڈے کے پہلے ہی مسئلے کا حل ایک امر مشکل ہے ۔ افراط زر میں کمی کے لئے معاشی بحالی پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے جس میں صنعت و تجارت کی بہتری ، انفراسٹرکچر ، ٹیکس اور مالیاتی شعبے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے تاہم توانائی کی عدم فراہمی صنعت وتجارت کی ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور صنعت و تجارت کی ترقی اور مالیاتی شعبے میں اصلاحات کا آپس میں گہرا تعلق ہے اگر صنعتی شعبے میں بہتری نہیں آتی تو ٹیکس اور مالیاتی شعبے میں کی گئی تمام اصلاحات رائیگاں جائیں گی اور ان سے ضروری نتائج کا حصول ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ میاں صاحب نے اپنی الیکشن مہم کے دوران یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ ماہانہ کم از کم اجرت اٹھارہ ہزار روپے کر دیں گے، بہتر تو یہ ہے کہ اس وعدے کو بھی جوش خطابت کا شاخسانہ قرار دے کر خاموشی اختیار کی جائے کیونکہ اگر اس فیصلے پر آئندہ بجٹ میں عمل کیا گیا تو یہ معاشی خودکشی کی ایک کوشش ہو گی جس کی وجہ حکومتی ملکیتی اداروں کا بھاری خسارہ ، حکومت کے لئے محدود ذرائع آمدن ہیں اور معاشی وسائل اس بات کے متحمل نہیں ہو سکیں گے کہ حکومتی سر پرستی میں چلنے والے اداروں کے لاکھوں ملازمین کی تنخواہ میں بے ہنگم اضافے کا بوجھ بھی ملکی بجٹ پر ڈال دیا جائے، لیکن اگر کم از کم اجرت والے اس فیصلے پر عمل درآمد ہو جا تا ہے تو یہ افراط زر میں اضافے کا سبب بنے گا کیونکہ اس مد میں بھاری ادائیگی کے لئے یا تو شرح سود میں اضافہ کیا جائے گا یا ہمیشہ کی طرح بغیر سوچے سمجھے کرنسی نوٹ چھاپے جائیں گے جس کا لازمی نتیجہ قوت خرید میں کمی اور افراط زر میں اضافہ کی صورت میں نکلے گا۔ معاشی اور اقتصادی احیاء کے لئے کاروباری طبقے کے اعتماد کی بحالی بھی ایک اہم اور ضروری امر ہے اس کے حصول کے کئے ضروری ہے کہ حکومت اپنے ابتدائی سو دنوں میں ٹھوس اقدامات کرے اور اپنے فیصلوں میں کاروباری طبقے کو شامل کرے اور ان کی ہر ممکن مدد حاصل کرنے کی کوشش کرے ، غیر ملکی منڈیوں تک رسائی نہایت ضروری ہے اور تجارتی لحاظ سے بھارتی منڈیوں تک رسائی کی کوشش کرے اور کسی مخالفت کو خاطر میں نہ لائے ، کاروباری لاگت میں کمی کرنے کی کوشش کرے اور توانائی اور کم شرح سود پر قرضوں کی فراہمی ممکن بنائے کنزیومر بینکنگ کی جاحانہ پالیسی اور مساوی بنیادوں پر مقابلے کی فضا قائم کی جائے تا کہ ملکی میعشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔ نوجوانوں کے روزگار کا مسئلہ اپنی جگہ ایک بڑا اور اہم معاملہ ہے لیکن اس کے لئے تا حال کوئی مؤثر پالیسی مرتب نہیں کی گئی اب تک کے اعلانات کے مطابق بے روزگار نوجوانوں میں ٹیکسیوں کی تقسیم اور قرضوں کے اجراء کی بات ہی کی گئی ہے ۔ جہاں تک روزگار کی مد میں ٹیکسی اسکیم چلانے کا تعلق ہے تو یہ ایک مہنگا ، ناپایدار اور ناقابل عمل قسم کا منصوبہ ہے اور اپنے پچھلے دور میں میاں صاحب اپنے اس منصوبے پر عمل کر چکے ہیں جس کے کوئی خاص نتائج نہیں نکلے تھے اور موجودہ حالات میں جب ملک پہلے سے پٹرول اور گیس کی قلت اور مہنگائی کے بحران کا شکار ہے تویہ منصوبہ میعشت کی ڈوبتی کشتی میں ایک اور پتھر ثابت ہو گا اور مثبت کی بجائے منفی نتیجہ دے گا، اس لئے بہتر تو یہ ہے کہ جو رقم اس کام کے لئے مختص کی گئی یا کی جائے گی اس سے ڈوبتے صنعتی اداروں کی مدد کی جائے اور تمام صنعتی اداروں کو ان کے حجم کے اعتبار سے قرضے اور مراعات فراہم کی جائیں اور تمام مراعات کو کم از کم روزگار اور افرادی قوت کی شرح کے ساتھ مشروط کیا جائے اس پر سخت عمل درآمد سے یقینی طور پر بے روزگاری کی شرح میں پانچ سال کے دوران مناسب کمی لائی جا سکتی ہے ۔ اس تمام عمل کو مکمل کرنے کے لئے ایک مناسب اور مؤثر پالیسی تیار کی جائے ورنہ بغیر سوچے سمجھے دئے گئے قرضے اور ٹیکسی اسکیمیں صرف اور صرف وسائل کا ضیاع ثابت ہوں گی اور نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سالوں کے پیداکردہ مسائل کا حل دنوں میں نہیں نکلتا اور میاں صاحب کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ پلک جھپکتے میں تمام مسائل حل ہو جائیں حکومت کے استحکام اور مسائل کے حل کے لئے یقینی طور پر وقت درکار ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات ذہن میں رہے کہ عوام مسائل کا حل چاہتی ہے اور ان کے مسائل کے حل کے لئے جان توڑ کوشش کرنی ہو گی ، صرف بیانات،کئے گئے وعدوں کو جوش خطابت کہہ دینے سے یا آنیاں جانیاں دکھانے سے معماملات الجھتے چلے جائیں گے اور حکومت اس دلدل میں دھنستی چلی جائے گی۔

اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اقتدار کے پانچ سال کے پہلے ہنڈرڈ ڈیز میں غیر معمولی کارکردگی دکھائی جائے اور اگر ان سو دنوں میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کی گئی تو یاد رکھیں پھر ان ہنڈرڈ ڈیز کی ناکامی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پانچ سال بعد حکومتی دیوی کو بھی ایوان اقتدار کی دیوار میں دفن شدہ ناکامی کی لاش کے ڈھانچے کا سامنا کرے پڑے گا۔
Rashid Mehmood
About the Author: Rashid Mehmood Read More Articles by Rashid Mehmood: 20 Articles with 29176 views I am a qualified CPA and professional Financial and Audit Manager with over 12 years of experience in a variety of industries in key roles at national.. View More