وہ ذراسی بات جو تصوف کا حاصل ہے،وہ یہ کہ جس طاعت وعبادت میں سستی وکاہلی
ہو،اس میں نفس کا اور شیطان کا مقابلہ ومقاومہ کر کے اس طاعت وعبادت کو بجا
لائے اورجس گناہ ونافرمانی کا تقاضا یا خواہش ہو ،اس نفسانی و شیطانی اشتہا
کا ایسا مقابلہ وسامنا کیا جائے کہ اس معصیت ،گناہ اور نا فرمانی سے بچا
جائے۔بس جس کسی کو یہ بات یایہ ملَکہ ،وصف اور خاصیت حاصل ہوگئی، اس کو سب
کچھ مل گیا ،گویا قلندری میں سکندری مل گئی، کیونکہ یہی بات تعلق مع اﷲ
پیداکرنے والی ہے ، یہی تصوف، تزکیہ،طریقت اور احسان کی محافظ ہے ، اور یہی
اس کو بٹرھاوادینے والی ہے ، ﴿فاتقواﷲ مااستطعتم واسمعواواطیعوا۔۔۔﴾(التغابن:16)اس
آیت کریمہ کا اگربغور جائزہ لیا جائے اورحضراتِ مفسرین وصوفیائے کرام کی
تشریحات جو اس کی ضمن میں ہیں کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے ،تو خلاصہ
ومصداق وہی ہو گا جو اوپر والے پیرا گراف میں مرقوم اور آنے والے شعر میں
مذکور ہے ۔
زندہ کنی عطائے تو ،وربکشی فدائے تو جاں شدہ مبتلائے تو،ہرچہ کنی رضائے تو
لیکن ہمارے یہاں کا تصوف کچھ وجوہات کی وجہ سے اس راہ سے ہٹا ہوا ہے ،
دوسری صدی ہجری ہی میں اسلام اور اہل اسلام سے سرزمینِ ہند وپاک متعارف
ہوگئی تھی، اسلامی فوجیں ملتان تک آگئی تھیں اور عرب وہند کے باشندوں کی
آمد ورفت اور انتقال آبادی کی راہیں کھل گئی تھیں، مگر بد قسمتی سے قرامطہ،
اسماعیلیہ اور باطنی صوفیا، جن کے عقائد وخیالات کی سر زمین ِعرب میں کوئی
جگہ نہ تھی، ان کے خیالات کے حاملین کی گردنیں اڑادی جاتی تھیں ، ان لوگوں
نے ہند وستان کا رخ کرلیا، جہاں صدیوں سے وثنیت وصنم پر ستی کا راج تھا، یہ
سر زمین مشرکانہ عقائد ونظریات کے لئے بہت ساز گار تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ
یہاں اسلام کے نام پر اسلام کے متوازی’’عجمی اسلام‘‘ رواج پاگیا جس کا اصل
اسلام سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا، پاک وہند میں تعارف اسلام کا دوسر ا بڑا
ذریعہ ترکستان اور ماوراء النھر سے آنے والے وہ اہل علم تھے جن کاعلمی
سرمایہ منطق وفلسفہ ، ہند سہ وریاضی ، فقہ وحکمت ، علم الکلام کے مسائل اور
دوسرے عقلیات وغیرہ تھا، اصحاب فقہ وفتاوی کی نظر اجتہاد کے بجائے الفاظ کے
ظاہر پر تھی ،جب شیر شاہ سوری نے مغل بادشاہ ہمایوں کے خلاف بغاوت کر کے
اسے ہندوستان بدر کیا توہمایوں کو ایران میں پناہ لینا پڑی ، اور ایرانیوں
ہی کے تعاون سے وہ دوبارہ ہندستان پر قابض ہواتو ایرانی اثرات بالخصوص
باطنی عقائد کا اثر ونفوذ یہاں بہت بڑھ گیا۔
عرب وترکستان اور افغانستان سے آنے والے مسلمان ہوں یا ہندستان کے نو مسلم
چونکہ انہیں ہندوستانی معاشرے میں رہناتھا، اس لئے معاشرتی اقدار ورسوم کے
اثرات نے بھی اپنا رنگ دکھا ناتھا ، یوں دسویں صدی ہجری تک مسلمانوں اور
اہل اسلام کے عقائد کی شکل وصورت قبور پرستی ، اﷲ تعالی سے بے خوفی اور غیر
اﷲ بالخصوص اولیاء وصالحین سے خوف خشیت ، اہل قبور سے استعانت واستغاثہ ،
ان سے فریادرسی ، حاجت براری کی توقع ، دعا واستغفار ، استمد ادوطلبِ حوائج
، ان کی خوشنودی کے لئے ان کے نام کی نذر منت اور حیوانات کے ذبیحے ، رسول
ﷺ بعض صحابہ ؓ ، اہل بیت اور ہزاروں بزرگان دین کے ساتھ الوہیت کے درجے کا
اعتقاد ، انہیں صفات ربانی سے متصف سمجھنا، ان کو علم الغیب ، سمیع وبصیر
جان کر حاجات ومشکلات میں غائبانہ پکار جیسے عقائد شامل ہوگئے۔
حضر ت مجدد الف ثانی شیخ احمد سر ہندی ؒ پہلے شخص تھی جنہوں نے ارض ہند میں
قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کیا اور قرآنی عقائد اور نبوی اعمال کی
پوری قوت سے دعوت دی ، غیر قرآنی عقائد واور غیر نبوی اعمال کی پرزور
مخالفت کی اور فصوص کے مقابلے میں نصوص کی اہمیت کوواضح کیا، جس کا اندازہ
’’ مکتوبات امام ربانی ‘‘ کے مطالعے سے بخوبی کیا جاسکتاہے۔
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا اور درس قرآن کے علاوہ
اس وقت کی دفتری وسرکاری ،علمی وتصنیفی زبان فارسی میں قرآن پاک کا ترجمہ
کرکے اور اس کے درجنوں بلکہ سینکڑوں نسخے تیار کر واکے ہندوستان میں قرآن
فہمی کی بنیاد رکھ دی ، اور اس سے کس کو انکار ہے کہ قرآن توحید ربانی کی
سب سے بڑی دستاویز ہے ،جو شرک او رتوحید کے درمیا ن نہ صرف فارق ہے، بلکہ
قرآن شرک کی تمام رگوں کو کاٹ کر رکھ دیتاہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ شاہ صاحب کا یہ کارنامہ ان کے دوسرے تمام علمی کارناموں اور
دینی خدمات پر بھاری ہے ، کیونکہ اس کے بعد ہندوستان میں قرآن فہمی کی
تحریک پیدا ہوگئی ، چند روایتی اور کلامی مولویوں نے شا ہ صاحب کی زبردست
مخالفت بھی کی ،مگر جو کام قدرت کی طرف سے مقدر تھا، وہ ہوچکاتھا، شاہ صاحب
نے بھی اس مخالفت کی پرواہ نہ کی اور یہی بہتر تھا،یہ وہ زمانہ تھا جب اردو
زبان نے فارسی کی جگہ لینا شروع کردی تھی اور بارہویں صدی ہجری کے آخری
عشروں میں اردو میں تصنیف وتحریر کا سلسلہ شروع ہوگیاتھااور جلد ہی اردو
زبان میں بھی ترجمہ قرآن کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی ،جسے ان کے صاحبزادے
شاہ عبد القادر نے پورا کیا ، اس کے بعدشاہ رفیع الدین دہلوی ؒ نے اردو ہی
میں تحت اللفظ ترجمہ کر کے قرآن فہمی کی ایک اور منزل سر کردی ،ا ن بزرگوں
کے کام کو اسی خاندان کے دو افراد شاہ اسماعیل اور شاہ اسحاق دہلوی ؒ نے
آگے بڑھایا۔تصوف کو ان ہی بزرگوں کے انداز پڑھا اور سمجھا جائے، ورنہ فکری
اضطراب کا اندیشہ ہوگا۔ |