پرتگال - یورپ کا قدیمی تاریخی ملک

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(10جون:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

پرتگال جنوب مغربی یورپ کاملک ہے جوبحراوقیانوس کے کنارے پر آباد ہے۔اس کے مشرق اور شمال میں صرف اسپین کا ملک ہے۔پرتگال کسی اور ملک کے پڑوس سے محروم ہے۔ایک طرف اسپین اور دوسری طرف سمندرکی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی موجیں ہیں۔جزیرہ نمائے ’’آئیبیریا‘‘کاکم و بیش سولہ فیصد علاقے پرتگال کاقبضہ ہے۔اس ملک کاکل رقبہ لگ بھگ ساڑھے پنتیس ہزار مربع میل ہے ۔اپنے مختصر رقبے کے برعکس دنیا کے بین الاقوامی معاملات میں عام طور پر اور یورپ کے معاملات میں خاص طور پراس ملک کاکردارہمیشہ سے بہت بڑا رہاہے ۔نیٹو اور یورپی یونین کا رکن ہونے کے باوجود معاشی اعتبار سے یہ یورپ کا ایک غریب ملک بلکہ سب سے زیادہ غریب ملک ہے۔قبل از تاریخ کے زمانے سے ہی اس ملک کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر یورپ پر باہر سے آنے والے اس ملک کے راستے سے اس براعظم میں داخل ہوتے رہے۔پرتگال میں موجود زمانہ قدیم کی غاریں اور اس زمانے کی باقیات قدیمی زمانے کی تہذیبوں کا پتہ دیتے ہیں۔رومیوں کے زمانے کے آباد کیے ہوئے شہر اور ان میں رومیوں کی عمارات آج بھی انکا پتہ دیتی ہیں۔رومیوں کے بعد ،سی بی،گاتھ اور مسلمانوں نے بھی یہاں ایک طویل عرصہ تک حکومت کی۔آٹھویں صدی میں مسلمانوں حکمران زیادہ تر اسپین کے شہروں سے یہاں پر اپنے احکامات صادر کرتے تھے۔اس ملک کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کی تاریخ میں یہودیوں نے بھی اپناایک کردار اداکیاہے۔868ء میں پرتگال باقائدہ سے عیسائی ریاست بنادی گئی جبکہ 1139ء میں یہاں پر ایک آزاد اور خودمختار شاہی ریاست کاآغاز ہوا۔

پرتگال کے لوگ اپنی جسمانی ہیئت میں پورے یورپ میں اپنی جداگانہ شناخت رکھتے ہیں۔بہت سی دیگرخصوصیات کے علاوہ انکی نیلی آنکھیں،کالے اورگھنے کھنگریالے بال اور پھیکے رنگ کی جلدپرتگالیوں کو پورے یورپ کے لوگوں سے جدا کرتے ہیں۔یہاں پچانوے فیصد لوگ رومن کیتھولک چرچ کے ماننے والے ہیں اور بمشکل ایک فیصد ہی پروٹسٹنٹ چرچ کے پیروکار ہیں۔پندرہوں صدی کے وسط سے یہاں پر یہودیوں کی ایک قابل قدر تعداد بھی ہمیشہ موجود رہی ہے۔ملک کی اکثر آبادی گاؤں کی باسی ہے جہاں کھیتی باڑی اور جانوروں کی پرورش شوق سے کی جاتی ہے،چھوٹی چھوٹی بستیاں اور انکے ساتھ بڑے بڑے کھیتی میدان جن میں لہلہاتی فصلیں اور چرتے ہوئے جانور پرتگالی زندگی کی ثقافتی پہچان ہیں۔ساحلی علاقوں میں مچھلی سے بھی بے شمار لوگوں کا روزگار ایک زمانے سے نسل در نسل وابسطہ رہاہے اور اب بھی ہے۔

تاریخی طور پر پرتگال اس وقت ایک خوشحال ملک تھا جب اس کے ڈانڈے ایشیا،افریقہ اور جنوبی امریکہ سے بھی ملتے تھے،اس وقت یہاں پر گویا دودھ اورشہد کی نہریں بہتی تھیں کیونکہ ان مذکورہ علاقوں کی دولت سمٹ سمٹ کر پرتگال میں جمع ہوتی رہتی تھی۔اس دولت سے چونکہ یہاں کا بنیادی صنعتی ڈھانچہ تعمیر نہ کیاجاسکاجس کے باعث یورپ کے دوسرے ملک کارخانہ سازی کی بدولت بہت آگے نکل گئے اور پرتگال معاش کی اس دوڑ میں سب سے پیچھے رہ گیا۔1974ء کے انقلاب کے بعد پرتگال کی معیشیت کوایک اور دھچکایوں لگا کہ وہ پرتگالی جو بیرون ملک مقیم تھے اور زرمبادلہ کا بہت بڑا ذریعہ تھے ،انقلاب کے بعد پرتگال نے ان سے معاشی تعلق ختم کردیا۔تاہم یکم جنوری 1986سے یورپی کیمونٹی کا رکن بننے کے باعث رکی ہوئی بلکہ زوال پزیراقتصادی صورت حال مثبت پیش رفت کی وجہ سے رینگنے لگی ہے۔یہاں کے نجی تعلیمی ادارے سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر ملک کی بھاری اکثریت کی تعلیم و تربیت کی ذمی داری نبھاتے ہیں۔یہاں پر بہت سے فلاحی ادارے ہیں جو مزدوروں کے لیے ان کے مشکل اوقات میں انکے لیے اور اور انکے خاندانوں کے لیے معاونت کا بہترین نظام رکھتے ہیں۔سرکار کی طرف سے مزدوروں کے بیمہ کا لازمی نظام رائج ہے جس کی کہ ہر کارخانہ و بڑے کاروباری ادارے کو پابندی کرنی پڑتی ہے۔نجی اور سرکاری دونوں طرح کے شفاخانے پائے جاتے ہیں جبکہ مفت علاج کے ادارے بھی مریضوں کی کافی خدمت کر دیتے ہیں۔

پرتگال میں گرمیوں کے دوران24ڈگری سینٹی گریڈ اور سردیوں میں تین سے چار ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت رہتاہے۔چالیس انچ تک سالانہ بارش بھی یہاں ہوتی ہے۔پرتگال کی ایک تہائی زمین جنگلات پر مشتمل ہے ۔ملک کے بعض علاقوں میں اتنے گھنے جنگلات ہیں کہ کھیتی باڑی بھی بہت مشکل سے ہوتی ہے۔جنگلات کے باعث یہاں پر لکڑی کی صنعت بہت بڑی سمجھی جاتی ہے ۔پہاڑوں پر واقع ان جنگلات میں پہاڑی بکریاں،پہاڑی خنزیر اورہرن بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں۔دوردراز کے علاقوں میں خرگوش،جنگلی خونخوار بلے اورلومڑیوں کی کچھ نایاب نسلیں بھی ملتی ہیں۔گندم،مکئی اورچاول یہاں بڑے پیمانے پر کاشت کیے جاتے ہیں جبکہ ٹماٹر،آلواورانگور کی کاشت بھی بہت وسیع پیمانے پر ہوتی ہے۔پرتگال پوری دنیامیں ٹماٹر کی چٹنیوں کا سب سے بڑا برآمدکنندہ ہے۔مچھلی کاشکار کاروباری بنیادوں پر کیاجاتا ہے اور خاص نسل کی مچھلیاں برآمد بھی کی جاتی ہیں لیکن پرتگال اپنی خوراک کی ضروریات کے لیے بعض ملکوں سے مچھلی درآمدبھی کرتاہے۔برطانیہ،جرمنی اور فرانس سمیت یورپی یونین کے دیگر ممالک پرتگال کی بین الاقوامی تجارت کے بھائیوال ہیں۔یہ ممالک اپنی مصنوعات کا پرتگال کی مصنوعات کے ساتھ درآمدی و برآمدی تبادلہ کرتے ہیں۔

1910ء کے بعد سے پرتگال کو جمہوریہ بنادیاگیاتاہم 1974ء کا انقلاب یہاں کی سیاسی زندگی کاایک اہم سنگ میل ہے۔اس انقلاب کے بعد کے دستورکے مطابق ریاست کا سربراہ صدر مملکت ہوتاہے،جسے پانچ سالوں کے لیے ساری قوم براہ راست منتخب کرتی ہے۔صدر اپنی آئینی حیثیت میں ملکی افواج کا بھی سپہ سالار اعظم ہوتا ہے،پارلیمان میں سے وزیراعظم کی تقرری بھی صدر کے صوابدیدی اختیارات میں شامل ہے ان سب کے علاوہ اعلی حکومتی عہدیدار وں کی تقرری و برخواستگی بھی صدر کے فرائض میں شامل ہے۔پارلیمان کے دوسوپچاس اراکین ہیں جو متناسب نمائندگی کے نظام کے مطابق چارسالوں کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔وزیراعظم کے ساتھ کابینہ کے اراکین ملکی نظم و نسق میں حکومت کا ہاتھ بٹاتے ہیں جبکہ کابینہ کے اجلاس کی صدارت بھی وزیراعظم خود کرتاہے۔انقلاب کے ابتدائی ایام میں انقلابی کونسل بنائی گئی تھی لیکن بہت جلد اس کی جگہ ’’کونسل آف دی اسٹیٹ ‘‘نے لے لی جس میں صدر مملکت اس ادارے کا سربراہ ہوتاہے جبکہ پارلیمان کا صدر،وزیراعظم،آئینی ٹریبیونل کا چئرمین،اٹارنی جنرل،نیم خودمختارعلاقوں کے سربراہان،سابقہ صدور مملکت ، صدر مملکت کے نامزد شدہ پانچ افراد اور پانچ افراد جنہیں پارلیمان منتخب کرکے بھیجتی ہے اس میں شامل ہیں۔پرتگال میں مرکز سے نیچے تین طرح کی حکومتوں کانظام رائج ہے صوبائی اور شہری حکومتی اداروں کی طرح ہیں جن میں منتخب افراد حکومتی مشینری کے ساتھ مل کر کاروبار ریاست چلاتے ہیں۔

پرتگال تاریخی اعتبار سے مسلم اسپین کاحصہ رہاہے،جس کی فتح کا سہرامشہور مسلمان فاتح موسی بن نصیر کے سر ہے۔711ء سے 1249ء تک پرتگال پر مسلمانوں نے بڑی شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔مسلمان حکمرانوں نے رنگ و نسل و مذہب و زبان کے فرق کے بغیر کل انسانوں کی خدمت کی اور تعلیم و تہذیب سے پرتگال سمیت پورے یورپ کو آشنا گیا۔اس زمانے کے تہذیبی اثرات آج بھی اس سرزمین پر موجود ہیں،پرتگالی زبان میں ابھی تک عربی کے کئی الفاظ کی آمیزش واضع طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ لیکن افسوس کہ فرزندان صلیب نے یہاں پر قبضہ کرتے ہی مسلمانوں اور انکی باقیات کو بڑی بے دردی سے ختم کرنا شروع کر دیا۔’’میرٹولا‘‘ شہر میں آج ایک مسجد موجود ہے لیکن اسے بھی گرجاگھر بنالیاگیاہے۔مسلمانوں کی حکومت ختم ہونے کے بعد وہاں پر رہ جانے والے مسلمان بڑی بے دردی سے قتل کیے گئے جو بچ رہے ان پرمسلمان رہنے کے لیے اور عربی لباس و زبان کے لیے بھاری ٹیکس عائد کر دیے گئے ،جو یہ ٹیکس ادانہ کرسکتااسے لازمی طور پر عربی زبان و لباس کو خیرآباد کہ دینا پڑتا یا پھر اس علاقے سے ہجرت پر مجبور ہوجاتا۔کم و بیش ایک صدی کے بعد یہ رعایت بھی ختم کر دی گئی اور ہجرت یاتبدیلی مذہب میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا لازمی ہو گیا۔اس طرح سے وہاں پر مسلمانوں کی نسل کو ہی ختم کر دیاگیا۔

2008کے مطابق کم و بیش پندہ ہزار مسلمان اب وہاں آباد ہیں ،ان میں سے اکثریت باہر سے آئے ہوئے مسلمانوں کی ہے۔1968ء میں ایک طرح کی قانون سازی کے بعد مسلمانوں کو اپنا وجود منوانے کی اجازت ملی ۔اس وقت سترہ مسلمانوں نے مل کر ایک مسلمان تنظیم کی بنیاد رکھی ۔اس تنظیم کے تحت مسلمانوں کے بہت سے فلاحی و تعلیمی مرکز چل رہے ہیں، اس تنظیم نے ’’الفرقان‘‘کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالا اور قرآن مجید کا مقامی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔اس ادارے نے اب تک ایک سو کے قریب کتابیں بھی شائع کی ہیں اور انٹرنیٹ پر پرتگال کے مسلمانوں کے بارے میں ایک ویب سائٹ بھی بنائی ہے۔جمعہ 29مارچ1985کو صبح دس بجے پرتگال میں ایک بہت بڑی تقریب کے دوران ایک مسجد کی بنیاد رکھی گئی یہ مسجد پرتگال کی سرزمین پر پانچ سوسالوں کے طویل وقفے کے بعد مسلمانوں کی پہلی مسجد تھی۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 572221 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.