ایک لطیفہ سنئے ! یہ نیو کراچی کے
ایک چوک کی بات ہے، گاڑیوں ، رکشوں اور کاروں کا ہجوم ہے، سڑک کے آس پاس
دکانیں سج دھج کے گاہکوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، سڑک کا نصف سے
زیادہ حصہ پارکنگ اور ٹھیلے لگانے کا کام دے رہا ہے، ایک ہی سڑک پارکنگ بھی
ہے، منڈی بھی اور فٹ پاتھ بھی، ایک ہلچل ہے، شور و غل ہے، میں گاڑی کے
انتظار میں کھڑا تھا، ایک چنگچی والا آیا، سڑک پر دوتین نوجوان چہل قدمی کر
رہے تھے، چنگچی والے نے ہارن بجایا، لیکن ان کے کانوں تک شاید اس کی آواز
نہیں پہنچی، اس نے بریک لگانے کی کوشش کی ، چنگچی ایک نوجوان کے بالکل قریب
آکر رکی، دیکھنے والوں کے منہ سے بے ساختہ نکلا: اوہو! ماردیا، لیکن گاڑی
رک گئی، اورکوئی حادثہ نہیں ہوا، نوجوان نے چنگچی والے کی طرف مڑکر
دیکھااور غصے سے کہا: ارے دیکھتا نہیں ہے ؟ چنگچی والے نے ایک لمحے کے لئے
توقف کیا ، پھر نیچے جھکا، اس نوجوان کے قریب ہوا، دائیں ہاتھ سے اس نوجوان
کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے چیخ کر کہنے لگا: اوے پیار سے بات کر!
نوجوان پر اس ’’نصیحت‘‘ کا الٹا اثر ہوا،وہ مزید غصے ہوکر اپنے ہاتھ کو اس
سے بھی زیادہ تن کر بولا: ارے آنکھیں نہیں ہیں تمہاری ؟اندھے ہو کیا؟ چنگچی
والے نے اس غصے کا اثرلیتے ہوئے مزید چلاتی آواز میں غصے سے لرزتے ہاتھوں
کو نوجوان کے چہرے کے مقابل رکھ کر بولا: ارے میں کہتا ہوں پیار سے بات کر
، پیار سے بات کر، ورنہ میں... اس کے بعدکے الفاظ ایسے ہیں جن کو لکھنا
مناسب نہیں۔
کہنے کو یہ لطیفہ ہے، اور آپ کو پڑھ کر ہنسی بھی آئی ہوگی لیکن یہ قصہ
معاشرے کی ایک بڑی مرض کی ترجمانی کر رہاہے،میںتحمل ،بردباری، برداشت اور
درگزر کے فقدان کی بات نہیں کر رہا، اس کی کمی کی وجہ سے جو خلفشار و
انتشار ہے ہم دیکھ ہی رہے ہیں، میں بات کر رہاہوںقول و فعل کے تضاد کی،
بدقسمتی سے من حیث القوم ہمارا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے، ہم ایک بات کہہ رہے
ہوتے ہیں، لیکن ہمارا عمل اس کے خلاف دعوت دے رہاہوتا ہے، آپ ارد گرد نظر
دوڑا کر دیکھئے قوم کو درس دینے والے کتنے ہیں جو خود کوبھی اس درس کا
مخاطب سمجھتے ہیں،یہ مشاہدے کی بات ہے کہ جب تک انسان خود عمل پیرا نہ ہو
تو اس کی بات اثر نہیں کرتی،اگر ایک شخص دوسروں کو سادہ زندگی کی تلقین کرے
لیکن خود سراپا تکلف ہو تو اس کی زبانی باتوں کی کیاحیثیت باقی رہ جاتی
ہے،جس شخص کی گفتار اور کردار میں فاصلے ہوں، قول اور فعل میںتعلق نہ
ہوتووہ خود کو کیساہی ناصح ملت و قوم کہے اس کی مثال چنگچی والے سے مختلف
نہیں ہوتی، اور ایسی تلقین بسااوقات الٹا اثر کرتی ہے، کیونکہ ایک زبان قال
ہوتی ہے اور ایک زبان حال ، اور غلبہ اکثر زبان حال ہی کا ہوتا ہے کہ
خاموشی کی زبان جو درس دیتی ہے بولتی زبان میںوہ قوت نہیں، کاش کہ ہم
دوسروں پر تنقید کی کمان سیدھی کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی ایک نظر
ڈال لیا کریں، اس سے بہت سی خرابیوں کا سدباب ہوسکتاہے۔ |