جلال ہری پوری : پس منظر و پیش منظر

کسی بھی ملک کی شناخت تاریخ تہذیب کے آئینے میں کی جاتی ہے اور دیکھا یہ جاتا ہے کہ تہذیب کی اساس کیا تھی ۔ کس حد تک اس میں اخذ و قبول کی صلاحیت تھی ۔ اور اس میں کس حد تک دوسرے تہذیبی دھاروں سے خود کوہم آہنگ کرنے کی قوت تھی ، ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مختلف تہذیبی دھاروں نے اپنی شناخت یا پہجان بنائی ہے ۔ اور ہزار ہا برس کی اقوام عالم کی تاریخ اگر آج بھی زندہ ہے تو اس کی وجہ وہ تہذیبی دھار ے ہیں جو ایک دوسرے سے اختلافات کے با وجودباہم ربطہ کے خصوصی جوہر اپنے اندر پوشیدہ رکھتے ہیں ان تمام تہذ یبوں کے مختلف رنگ ہیں مگر سب رنگ مل کر ہندوستانی تہذیب کی بنیاد کا پتھر قرار پاتے ہیں ۔بالکل اسی طرح جیسے انسانی جسم میں ہاتھ کی انگلیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے سے بڑی چھوٹی ہوتے ہوئے بھی ایک ہی ہاتھ کا حصہ ہوتی ہیں۔ سنگم پر گنگا اور جمنا کے پانی کارنگ مختلف ہوتے ہوئے بھی ایک ہوتا ہے اور ان نکات کی نشاند ہی کا سب سے موثر ذریعہ تصنیف و تالیف ہے۔کتابیں تہذیب وثقافت کی امین ہوتی ہیں اوراس کے ذریعہ ماضی کے ورثہ کو مستقبل کے لوگوں تک پہنچا کر کامیابی کی راہیں متعین کی جاتی ہیں انسانی تاریخ کے ہر عہد میں کتابوں کی اہمیت تسلیم کی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت کے لےء خدائے پاک نے انبیائے کرام پر چار آسمانی کتابیں نازل فرمائیں ان کتابوں کے نزول کو فرزندان آدم کے لئے نعمت اور ہدایت کامنبع و مرکز قرار دیا دنیا کی تاریخ میں پیغمبر ، صحابہ کرام اولیاو صوفیاء ، شاعر و ادیب اور ان جیسی ہستیاں گزریں ان سبھوں نے معاشرتی و انسانی نظام کی تشریح کتابوں کے ذریعہ ہی کی۔ لہذا جلال ہری پوری کے پوتے رضوان ندوی نے اپنے جلیل القدر داد کے کلام کو جمع کر کے ان کے خیالات ان کی فکر اور ان کے تہذیبی ورثے کو عوام کے لیے شائع کیا ہے۔

ہندوستان میں بے شمار مشہور صوفی و علما گزرے ہیں جنہوں نے ہندوستانی سماج کی تعمیر میں نہایت ہی اہم رول ادا کیا ہے۔ ان صوفیا اور علماء کی اخلاقی بلندی کے نتیجے میں بہت سے کنبوں اور طبقوں نے اسلام قبول کیا ، صوفیوں نے اسلام کو پھیلا نے کی غرض سے ہندوستان کے علاوہ دوسرے ممالک کا بھی سفر کیا شہروں سے قصبات تک اور قصبات سے دیہات تک انھوں نے رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری کیا ۔خانقاہیں اور مدرسے بھی اسی تحریک کا مر ہون منت ہیں۔ خانقاہوں اور مدرسوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ صدیوں سے رشدو ہدایت اور علم و دانش کا منبع و مرکز رہے ہیں اور ہر دور میں صو فیوں،مجتہدوں اور درویشوں کی بدولت ان کی نمایاں حیثیت رہی ہے ۔ ہمارے وطن کی تاریخ میں صوفیائے کرام نے جس طرح اپنا کردار ادا کیا اور خدمات انجام دی ہیں وہ ہندوستانی تہذیب و کی سنہری روایات کا روشن ترین حصہ ہے ۔ سچ یہ ہے کہ عالمگیر پیمانے صوفیوں اور عالموں کا کوئی تصور ہندوستان کے صوفیوں اور عالموں کے بغیر نا مکمل اور کسی حد تک معنویت سے خالی ہے بہرحال ہے اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ جلال ہری پوری اپنے عہد کے نامور اہل نظر اور نہایت جیدعالم وسالک بزرگ گزرے ہیں۔ ان کی زندگی ایک بین الا قوامی دستور حیات ہے جو قرآن کے ابدی وصولوں کی تعبیر ہے ۔موصوف کا ایک ہی مدعا رہا ہے کہ صوفیوں کی طرز زندگی اور سماج کی بہتری کی روح کو سمجھنا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ جملہ اوصاف و کمالات اردو زبان و ادب کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف ہیں۔ ادیب اور صوفی کو اپنی تحریروں میں قدم قدم پر تاریخ کی ورق گردانی کرنی ہوتی ہے ۔ سنین و شہود کے تعین کے بغیرانکی مطابقت کے لئے کاوش کرنی پڑتی ہے مختلف زبانوں میں اس طرح کے جدول موجود ہیں ۔ قاضی جلال ہری پوری نے زندگی میں تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں میں خوب حصہ لیاہے۔کسی بھی شائستہ سماج میں تعلیم کا جو مقام ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے معلم او ر دانشور نہ صرف علم کی روشنی پھیلانے اور نوجوان نسلوں کو خاص طور سے طالبعلموں کو سنوارنے اور آراستہ کرنے کے ذمہ دار ہیں بلکہ ساری تہذیبی روایتوں کا سر چشمہ بھی ہیں ۔ ہندوستان کے سیکولر زم نظام کے چو کھٹے میں صحیح سماجی شعور کو پیدا کرنا بھی ہمارا فرض ہے اور خاص طور سے اردو کے اساتذہ کے ذمہ یہ بھی مزید فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ زبان اور ادب کی تعلیم و تدریس اور تحقیق کی بنیاد اس نہج پر اٹھائیں کے ان کی پیداوار یعنی جن طلبہ کو تعلیم و تربیت دے کر فراغت و سند فراہم کروانے میں کلیدی رول ادا کیا ہندوستان کے رنکا رنگ کلچر اور اس کے مضمرات اور امکانات کی صحیح نمائیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم کی جبّلی رواداری ہم آہنگی اور گوناگوں عناصر کی انضمانی روایات کا بھی نمونہ ہو نیز ہماری تعلیم و تربیت قومی عزائم کے حصول کا زینہ ثابت ہو۔ایک زمانہ تھا اردو شعر و ادب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اردو شاعری میں گل و بلبل اور لب و رخسار کی باتیں ہی قلمبند کی جاتی ہیں ۔ اسی طرح اردو ادب عشقیہ داستانوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ لیکن حالیہ برسوں میں اس سلسلے میں غیر معمولی تبدیلیاں آئی ہیں اور اب اردو شعر و ادب میں زندگی کے سلگتے مسائل سے بھی بحث کی جارہی ہے ۔ اس کے باوجود ہو سکتا ہے کہ اردو ادب میں زندگی کے سنجیدہ مسائل پر بحث کی مزید گنجائش نکل سکتی ہے ۔

کئی دفع شاعر و ادیب سماجی ریوں سے ناراض بھی رہتا ہے اور برسوں ناراض رہتا ہے۔ لیکنیہ ضروری نہیں کہ اس ناراضگی کا ادب میں براہ راست اظہار ہو ۔ حالانکہ شعر و ادب میں زیادہ تر یہی ہوتا ہے۔ نیاز نے جو ش کی شاعری کے بارے میں کہا تھا کہ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ان کے یہاں گالی دینے کا جذبہ گھٹ کر شعر ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔

وہ ادیب اور شاعر جن کی جڑیں ہمارے معاشرے میں پیوست نہیں ہیں۔ جو شاید کہیں دورجا بسے ہیں ۔یا وہ اپنی ذات کے حصار میں کھو گئے ہیں جن کے یہاں محض تشکیک ہی نہیں بلکہ بیزاری بھی ہے۔ اور وہ جو مغرب کے توسط سے ہندوستانی معاشرے پر نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تنہائی کا شکار ہو گئے ہیں ان کے موضوعات بھی سکر سمٹ گئے ہیں۔ انکی لفظیات بھی محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ انہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ ہمارامعاشرہ کن مسائل سے دوچار ہے ۔ آج ہمارا خاندان ٹو ٹ کر ایک نئی شکل اختیار کررہا ہے۔ ملک کی آبادی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ تجارت اور کاروبار کو زبردست فروغ حاصل ہواہے۔ جمہوری اقدار کے مثبت پہلو اتنے نمایاں نہیں ہوئے جتنے منفی پہلو اپنی گھناؤنی شکلیں دکھارہے ہیں ۔ یعنی صنعتیں فروغ اور کاروبار کی ترقی نے عوام تک رسائی حاصل نہیں کی بلکہ ان کا اثر قیمتوں کے بڑھنے اور کالے بازار کے وجود میں آنے کی شکل میں ہواہے۔اس کے ساتھ ہی ساتھ غیر قانونی در آمد و برآمد کا بڑھتا ہواکاروبار ، رشوت ستانی اور قتل و غارت گری جیسے جرائم بھی آگے بڑھتے ہوئے معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہے ہیں۔ایسے دور میں جلال ہری پوری کی شاعری اگر چہ کوئی منزل مقصود کا پتہ دینے والی نہ ہو لیکن انسانی ذہن وہ تقویت ضرور بخشتی ہے جس سے کہ مایوسی اور frustrationکا شکار ہونے سے آدمی بچ جائے گا۔

کوئی ضروری نہیں کہ ہمیں اپنے دور کی سچائیوں کو دیکھنے کے لیے سر سید ، اقبال اور پریم چند کی روایات پرہی آگے بڑھانا ہوگااور اس عہد کی سچائیوں کو اپنے ادب میں سمونا ہوگا۔ بلکہ اپنے ہاتھ اپنے معاشر ے کی نبض پررکھنا ہوگا۔ آج سماج و معاشرہ بالکل ہی بدل چکا ہے۔ اس کی ضرورتیں اور ترجیحات مختلف ہو چکی ہیں لہذا اسیکا لحاظ و پاس رکھتے ہوئے کوئی بہبود و ترقی کا عمل پیدا کرنا ہوگا۔ ادب و تخلیق میں یہ کام اور بھی زیادہ وقت کے تقاضے کا متمنی ہے۔ اس لحاظ سے جلال ہری پوری کی شاعری کو آئڈیل نہیں مان سکتے لیکن اس آئڈیل شعر و ادب کا ایک نمونہ ضرور کہ سکتے ہیں کیوں کہ ان کی شاعری میں معاشرے اور سماج کی جھلک بڑے صاف صاف لفظوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

تاریخ عالم اس قسم کے بہتیرے واقعات نظر آتے ہیں جنھو ں نے ایک قلیل عرصہ میں ایک نئے سماج کی داغ بیل ڈالی یا کم از کم ایک نیا سماجی شعور پیدا کیا ۔ بدھ مت کی ترویج اسلام کے فروغ یا فرانسیسی دروسی انقلابات ان کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان سبھوں میں ہمیں سماج کے ہمہ گیر نظریات ملتے ہیں اور ان سے کسی طرح کی سماجی تبدیلی یا سماجی انقلاب کا وجود سامنے آیا اس سے ہم سبھی اچھی طرح واقف ہیں ۔ مگر ہر سماجی تبدیلی اتنی تیز گام نہیں ہوتی ۔عام طورپر سماج کا ارتقائی سفر دھیما ہوتا ہے۔ کاشتکاری کی ابتداء ہی اکثر سماج کی ابتداء کے مترادف سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس سے قبل انسان جب تک اپنی روزی کے لیے محض شکار پر منحصر تھا نہ تو مستقل مکان بنائے جاتے تھے اور نہ ہی بستیاں اور شہر آباد کیے گئے۔ بعد میں جب کاشتکاری کے طریقوں میں نمایاں تبدیلی ہوئی تو ان سے بھی انسانوں کے درمیان نئے رشتوں کا آغاز ہوا جس نے سماج کے ڈھانچہ کو بدل ڈالا۔ دنیا میں جاگیر دارانہ نظام بہت طویل عر صہ تک قائم رہا اور کہیں کہیں کسی نہ کسی شکل میں آج بھی مو جود ہے۔اور اسی نظام کا پر وردہ سماج دنیا کے بیشتر ملکوں میں قائم ہوا۔ بعد میں مختلف ممالک میں مختلف وجوہات کی بنا پر جب سر مایہ داری کا رواج ہوا تو اس کے ساتھ سماج نے بھی اپنے آپ کو ان نئے حالات کے مطابق بنا لیا۔ صنعتی انقلاب ، نشاۃ الثانیہ ، اشتراکیت اور دیگر تحریکیں سماج کو بدلنے میں بیحد موثر ہوئیں۔ اسی طرح مختلف ادوار اور مختلف خطوں میں مذاہب نے بھی سماج میں نمایا ں اثرات ڈالے۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ جب سماج میں اہم تبدیلیاں ہوتی ہیں ہمارا سماجی نظریہ بدلتا ہے مگر اکثر ایک نیا سماجی نظریۂ سماج میں نئی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بھی بنتا ہے۔ پس ایک سماجی نظریہ ایک مخصوص سماج کا پر وردہ بھی ہوتا ہے اور کبھی کبھی ایک نئے سماج کا خالق بھی ۔ ہیگل کا سماجی نظریہ اپنے وقت کے سماج کا جواز بنا جبکہ مارکس کا سیاسی نظریہ ایک نئے سماج کا نقیب ۔

ہمارا موجودہ سماج ان گنت نئے اثرات و تصورات کا مخزن ہے ۔ آج ہم اس دور سے بہت آگے نکل آئے ہیں جہاں تعصبات و ادہام کا بول بالا تھا اور مذہب کے نام پر غلط تصورات اور جاہلانہ خیالات اور رویوں کو شہ دی جاتی تھی ۔ مجموعی طور پر بیسویں صدی میں ہر ملک اور ہر سماج میں تیزی سے تبدیلیاں ہوئی ہیں ۔ اپنے گردو پیش پر نظر ڈالنے کی کو شش کروں تو یہ نظر آتا ہے کہ صنعتی ترقی اور سائنس و تکنا لوجی کی جولانیوں نے ہمارے رہن سہن کا طریقہ ، ہمارے مشاغل اور ہمارے رشتوں کو یکسر بدل ڈالا ہے۔ مگر ان تمام تبدیلیوں کے باوجود ہمارا سماجی نظریہ اور سماجی اداروں کے تئیں ہمارے رویوں میں اب تک وہی دیرینہ رجحان پایا جاتا ہے جو پرانے حالات کے مطابق تھا۔ یہ عام بات ہے کہ داخلی تبدیلیوں کی نسبت خارجی تبدیلیاں تیزی سے نمایاں ہوتی ہیں ۔ مادی یا معاشی تبدیلی زود گام ہوتی ہے مگر ان کے متوافق نفسیاتی تبدیلیوں میں بہت دیر لگتی ہے۔

غو ر کیجئے تو دونوں ہی راستے ، یعنی قوم پرستی اور بین الاقوامیت انسان نے اپنی ضرورتوں کے ماتحت بنائے ہیں ۔ خواب دیکھنے والے کسی ایسے وقت کا تصوّر کر سکتے ہیں جب بین الاقوامیت ہی رائج الوقت سکہّ رہے گی اور قوم پروری کی حیثیت بالکل ہی ثانوی ہو جائے گی ۔ لیکن خواب خواب ہیں ، حقیقتوں کی عملی دنیا میں قومیت کی بڑی اہمیت ہے اور مجھے تو یہ اہمیت گھٹنے والی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ایک مبہم سے بین الاقوامی تصوّر کے لئے جس کے خد وخال بھی ابھی پوری طرح واضح نہیں ہو پائے ہیں اور جو عمل کی دنیا میں ابھی ’’ اقوام ِ متحدہ ‘‘ کے تصوّر سے آ گے نہیں بڑھ پایا ہے قوم جیسی قریبی ، حقیقی ماہیت سے کوئی کیسے منھ پھیر سکتاہے؟ منھ پھرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیوں کہ قوم پروری اور بین الاقوامیت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ آج دنیا میں کو ئی قوم بالکل الگ تھلگ اور علےٰحدگی پسندی کا جذبہ لے کر آگے نہیں رہ سکتی کیونکہ فاصلے اس طرح سمٹ گئے ہیں کہ ایک جگہ کے واقعات دوسری جگہ پر بھی اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ آج کی بین الاقوامیت ہماری ہمدردیوں اور ارادوں کی وسعت اور قوموں کے درمیان ہم آہنگی ،ہم زیستی اور مفاہمت و مصالحت ہی کا دوسرا نام ہے ۔ وہ لوگ بھی جو عقیدتاً بین الاقوامیت ہی پر ایمان رکھتے ہیں ، قوم پروری کو تر ک نہیں کرتے اور بین لاقوامیت کے فر وغ کے لیے اختیار کرنے میں جھجھکتے نہیں۔

ہر چند کہ ’’ادب‘‘ کی تعریف کے لیے کوئی معقول کلّیہ ایسا نہیں ہے جس پر مشرق و مغرب کے تمام مفکرین کا اجماع اور اتفاق ہو لیکن ادب کے ناگزیر سماجی رشتے سے بھی کسی کو انکارنہیں ہو سکتا۔ ’’عربی زبان میں ادب کا لغوی مفہوم وہی تھا جو انسان کے بلند شریفانہ خصائل کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ اور یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جو مختلف ’’توجیہات کے ساتھ آج بھی کم و بیش رائج ہے۔ ادب کی تمام قابلِ لحاظ تعریف کو یکجا کر کے ایک جامع تعریف بنانے کی کوشش کی جائے تو اس کے نتیجے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادب وہ فن لطیف ہے جس کے ذریعے ادیب جذبات و افکار کو اپنے خاص نفسیاتی و شخصی خصائص کے مطابق نہ صرف ظاہر کرتا ہے بلکہ الفاظ کے واسطے سے زندگی کے داخلی اور خارجی حقائق کی روشنی میں ان کی ترجمانی و تنقید بھی کرتا ہے اور اپنے تخیل اور قوتِ مخترعہ سے کام لے کر اظہار و بیان کے ایسے موثر پیرائے اختیار کرتا ہے جس سے سامع و قاری کا جذبہ و تْخیل بھی تقریباً اسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح خود ادیب کا اپنا تخیل اور جذبہ متاثر ہوا۔اس جامع تعریف کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ ادب کسی ماورائی شئے کا نام نہیں اس کا تعلق عام انسانی معاشرے سے ہے اور انسانی معاشرے میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات سے اس کا تعلق ہونا فطری ہے۔

اس تعریف کی روشنی میں ہم اردو ادب کا ایک عظیم سرمایہ پاتے ہیں لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ شاعرو ادیب خود کو مشتہر کرنے اور محض لوگوں کی واہ واہی اور نقادوں کی چپقلش میں لگا رہتا ہے ۔سستی شہرت اور ادبی گروہ بندیوں سے الگ رہ کر زبان و ادب کی خدمت انجام دینے والوں کی فہرست اردو ادب کی دنیا میں بہت طویل نہیں ہے۔ اس کی وجہ اردو والوں کی ذہنیت اور ایک خاص قسم کا ماحول ہے ،کسی مخصوص ادبی تحریک سے وابستہ نہ ہونے کا مطلب تمام کاوشوں کے باوجود گمنانی کے غار میں اپنے آپ کو ڈالنے کے مترادف ہے، ان خدشات کے باوجود جن لوگوں نے اپنا مطمح نظر اردو ادب کی خدمت رکھا ان میں سے ایک نام قاضی جلالؔ ہری پوری مرحوم کا ہے۔ قاضی جلالؔ ہری پوری ضلع پورنیہ، بہار کے اس علاقے سے تعلق رکھتے جہاں تک پہنچنا آج بھی ایک جہاد سے کم نہیں مانا جاتا۔ ’’پورنیہ‘‘ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سنسکرت اصل ہے ’’پورنا-ارنیہ‘‘ یعنی مکمل جنگل۔ ایک اندازے کے مطابق کہ ’’پورَین‘‘ سے بنا ہے جس کا معنی کنول کا پھول ہوتا ہے۔ ان دونوں کو ہی اگر صحیح مانا جا سکتا ہے کیوں کہ پورنیہ سے کچھ ہی دوری پر ہمالیہ کی خوبصورت وادی شروع ہو جاتی ہے۔ جس کی ہوا پورنیہ تک اسی طرح پہنچتی ہے جیسے کہ دوسری نیپال کے خوبصورت شہروں تک۔ اس کے علاوہ چائے کے کھیتوں کے لیے مشہور چائے باسہ کچھ ہی میل دور ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جگہ جدید ترقی یافتہ شہروں کے مقابلے بہت کم ترقی یافتہ ہیلہذا جنگل اور مکمل جنگل سے کسی طرح بعید از قیاس نہیں۔یہاں بجلی آج بھی سب سے کم پہنچتی ہے، سانپ کے کاٹنے پر لوگون کی موت ہو جاتی ہے، عام بیماریوں میں بھی لوگ دعا تعویذ اور اوجھا کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسا اس لیے نہین ہے کہ وہاں کے لوگ پرانے خیالات کے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہار کے ان علاقوں میں سب سے کم ترقی ہوئی ہے۔ الکشن کے

موقعے پر بھی وعدے وعید یہاں کم ہی ہوتے ہیں۔ لیکن داد کے قابل ہیں یہاں کے لوگ کہ پھر بھی زندگی جینے کی دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہتے اور حتی الامکان نئی نئی دنیاؤں تک پہنچ بنانے میں کامیابی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ یہاں علم و ادب کا چراغ بھی ہمیشہ روشن کیا جاتا رہا ہے، جلال ہری پوری کے دادا اور چچا بھی شاعر ہو گزرے ہیں اور اسی روایت کی پاسداری میں جلالؔ بھی مستعدی کے ساتھ لگ گئے۔

جلالؔ ہری پوری نے شاعری کو اپنا فرض اولین نہیں جانا بلکہ زندگی کی مصروفیات سے وقت نکال کر اردو کی اس خدمت کو انجام دیا ہے۔ پھر بھی شعری آگہی اور زبان و بیان کی روانی موضوع کا تنوع کسی کہنہ مشق پیشہ ور شاعر سے کہیں کم نہیں۔جلالؔ ہری پوری کی شاعری مثبت فکر کی ترجمان ہے آپ نے حالات و زمانہ کو جیسا دیکھا اپنے اشعار میں بے تکلف بیان کر دیا، نظم، غزل ،نعت اور حمد ہر صنف شاعری پر آپ نے خامہ فرسائی کی۔ ان کی غزلوں میں نظموں کے مقابلہ میں تنوع زیادہ ہے ان کی نظم گوئی چند ایک موضوعات کے دائرے میں گھومتی ہے۔جلال ہری پوری چونکہ عربی و فارسی زبان کے ماہر تھے پھر بھی خواہ مخواہ عربی و فارسی تراکیب کا استعمال نہیں کرتے بلکہ سادہ اور ترسیلی کا اسلوب استعمال کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جلال صاحب کی شاعری سمجھنے کے لئے عربی اور فارسی زبان کی واقفیت بہت ضروری نہیں ہے۔

جلالؔ ہری پوری کا رشتہ ایک طرف قدیم کلاسیکی شاعری سے ملتا ہے تو دوسری طرف جدید لب و لہجہ کی شاعری سے بھی انہوں نے اپنا تعلق جوڑے رکھا، بجا طور پر جلال کی شاعری قدیم وجدید کا سنگم ہے۔ انہوں نے اپنا رشتہ میرو داغ سے بنائے رکھا اور اسی معیار کی شاعری پوری زندگی کرتے رہے۔ نمو نے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
پوچھنا ہے گردش ایام سے
کیا عداوت ہے دل ناکام سے

چپکے چپکے کیا انہوں نے کہ دیا
ہو گئے احباب میں بدنام سے

کہیں مذہب کہیں ہے ذات کی جنگ
مرا خلوت کدہ ہی خوب تر ہے

شکار تنگ نظری ہے نظام دہر بھی شاید
غریبوں پر نظر اس کی کڑی معلوم ہوتی ہے

کبھی بھرنے نہ پایا زخم دل زخم جگر میرا
عدو بدنام ہے پر دوستوں کے پاس ناخن تھا

آج کے طوفان مغرب میں جلال کی مشرقیت اپنی جگہ ایک مضبوط ستون ہے اور یہ ایقان شاعر کے فکری رسوخ اور ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔ وہ صوت و لفظ کے نازک رشتے کے محرم ِراز ہیں۔ جلالان معدودے چند ممتاز شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی مشاقی اور قدرت ِاظہار کلاسیکی روایت سے ان کی دلچسپی اور وابستگی کا پتہ دیتی ہے اور نئے شعری رجحانات کی ان کی شاعری کو نئے اسالیب اظہار اور نئے طرز احساس سے ہم رشتہ کرتی ہے۔ جلالؔ بہت محنتی آدمی تھے، وہ کام کرتے ہوئے نہیں تھکتے وہ تمام عمر اپنے فرائض سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ان کی شخصیت کے کئی رنگ ہیں جو بہ حیثیت استاد وہ سارے طلباء کو ایک نگاہ سے دیکھتے تھے، ساتھ ہی گھر ا ور سماج کی ذمہ داریوں سے خود کو کبھی غافل نہیں ہونے دیا۔ اسی لیے حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے اس قدر شاعری کے لیے وقت کہاں سے نکالا ہوگا۔ اور زندگی میں ادب و شاعری اور سماج کے بیچ یہ Balanceکیسے بنائے رکھا ہوگا۔

شاعری انہوں نے بہت کم عمری میں ہی شروع کر دی تھی ۔ شاعری میں انہوں نے کسی سے اصلاح نہیں لی نہ ہی کسی کو استاد بنایا اس سلسلے میں خود ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:
’’بہت افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ مجھے اس سلسلے میں کسی سے شرف تلمذ حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اگرچہ ابتدا میں چند غزلیں اور نظمیں میں نے اپنے چچا نجم صاحب ک مرحوم کے سامنے پیش کی تھیں لیکن گھریلو چپقلش کی وجہ سے ان سے اکثر میرے تعلقات خراب رہے لہذا میں اس سلسلے میں ان کی ذات سے کوئی فادہ حاصل نہیں کر سکا حالانکہ چچا مرحوم کی ذات اس کے لیے غنیمت تھی ۔ لہذا ابتدا سے اب تک صرف اپنی کوشش سے لکھتا چلا آ رہا ہوں۔‘‘

قاضی جلالؔ ہری پوری نے اپنے سرمایہ فن کو محفوظ رکھنے کی طرف کبھی دھیان نہیں دیا اسی لیے ان کے بہت سے کلام وقت کی گرد میں کھو گئے۔ انہیں شہرت و اشاعت کا بھی کوئی خاص شوق نہیں تھا کہ کلام محفوظ رہتے پھر بھی چند کلام اخبار و رسائل میں شائع ہوئے تھے جن میں ’آئینہ‘، ’انسان‘‘طاؤس‘‘ صبح نو‘‘ ساحل‘‘ اور ’’افکار‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔ انہیں میں سے تلاش و جستجو کے بعد اور گھر میں بکھری بیاضوں اور ڈائریوں سے نکال کر ان کے حقیقی پوتے محمد رضوان ندوی نے یکجا کر کے ایک اہم کام انجام دیا ہے اور ساتھ ہی اپنی علمی اور ادبی دیانت داری کا ثبوت پیش کیا ہے۔ محمد رضوان ندوی اپنے دادا کی طرح ہی محنتی اور ایماندار ہیں۔ علم کی پیاس بجھانے کے لیے بہار کے پورنیہ سے نکل کر یو پی کے ندوہ تک کی خاک چھانی اور اب زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر علم و ادب

جلال ہری پوری کے جو کلام دستیاب ہیں ان کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں کئی اصناف پر دسترس حاصل تھی۔ انہوں نے نظمیں اور موضوعاتی نظمیں بھی کہیں۔ غزلوں میں اپنا زیادہ زور مارا لیکن حمد، نعت ، منقبت، قطع اور قطع تاریخ کے ساتھ واقعات و حکایات اور قرآنی آیات پر بھی اشعار خوب خوب کہے ہیں۔ اگر چہ انہوں نے اردو کی کلاسیکی اصناف مثنوی، مرثیہ، قصیدہ کو اپنے قلم کا شکار نہیں بنایا لیکن ان کی شعر گوئی میں ایسی روانی اور تسلسل ہے کہ ان کے کلام کا مثنوی نگاری کے فن سے قریب کا رشتہ معلوم ہوتا ہے اسی کے ساتھ ساتھ کلام میں بلند آہنگی اور لفظوں میں وہ زور اور پختگی ہے کہ قصیدے کے اشعار ہونے کا گمان گزرتا ہے اور مناسب و موزوں الفاظ کا استعمال ، علم بیان اور صنعتوں کی در وبست ایسی چست و درست ہے کہ مرثیہ کے استاد اپنے دانتوں تلے انگلی دبائیں۔
جمال یار کا کرتا رہوں ہر وقت نظارہ
اسی شغل حسیں میں زندگی کی شام ہو جائے

سر آنکھوں پر تیری ساری نصیحت حضرت ناصح
محبت کا مگر دل سے مرے سودا نہ کم ہوگا

برنگ کاہ چاہا حاسدوں نے پیس ہی ڈالیں
جلالؔ بے نواکو مطمئن جب اپنے گھر دیکھا

تم نے یہ پایا کہاں حسن تکلم اے جلال
تم کو حاصل کب یہ انداز فصیحانہ ہوا

جلال ہری پوری کے کلام ویسے تو اردو دیگر نابغوں تک بہت کم پہنچے ہیں لیکن اگر ان کے کلام کی رسائی کسی اہم شخصیات تک ہوئی ہے وہ ان کے کلام کی خوبی کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد نے قاضی صاحب کے کلام کا بغور مطالعہ کیا اور اس کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ:
’’قاضی جلال ہری پوری نے اگر ایک طرف اپنے دل کے داغوں کی بہار اپنے کلام میں دکھلائی ہے تو دوسری جانب ماورائے ذات جو منظر نامہ ہمارے چاروں طرف بکھیرا ہوا ہے اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔ بصائر و تاملات کے اعلی و ارفع انسانی قدریں جنہیں دنیا نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے ان کے کلام میں ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہیں ‘ندرون ذات’ اور‘ بیرون ذات’ دونوں منظر ناموں کو انہوں نے بڑی فن کاری کے ساتھ اپنی غزلوں میں اس طرح ہم آہنگ کیا ہے کہ تغزل اور غنائیت کی ایک موجِ تہ نشیں جس کے بغیر کوئی غزل اچھی غزل نہیں ہو سکتی ہر جگہ اپنی توجہ مبذول کراتی ہے، وہ اپنی ذات میں اس قدر گم نہیں ہوتے کہ گرد و پیش کے مسائل سے بے خبر ہو جائیں اور نہ گرد و پیش کے مسائل میں اتنے الجھتے ہیں کہ انہیں اپنی ذات میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے غافل ہو جائیں ‘‘ذات’’ اور بیرون ذات کے مسائل کا ایک خوش گوار امتزاج قاضی جلا ل ہری پوری کے کلام میں ہر جگہ فنی مہارت کے ساتھ موجود ہے۔‘‘

آگے چل کر ان کی فکر و احوال ظرف کے متعلق ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد فرماتے ہیں:
’’قاضی جلال ہری پوری کی تشکیل فکر جن احوال و ظروف میں ہوئی ہے وہ وہی ہیں جن سے اردو غزل کے قدما نے کسب فیض کیاہے۔ اسی لیے حسن و عشق کے موضوعات کے علاوہ تصوف اور اعلی و ارفع انسانی اقدار ِحیات کی ترجمانی بھی بڑی مضبوط فنی بنیادون پر ان کے کلام میں ہر جگہ ملتی ہیں۔ غزلوں کے علاوہ ان کے نعتیہ کلام اور ان کی منظومات میں بھی وہ تمام خصوصیات نظر آتی ہیں جو ہمارے کلاسکی شعرا کے لیے باعث فخر و افتخار رہی ہیں۔‘‘

قاضی جلال ہری پوری نے کئی مختلف موضوعات پر نظمیں و اشعار قلم بند کیے ہیں جن کی اپنی ایک شناخت بنتی ہے۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہر موضوع کا تعلق بہ ظاہر محدود متن اور پس منظر سے ہوتا ہے مگر جہاں تک اس کے دائرہ کار کا تعلق ہے تو یہ لا محدود ہو تا ہے۔ماضی میں اس رجحان کو انجمن پنجاب کی خیال انگیز اور فکر پرور تحریک سے ایک ولولہ تازہ نصیب ہوا۔آقائے اردو مولانا محمد حسین آزاد ،خواجہ الطاف حسین حالی ،شبلی نعمانی ،اسمعیل میرٹھی اور متعد دزعما نے خون جگر سے اس صنف شاعری کی آبیاری کی اور اسے پروان چڑھانے میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کیں۔موضوعاتی شاعری اور اس کے پس پردہ کارفرما لا شعوری محرکات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ معاصر ادبی دور میں موضوعاتی شاعری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روا یت کی صورت میں اپنی افادیت کا لوہا منوا لیا ہے۔اس طرح یہ روایت تاریخ کے مسلسل عمل کے اعجاز سے پروان چڑھتی ہوئی دور جدید میں داخل ہوئی۔اس عہد میں ہمیں تمام اہم شعرا کے ہاں اس کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی ادیب اور دانشور محسن بھوپالی کا ایک شعری مجموعہ ’’موضوعاتی شاعری ‘‘ کے نام سے آج سے پندرہ برس قبل شائع ہو ا تھا۔اس طرح ا ولیت کا اعزاز انھیں ملتا ہے۔ اردو کے روشن خیال ادیبوں نے نئے افکار،جدید اسالیب،اور زندگی کی نئی معنویت کو موضوعاتی شاعری کی اساس بنایا۔ جلال ہری پوری نے بھی اس میں قدم رکھ کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا یا۔ لیکن اگر جلال ہری پوری کے یہاں موضوعات کو اور تنوع مل جاتا تو یہ دعوے کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جلال ہری پوری آج کے عہد کے ایک اہم ابی شخصیت میں شمارکیے جاتے۔ ان کے کلام کا چند نمونہ دیکھیے:
چاند جب میری نگاہوں میں نہاں ہوتا ہے
تو ستاروں میں مجھے تیرا گماں ہوتا ہے

سرخ ہونٹوں کے تلے دانت وہ اجلے اجلے
آگ میں برف چھپی ہے یہ گماں ہوتا ہے

کیا ملا مجھ کو خوش بیاں ہو کر
دوست نالاں ہے بد گماں ہو کر
کوئی پوچھا نہیں حقیقت کو
اڑگئی بات داستاں ہو کر
جل گیا کب خبر نہیں گلشن
برق گزری تھی آشیاں ہو کر

بیٹھے بیٹھے ہی نہ تم شکوہ تقدیر کرو
اٹھ کے تقدیر سنور جانے کی تدبیر کرو
نا امیدی کا نہ جلایا کرو منحوس چراغ
شمع امید سے کاشانے کی تنویر کرو

مذکورہ اشعار میں آپ کو شاید کوئی نئی بات نہ ملے لیکن اگر آپ ان اشعار ان کے موضوعات پر غور کریں تو اس طرح کے موضوع پر ٹھہر کر بات کرنے کا انداز آپ کو رک کر مطالعے کی تکرار پر ضرور اسرار کرے گا۔ ان کے نعتیہ اور منقبتیہ کلام میں بھی موجوعات کی وہی گونج ہے۔ نعتیہ اور منقبتیہ شاعری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہوتی ہے۔ شاعر ذرا بھی اس راہ میں ڈگمگایا تو کفر کے قعر مزلت میں جا گرتا ہے۔ منقبت میں احتیاط کی بے حد ضرورت ہے۔ جذبات میں گم ہو کر گزرنے والے احاطہ شریعت سے الگ ہو کر دینی مجرم کہلائے جاتے ہیں۔ لیکن قاضی جلالؔ ہری پوری نے اس بات کا پورا پورا پاس و لحاظ رکھا ہے۔اسی کے ساتھ شعری محاسن کو بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔ صورہ فاتحہ کی روشنی میں ایک حمد باری تعالہ لکھی جس کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
سزاوار ستائش لائق حمد و ثنا تو ہے
کہ پالنہار ساری خلق کا میرے خدا تو ہے
تری ذات مقدس رحمت و رافت کا سر چشمہ
تو حاکم حاکموں کا مالک روز جزا تو ہے
عطا کر ہم کو سیدھی راہ اپنے نیک بندوں کی
نہ ان کی جس سے یارب دونوں عالم میں خفا تو ہے

ان کی نعتیہ شاعری کے منفرد اشعار ملاحظہ کیجیے:

حضرت عیسی نے مردوں کو جِلایا تھا مگر
آپ نے سے پتھر بھی بولا اﷲ اﷲ یہ کمال

مینار روشنی کا شہ لا مکاں ہیں آپ
ہر ذرہ جہاں پہ ہے احسان آپ کا

مبارک ہو زاہد تمہیں قصر جنت
رضا اپنے مولا کی ہم چاہتے ہیں

سرمہ کے عوض لا کے بہت جلد طبیبو!
خاک در مولا میری آنکھوں میں لگا دو

اب چند مثال ان کی موضوعاتی شاعری کے حوالے سے بھی دیکھ لیں کہ اس رنگ میں بھی آپ نے کس کس قدر گل بوٹے کھلائے ہیں۔ نظموں میں انہوں نے اپنے موضوع طے کر کے جس شعری ہنر مندی سے کام لیا ہے اس کی مثال صرف استاد شاعروں کے یہاں ہی ملتی ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ جلال ہری پوری کی نظمیں علامہ اقبال کی نظموں کا extention ہیں۔ مچال کے طور پر دیکھیے:
تمہارے چاہنے والے پہ جور آسماں کیوں ہو
محبت کرنے والا دل نوا سنج فغاں کیوں ہو

دل مسلم میں یا رب جذبہ بیدار پیدا کر
عطا کر حوصلہ ایمان میں انوار پیدا کر
محبت دے مروت دے وہی پچھلی اخوت دے
کوئی ایوب سا پھر صاحب ایثار پیدا کر
شاعر کی دعا

اک نئی دنیا نئے شمس و قمر پیدا کریں
پھر وہی اسلاف کی شام و سحر پیدا کریں
کام رہ رو کا نہیں ہے راستے میں بیٹھنا
ذوق منزل ہے تو سورج کا جگر پیدا کریں
دعوت عمل

تزلزل تھا ہمارے رعب سے ایوان باطل میں
بہادر تھے، جری تھے، پنجہ شیر قضا ہم تھے
اخوت اور ہم دردی کا ہم دنیا میں تھے پیکر
غریبوں بے کسوں کے درد اور دکھ کی دوا ہم تھے
زمانہ کانپ جاتا تھا ہمارا نام سنتے ہی
جواب زور میں سہراب و رستم سے سوا ہم تھے
ہماری ہی حکومت شرق سے تا غرب تھی جاری
زمانہ بن کے تھا اور فرماں روا ہم تھے
ہم کیا تھے

یہ طے ہے کہ ادب کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے اور کوئی ادب اپنی سماجی ذمہ داریوں سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ بقول ایک مغربی ادیب کے ۔ ’’ کسی ادیب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ محض ایسے ادب کی تخلیق کرے جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہو بلکہ اس کو ایسے ادب کی تخلیق پر بھی قدرت ہونا چاہئیے جو ایک لمحے کے لیے ہو لیکن اس ایک لمحے میں اس کی قوم کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہو۔ ’’ معاشرے میں ایسے لمحے اکثر آتے ہیں اور ادیبوں نے اپنے عہد کے مظالم جبرو تشدد اور استحصال کے خلاف آوازیں بلند کی ہیں اور یہ سب اس لیے کہ ادیب اور شاعر انسانی تہذیب کی اعلاترین قدروں کا نہ صرف حامی ہو تا ہے بلکہ ان کا پاسبان اور انہیں فروغ دینے والا بھی ہوتا ہے اور جب یہ قدریں پامال ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں تو کبھی کبھی وہ چیخنے لگتا ہے ، اس لیے وہ راتوں کی نیندیں حرام کرنے والے پاسبان کی طرح جاگتے رہو ، جاگتے رہو، بھی کہتا ہے ۔اور ایسے موقعوں پر جب اس کی آواز کے صحرامیں گم ہونے کا خطرہ ہوتا ہے تو وہ یا تو اس کی آواز کو تیز کرتا ہے یا پھر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتا ہے۔ جلال ہری پوری کے یہاں بھی سے اشعار ملتے ہیں لیکن بظاہریوں تو جلال ہری پوری نے ملک کی سیاست اور بد نظمی کے حوالے براہ راست کچھ نہیں لکھا لیکن ایک نظم ’’ضمیر کی پکار‘‘ کے عنوان سے ملتی ہے جس کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جلال ملک کے حالات سے بہت مغموم رہا کرتے ہوں گے۔ انہیں حیرت بھی ہوتی ہوگی کہ آخر یہ دنیا و ملک کے لوگ آپس میں اس قدر نا اتفاقی کیوں برتتے ہیں۔ اور آخر کار مجبور ہو کر انہوں نے نظم ’’ضمیر کی پکار‘‘ کی تخلیق کی ہوگی جس کا پیغام دور دور تک پہنچنا چاہیے تھا لیکن زمانے کے چند مفاد پرستوں کی وجہ سے یہ کام بھی التو ی میں ہے۔ نظم کے چند دیکیے کس قدر احساس و گہرائی کا پرتو ہیں:
وطن کے رہنے والو آؤ یک جا ہو کے ہم بیٹھیں
خلوص و آشتی سے متحد ہو کر بہم بیٹھیں
سناؤ تم بھی اور ہم بھی سنائیں اپنی بپتائیں
کہ شاید اس طرح سے غم کے شعلوں کو بجھ اپائیں
ہوئے پچھلے دنوں کیا کیا ہمارے دیش بھارت میں
ہوئے برباد کتنے خانماں اس قتل و غارت میں
کہیں بیتاب تھا مسلم کہیں ہندو پریشاں تھا
ہراس و خوف کا ہر سمت برپا ایک طوفاں تھا
مفید اب ہے نہیں ماضی کا لانا لب پہ افسانہ
بہر صورت ہے اچھی فکر مستقبل اے فرازانہ!

چلو اب مل کے پختہ عہد کر لیں اور قسم کھائیں
کیے پر اپنے پچھتائیں عمل سے اپنے شرمائیں
پکاریں ہم مصیبت میں تمہیں تم دوڑ کر آؤ
ہمیں بھی اپنے آڑے وقت میں تم یاد فرماؤ

اس نظم کی خاص بات یہ ہے کہ جلال نے بڑے سادہ انداز میں دونوں قوموں کو قصور وار ٹھہرایا ہے اسی لیے اپیل اور درخواست کی ہے دونوں قوم آپس میں بیٹھ کر بات چیت کریں۔ ایک دوسرے غلطیاں بتا کر مزید ہنگامہ برپا کرنے کی بجائے اپنی اپنی غلطیو پر پچھتائیں اور پھر سے عام انسان کی طرح اخوت اور بھائی چارے کی زندگی گزاریں۔انسان کا سماجی نظریہ ہمیشہ اس کے سماج کی مخصوص ارتقائی منازل اور اس کے فروغ سے وابستہ ہوتا ہے۔ یہ نظریہ کبھی تو سماج تاریخ کا محض ایک پر تو ہوتا ہے ، جو محض سماجی حالات کا عکاسی کرتا ہے اور انہی پر مکمل طور پر منحصر ہوتا ہے اور کبھی یہ نظریہ ایک بہتر سماج کی نشاندہی کرتا ہے ، اور اس طرح سماجی تبدیلی کا محرک بنتا ہے۔ میرے خیال میں ہر سماجی نظریہ ان ہر دو عمل کا مر تکب ہوتا ہے ۔ کوئی بھی نظریہ ان حالات سے یکسر آزاد نہیں ہو سکتا جن کے درمیان یہ پنپتا اور پروان چڑھتا ہے ۔ عموماً ایک مخصوص سماجی نظریہ اپنے گردو پیش کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے اور ان رجحانات و اثرات کی عکاسی کرتا ہے جو سماج میں رائج ہوتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک زندہ اور صحت مند نظریہ خود ان سماجی روایات اور اداروں کا ناقد بھی ہوتا ہے جو اس نظریہ کو جنم دیتے ہیں۔

جلال ہری پوری کی اس قسم کی شاعری میں موضوعات کا تنوع ،جدت اور ہم گیری ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے۔ان کی موضوعاتی شاعری جہاں کلاسیکی روایات کا پر تو لیے ہوئے ہے وہاں اس میں عصری آگہی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔معاشرے ،سماج اور اقوام عالم کے ساتھ قلبی وابستگی کے معجز نما اثر سے ا ن کے ہاں ایک بصیرت اور علمی سطح فائقہ دکھائی دیتی ہے۔وہ جس علمی سطح سے تخلیق فن کے لمحوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں اس کا برا ہ راست تعلق آفاقیت سے ثابت ہو تا ہے۔فرد ، معاشرے، سماج،وطن ، اہل وطن،حیات، کائنات اور اس سے بھی آگے ارض و سما کی لا محدود نیرنگیاں ان کی موضوعاتی شاعری میں اس دلکشی سے سما سکتی تھیں لیکن انہوں نے نہ تو اس کو اتنی جگہ دی نہ ہی ان کے قاری و سامع کا حلقہ اس قدر تھا کہ ان کے اس رنگ کو جلا بخشتا۔ان کی یہ موضوعاتی شاعری منظوم تذکرے کی ایک منفرد صورت قرار دی جا سکتی ہے اس موضوعاتی شاعری میں منظوم انداز میں جو تنقیدی بصیرتیں جلوہ گر ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔وہ لفظوں میں تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں اور قاری چشم تصور سے تما م حالات و واقعات سے آگاہ ہو جاتا ہے۔وہ اصلاحی اور تعمیری اقدار کو اساس بنا کر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں قصیدہ گوئی یا مصلحت اندیشی کا کہیں گزر نہیں۔وہ وستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز حریت فکر کے مجاہد کی طرح اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حرف صداقت لکھتے چلے جاتے ہیں۔

ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے جلالؔ ہری پوری نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی جو کامیاب سعی کی ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ان کا تشخص اپنی تہذیب ،ثقافت ،کلاسیکی ادب اور اقوام عالم کے علو م و فنون کے ساتھ قرار پاتا ہے۔وہ اقتضائے وقت کے مطابق تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ عہد وفا استوار رکھتے ہیں اور اسی کو علاج گردش لیل و نہار قرار دیتے ہیں۔وہ اس امر کی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی قوم اپنے اسلاف کی عظمت اور فکری میراث سے چشم پوشی کی مہلک غلطی کی مرتکب ہوتی ہے تو اس نے گویا یہ بات طے کر لی ہے کہ اسے اپنی ترقی اور عظمت سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔اسی لیے جلال ہری پوری نہایت خلوص اور درمندی سے کام لیتے ہوئے مثبت شعور اور آگہی پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ کلاسیکی اردو شعرا کے مقابلے ان کی موضوعاتی شاعری ان کی انفرادیت کے حیران کن پہلو سامنے لاتی ہے۔اس موضوعاتی شاعری میں ایک دھنک رنگ منظر نامہ ہے۔تخلیق کار نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے۔اس میں موضوعات کی ندرت،معروضی حقائق،خارجی اور دا خلی کیفیات، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے جملہ معمولات اس مہارت سے اشعار کے قالب میں ڈھالے گئے ہیں کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ نظم ’’عورت ‘‘ کے چند اشعار دیکھیے:
شام کا دلکش سمے اودی گھٹا چھائی ہوئی
دھندلی دھندلی چاندنی ہر سمت لہرائی ہوئی
سیر کی خاطر میں گھر سے جانب صحرا چلا
اضطراب دل کو تھورا تھوڑا بہلاتا چلا
نا گہاں حد نظر میں کچھ چراغاں ہو چلا
رونقیں دونی ہوئیں صحرا پرستاں ہو گیا
محو حیرت ہو کے میں نے غور سے دیکھا ادھر
چلتا پھرتا اک ہیولا حسن کا آیا نظر
چاند سا مکھڑا قیامت کی ادا رفتار میں
سیکڑوں لذت کے چشمے موجزن گفتار میں

ناک نقشہ دل ربا آنکھیں سراپا نرگسی
اجلے اجلے دانت میں ہلکا سا کچھ رنگ مسی
زلف ناگن کی طرح تھی پیچ و خم کھائی ہوئی
رینگتے ہی رینگتے زیر کمر آئی ہوئی
اس طرح یہ نظم آگے بڑھتی چلی جاتی ہے جلالؔ ہری پورے کے بیان کا جادو قاری کو مسحور کیے جاتا ہے۔ ایک اور نظم ہے اسی طرح کی’’تخیل کی پری‘‘ کے عنوان سے جس میں اسی طرح ساحری ہے۔ ملاحظہ ہو:
یاد آئے گا مجھے یہ زندگی بھر بار بار
شام کا منظر حسیں کٹیہار کی دلکش بہار
ایک دن شوق سفر نے گھر سے باہر کر دیا
جا کے ’دلکولہ‘ ہوا میں ریل گاڑی پر سوار
الغرض سیٹی بجی گاڑی چلی تیز ہو گئی

جس طرح چلتی سویرے ہے نسیم خوش گوار
کیا بتاؤں راہ میں کیا کیا مجھے آیا نظر
بستیاں، آبادیاں، سوکھی زمیں اور کوہسار
چند گھنٹوں کی مسلسل تیز رفتاری کے بعد
مجھ کو گاڑی نے دیا کٹیہار جنکشن پہ اتار
سامنے آنکھوں کے اک بجلی چمک کر رہ گئی
تختہ پل پر قدم کو جوں ہی رکھا خاکسار
جس پہ تارے ہو رہے تھے آسماں پر سے نثار
جس کے رنگیں ہونٹ کرتے تھے شفق سے ہمسری
جس کے گل رخسار میں تھے رنگ و بوئے صد بہار

اس طرح یہ نظم اپنے اختتام تک پہنچتے پہنچتے جس احساس اور دل کی کیفیات ظاہر کرتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح ’’اپنی سلمی سے‘‘ بھی زبان و بیان عمدہ مثال پیش کرتی ہے لیکن ’’اپنی سلمی سے‘‘ میں جذبات کی لو ذرا تیز ہو گئی ہے:
اگر آپ غور کریں تو زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس اور اس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ان کے اسلوب میں پائی جانے والی اثر آفرینی قلب اور روح کی گہرائی میں اتر کر دامن دل کھینچتی ہے۔

انسانیت اور زندگی کی اقدار عالیہ کے ساتھ جلالہری پوری کی والہانہ محبت ان کی شاعری میں جس انداز میں جلوہ گر ہے وہ ان کے ندرت تخیل اور انفرادی اسلوب کی شاندار مثال ہے۔ بے لوث محبت اور درد کا یہ رشتہ ان کی ایسی تخلیق ہے جس میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں۔وہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے داعی اور علم بردار ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جغرافیائی حدود اور زمان و مکاں کے دائروں سے آگے نکل کر انسانیت کے آفاقی محور میں اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سائنس کے غیر شخصی انداز سے قطع نظر ان کے اسلوب میں شخصی اور انفرادی انداز کی بو قلمونی اپنا رنگ جما رہی ہے۔ان کی شاعری میں ان کا انفرادی اسلوب اس دلکش انداز میں صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتا ہے کہ ان کے قلبی احساسات،سچے جذبات،الفاظ اور زبان کی گہری معنویت،پر تاثیر اشاراتی کیفیات اور سب سے بڑھ کر تہذیبی میراث کا تحفظ ان کا مطمح نظر قرار دیا جا سکتا ہے۔انھوں نے ہمارے ادب ،تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی مستحسن اور عزیز ترین اقدار و روایات کو صیقل کیا ہے ان کی اس فکری و فنی کاوش نے متعدد تجربات ،مشاہدات اور بصیرتوں کو پیرایہ ء اظہار عطا کیا ہے۔ان کے سوتے ہمارے اسلاف کی فکری میرا ث سے پھوٹتے ہیں۔
دل مسلم میں یا رب جذبہ بیدار پیدا کر
عطا کر حوصلہ ایمان میں انوار پیدا کر
محبت دے مروت دے وہی پچھلی اخوت دے
کوئی ایوب سا پھر صاحب ایثار پیدا کر
شاعر کی دعا

اخوت اور ہم دردی کا ہم دنیا میں تھے پیکر
غریبوں بے کسوں کے درد اور دکھ کی دوا ہم تھے
زمانہ کانپ جاتا تھا ہمارا نام سنتے ہی
جوابِ زور میں سہراب و رستم سے سوا ہم تھے
ہماری ہی حکومت شرق سے تا غرب تھی جاری
زمانہ بن کے تھا محکوم اور فرماں روا ہم تھے
ہم کیا تھے

بالیقیں نا آشنا ہیں جذبہ کامل سے ہم
لرزہ بر اندام ہوتے ورنہ کیوں باطل سے ہم
بڑھ چکی ہر قوم آگے ہم پہ طاری ہے جمود
کس قدر بے فکر ہیں اے وائے مستقبل سے ہم

عکس احوال
ان کے مطا لعہ سے قاری ان تمام مآخذ اور منابع سے آگہی حاصل کر لیتا ہے جن پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ چکی ہے۔ہمارا معاشرہ اور فطرت کے تقاضے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ رخش عمر مسلسل رو میں ہے انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی اس کے پاؤں رکاب میں ہیں۔ان تمام تناسبوں اور تقاضوں کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے۔ یہ سب کچھ تاریخی شعور کا مرہون منت ہے جو حدود وقت،زماں اور لا مکاں اور ارضی و سماوی قیود سے بالا تر ہے۔ایک جری اور زیرک تخلیق کار اسی شعور کو رو بہ عمل لاتے ہوئے روایت کو استحکام عطا کرتا ہے۔وہ اپنی داخلی کیفیت سے مجبور ہو کر کسی بھی موضوع پر بر جستہ اور فی البدیہہ لکھنے پر قادر ہیں۔یہ ان کی قادر الکلامی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ ان کی تخلیقی فعالیت اور ادب پاروں سے اردو زبان وادب کی ثروت میں جو بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہ تاریخ ادب کا ایک درخشاں باب ہے۔ شاعری کا حقیقی استحسان کرنے کے لیے ذوق سلیم کا ہونا اشد ضروری ہے۔وہ تزکیہ نفس کی ایسی صورتیں تلاش کر لیتے ہیں کہ فریب سود و زیاں سے گلو خلاصی کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔انھو ں نے مواد اور ہیئت کے جمالیاتی عناصر کو اس طرح شیر و شکر کر دیاہے کہ ان کی شاعر ی پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ان کی ادبی کامرانیوں کا اعتراف بہت ضروری ہے۔ تاریخ ہر دور میں اس نابغہ روزگار ادیب کے نام کی تعظیم کر ے گی۔اپنے جذبات کااظہار کرتے وقت وہ نہایت دل نشیں انداز میں تمام حقائق کو اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔ حقانی القاسمی فرماتے ہیں:
’’قاضی جلال ہری پوری کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے کلاسیکی تخلیقی وراثت کا نہ صرف مطالعہ کیا ہے بلکہ اس کی آہٹوں کو اپنے احساس و اظہار میں ڈھالا ہیاپنے فنکارانہ تخیل سے تخلیقی احساس و اظہار کو نئی شکل عطا کی ہے۔ قاضی جلال کے شعری علائم، تشبیہات اور استعارات وہی ہیں جو کلاسیکی شاعروں کے ہیں۔ مگر طرز ادا اور اسلوب کی ندرت اور جدت کی وجہ سے ’’قیس‘‘ سے ان کی رہ گزر الگ ہو گئی ہے۔

جلال ہری پوری ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے ان کی زندگی قرآن حکیم ،اسلامی تعلیمات ،توحید ،رسالت اور سنت نبوی کے مطابق بسر ہو ئی ہے۔ان کی شاعری میں اس عشق کا بر ملا اظہار ملتا ہے۔کسی قسم کی عصبیت ان کے اسلوب میں نہیں پائی جاتی۔ان کا پیغام محبت ہے اور وہ اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کے مبلغ ہیں۔ انھوں نے اپنی مستعدی اور تخلیقی فعالیت سے جمود کا خاتمہ کیا اور دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ان کے بارے میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ادب کا کوئی دیانت دار نقاد ان ان کے فن پارے کو دیکھ لے تو ان کی اس تخلیقی فعالیت کو نظر اندازنہیں کر سکتا۔انھوں نے قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بھی انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ان کی شاعری اور اسلوب جس حسین اور دلکش انداز میں قاری کے شعور کو وسعت اور ذہن و ذکاوت کولطافت سے فیض یاب کرتا ہے وہ ان کے بلند پایہ تخلیق کار ہونے کی دلیل ہے۔ لفظوں کی پاکیزگی عشقیہ شاعری میں بھی اسی قدر ہے جیسے کہ ان کے مذہبی عقیدے والی حمدیہ، نعتیہ اور منقبتی شاعری میں موجود ہے۔
ہر سمت تیرگی کی ہے بارش کا ذور شور
جگنو کی روشنی بھی ہوئی گم دیہات میں

بِس بھرے کانٹے ہیں اس میں ہر قدم ہے خار دار
عشق بازی بھی کوئی کیا دل لگی ہونے لگی

ہزاروں سال سے سورج سفر میں ہے مصروف
زمانہ پا کے بھی تنہا اسے ستا نہ سکا

علامہ اقبالؔ نے کہا تھا کہ :
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
لیکن یہاں جلال ہری پوری فرماتے ہیں:

دل کی کلی ہی کھل نہ سکے جس بہار میں
چولہے میں جھونک دیجیے ایسی بہار کو

جلالؔ کی شعری صلاحیت کا اعتراف کرنے والا کوئی نقاد نہ انہیں ان کی زندگی میں ملا اور نہ ہی ان کے کلام کی اشاعت کے بعد ورنہ یہ پودا ہرا ہو کر ایسا برگ و بار پھیلاتا کہ دنیا دیکھتی رہتی۔ جلال ہری پوری نے غلام ہندوستان بھی دیکھا اور آزاد بھی انہیں اپنے سماج میں کوئی تبدیلی نظر نہیں اور نہ ہی انہوں نے موجودہ رہنماؤں کو دیکھ کر اس کی توقع کی تھی۔ اسی لیے بغیر کسی اگشت نمائی کے اپنا کام مرتے رہے اور ادب و علم کی خدمت انجام دیتے رہے۔
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 131656 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More