حفیظ میرٹھی صاحب ایک تحریکی شاعر تھے اس لئے ان کچھ
اشعار توخاص طور پر ان لوگوں کیلئے ہیں جو کسی نہ کسی اجتماعیت سے وابستہ
ہو کر اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہیں مثلاً ؎
کارواں چاہے مختصر ہوجائے
کوئی رہزن نہ ہمسفر ہو جائے
یہ ایک ایسا راز جس کی معرفت سےوہی شخص ہمکنار ہوتا ہے جو شعوری طور پر
تحریکی کارواں میں سرگرمِ سفر ہو۔ اپنے قافلے کا تابناک ماضی کا ذکر اور
پیش آمدہ مسائل بیان بھی ملاحظہ فرمائیں ؎
اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہ گذر سے گذرے
راہ روکے ہوئے خود راہنما بیٹھے ہیں
اب کوئی قافلہ گذرے توکدھر سے گذرے
حفیظ میرٹھی جہاں اپنے ہمراہ چلنے والوں کی خبر لیتے ہیں وہیں تحریکی سفر
میں ساتھ چھوڑ جانے والوں کی نفسیات و رویہ کا بھی نہایت ظریفانہ انداز میں
بیان فرماتے ہیں ؎
اب اہلِ کارواں پہ لگاتا ہے تہمتیں
وہ ہمسفر جوحیلے بہانے میں رہ گیا
میدانِ کا ر زار میں آئے وہ قوم کیا
جس کا جوان آئنہن خانے میں رہ گیا
اس شعر میں عصرِ حاضر کے نوجوانوں پر زبردست تنقید کی گئی اس کے باوجود
حفیظ صاحب نوجوانوں کے اندربے حد مقبول رہے ۔ جماعت کے علاوہ طلباء تنظیموں
کا کوئی بڑا اجتماع ایسا نہ ہوتا جس میں انہیں دعوتِ سخن نہ دی جاتی تھی ۔
میرا ذاتی تجربہ تو یہ ہے کہ نوجوان جس قدر ان سے مل کر خوش ہوتے تھے اس سے
زیادہ خوشی خود حفیظ صاحب کو نوجوانوں سے مل کرہوا کرتی تھی ۔ان کا یہ شعر
توا یس آئی ایم میں بچے بچے کی زبان پر تھا ۔
نہ لے چل خانقاہوں کی طرف شیخ حرم مجھ کو
مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ
حفیظ میرٹھی کو کون پہچانے کہ بے چارہ
نہ ایوانوں سے وابستہ ،نہ دربانوں سے وابستہ
حفیظ میرٹھی نے اپنے دور کی ترجمانی ضرور کی لیکن اس کے سبب ان کےرنگِ تغزل
پر آنچ نہیں آئی۔ انہوں نے نہ تو فن کو فکر کی بھینٹ چڑھنے دیا اورنہ فن
کی رعایت میں فکر سے مصالحت برداشت کی بلکہ فکر وفن کے درمیان بہترین توازن
کو قائم رکھا ۔ حفیظ صاحب کے خیال میں اسی وقت ممکن ہے کہ جب فکر و فن کے
درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹ دیا جائے ؎
بات جب ہے کہ فاصلہ نہ رہے ٍ
فکر اور فن کے درمیاں لوگو
فنکارجب اپنے شعور و شعر کے درمیان ایک حسن ِ امتزاج پیدا کر نے میں کامیاب
ہو جاتا ہے تو اس کے قلم سے بے مثال اشعار جنم لینے لگتے ہیں جو آگے چل کر
ضرب المثال بن جاتے ہیں ۔ حفیظ میرٹھی کے ساتھ یہی ہوا کہ زلف و رخسار کی
گرفت سے آزاد ہونے کے باوجود اس ان کے بے شمار اشعار زبان زدِ عام ہوگئے
مثلاً ؎
کسی جبیں پر شکن نہیں ہے کوئی بھی مجھ سے خفا نہیں ہے
بغور میرا پیام شاید ابھی جہاں نے ساگ نہیں ہے
سفینۂ عہدِ نو پہ چھایا ہوا ہے بہرو پیوں کا لشکر
یہاں ہر اک نا خدا نماہے مگر کوئی نا خدا نہیں ہے
اہل ِ فن کوعام طور پریہ شکایت ہوتی ہے کہ لوگوں نے ان کا کلام نہیں سمجھا
اس لئے وہ پذیرائی سے محروم رہے۔ اس کے برعکس حفیظ اپنے پیام کے جواب میں
پذیرائی سے علی الرغم شکن آلودہ پیشانی کی توقع کرتے ہیں ۔وہ اپنےسامعین
سے وفا کے بجائے خفا ہونے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہیں ۔ موجودہ دور کے
سیاستدانوں کیلئے بہروپیہ کا استعارہ اور پھر ناخدا نما کی اصطلاح نے ان
اشعار کو زندہ و تابندہ کر دیا ہے۔ مذکورہ غزل کا ہر شعر لاجواب ہے۔ ملک کے
انتخابی ماحول میں سیاستدانوں کو کبھی بہروپیہ تو کبھی سانپ سے تشبیہ دینا
اور عوام کاالعنام کیلئے آستین کی بے مثال تمثیل اس شعر میں دیکھیں کہ
جہاں دو مصرعوں کے اندر ایک سمندر کو بند کردیا گیا۔ فرماتے ہیں ؎
سانپ آپس میں کہہ رہے ہیں حفیظ
آستینوں کا انتظام کرو
حفیظ کو اپنی حق گوئی وبیباکی کے اثرات کا مکمل درک تھا وہ جانتے تھے کہ
مصلحت پسند دنیا میں حقیقت بیانی کیا گل کھلاتی ہے اسی لئے کہتے ہیں ؎
ابھی سے ہوش اڑے مصلحت پرستوں کے
ابھی میں بزم میں آیا ابھی کہاں بولا
اس شعر میں جو برجستگی ہے وہ تو صرف حفیظ صاحب کا حصہ ہے ۔ حفیظ میرٹھی کی
آ گ والی غزل اس قدر مقبول ہوئی کے اُس کے بعد اِس زمین پر کوئی اور شعر
دل کو بھاتا ہی نہیں
ایسی آسانی سے قابو میں کہاں آتی ہے آگ
جب بھڑکتی ہے تو بھڑکے ہی چلی جاتی ہے آگ
حل ہوئے ہیں مسئلے شبنم مزاجی سے مگر
گتھیاں ایسی بھی ہیں کچھ جن کو سلجھاتی ہے آگ
آگ ہی کی طرح زنجیروں کی جھنکار بھی کچھ ایسی کھنکی کہ نوجوانوں کے دلوں
کی دھڑکن بن گئی ملاحظہ ہو ؎
آباد رہیں گے ویرانے ،شاداب رہیں گی زنجرییں
جب تک دیوانے زندہ ہیں پھولیں گی پھلیں گی زنجرکیں
جب سب کے لب سل جائیں گے ہاتھوں سے قلم چھن جائیں گے
باطل سے لوہا لینے کا اعلان کریں گی زنجرییں
یہ اشعار فیض کے قیدوبند میں کہی ہوئی نظم ’’زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ
رکھ دی ہے‘‘ کی یاد دلاتے ہیں ۔اسی طویل بہر کی غزل کے بعد ایک نہایت آسان
اور مختصر بہر کی غزل دیکھیں جوآگے چل کر حفیظ صاحب کا تشخص بن گئی ؎
شیشہ ٹوٹے ،غل مچ جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
ہائے وہ نغمہ جس کا مغنی
گاتا جائے ،روتا جائے
یہ شعرقرآن حکیم کے ساتھ حفیظ صاحب کے گہرے تعلق کا ترجمان ہے ’’گاتا جائے
روتا جائے‘‘ کی منظر کشی لاجواب ہے۔ دارورسن کے ساتھ غم و غصہ، حزن و
ملال،ماتم و گریہ کو سبھی منسوب کرتے ہیں لیکن اس کا جو تعلق سربلندی سے ہے
اس کی جانب توجہ نہیں جاتی۔لفظِ سربلند کابرموقع و برجستہ استعمال مندرجہ
ذیل شعر کواس قدر خوبصورت بنادیتا ہے کہ طبیعت عش عش کراٹھتی ہے اس شعر کی
انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں دارورسن جبر کے قہر کی علامت کے بجائے شوق
شہادت کا حسنِ انتخاب نظر آتاہے۔ اس لحاظ سے میں اسے حفیظ میرٹھی کا
نمائندہ شعر سمجھتا ہوں ؎
دارورسن کو کس نے چنا دیکھتے چلیں
یہ کون سر بلند ہوا دیکھتے چلیں
عصر حاضر کا ایک بہت بڑا چیلنج مادہ پرستی اور معیار زندگی کو بلند سے بلند
کرنے کی مسابقت ہے ۔اس کا اچھوتابیان ملاحظہ فرمائیں ؎
بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی
تیری دیوار سے اونچی مری دیوار بنے
چھین کر غیر سے اپنوں نے مجھے قتل کیا
آپ ہی ڈھال بنے ،آپ ہی تلوار بنے
یہ اشعار حفیظ میرٹھی کے خاص اسلوبِ سخن اور بانکپن کے ترجمان ہیں۔ ان
اشعار کو پڑھتے وقت قاری کا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ حفیظ میرٹھی کے علاوہ
کسی اور کےنہیں ہوسکتے۔ ایسا لگتا ہےگویا ان اشعار پرحفیظ کی مہر ثبت ہواس
لئے کہ ان کے اندر حفیظ صاحب کا جیتا جاگتادل دھڑک رہا ہے۔ اسے دیکھیں ؎
اے پر ستارانِ نغمہ! چھوڑ کر تارِ رباب
آج کچھ دکھتی رگوں پر انگلیاں رکھتا ہوں میں
یہ ایسے اشعار ہیں کہ جنہیں ایک مرتبہ کوئی ڈائری یا کیلنڈر پر بھی پڑھ
لیتا ہے تو وہ اس کے دل پر نقش ہو جاتے ہیں مثلاً
رات کو رات کہہ دیا میں نے
سنتے ہی بوکھلا گئی دنیا
کس نے سمجھا ہے میرے غم کو حفیظؔ
گدگدا کر رلا گئی دنیا
اس شعر میں گدگدا کر رلانے کی ترکیب ِ معکوس کا کیا خوب استعمال کیا گیا
ہے۔ اسی طرح کا ایک شعر ان کی مشہور غزل زنجیریں میں آگیا ہے ۔ عام طور پر
کسی شہ کا ٹوٹنابلکہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر جانا باعثِ افسوس ہوتا ہے لیکن
اگر وہ چیز جبروغلامی کا وسیلہ ہو تو اس کی تخریب کے بطن سے تعمیر کی کونپل
پھوٹتی ہے اور وہ عمل باعثِ خیر و برکت ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی بندش ِ الفاظ
قاری کو چونکا دیتی ہے جس کے سبب نہ صرف وقتی طورپرتو قاری لطف اندوز ہوتا
ہے بلکہ اس طرح کے اشعار انسانی قلب وذہن پر تاحیات نقش رہتے ہیں۔ملاحظہ ہو
؎
آزادی کا دروازہ بھی ،خود ہی کھولیں گی زنجرایں
ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی جب حد سے بڑھیں گی زنجرییں
حفیظ میرٹھی کی غزلوں میں روانی اور نغمگی کے ساتھ ساتھ غم جاناں اور غم
دوراں کا ایسا حسین امتزاج پایا جاتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ان دونوں
کو شاعر نےایک جان دوقالب کردیا ہے۔ یقین نہ آتا ہو تو یہ اشعار دیکھیں جن
رنگِ تغزل تو نہیں بدلتالیکن مضمون تبدیل ہوکر کیا سے کیا ہوجاتا ہے ؎
یہ بات نرالی دل خود دار کرے ہے
تڑپے ہے مگر دردسے انکار کرے ہے
تسلیم اسے کوئی بھی دل سے نہیں کرتا
وہ فیصلہ جو جبر کی تلوار کرے ہے
ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اصلاحی وتعمیری ادب خشک و بیرنگ ہوتا
ہے بلکہ اسے ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اس بت کو حفیظ میرٹھی نے اس طرح پاش پاش
کردیا کہ اب نہ کوئی تعمیرپسند شاعراصلاح کی آڑ میں اپنے عیوب کی پردہ
پوشی کرسکتا ہے اور نہ تخریب پسند عناصر انہیں زاہدِ ِخشک کا طعنہ دے سکتے
ہیں۔ اگرکوئی ایسی جرأت کرتا بھی ہےتواس کیلئے حفیظ میرٹھی کا یہ ایک شعر
کافی ہے ؎
محبت خامشی بھی ،چیخ بھی ،نغمہ بھی ،نعرہ بھی
یہ اک مضمون ہے کتنے ہی عنوانوں سے وابستہ
آخر میں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے اس مقالے کو طوالت کے پیشِ نظر حفیظ
میرٹھی کی غزلوں تک محدود رکھا گیا اور دیگر اصنافِ سےاستفادہ نہیں
کیاجاسکا لیکن کلیاتِ حفیظ غزل کے علاوہ نعتوں، نظموں،منقبت،سلام ، دعا اور
دیگر اصناف سخن سے آراستہ ہے ۔ وقت کے ساتھ حفیظ میرٹھی نےدنیا ئے ادب میں
اپنی قادرالکلامی کا لوہا منوا لیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ زمانہ قریب
آلگا ہے جب خود حفیظ میرٹھی کی اپنے متعلق کی گئی مندرجہ ذیل پیش گوئی سچ
ہواچاہتی ہے ؎
میری باتوں پہ ہنستی ہے دنیا ابھی
میں سنا جاؤں گا فیصلوں کی طرح |