دنیا بھر میں اتحاد کی علامات اور یادگاریں پائی جاتی ہیں لیکن ترکی کی
سرزمین کواپنی پیشانی پرتقسیم چوک سجانے کا اعزاز حاصل ہے ۔ سلطان محمود
اول نے پتھر کاایک آبی ذخیرہ تعمیر کیا تھا جہاں شمال کی جانب سے آنے
والا پانی جمع ہوتا اور پھر شہر کے مختلف حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ۔ اس
طرح اس مقام کا نام تقسیم چوک پڑ گیا ۔ مصطفیٰ کمال ا تاترک نے نہ جانے
کیوں جمہوریت کی یادگار تعمیر کرنے کیلئے اسی مقام کا انتخاب کیا ترکی
جمہوریہ کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر اس کا افتتاح کردیا ۔ تقسیم چوک پر
جمہوریت کی یادگار اپنے آپ میں ایک علامت ہے۔ دراصل جدید ترکی کی تعمیر
اسلامی دنیا کی تقسیم کا شاخسانہ تھا ۔ جس وقت دنیا بھر کے مسلمان خلافت
عثمانیہ کے تحفظ کی خاطر اپنے اوپر مسلط ظالم و جابر حکمرانوں سے دست و
گریبان تھے اس وقت ترک فرمانروانے خلافت کے خاتمہ کا اعلان کردیا جس کے
نتیجے میں عالم اسلام کا شیرازہ اس طرح منتشر ہوا کہ اس تقسیم کے۹۰ سال بعد
بھی متحد نہ ہو سکا ۔ فکری سطح پر ترکی کے اندردین و سیاست کو دو الگ الگ
خانوں میں اس طرح تقسیم کیا گیا کہ اسلام پسندوں کو بھی سیکولرزم کی دہائی
دینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔خلافت کے بعد امت کا تیاّ پانچہ اس شعر کی مصداق
بن گیا؎
ایسی ضرب لگی کہ میں تقسیم ہو گیا
جوکچھ جمع تھا ذات میں تفریق ہوگئی
ترکی کی نام نہاد آزادی بنام مغرب کی غلامی میں کا آغاز ہی انتہا پسندانہ
جارحیت سے ہوا ۔ مٹھی بھر مغرب زدہ حکمرانوں نے معاشرے سے مذہب کو بزور
شمشیر نکال باہر کیااور عوام پر لادینیت کو تھوپ دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ آج
جس طرز زندگی کی خاطر احتجاج کیا جارہا ہے وہ برضا و رغبت اختیار نہیں کیا
گیا تھا بلکہ ابن الوقتوں نے اسے زبردستی مسلط کیا تھا ۔تقریباً اسی سالوں
تک ترکی پر سیکولر جمہوریت اور فوجی آمریت کے بزعمِ خودروشن خیال طبقے نے
حکومت کی اور اسلام پسندوں پر ہر طرح کا ظلم و جور روا رکھا لیکن اسی کے
ساتھ ان مادہ پرستوں ترکی معیشت کا جو حال کیا وہ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔اس
طویل افراتفری کے نتیجے میں ۱۹۹۴ سے لے کر۲۰۰۱ کے دوران سات سالوں میں
ترکی پانچ مرتبہ یکے بعد دیگرے شدید سے شدید ترمعاشی بحران کا شکار ہوتا
چلا گیا۔فروری ۲۰۰۱ کےایک دن میں ترکی کرنسی لیرا کی قوت خرید میں سو
فیصدکی کمی واقع ہوگئی اس طرح وہ نصف ہو کر رہ گیا۔ایک رات کے اندرسود کی
شرح میں ۷۵۰۰فیصد کا اضافہ ہوگیا۔ چند دنوں کے اندر ملک سے ۷۰۰ کروڈ ڈالر
غائب ہوگئے اور حصص بازار زمین بوس ہوگیا۔زرمبادلہ کم ترین لازمی مقدار سے
گھٹ گیا۔مہنگائی میں اضافے کی شرح ۶۷ فیصد ہوگئی اور معاشی پیداوار نفی ۵ء۸
فیصدپر پہنچ گئی۔ گویا معیشت کا پہیہ ترقی کے بجائے تنزل کی جانب گامزن
ہوگیا۔بجٹ کا خسارہ ۱۵ فیصد اور حکومتی قرضہ جات کی مقدار قومی پیداوار کے
۹۰ فیصدہوگئی۔
لادینی جمہوریت اور فوجی آمریت کے درمیان قوم کی حالت ایسی تھی گویا ایک
جانب آگ کا گھڑا ہو اور دوسری جانب گہری کھائی ۔ اس نازک ترین مرحلے میں
ترکی عوام نے اسلام کے دامن میں پناہ لی اور اسلام پسندتعمیر و انصاف پارٹی
کے ہاتھوں میں اقتدار کی زمامِ کار سونپ دی۔ اس کے بعد جوکچھ ہوا وہ کسی
معجزے سے کم نہیں ۔ ایک طرف یوروپ و امریکہ کساد بازاری کا شکار ہوئے اور
دوسری جانب ان دس سالوں میں ترکی کی قومی پیداوار کی شرح میں پانچ گنا
اضافہ ہوا وہ ۱۵ کروڈ ڈالر سے بڑھکر۷۹ کروڈ ڈالرتک پہنچ گئی۔اوسط فی کس
آمدنی میں بھی ۴ گنا کا اضافہ ہوا جو۴۰۰۰ ڈالر سالانہ سے بڑھکر ۱۱۰۰۰ ہزار
تک جاپہنچی ۔مہنگائی کی شرح دس گنا گھٹ کر ۵ء۶ تک آگئی اورسود کی حقیقی
شرح صفر فیصد ہوگئی۔برآمدات ۲۵۰۰ کروڈ ڈالرکے بجائے ۱۵۲۰۰ کروڈ ڈالر کو
چھونے لگے ۔بیرونی سرمایہ کاری۱۰۰ کروڈ سے ۱۴۰۰ کروڈ ہوگئی۔ فی الحال
سالانہ ترقی کی شرح ۶ فیصد ہے۔زرمبادلہ ۲۰۰۰ کروڈ سے بڑھکر ۱۲۵۰۰ کروڈ ڈالر
ہوچکا ہے اور گزشتہ مئی میں سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ ترکی پر ۲۰۰۱ میں
آئی ایم ایف کا جو ۲۳۵۰ کروڈ ڈالر کا قرض تھا اس کی آخری قسط ادا کرکے
ترکی نے بین الاقوامی استعمار کے چنگل سے اپنے آپ کو آزاد کرلیا۔اس بات
کی قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ آئندہ سالوں میں ترکی کا شمار دنیا دس سب
سے بڑی معاشی طاقتوں میں ہوگا ۔
ترکی کے اندر برپا ہنگامہ آرائی کو اس پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے ۔
ترکی کی جدید تاریخ میں تقسیم چوک پر پرتشددمظاہرےکوئی حیرت کی بات نہیں ہے
۔ اسلام پسندوں کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے۱سی مقام پرسیاہ اتوار ۱۶
فروری ۱۹۶۹ کے دن بائیں بازو والے حملہ آوروں نے دائیں بازو ۱۵۰ مظاہرین
کو زخمی کردیا تھا۔اسی تقسیم چوک پریکم مئی کو مزدوروں کے دن احتجاج کرنے
والے ۳۶ مظاہرین کسی نامعلوم حملہ آور کے ہاتھوں ۱۹۷۷ میں ہلاک ہو گئے
تھے ۔ ۲۰۰۰ میں فٹبال میچ کے دوران ۲شائقین کو یہیں پر چھرا گھونپ کر ہلاک
کردیا گیا تھا۔تعمیرو انصاف پارٹی کے دورِ اقتدار میں ۳۱ اکتوبر ۲۰۱۰ کو
کرد خودکش حملہ آور کے حملے میں ۱۵ پولس اہلکار اور ۱۷ شہری اس مقام
پرزخمی ہوئے جس کے بعد یہاں مظاہروں پر پابندی لگا دی گئی ۔
رجب طیب اروان کی سخت گیری یا خوداعتمادی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح
کے ملک گیر مظاہرے ان کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہیں ۔ ۲۰۰۷ میں ہونے
انتخابات سے قبل بھی اسی طرح لاکھوں لوگ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے
تھے لیکن آگے چل کر یہ انکشاف ہوا کہ اس احتجاج کے پسِ پردہ ایرگینیکون
نامی دہشت گرد گروہ کارفرما تھا ۔ اس گروہ کومفاد پرست سرمایہ داروں اور
فوج کی پشت پناہی حاصل تھی۔ سیاسی مخالفین نے بھی اس احتجاج کی بھرپور
حمایت کی تھی لیکن اس کے بعد نہ صرف تعمیرو انصاف پارٹی کا امیدوار صدارتی
انتخاب میں کامیاب ہوا بلکہ ۲۰۰۲ کے مقابلے اسلام پسندوں کے ووٹ کا تناسب
۳۴ فیصد سے بڑھکر ۴۷ فیصد تک پہنچ گیا ۔یہی وجہ ہے کہ اس بار حزب اختلاف نے
کسی درجہ احتیاط سے کام لیا ہے۔ وہ لوگ احتجاج میں شریک تو ہوئے مگر پارٹی
کا پرچم لہرانے سے گریز کیا۔
ترکی کے اندر ہونے والے احتجاج کی سطحی وجہ تو تقسیم چوک باغ کے پیڑوں کی
حفاظت ہے حالانکہ اس مطالبے میں کوئی خاص دم نہیں ہے۔ حکومت نے یہ بات واضح
کردی ہے کہ اس نے گزشتہ چند سالوں کے اندر ۲۵ لاکھ نئے پیڑ لگائے ہیں اور
اس کے بالمقابل کٹنے والے درختوں کی تعداد خاصی کم ہے لیکن کچھ لوگوں کا
اعتراض ہےکہ اس سے ان پیڑوں کو کاٹنے کا جواز نہیں بنتا۔ یہ دراصل نہایت
بچکانہ مطالبہ ہے ۔ پیڑ کی اپنی عمر ہوتی ہے جس کے بعد وہ خود سوکھ جاتا ہے
اور اس کی بھرپائی دوسرے نئے درخت لگانے سے کی جاتی ہے نیز ماحولیات کے
حوالے سے یہ تسلیم شدہ طریقۂ کار ہے کہ اگر کسی پروجکٹ کے باعث پیڑ کٹتے
ہیں تو ان کا متبادل دوسرے پیڑ لگا دئیے جاتے ہیں۔ اس پہلو سے منصوبے کا
مطالعہ کرنے کے بعد استنبول کی بلدیہ نے اس کو اجازت نامہ دیا ہے۔
وزیراعظم رجب طیب اردوان اگر حکمت وتحمل سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو اس
سے دور رکھتے اور میونسپلٹی کو مظاہرین سے نبٹنے دیتے تو شاید بات اس قدر
آگے نہیں جاتی لیکن چونکہ پیڑوں کا تحفظ تو محض ایک بہانہ تھا اس لئے اس
صورت میں بھی قیاس یہ ہے کہ معاملہ ضروربگڑتا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس مخالفت
کی جڑ درخت اور ماحولیات نہیں بلکہ افکار و نظریات ہیں جسے طرزِ زندگی کا
نام دیا جارہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے حکومت اپنے نظریہ حیات یعنی دینِ
اسلام کو ہم پر تھوپ رہی ہے۔ شراب کی خریدو فروخت پر لگائی جانے والی
پابندی کو اس بابت مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ حکومت نے ابھی
تک شراب پر مکمل پابندی لگائی نہیں ہےبلکہ صرف اس کے خریدو فروخت کے اوقات
کی تحدید کردی گئی ہےمثلاًاب رات دس بجے سے صبح چھے بجے تک شراب نہیں بکے
گی ۔ یا شراب کی دوکانیں عبادتگاہوں اور مدارس کے قریب نہیں ہوں گے یا شراب
نابالغ لوگوں کو نہیں بیچی جائیگی اور اس پر مضر اثرات بوتل پر لکے ہوئے
ہوں گے ۔شراب پی کر گاڑی چلانے کی مقدار کم اور جرمانہ بڑھا دیا جائیگا۔ ان
میں سے ایک بھی بات ایسی بات نہیں ہے جو یوروپ و امریکا تک میں اجنبی ہو۔
اسین میں شراب کی دوکانیں سات بجے بند ہوجاتی ہیں اور اتوار کو اس کی فروخت
پر مکمل پابندی ہوتی ہے ۔ مدارس اور عبادتگاہوں کے قریب شراب کی دوکان کو
ہندوستان تک میں اچھا نہیں سمجھا جاتااور سگریٹ کے پیکٹ پر اس کے برے اثرات
جلی حروف میں لکھے ہوتے ہیں ۔تو گویا یہ بھی اصل بنیاد نہیں ہے بلکہ ایک
اندیشہ ہے کہ آگے چل کر شراب پر مکمل پابندی لگ جائیگی یا محض ایک بہانہ
ہے۔
مظاہرین ماحولیات کے علاوہ تہذیبی شناخت اور سیاحت کی صنعت و حرفت کا بھی
حوالہ دیتے ہیں لیکن اصل پریشانی عثمانی دور کی یادگار تقسیم اسلحہ بیرک کی
تعمیرِ نوپر ہے ۔ یہ عمارت ۱۹۴۰ تک وہاں موجود تھی اور اس کا دوبار تعمیر
ہونا یقیناً سیاحوں کی کشش کا ذریعہ بنے گا اس لئے کہ سیاح ہمیشہ ہی ماضی
کی تہذیب و ثقافت کو جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ماضی کے اسرارو رموز
سیاحوں کو دوردراز کے ویران مقامات تک لے جاتے ہیں ۔ اگر اس کے ساتھ ایک
جدید بازار(مال) موجود ہو تو اس سے سیاحتی تجارت میں یقیناً اضافہ ہوگااور
عوام میں خوشحالی آئیگی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تہذیب و ثقافت کے تحفظ
کی خاطر ۷۰ سال قبل جب اس تاریخی عمارت کو مسمار کرکے اس کی جگہ تقسیم
اسٹیڈیم تعمیر کیا جارہا تھا اور پھر اسے بھی توڑ کر باغ بنا دیا گیا تو ان
اقدامات کے خلاف احتجاج کیا جاتا لیکن اس وقت کسی کی مجال نہیں تھی کہ
حکومت کے کسی فیصلے کے خلاف لب کشائی کرتا اس لئے سب خاموش رہے ۔ اب آزادی
ملی تو اس کا بیجا استعمال کیا جارہا ہے ۔
اس منصوبے میں نہ صرف اسلام کے تابناک ماضی کی یادگار قائم کرنا پیشِ نظر
ہے بلکہ اس کے تحت مصطفیٰ کمال اتاترک ثقافتی مرکز کو بھی مسمارہونا ہے ۔
۱۹۶۹ میں اس وسیع وعریض عمارت کی تعمیر کیلئے بھی وہاں پیڑ کاٹے گئے ہوں
لیکن چونکہ یہ جدید تہذیب کی ضرورت تھی اور آمرانہ حکومت تھی اس لئے کوئی
احتجاج نہیں ہوا۔ ۱۹۷۰ میں اس کے اندر کھیل کے دوران آ گ لگ گئی اور پھر
ایک بار اس کی مرمت کی گئی لیکن گزشتہ نو سالوں سے یہ عمارت اپنی خستہ حالی
کے باعث قابل استعمال نہیں ہے ۔ اس سال اکتوبر میں قومی دن کے موقع پر اس
کا افتتاح متوقع تھا ۔مظاہرین کے غم و غصہ کی ایک وجہ یہ بھی ہے یہ عمارت
بھی اس نئے منصوبے کی زد میں آگئی ہے۔اس کے علاوہ آبنائےباسفورس پر بنائے
جانے والے نئے پل کو سلطان محمود سے منسوب کرنا بھی مغرب زدہ لوگوں کے گلے
سے نہیں اتر رہا ہے۔ اس کیلئے سلطان کے ذریعہ علوی طبقے کے لوگوں کا قتل کا
بہانہ بنایا جارہا ہے ۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ فی الحال علوی فرقے سے تعلق
رکھنے والا بشارالاسد ترکی کی سرحد پر واقع شام میں قتل و ٖارتگری کرنے میں
مصروف ہے۔ قائمقام وزیر اعظم بلند آرنچ کے سامنے اپنے مطالبات میں مظاہرین
کے رہنماؤں ان نکات کی جانب توجہ مبذول کرکے تمام اندیشوں کو حقیقت میں
تبدیل کردیاہے۔
ماحولیات کے پسِ پردہ کھیلی جانے والی سیاست کا فائدہ جہاں حزب اختلاف نے
اٹھایا وہیں تعمیر و انصاف پارٹی بھی اس معاملے پیچھے نہیں رہی بلکہ اکثر
مبصرین کا خیال ہے آئندہ سال منعقد ہونے والے انخاابات میں مظاہروں کا
بلاواسطہ فائدہ حزب اقتدار کو ہی ہوگا۔ تعمیرو انصاف پارٹی کے حامیوں میں
ایک تو وہ لوگ ہیں جو اسلام پسند ہیں دوسرے ایسے لوگ ہیں جو نظریاتی اختلاف
کے باوجوداہلیت و صلاحیت کے سبب حمایت کرتے ہیں۔ احتجاج جب شروع ہوا تو اس
میں اے کے پی کے رائے دہندگان بھی شامل رہے ہوں گے۔ اس احتجاج کے خلاف جب
رجب طیب اردوان نے سخت گیر موقف اختیار کیا تو اس کا ردعمل تشدد کی صورت
میں سامنے آیا۔ اس موقع پرمظاہرے کوانتہا پسندوں نے اچک لیا اور وہ توڑ
پھوڑ ، آتشزنی پر اتر آئے ۔ ایسا لگتا ہے طیب اردوان یہی چاہتے تھے ۔
انہوں نے انتظامیہ کو اسے سختی کے ساتھ کچلنے کا حکم دے کر تشدد کی آگ اور
ہوا دے دی ۔ اس کے نتیجے میں وہ لوگ اسلام پسندوں کے خلاف کھل کر سامنے
آگئے ۔ انہوں نے نہ صرف تعمیروانصاف پارٹی کے دفتر کو آگ لگانے کی کوشش
کی بلکہ اسکارف پہننے والی خواتین کے ساتھ بھی بدسلوکی کی۔
اس مرحلے میں امن پسند لوگ مظاہرے سے الگ ہوگئے ۔ اسلام پسندوں کے نزدیک
وزیراعظم کا موقف حق بجانب قرار پایا۔ اس کے بعد ذرائع ابلاغ میں مظاہرے کے
نتیجے میں ہونے والے نقصان کے اعدادو شمار نے عوام کو پریشان کیا اس کے
باوجود معتدل شہریوں کےدلوں میں طیب اردوان کے خلاف غم و غصہ موجود تھا ۔وہ
چاہتے تھے کہ حکومت اپنے شہریوں کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آئے۔ان کےزخموں
پر مرہم رکھے اس کردار کو صدر مملکت عبداللہ گل نے ادا کیا ۔ انہوں نے پہلے
تو پولس کو تقسیم چوک سے ہٹوایا۔ لیکن اس کے بعد پھر وزیراعظم نے ایک نہایت
اشتعال انگیز انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پچاس فیصد عوام کی حمایت حاصل
ہے اس لئے ان مطاہرین سے اجازت نامہ درکار نہیں ہے۔ یہ شرابی ، فسادی اور
لٹیرے لوگ ہیں ۔ اپنے حامیوں کو مظاہرین کےخلاف طلب کرنے کی ناعاقبت اندیش
دھمکی دے کر وہ غیر ملکی دورے پر روانہ ہو گئے ۔
اس کے بعد پھر عبداللہ گل نے مظاہرین سے خطاب کرکے کہا ہمیں آپ لوگوں کا
پیغام مل گیا ہے ۔ہم ضروری اقدامات کریں گے اس لئے اب آپ اپنا مظاہرہ ختم
کردیں ۔ عبداللہ گل نےاحتجاج کو جمہوریت کا ضروری عنصر قرار دے کر مخالفین
کا دل جیت لیا اوریہ کہہ کرکہ جمہوریت صرف انتخابی کامیابی نہیں ہے طیب
اردوان کی بلاواسطہ تردید بھی کردی ۔ اس کے بعد قائمقام وزیراعظم بلند
آرنچ نے معافی مانگی اور گفت و شنید کا آغاز کردیا۔ اس طرح گویا مخالفین
کے ایک اور طبقہ کو ان لوگوں نے مل جل کر اپنا ہمنوا بنا لیا ۔اگر یہ
اتفاقی طور پر ہوا ہے کہ طیب اردوان سے چوک ہوگئی اور دوسروں نے اسے سنبھال
لیا تب تو قابل درگذر ہے لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ بند تماشہ
تھا ۔اگر ایسا ہے تو یہ حرکت اسلام پسندوں کے شایانِ شان نہیں ہے ۔ ہم
چونکہ عوام کے سامنے نہیں بلکہ اللہ کے سامنے جوابدہ ہونے پر ایمان رکھتے
ہیں اور رب ذوالجلال دلوں کا حال جانتا ہے اس لئےانتخاب میں کامیابی یا
ناکامی کے پیش نظر ایسی کسی بھی حرکت سے گریز کیا جانا چاہئے۔ تعمیر و
انصاف پارٹی کو اتحاد و اتفاق کی جدوجہد کرنا چاہئے اور تقسیم سے احتراز
کرنا چاہئے اس لئے کہ بقول احمد فراز ؎
آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
اے مرے سوختہ جانو مرے پیارے لوگو
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر مرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا مرے سارے لوگ |