ہمارے ملک میں ٹیلنٹ اور
صلاحیت کی کمی نہیں مگر بے حد افسوس کی بات ہے کہ وطن عزیز کے لا تعداد
قابل اور ٹیلنٹڈ طلبہ وطالبات ،نوجوان کھلاڑی ، سینیئر ڈاکٹرز ،سائنسدان
اور فنکار حضرات دیار غیر میں اپنی کامیابی و کامرانیوں کا لوہا منوا رہے
ہیں اور انکو پزیرائی بھی مل رہی ہے اس امر کو پاکستان کی خوش نصیبی سمجھیں
یا بد نصیبی ، اگر بدنصیبی ہے تو یہ کہ ایسے افراد سرحد پار اپنی کامیابیوں
کے گل کھلا رہے ہیں اور مختلف شعبہ ہات زندگی میں دیگر ممالک کے لیئے نت
نئی ترقی کی راہیں پیدا کررہے ہیں جس کی برعکس پاکستان ترقی کی دوڑ میں سست
ہوتا جارہا ہے اور خوش نصیبی ہے یہ کہ یہ اجسام نفع تو دیار غیر کو پہنچا
رہے ہے مگر ان کے دل پاکستانی ہیں اور انکی پہچان بھی اسی مٹی سے ہے غرض یہ
کہ ان کی آخری آماجگا ہ بھی یہ مٹی ہی ہے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ایسے ٹیلینٹڈ
افراداپنی کامیابیوں کا لوہا منوانے کے لیئے دیا ر غیرکی راہ کیوں اپناتے
ہیں ۔اور جو بچے کھچے با صلاحیت افرا د اور پریکٹیکل لائف میں قدم رکھنے
والے نوجوان ہے وہ اپنا مستقل بہتر بنانے کے لیئے دیگر ممالک کو کیوں منتخب
کررہے ہیں اور جو دیارغیر میں بسیرا کرنے کے لئے مالی وسائل کی اوقا ت نہیں
رکھتے وہ باہر جانے کے لیئے دن رات کسی قید پرندے کی طرح پر کیوں مار رہے
ہوتے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان افراد کا مستقبل بدقسمتی سے
ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہے جو اعلی افسران ، سیاسی شخصیات سے لیکر جونئیر
کلرک کی شکل میں، مخملی صوفوں پر بیٹھے افراد ہیں جن کو رشوت اور بے ایما
نی کی عادت ہوچکی ہیں اس دیار میں جو جتنا نالا ئق ہوتا ہے اسے اتنے بلند
مرتبے پر فائز کیا جاتا ہے ، اور ایسی بیورو کریسی اور انتظامیہ کا ہا تھ
ہے جو اقربا ءپروری اور غیر منصفانہ رویے کے عادی ہیں اور انکے دل خوف خدا
سے خالی ہوچکے ہیں۔اور یقینا ہمارے ملک کے وہ روشن ستارے جو انٹر نیشنل
لیول پر چمک رہے ہیں اگر یہاں ہوتے تو اعلی پایہ کے افسران اور سماج کے
ٹھیکیداروں کے لیئے رشوت اکھٹے کررہے ہوتے یا مختلف شعبات کے دفاتر کے چکر
لگا رہے ہوتے ۔ پورے ملک کی طرح یا اس بھی قدرے زیادہ بری حالت بلوچستان کے
ضلع لسبیلہ کی ہے لسبیلہ میں بھی ایسے ٹیلنٹڈ اور با صلاحیت نوجوانوں اور
پلیئر ز کی کمی نہیں جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر چمک سکتے ہیں مگر
انکی حوصلہ افزائی کرنےوالی اور انکے لیئے موثر اقدامات کرنے والی شخصیات
کی کمی نظر آتی ہے ، دیگر مسائل کو کچھ دیر کے لیئے ایک کونے میں رکھ کر
صرف گز شتہ چند برسوں مختلف ڈپارٹمنٹس میں بکتی تقرریوں اور اور میرٹ کے
قتلوں پر نظر دوڑائیں تو دل خون کے آنسو رو نے پر آمادہ ہوجاتا ہے ، ایسے
نوجوانوں کے افسردہ چہروں کو دیکھیں جو انتہائی قابل اور ٹیلینٹڈ ہونے کے
باوجود دفتروں کے دھکے کھا رہے ہیں یا بیروزگاری کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔حالانکہ
ان قابل اور باشعور فرزندان لس کو اعلی عہدوں پر فائز یا کسی اعلی
یونیورسٹی میں ہونا چاہیے تھا جس کے وہ اہل ہیں مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔رشوت کی بھاری
رقم اور کسی بڑے صاحب کی چاپلوسی جیسی غلیظ روایات کی وجہ سے ان کے خواب
شرمندہ تعبیر ہیں ہمارے معاشرے میں رشوت اور سفارش اس حد بڑھ چکی ہے کہ بڑی
تعدا د میں قابل نوجوانان کئی برسوں سے نجی اخباروں میں اسامیاں خالی ہیں
کے اشتہارات ڈھونڈنے کے عادی ہوچکے ۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ میرٹ
کا معیار نہیں دیکھا جاتا بلکہ کسی وڈیرے ، اعلی پایہ کے افسر یا کسی سردار
یا نواب کی قرابت یا رشوت کامعیار دیکھا جاتا ہے یہاں پر کسی عہدے پر فائز
ہونے کے لیئے کسی بڑے صاحب کا عزیز یا کسی سیاسی پارٹی کا رکن ہونا ضروری
بن چکا ہے ۔ مگر کہتے نا کہ امید ہی انسان کو زندہ رکھتی ہے اسی امیدکے
دھوکے میں آکر یہ نوجوان ہر نئے اشتہار کو پڑھ کر مسرت محسوس کرتے ہیں کہ
اس بار ان کے خواب حقیقت کا روپ ڈھاریں گے کسی روز تو کوئی عادل اور نیک
سیرت بندہ محمود کی سیرت، عمربن خطاب ؓ کی عادلانہ صفت لیئے آئے گا مگر ہر
بار ما یوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر کوئی ایسا مرد مجاہد آبھی جائے اور
صرف شفاف طریقے سے انٹرویو لینے کی جسارت کرے تو تحفے میں اسے اعلی حکام کی
گالیا ں اور ٹرانسفر کا نوٹس ملتا ہے اوروہ انٹرویوز بھی کوئی وجہ بتائے
منسوخ کئیے جاتے ہیں اور انٹرویوز کی منسوخی تو روز مرہ کا معمول بن چکا ہے
غریب اور بیروز گا ر نوجوانان بیکا رمیں انٹرویوز کے بھاری سفر خرچ اور
دیگراخراجات پر جتنی رقم ضائع کرتا ہے اگران اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا
تو ان انٹرویوز پر کسی پوسٹ کی آس میں ضا ئع کئیے گئے رپوں کے عوض چھوٹے
کاروبار کا آغا زآسانی سے کر سکتا تھا ہماری نوجوان نسل کو دکھ اس بات کا
بھی ہے کہ تمام معز ز اورلمبی تقاریر کرنے والی ہستیاں جانتے ہوئے بھی ان
کے دکھوں کا مداوا کرتی نظر نہیں آتی گستاخی معاف مگر اہل قلم ،اہل ظرف
صحافی حضرات اور سماجی شخصیات کسی چھوٹے مسئلے کو لیکر دھوم دھام کے ساتھ
ریلیاں نکالتے اور نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں اور نجی اخباروں میں تعزیتی
پیغامات اور حمایتی بیانات کی شہہ سرخیا ں نظر آتی ہیں مگر افسوس صد افسوس
نوجوان جوملک و قوم کا سرمایہ ہے ان ہی کے مستقبل کی بولیاں سر عام لگتی
ہیں اور انکے جزبات و احساسات کا مزاق اڑایاجاتا ہے ان کے ساتھ اس قدر زیا
دتی کا عملقابل غور ہونے کے باوجود اس مسئلے کو اہل قلم ،اہل علم بھی
سنجیدگی سے نہیں لے رہے ،اور کبھی کبھار بھولے سے کوئی بندہ ناچیز کی طرح
مزکورہ مسئلے پر زبان کھولتا ہے یا قلم اٹھانے کی کاوش کرتا ہے تو اسے
انعام میں رسوائی ملتی ہے یا اسکو یا اسکے کسی عزیز کو کوئی پوسٹ خیرا ت
میں دے کر چپ کرایا جاتا ہے۔ نا انصافی، ظلم اور بے راہ روی اس عروج پر ہے
کہ خا کروب یا چوکیدار جیسی اسامیاں لاکھوں کے حساب سے بھیجی جا رہی ہیں یا
کسی بڑی سفارش کا ہونا انتہائی ضروری بن چکا ہے ۔میں ان ڈیپارٹمنٹ اور اعلی
افسران کو ایک مشہورہ دینا چاہتا ہوں جو میرٹ کے جھوٹے دعوے کرکے سکوں کے
عوض معاشرے کو نااہل خدمت گار عطا کررہے ہیں کہ آئندہ اگر کسی اخبار میں
خالی اسامیوں کو پر کرنے کے کوئی اشتہار دینا ہو تو برائے کرم اس میں ایک
کالم کا اضافہ کیجیئے تاکہ انٹرویو کے بعد کوئی قابل اور باصلاحیت امیدوار
ما یوسی اور شرمندگی سے ہمکنار نہ ہو ، یاکم از کم اس مشہورے پر عمل کرکے آ
پ کسی غریب امیدوار کو انٹرویوز کے اخراجات کے لیئے کسی کا مقروض ہونے سے
بچا سکتے ہیں ، مشورہ یہ ہے کہ آئندہ اگر کبھی اشتہار دینا ہو تو اس طرح
دیں جس میں اسامی کے نام کے ساتھ جس طرح اسکیل اور تاریخ انٹرویو درج ہوتی
ہے بالکل اسی طرح مطلوبہ اسامی کی قیمت بھی درج کریں تا کہ کسی میرٹ پسند
امیدوار کو انٹرویو دینے کی زحمت نہ پڑے ، جیسے جونئیر کلرک ۲ لاکھ بمع
سفارش فلاں ، خاکروب ۱ لاکھ ، چپڑاسی 50 ہزار اور آخر میں یہ نوٹ بھی ہونا
چاہئے کہ فلاں اسامی کو حاصل کرنے کے لیئے کس وڈیرے یا سیاستدان کی سفارش
ہونا لازمی ہے ۔ جب بولیاں سر عام لگ رہی ہوں تو میرے خیال میں اشتہا ر میں
اسامی کی قیمت دینے میں کوئی حرج نہیں ، اور ایک قول ان کی خدمت میں بھی جو
اپنی اولاد کے لیئے رشوت کے عوض پوسٹیں خریدنے کو روایات سمجھ بیٹھے
ہیں،اور وہ جو رشوت لیکر اپنا اور اپنی اولاد کا مستقبل بہتر بنانے کے لیئے
کوشاں ہے اور یہ فرمان اس پیغمبرﷺکا ہے جو حامی بے کساں ، ہے جس کی سنت پر
عمل کرنے کے اور جن کے عاشق ہونے کے یہ دونوں گروہ داعی ہیں ، اسی ہادی
برحق نے فرمایا ( رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی )۔اور باصلاحیت
اور باشعور فرزندان لس کی خدمت میں عرض ہے کہ ظلم اور نا انصافی سہنے کو
عادت بنانے سے گریز کریں ، اور حق تلفی اور نا انصافی کے بدلے ما یوسی کو
شہوہ نہ بنائیں ہما رے اس عمل سے آ نے والی نسلوں کو علم و حکمت اور محنت
سے دشمنی ہوجائے گی ، اورظلم کا بدلہ لینے کی بساط رکھنے کے باوجود ظلم
سہنے والا ظا لم کو موقع دیتا ہے اور جو ظلم کو موقع دیتا ہے وہ بھی شریک
ظالم ہے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے آ پ تب ہی اہل ہونگے جب آ پ میںعلم و ہنر
خود اعتمادی حقیقت پسندی ا ور ملک و قوم سے محبت و ہمدردی جیسی صفات ہوں گی
، تبدیلی اور سامراجیت کا خاتمہ باتیں کرنے اور نعرے لگانے سے نہیں ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔ |