اور پھر وہی ہوا جس کا کہ اُس کو ڈر تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!۔
جمعة المبارک ہونے کے سبب مسجد میں کافی بھیڑ تھی۔ کچھ ہی دیر میں خطبہ
شروع ہوا چاہتا تھا۔ وُضو کرنے کی جگہ پر نمازیوں کا ایک اژدھام تھا۔ رحمت
خان کابلی اِسی انتظار میں تھا کہ جیسے ہی اُس کی باری آئے تو وہ وُضو کر
کے خطبے کے شروع ہونے سے پہلے چار رکعات سُنت پڑھ لے۔ باری آنے پر وضُو کیا
اور جلدی سے صفیں باندھتے نمازیوں میں شامل ہوگیا۔ آنکھیں بند کیں۔ بسم
اللہ پڑھ کر نیت باندھی۔ تکبیر پڑھ کر رکعت ادا کرنا شروع کردی۔ ابھی شاید
دو ہی رکعات پڑھی ہوں گی کہ ذہن پر خیالات کی یلغار ہونا شروع ہوگئی۔ اُس
نے پوری کوشش کے ساتھ اُن خیالات کو اپنے زہن سے جھٹکنا چاہا لیکن اُس کے
لیئے اپنی سوچوں پر قابو پانا بے حد مُشکل ہو رہا تھا۔ اسی اثناء میں اُسے
یہ خیال آیا کہ ان خیالات اور سوچوں کے درمیان وہ یہ تو بُھول ہی گیا کہ اب
تک کتنی رکعات مکمل کرچکا ہے۔ اِس خیال کے آتے ہی جاری رکعت کے جس مقام پر
تھا وہ بھی اُس کے ذہن سے نکل گیا۔ یہاں تک اُسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ اُس
نے قیام کے دوران سورہِ حمد پڑھی اور اگر پڑھی تو اُس کے بعد کوئی دوسری
سورہ پڑھی بھی یا نہیں۔ وہ رکوع میں بھی گیا کہ اپنے خیالات کے دھاروں میں
بہتا ہوا سیدھا سجدے میں ہی چلا گیا تھا۔ اپنے سر کو جھٹک کر اُس نے پھر سے
رکعت کا آغاز کیا لیکن وہی اِدھر اُدھر کے خیالات اور سوچیں دماغ کو گھیرے
رہیں۔ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ نیت کے مطابق اب تک وہ چار رکعات مکمل
کرچکا ہے یا ایک آدھ مذید پڑھنی ہے۔
ابھی اِسی کشمکش میں تھا کہ اُسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اُس کے سارے جسم
پر چونٹیاں سی رینگ رہی ہوں۔ اپنے ماتھے اور بغلوں سے پسینے کے قطرے بہتے
ہوئے محسوس ہونے لگے۔ گو کہ اُس کی آنکھیں بند تھیں لیکن وہ ایسا محسوس کر
رہا تھا کہ مسجد میں موجود ہر زی رُوح کی نظریں جیسے اُسی پر ہی گڑھی ہوئی
ہوں۔ وہ کچھ نہ دیکھتے ہوئے بھی اپنے جسم پر بیشمار گھورتی آنکھوں کی تپش
محسوس کرنے لگا۔ گھبراہٹ میں آنکھ وا ہوئیں تو دیکھا کہ کوئی بھی تو اُس کی
جانب متوجہ نہیں۔ ہر کوئی اپنے کام میں لگا ہوا ہے۔
اچانک خطبے کا اعلان ہوا۔ اُس نے جلدی جلدی ایک رکعت پڑھی اور پھر خطبہ میں
شامل ہوگیا۔ لیکن یہاں بھی وہی صورتحال تھی۔ ابھی بمشکل امام صاحب کی کہی
چند باتیں اُس کے خُشک ذہن میں جذب ہونے بھی نہ پائی تھیں کہ اُس نے ایک
بار پھر سوچوں اور خیالوں کے گھنے جنگل میں خود کو تنہا پایا۔ نہ معلوم کب
خطبہ تمام ہوگیا۔ باجماعت نماز کا آغاز ہوا تو اُس دوران بھی وہ خیالات کے
طُومار سے وہ خود کو محفوظ نہ رکھ سکا۔ کب اور کیسے نماز ادا ہوئی وہ تو بس
رحمت خان کابلی کا خدا ہی جانے۔
مسجد سے باہر آ کر اُس نے چہرے سے ٹکراتی اور بالوں کو اڑاتی تیز ہوا میں
کئی گہرے گہرے سانس لیئے۔ گو کہ سردیوں کا موسم تو نہ تھا لیکن ہوا میں
ہلکی سی خنکی تھی۔ ہوا کو اپنے پھیپڑوں میں اتارتے ہوئے خود کو قدرے
پُرسکون سا محسوس کیا۔ اُس نے مڑ کر مسجد کی طرف دیکھا۔ نمازی تیزی کے ساتھ
مسجدِ محبت خان کے بڑے دروازے سے برآمد ہورہے تھے۔ اُن کے چہروں سے تازگی،
طمانیت، خوشی اور سکون جھلک رہا تھا۔
۔"یارب العالمین، آخر یہ کیا ماجرا ہے۔ یہ میرے ساتھ آخر ہو کیا رہا ہے؟ اب
سے کچھ عرصے قبل تک تو میری نمازوں میں خُوب سرشاریاں تھیں۔ اطمینانِ قلب
تھا۔ میری توجہ نماز پر مرکوز رہتی تھی۔ لیکن اب یہ کیا ہو رہا ہے۔ نہ میری
توجہ ہی نماز میں مرکوز ہو پاتی ہے اور نہ ہی میں وہ پہلے سا اطمینان و
سکونِ قلب حاصل کر پا رہا ہوں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایک عجیب سی بے کلی و
بے چینی ہر لحضہ مجھے گھیرے رہتی ہے۔ ایک نامعلوم سا خوف ہمہ وقت دل و جاں
پر سوار رہتا ہے۔ جتنے ہی جتن کیوں نہ کرلوں میرا دھیان دوارنِ نماز بٹ ہی
جاتا ہے۔ یہ آخر مجھے کیا ہو گیا ہے؟" رحمت خان کابلی یوں بڑبڑاتا ہوا چلا
جارہا تھا جیسے خُود ہی سے تو باتیں کررہا ہو۔
ابھی زرا تھوڑا سا ہی آگے بڑھا تو پھل فروشوں کی رھڑیاں نظر آئیں۔ اُسے یاد
آیا کہ جب وہ گھر سے نکلا تھا تو بیوی نے تاکید کرتے ہوئے کہا تھا:۔ "خان
جی، زرا یاد سے ہر طرح کا پھل فروٹ لیتے ہوئے آئیے گا۔ آپ کو تو معلوم ہی
ہے کہ بچے کس شوق سے پھل کھاتے ہیں۔ دو دن پہلے آپ جو پھل لائے تھے وہ تو
یہ سارے اُسی روز ہی چٹ کرگئے تھے"۔
اُس نے بناء کسی بھاو تاؤ کے ہمہ اقسام پھل درجہِ اول بڑے بڑے تھلیوں میں
بندھوایا۔ پھل فروش نے پاس ہی منتظر کھڑے ایک بچے کو اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے
ہی وہ پانچ سات سالہ بچہ تیزی سے آگے بڑھا اور بھاری بھرکم تھیلیاں اپنے
دونوں کاندھوں پر ٹنگے تنکوں سے بنے بڑے بڑے تھلیوں میں بھر لیں اور انہیں
اپنے کاندھوں پر لٹکا کر بدقت تمام چلتے ہوئے گاڑی تک پہنچ پایا۔ رحمت خان
نے گاڑی کی ڈکی کھولی۔ بچے نے سارے تھیلے اندر رکھ دیئے اور سلام کر کے
جانے لگا تو رحمت خان نے فورا اپنی جیب سے ایک بیس روپے کا نوٹ نکال کر اس
کے ہاتھ پر دھر دیا۔ بیس روپے کا نوٹ پا کر تو جیسے بچے کی عید ہی ہو گئی
ہو۔ اُس کی تو باچھیں ہی کھل گئیں۔ اُس نے ایک بار پھر اُسے سلام کیا۔ لیکن
اِس بار کے سلام اور پہلے والے سلام میں ایک واضح فرق تھا۔ بچے کے چہرے سے
خوشی پھُوٹی پڑ رہی تھی۔ رحمت خان یہ منظر بس دیکھتا ہی رھ گیا۔ وہ کہتے
ہیں نہ کہ مسکراہٹ بھی متعدی بیماریوں کی طرح سے اُڑ کر لگتی ہے۔ بچے کے
خُوشی سے دمکتے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر رحمت خان کے چہرے پر بھی ایک
بےساختہ سی مسکراہٹ دوڑ گئی اور اُسے ایسا لگا کہ جیسے اُس مسکراہٹ کا آغاز
تو اِس معصوم سے بچے کے ہونٹوں سے ہوا۔ لیکن وہ سیدھی جا کر اُس کے دل میں
اُتر گئی ہو۔
ایک نہ معلوم اور عجب موہوم سا سُکون اور احساسِ مسرت لیئے وہ اپنی گاڑی
میں داخل ہوا۔ گاڑی اسٹارٹ کرکے اپنے گھر واقع حیاتِ آباد کے نئے اور
خوبصورت ترین فیز7 جس کا شمار پیشاور شہر کے ممتول ترین علاقوں میں ہوتا ہے
کی جانب رواں دواں ہوگیا۔ اپنے دس مرلے کے انتہائی خوبصورت سے ڈبل اسٹوری
بنگلے کے آہنی دروازے پر پہنچ کر گاڑی کا ہارن بجایا۔ فوراً ہی مسلح
چوکیدار نے آہنی دروازے کا ایک پٹ کھول دیا۔ رحمت خان نے کھڑکی کا خود کار
شیشہ نیچے کر کے چوکیدار شیر خان کو ہاتھ کے اشارے سے بلایا اور اُس کے
نزدیک آتے ہی بولا:۔ " سنو شیر خان، گاڑی کی ڈکی سے پھل اتار لو اور بیگم
صاحبہ دے کر کہنا کہ صاحب چلے گئے ان کو دیر ہورہی تھی"۔ اتنا کہہ کر رحمت
خان نے گاڑی کے اندر ہی سے ایک ک٘ل دبا کر ڈکی کھول دی۔ شیر خان نے پھرتی
کے ساتھ ساری تھیلیاں ڈکی سے نکال کر ڈکی بند کی اور تھیلیاں اٹھا کر اندر
چلا گیا۔
رحمت خان نے گاڑی ریورس کی اور کچھ ہی دیر میں وہ پیشاور کے مشہور تاریخی
قصہ خوانی بازار کے اپنے چوبیس گھنٹے کھلے رہنے والے "کابلی ریسٹورینٹ" کی
جانب گامزن تھا۔ گھر اور ریسٹورینٹ کے درمیان کم وبیش کوئی بیس بائیس
کلومیڑ کا فاصلہ تھا اور عموماً سارا راستہ اُسے کافی بھیٹر بھاڑ کا سامنا
کرنا پڑتا لیکن اُس روز خُوش قسمتی سے اُسے بہت ذیادہ ٹریفک نہ ملی۔ گاڑی
بڑی سُبک رفتاری کے ساتھ پہلے فیز7 روڑ اور پھر فیز2 روڈ سے ہوتی ہوئی
پیشاور رِنگ روڈ پر داخل ہوئی اور کوئی بارہ کلومیڑ کا فاصلہ طے کر کے
بائیں طرف والے موڑ سے کوہاٹ روڈ میں داخل ہوگئی جو کوئی آگے چار ایک
کلومیڑ کے بعد سنیما روڈ میں تبدیل ہو گئی۔ چند سو میڑ کے فاصلے کے بعد
رحمت خان نے گاڑی کو دائیں طرف کو مڑ کر قصہ خوانی بازار میں داخل کردیا۔
یہ رحمت خان کا روز ہی کا راستہ تھا۔ اُسے پتہ ہی نہ چلتا تھا کہ کب اُس نے
گاڑی کو کس سڑک پر ڈالا اور کونسا موڑ کاٹا۔ بس یہ سب کچھ تو خود بخود ہی
ہوتا چلا جاتا اور وہ اپنے گھر سے یہاں پہنچ جاتا۔ ہاں البتہ اگر ٹریفک جام
ملے جو کہ اکثر ملتا تو اُس صورت میں اُس کی پریشانی دیدنی ہوتی ہے۔
یہ ہوٹل اُس کے مرحوم دادا نے اُس وقت بنایا تھا جب وہ خود کو ایک کڑیل
جوان تھے۔ کابلی پٹھانوں کا یہ خاندان رحمت خان کے دادا اور پڑداد کے زمانے
میں جب ہندو و پاک پر انگریز سرکار کی عملداری تھی کابل سے بسلسلہِ روزگار
ہجرت کرکے پیشاور آ بسا تھا اور پھر اُس وقت سے یہ ہی اُن کا وطن ٹہرا۔
رحمت خان کے دادا ولایت خان کابلی نے اپنی نوجوانی میں "کابل ہوٹل" کے نام
سے اِس کی داغ بیل ڈالی اور وہ اُن ہی کے زمانے میں اپنے خُوش زائقہ کھانوں
اور خالص پیشاوری دودھ پتی چائے کے لیئے بے پناہ مشہور ہو چکا تھا۔ ولایت
خان کابلی کے بعد اُس کے چھوٹے بیٹے کفایت خان کابلی نے اُس کا انتظام و
انصرام سنبھالا اور پھر جب آج سے کچھ بیس بائیس سال قبل رحمت خان کابلی نے
پیشاور یونیورسٹی سے بی اے مکمل کیا تو اُس کے والد نے اپنے بوڑھے کاندھوں
کا بوجھ اُس کے جوان کاندھوں پر لادھ دیا۔ رحمت خان نے اُس کی نئے سرے سے
تزئین و آرائش کر کے اُسے "کابلی ریسٹورینٹ" کا نام دیا اور روایتی شہرت کو
برقرار رکھا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اُن میں چار چاند لگا
دیئے۔ پانچ سال قبل کوئی 65 سال کی عمر میں اُس کے والد کا اچانک انتقال
ہوگیا۔ حالانکہ اُنہیں کوئی ایسی خاص بیماری بھی لاحق نہ تھی۔ ڈاکٹر ہارٹ
فیلیور کا کیس بتاتے تھے۔
رحمت خان اپنی مخصوص جگہ پر گاڑی پارک کر کے پیچھے والے دروازے سے ہوٹل میں
داخل ہوا۔ ابھی وہ ہوٹل کے پیچھے بنے ہوئے اپنے کمرے میں داخل ہی ہوا تھا
کہ اُسے دیکھ کر کریم خان جو کہ ہوٹل کے تمام بیروں اور باورچیوں پر نگران
مقرر تھا دوڑتا ہوا آیا۔ "خان جی کہاں رھ گئے تھے آپ؟ ہم کتنی دیر سے آپ کے
موبائل پر کال کررہا تھا لیکن وہ مسلسل بند ہی آ رہا تھا" اُس کی آواز سے
پریشانی متحرش تھی۔ "اوہ ہاں اُسے تو میں نے مسجد میں داخل ہونے سے قبل ہی
بند کردیا تھا اور پھر آن کرنا یاد نہ رہا"۔ رحمت اپنی جیب سے موبائل نکال
کر آن کرتے ہوئے بولا۔ "لیکن بات کیا ہے تم اتنے پریشان کیوں ہو؟" "جی خان
جی وہ شاہ بابا آئے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!"۔ "اُف خدایا، میں کس قدر بھلکڑ
ہوتا جارہا ہوں۔ اُنہوں نے خُود ہی تو مجھ سے کہا تھا کہ وہ بعد نمازِ جمعہ
ہوٹل کا چکر لگائیں گے۔ تم نے انہیں بیٹھایا کیوں نہیں؟ ان کی کوئی خاطر
تواضع بھی کی یا وہ ویسے ہی چلے گئے؟ تم نے انہیں روکا کیوں نہیں؟"۔ رحمت
خان نے سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ "جی وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، خان جی۔ ۔ ۔ ۔
۔وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!خان جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!،وہ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!" کریم خان کچھ
کہنا چاہ رہا تھا لیکن بس ہکلا کر ہی رھ گیا۔ "یہ کیا خان جی اور وہ وہ کی
رٹ لگا رکھی ہے؟" رحمت خان غصّہ ہوتا ہوا بولا۔ "جی خان جی وہ بات یہ ہے کہ
ہم نے تو بوتل شوتل چائے شائے دونوں کا پوچھا تھا لیکن اُنہوں نے ہی انکار
کردیا اور کچھ دیر ہوٹل میں اِدھر اُدھر چکر لگایا اور پھر بیروں میروں سے
بات شات کرتے رہے۔ پھر ہم اپنے کام میں مصروف ہوگیا کہ اچانک اُن کی زور
زور سے بات کرنے کی آواز سنی۔ ہم اُس وقت کاونٹر پر تھا۔ اُن کی آواز کچن
سے آرہی تھی۔ ہم ڈور کر کچن میں گیا تو شاہ بابا کا چہرہ شدید غصّے سے لال
ہورہا تھا۔ ہم کو دیکھتے ہی چلا کر بولے:۔ "کہہ دینا رحمت خان سے میں آیا
تھا" اتنا کہہ کر انہوں نے وہاں ایک کونے میں کھڑے تھر تھر کانپتے ضابطہ
خان کا ہاتھ پکڑا اور چلے گئے۔ ہم پوچھتا ہی رھ گیا کہ شاہ بابا آخر بات
کیا ہے جو آپ اتنا غصّہ کھا رہے ہیں۔ لیکن وہ تو تیزی کے ساتھ باہر نکلے
اور اپنی گاڑی جس میں ڈرائیور تیار بیٹھا تھا۔ اپنے ساتھ ضابطہ خان کو سوار
کر کے روانہ ہوگئے"۔ رحمت خان مارے حیرت کے بس منہ کھولے سنتا رہا۔ کچھ دیر
خاموشی چھائی رہی اور پھر جیسے یکدم اُسے ہوش آ گیا ہو۔ اپنے ہاتھ میں پکڑے
ہوئے موبائل فون پر شاہ بابا کا نمبر تلاش کرنا شروع کردیا لیکن فوراً اپنا
ارادہ ملتوی کردیا اور یہ کہتا ہوا باہر کی جانب دوڑا: "میرا خیال ہے کہ
اُس وقت انہیں فون کرنا غیر مناسب ہوگا۔ میں خود ہی ان کے گھر جا کر ان کے
غصّہ کی وجہ معلوم کرتا ہوں"۔
رحمت خان گاڑی میں سوار ہو کر شاہ بابا کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ پشاور
شہر کی سڑکوں پر تیزی سے دوڑتی ہوئی گاڑی کی طرح سے اُس کے زہن کی رگ رگ
میں سوچیں ڈورتی پھر رہی تھیں۔ شاہ بابا کا غصّہ تو سارے خاندان میں مشہور
تھا۔ مرحوم والد کے بڑے بھائی اور خاندان کے سب سے معمر بزرگ ہونے کے ناطے
وہ اُن کی بے حد عزت کرتا تھا۔ تھے تو وہ اُس کے تایا اور نام اُن کا کرامت
خان کابلی تھا لیکن اُس سمیت سارا خاندان انہیں شاہ بابا شاہ بابا کہہ کر
ہی پکارتا تھا۔ دورِجوانی ہی سے مذہب میں اپنی خصوصی رغبت اور پھر اپنی مشت
بھر داڑھی کے سبب شاہ جی شاہ جی کہلاتے تھے اور پھر اب پچھتر سال کی عمر
میں جب سر، داڑھی، مونچھوں حتیٰ کہ پلکوں اور بھووں تک کا ایک ایک بال سفید
ہوچکا تھا۔ خاندان بھر کے لوگ باگ اور دوست احباب عرصہ ہوا انہیں شاہ بابا
شاہ بابا کہہ کر پکارنے لگے تھے۔ سچ یہ تو ہے کہ یہ نام ان کی بارعُب شخصیت
سے بہت ہی میل کھاتا تھا۔
رحمت خان افسوس کررہا تھا کہ وہ یہ کیسے بھول کیا کہ ابھی پچھلے اتوار جب
وہ ان کے گھر اپنا مسئلہ لے کر اُن سے ملنے گیا تو اُنہوں نے اُس کی بات
بغور سننے کے بعد کچھ دیر سوچ کر صرف اتنا کہا تھا: "میں بعد از نمازِ جمعہ
تمھارے ہوٹل پر آوں گا اور اللہ نے چاہا تو انشاءاللہ تم کو تمھارے مسئلے
کا حل بھی ضرور بتاوں گا"۔
ویسے تو وہ کئی ماہ سے ہی سوچ رہا تھا کہ وہ اپنے مسئلے کا ذکر شاہ بابا سے
کرے لیکن بس کچھ ہمت ہی نہ ہوتی تھی۔ اُسے سمجھ میں نہ آتا کہ وہ کیسے شاہ
بابا کو بتائے کہ پچھلے سال ڈیڑھ ایک برس سے اُس کے ساتھ کچھ عجیب سی
صورتحال درپیش ہے۔ گو کہ کاروبار و آمدنی میں تو کچھ ایسی خاص کمی تو نہیں
آئی تھی لیکن یہ سچ تھا کہ آمدنی میں سے برکت اٹھ سی گئی تھی۔ کہاں وہ پہلے
اپنے گھریلو اخراجات کے بعد اپنی آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ پس انداز کرلیا
کرتا تھا۔ اب آئے دن کے ناگہانی اخراجات میں اُس کی غیر معمولی آمدنی بھی
اُس غریب کی محدود پونجی بن کر رھ گئی تھی کہ جس کہ دروازے پر ہر پہلی کو
قرض خواہوں کی قطار لگ جاتی ہے۔ اُن سے فارغ ہو کر جب وہ اپنے گھر میں داخل
ہوتا ہے تو نانِ شبینہ کے حصول کے بھی لالے پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
خیر رحمت خان پر کسی کا کوئی قرض تو نہ تھا نہ ہی قرض کی وصولیابی کے تقاضے
اور نہ ہی اندیشہِ نانِ شبینہ۔ لیکن یہ آئے دن کے اخراجات جو نہ جانے کیوں
اور کیسے یکے بعد دیگرے منہ اٹھائے چلے آتے، اُس نے اُس کی کمر توڑ کر رکھ
دی تھی۔
آئے دن اُس کے چھے بچوں میں سے کوئی نہ کوئی بیمار پڑھ رہا ہے۔ نوبت یہاں
تک آن پہنچی تھی کہ اُن چھے میں سے چار آگے پیچھے ہسپتال تک ہو آئے تھے۔
تین ماہ قبل اچانک پارکنگ میں کھڑی اُس کی نئی نویلی تیس لاکھ کی گاڑی نے
نہ جانے کب اور کیسے آگ پکڑ لی۔ دیکھتے ہی دیکھتے راکھ کا ڈھیر بن گئی۔
رحمت خان نے انشورنش کی رقم بچا کر اُس وقت تو اپنے من ہی من خود کو عقلمند
گردانا تھا لیکن اُس حادثے کے بعد تو اُسے ایسی عقل آئی کہ نئی تو نئی دیگر
دو پرانی گاڑیوں کے انشورش بھی جاری کروا لئیے اور تو اور اپنی دس مرلے کی
کوٹھی اور ہوٹل کا بھی مکمل انشورنش حاصل کرلیا۔
وہیں حیاتِ آباد ہی میں ایک اور بڑا سا پلاٹ جو کہ کئی برس پہلے یہ سوچ کر
خریدا تھا کہ اُس پر کوئی خُوبصورت اور بڑا سا گھر تعمیر کروا کر خود وہاں
اٹھ جائے گا اور موجودہ کوٹھی کو اچھے داموں فروخت کردے گا۔ کافی تلاش
بسیار کے بعد ایک ٹھکیدار ایسا مل ہی گیا جس نے ایک کروڑ روپے میں یہ
پروجیکٹ مکمل کرنے کی حامی بھر لی۔ حالانکہ یہ سوا ڈیڑھ کروڑ سے کم کا
پروجکیٹ تو کسی طور بھی نہ تھا۔ نصف رقم ایڈوانس اور نصف کی ادائیگی تکمیل
پر ہونا قرار پائی۔ رحمت خان نے پچاس لاکھ کا چیک ٹھکیدار کے نام لکھ دیا
جو اُس نے اُسی دن کیش کروا لیا اور پھر اُس روز سے رحمت خان اپنے کیش اور
ٹھیکیدار دوںوں ہی کو تلاش کرتا پھر رہا تھا۔ پولیس میں رپٹ بھی درج کروائی
گئی اور متعلقہ تھانیدار کو رقم کی وصولی کی صورت میں دس فیصد رقم بطور
"انعام" دینے کی بھی یقین دھانی کروائی گئی۔ تھانیدار کے بے حد اور بھرپور
اصرار و مطالبے پر "انعامی رقم" کا نصف حصہ یعنیٰ مبلغ ڈھائی لاکھ روپیہ
پیشگی بھی دے دیا گیا لیکن آج اِس بات کو بھی کئی ماہ ہونے آئے۔ نہ ہی
ٹھیکدار کا ہی کچھ پتہ چل سکا اور ڈھائی لاکھ کی چپت اور لگ گئی۔
سونے پہ سہاگہ رحمت خان نے گذشتہ کئی سالوں سے جن کمپنیوں کے حصص میں اپنا
ہاتھ اور دل دونوں ہی کھول کر سرمایہ کاری کررکھی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے
اسٹاک مارکیٹ میں اُن کا بھاؤ کچھ یوں گرتا چلا گیا کہ اصل مالیت گھٹ گھٹا
کر صرف بیس پچیس فیصد ہی کے برابر رھ گئی تھی اور اب انہیں فروخت کرنے کی
بھی اُسے یہ سوچ کر ہمت نہ ہوتی کہ شاید بھاؤ پھر سے بڑھ جائیں تو نقصان
پورا ہوسکے۔
ابھی انہی صدمات کا غم غلط نہ ہوا تھا کہ گذشتہ ماہ رات دیر گئے ایک شادی
کی تقریب سے گھر آتے ہوئے سُرخ بتی والے اسٹاپ پر موٹر سائیکل سوار دو
نوجوانوں نے پستول کے زور پر زبردستی گاڑی کا شیشہ کھلوا کر اُس کی بیوی کا
سارا زیور جو کہ اُس وقت پہن رکھا تھا۔ اتروا کر یہ جا وہ جا ہوگئے اور
جاتے جاتے پندرہ بیس لاکھ کا ٹکیہ لگا گئے۔ وہاں موجود لوگ فقط تماشا
دیکھتے رہے۔
مذہب کی جانب نماز و روزہ کی حد تک تو اُس کی رغبت شروع ہی سے تھی اور زکوۃ
صدقات سے بھی چوکنے والوں میں سے نہ تھا۔ لیکن پچھلے کچھ سال بھر سے یہ حال
ہو چلا تھا کہ نمازوں میں اُس کا دھیان لگتا ہی نہ تھا۔ وہی نمازیں جو اُسے
خوشی اور سکون دیا کرتی تھیں اب بس ایک ایسے فریضئے کے طور پر ادا ہونے لگی
تھیں جسے کوئی بس گتنی پوری کررہا ہو۔ ہر وقت زہن کسی ایسی بے مقصد ادھیڑ
بُن میں مشغول رہتا کہ جُس کا کوئی بھی سرا اُس کے ہاتھ نہ آتا۔ بس ایک بے
چینی و بےکلی جس کا حاصل ہوتی۔ پر لمحہ ایک نامعلوم سا خوف زہن کے نہاں
خانوں میں ایک چپکلی کی طرح رینگتا رہتا۔ ایک بے نام سی اداسی ہر لحضہ دل و
دماغ پر سوار رہتی۔
بہت سوچنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ شاہ بابا کو تمام صورتحال سے آگاہ کر
کے اُن کی رائے اور حل دریافت کرے گا۔ پچھلے اتوار جب وہ اُن کے گھر گیا تو
کھل کر تمام صورتحال اور اپنی زہںی و دماغی کیفیات کا شاہ بابا سے ذکر کیا۔
پہلے تو وہ کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر اتنا ہی کہہ کر باتوں کا رُخ دوسری
طرف موڑ دیا کہ وہ جمعہ والے روز بعد نماز اُس کے ہوٹل ہر آ کر اُس سے ملیں
گے اور انشاءاللہ وہیں اپنی رائے کا بھی اظہار کرین گے اور اُس کا کوئی
مناسب سا حل بھی تجویز کریں گے۔
خیالات کے پُرپیچ بھنور میں ڈوب کر گاری چلاتے ہوئے اُسے یہ بھی نہ پتہ چلا
کہ کب قصہ خوانی بازار سے نکل کر چرچ روڈ پر آیا اور پھر چوک یادگار سے
ہوتا ہوا کریم پورہ بازار اور گنج بازار روڈ سے ہوتا ہوا شیخ آباد روڑ کراس
کرکے گلبہار روڈ سے شاہ بابا کی دس مرلے پر بنی گلبہار نمبر3 میں واقع
کوٹھی تک آ پہنچا۔ ہارن دینے پر کوٹھی کے آہنی گیٹ پر نصب چھوٹی سی ایک
کھڑکی میں سے چوکیدار نے باہر جھانکا اور پھر فوری کوٹھی کا بڑا آہنی
دراوزہ کھول دیا۔
چند ہی لمحات کے بعد وہ شاہ بابا کی بیٹھک میں لگے گاؤ تکیوں سے مزین ایک
چوڑے سے صوفے پر براجمان ایک بار پھر اپنی سوچوں میں گم تھا۔ ملازم اسے
وہاں بیٹھا کر شاہ بابا کو اطلاع دینے کا کہہ کر جا چکا تھا۔ شاہ بابا کے
آنے سے پہلے اُس کی خاطر تواضح کے لیِئے لوازمات کی آمد ہوچکی تھی اور
ملازم نے گرما گرم چائے اور فواکہات سے لبریز ٹرالی کو سرکا کر اُس کے قریب
لا کھڑا کیا۔ لیکن رحمت خان تو سب چیزوں سے ایسا بے نیاز بن کر بیٹھا تھا
جیسے اُسے ذندگی میں کبھی اُن چیزوں سے کوئی دلچسپی رہی ہی نہ ہو۔
ابھی وہ اپنی بے ربط سی سوچوں ہی میں گم تھا کہ بیٹھک کے دروازے سے شاہ
بابا اندر داخل ہوئے۔ رحمت خان فوراً ہی احتراماً کھڑا ہوگیا: "السلام
علیکم"۔ "وعیلکم السلام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔" رحمت خان شاہ بابا کی آواز میں موجود
گرم جوشی اور چہرے پر پھیلی بھرپور خیرمقدمی مسکراہٹ کو دیکھ کر چونک سا
گیا۔ وہ تو شاہ بابا کے چہرے پر غیض و غضب اور آواز میں ناراضگی اور گھن
گرج کی توقع کررہا تھا۔ لیکن اُنہیں دیکھ کر یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا تھا
کہ کچھ دیر قبل وہ بے حد غصے میں لال بھبھوکا ہو کر ہوٹل سے نکلے ہوں گے۔
بلکہ لگ تو کچھ یوں رہا تھا کہ جیسے وہ بہت ہی اچھے موڈ میں ہیں۔ بے اختیار
رحمت خان کے دل سے یہ صدا اٹھی:۔ "آخر شاہ بابا کی کیوں اور کس بات پر غصہ
آیا تھا اور اگر آیا تھا تو اترا کیوں کر اور اب یہ اتنے اچھے موڈ میں کیسے
دکھائی دے رہے ہیں؟"
۔"آو آو رحمت بچے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !. ہم تمھارا ہی انتظار کررہے تھے" شاہ بابا
کی بارعب مگر شفقت آمیز آواز نے اُسے ایک بار پھر چونکا دیا۔ "ارے رحمت بچہ
تم کھڑے کیوں ہوں۔ بیٹھو بیٹھو۔ کچھ کھاپا پیا بھی یا بس یونہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ !!!۔" شاہ بابا بچپن ہی سے اُسے "رحمت بچے" کہہ کر بلایا کرتے تھے۔
البتہ غصے یا پھر ناراضگی کی صورت میں صرف رحمت کہہ کر پکارتے۔ ۔"تو شاہ
بابا کو اندازہ تھا کہ میں جب ان کے غصّے اور ناراضگی کے بارے میں سنوں گا
تو دوڑا دوڑا یہاں چلا آوں گا۔ لیکن شاہ بابا تو بالکل بھی غصّے میں اور
ناراض دکھائی نہیں دیتے۔ یہ آخر چکر کیا ہے؟ کہیں کریم خان کو کوئی غلط
فہمی تو نہیں ہوئی تھی" شاہ بابا کا یہ رویہ دیکھ کر رحمت خان سوچ میں پڑ
گیا تھا۔
۔"رحمت بچے۔ ۔ ۔ ۔ ! کن سوچوں میں گم ہو۔ یہ دیکھو تمھاری چائے تک پڑی پڑی
ٹھنڈی ہوچکی ہے"۔ شاہ بابا نے اُس کے سامنے پڑے چائے کے کپ کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے کہا۔ "جی بس یونہی کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ویسے ہی میں نے سوچا کہ
جب آپ آئیں گے تو ہم ساتھ ہی چائے پیئیں گے"۔ "ہاں ہاں کیوں نہیں کیوں
نہیں۔ میں ابھی عمر دراز کو کہہ کر تمھارے لیئے دوبارہ نئی تازہ چائے
منگواتا ہوں"۔ اتنا کہہ کر انہوں نے اپنے ملازم عمر دراز کو صدا دی اور
جیسے ہی وہ بیٹھک میں داخل ہوا شاہ بابا بڑے ہی دھمیے اور انتہائی پُرشفقت
لہجے میں مخاطب ہوئے:۔ بیٹا عمر دراز! رحمت بچے کے لیئے تازہ چائے گرما گرم
تیار کرکے لے آو اور ہاں کسی سے کہہ کر میرا یہ حقہ بھی تازہ کروا دو"۔ "جی
شاہ بابا، جوحکم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!" عمر دراز نے قدرے جھک کر اپنے سینے پر
ہاتھ رکھ بصد احترام کہا۔
ٔرحمت خان جب بھی شاہ بابا کے گھر آتا تو وہ اُن کا اپنے ملازمین سے حسنِ
سلوک دیکھ کر بہت متاثر ہوتا۔ اُن کا برتاو اپنے ملازمین کے ساتھ اپنے گھر
کے فرد سا ہی تھا اور وہ سب بھی اُن سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔
۔"ارے رحمت بچے بار بار کہاں گم ہوجاتے ہو؟" شاہ بابا کی آواز نے اُسے پھر
چونکا دیا۔ "جی نہیں بس میں تو آپ کا اپنے ملازمین کے ساتھ شفقت بھرا
برتاؤ دیکھ رہا تھا"۔ "رحمت بچے، نہ یہ میرے ملازمین ہیں اور نہ ہی کبھی
میں نے انہیں اپنا ملازم ہی سمجھا ہے۔ یہ سب بھی میرے بچوں ہی جیسے تو ہیں۔
ہاں یہ اور بات ہے اللہ تعالی نے ان کے رزق کا وسیلہ مجھے بنا دیا ہے تو یہ
اُس پاک پرودگار کا مجھ ناچیز کا بڑا کرم ہے"۔
۔"شاہ بابا میں بے حد شرمندہ ہوں۔ مجھے علم تھا کہ آپ بعد نمازِ جمعہ ہوٹل
پر آنے والے ہیں لیکن وہ دراصل میں نماز کے بعد بچوں کے لیئے کچھ پھل فروٹ
لے کر گھر دینے چلا گیا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ میرے زہن میں یہ بات بھی نہ
رہی کہ آپ آنے والے ہیں"۔ "ارے رحمت بچے کوئی بات نہیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ
ہر بات میں اللہ کی کوئی مصلحت ہوا کرتی ہے تو تھمارے بُھول جانے اور پھر
دیر سے ہوٹل پہنچنے میں بھی پاک پرودگار کی ضرور کوئی نہ کوئی اچھائی ہی
رہی ہوگی۔ تم فکر نہ کرو۔ ہاں کیا کہہ رہے تھے تم کہ نماز کے بعد تم پھل
فروٹ لینے رک گئے تھے۔ کیا کچھ لے ڈالا؟" وہ خان بابا کا سوال سن کر حیران
رہ گیا کیونکہ آج تک خان بابا نے اُس سے اِس قسم کا سوال پہلے کبھی نہیں
کیا تھا۔ "جی خان بابا وہ بس کچھ تھوڑا بہت پھل فروٹ بچوں کے لیئے لے لیا
اور بس"۔ "اندازاً کتنے کچھ روپوں کا؟" خان بابا کی کُرید نے اُسے مذید
حیرت میں مبتلا کردیا۔ "بس یہ ہی کچھ دھائی تین ہزار کا"۔ "اوہ اچھا، پھر
تو اتنا سارا پھل دکاندار خُود ہی تمھاری گاڑی تک چھوڑنے آیا ہوگا؟" خان
بابا یکے بعد دیگرے عجیب سے سوالات کیئے چلے جارہے تھے۔ "نہیں خان بابا،
اُس پھل فروس کے پاس ایک چھوٹا سا چھے سات برس کا ایک لڑکا کھڑا ہوا تھا۔
ویسا ہی جیسا کہ عموما بازاروں میں ایسے غریب بچے تنکوں کے تھیلے لیئے
پھرتے رہتے ہیں۔ وہ ہی سارا پھل اپنے تھلیوں میں بھر کر گاڑی کی ڈگی میں
ڈال گیا تھا"۔ "اوہ اچھا اچھا" خان بابا سر ہلاتے ہوئے بولے۔ "تو تم نے اُس
غریب بچے کو کچھ انعام شنام دیا کہ نہیں؟"۔ جی خان بابا مجھے اُس پر بہت
ترس آیا اور میں نے اُسے بیس روپے کا نوٹ دیا تو اُس کی خوشی دیکھنے کے
لائق تھی۔ مسکراہٹ اُسے کے چہرے سے پُھوٹی پڑتی تھی" رحمت خان کو اُس بچے
کا مسکراہٹ سے دمکتا چہرا پھر یاد آ گیا اور وہ خان بابا کو جواب دیتے دیتے
ایک بار پھر مسکرا دیا۔ "بہت اچھے، یہ تم نے اچھا کام کیا۔ یہ بتاو تمھارے
خیال میں وہ بچہ دن میں کتنا کما لیتا ہوگا؟" رحمت خان کی سمجھ میں نہیں آ
رہا تھا کہ آخر آج خان بابا کو ہوا کیا ہے۔ میں ڈرتے ڈرتے اُن کے پاس جھاڑ
سننے کے خوف سے آیا تھا اور یہ ہیں کہ نہ جانے کیسے کیسے عجیب سے سوالات پر
سوالات پوچھے چلے جارہے ہیں۔
۔"میرا خیال ہے کہ کچھ نہیں تو کم از کم سو جتنے تو دن بھر میں کما ہی لیتا
ہوگا۔ کیا خیال ہے تمھارا؟" اِس سے پہلے کے رحمت خان کچھ بولتا، خان بابا
نے اپنے سوال کا ازخود ہی جواب دے ڈالا۔ "جی ہاں جی ہاں، کیوں نہیں کیوں
نہیں" رحمت خان بے اخیتاربول اٹھا۔ "تو اِس حساب سے تین ہزار کے لگ بھگ
ماہوار تو کما ہی لیتا ہوگا" خان بابا رحمت خان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے
بولے۔ "جی ہاں شاید" رحمت خان گم سم سی آواز میں بولا۔ "اچھا چھوڑو ان
باتوں کو یہ بتاؤ کہ ضابطہ خان تمھارے پاس کب سے سے کام کر رہا ہے؟" خان
بابا نے یکدم موضوعِ سخن تبدیل کرتے ہوئے ایک نیاء سوال داغ دیا۔ "یہ ہی
کوئی سال بھر سے"۔ "ویسے یہ ہے کون اور تمھارے پاس کہاں سے آیا؟" خان بابا
تو جیسے کوئی انکوائری کمیٹی کھول کر بیٹھ گئے ہو۔ "آپ کو یاد ہوگا کہ
پچھلے سال قصہ خوانی بازار میں بم دھماکہ ہوا تھا اور اُس وقت ہمارے ہوٹل
کا ایک باہر والا بیرا فرشتہ خان جو کہ بازار میں موجود دکانوں سے موصول
شدہ آڈروں کی تکمیل کیا کرتا تھا۔ ایک دکان پر کھانا دینے گیا کہ وہاں
دھماکہ ہوا اور وہ موقعہ پر ہی ہلاک ہوگیا۔ چونکہ وہ اپنے گھر کا واحد کفیل
تھا تو میں نے اُس کی بیوہ کی درخواست پر اُسے کے چھے سالہ لڑکے ضابطہ خان
کو اپنے پاس ملازمت پر رکھ لیا۔ یہ وہاں صبح سے شام تک میزوں اور برتنوں کی
صفائی کے ساتھ ساتھ گاہکوں کے چھوٹے موٹے آرڈر چائے بوتل وغیرہ بھی بھگتا
لیا کرتا ہے"۔ "کتنی تنخواہ دیتے ہو اِسے؟" خان بابا کی آواز اِس بار کچھ
بدلی بدلی سی مسحوس ہورہی تھی۔ "جی تین سو روپے" "تین سو روپے روز یا ہفتہ
وار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !" خان بابا کی آواز رحمت خان کو کسی کنویں سے آتی
ہوئی محسوس ہوئی۔ "جی نہیں خان بابا۔ تین سو روپے ماہوار" "کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ؟" اس بار خان بابا کی آواز اتنی بلند تھی کہ رحمت خان کو اپنے کانوں
کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔
کچھ دیر فضاء پر ایک بوجھل سی خاموشی طاری رہی۔ اُس خاموشی کو خان بابا کی
آواز جو کہ خلافِ توقع دھمیی تھی نے ہی توڑا: "میں یہ ساری باتیں ضابطہ خان
کی زبانی سن چکا ہوں۔ جب اُس نے مجھے تین سو روپے ماہوار تنخواہ کا بتایا
تو میں نے سوچا کہ بچہ ہے شاید اُسے اپنی تنخواہ کا ٹھیک سے پتہ نہ ہو۔ تم
اُسے تین سو روپے ہفتہ وار دیتے ہو اور یہ شاید غلطی سے اُسے ماہوار بتا
رہا ہے۔ لیکن جب میں نے تمھارے منہ سے بھی یہ سنا تو مجھے یقین نہ آیا اور
میں خُود پر قابو نہ رکھ سکا۔ لیکن رحمت خانا، مجھے تم سے یہ امید نہ تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!"۔
رحمت خان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ ابھی وہ یہ ہی سوچ رہا
تھا کہ خان بابا پھر گویا ہوئے:۔ "تم نے اُس بوجھ ڈھونے والے بچے کو صرف
چند منٹوں کی محنت پر بیس روپے دیئے یعنیٰ اگر تم اُس سے روز یہ کام لو اور
روز ہی اُسے بیس روپے دو تو یہ بنتے ہیں چھے سو روپے ماہوار۔ ضابطہ خان جو
کہ تمھارے لیئے سارا سارا دن کام کرتا ہے تم اُسے صرف تین سو روپے ماہوار
دیتے ہو۔ تمھیں یہ خیال نہیں آیا کہ تم اُس معصوم کو جس کی عمر اسکول جانے
اور کھیل کود کی ہے سے سارا سارا دن کام کرواتے ہو اور معاوضہ کے نام پر
ضرف تین سو روپے جیسی شرمناک رقم دیتے ہو۔ تمھیں شرم آنی چاہیَے، رحمت
خانا۔ خان نانا کی آواز تلخی سے لبریز تھی۔ "بجائے ہوٹل میں اُس سے بیگار
لینے کے، تمھیں اُسے کسی اسکول میں داخل کروا کر اُس کی تعلیم و تربیت کا
بدوسبت کرنا چاہیے تھا۔ تم تین تین ہزار کا پھل فروٹ اپنے بچوں کے لیئے بلا
تردد خرید لیتے ہو۔ لیکن اِس چھوٹے سے بچے کو اپنے ہوٹل میں کام کروا کر
اُس کو اس قدر حقیر اور شرمناک معاوضہ دیتے ہو۔ رحمت خانا تم نے مجھے بہت
مایوس کیا ہے"۔
رحمت خان کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو قطرہ خون نہ نکلے۔ زبان گنگ اور حلق
تنگ۔ "سچ ہی تو کہہ رہے تھے خان بابا" اُس نے سوچا۔ "خان بابا، میں نے تو
اِس بارے اب تک کبھی کچھ سوچا ہی نہیں۔ میں نے تو اُسے اپنا کاروباری
معاملہ گردانتے ہوئے یہ فیصلہ کرتے ہوئے اُسے نوکری پر رکھ لیا اور پھر
دوبارہ اس بارے میں سوچا تک نہیں"۔
خان بابا کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے: "کیا اب بھی تمھیں نماز میں اپنی
عدم دلچسپی، بے چینی و بے کلی اور تمھارے زہن پر سوار خوف اور اداسی کا سبب
سمجھ میں آرہا ہے کہ نہیں؟۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنی نعمتوں سے مالا مال
کر رکھا ہے اور تم اُس معصوم سے بچے کے ساتھ یہ ناانصافی کر کے اِن نعمتوں
کی ناشکری کے مرتکب ہو رہے ہو۔ اِن جیسے معصوم ضابطہ خان ملک بھر میں نہ
جانے کتنے تم جیسے رحمت خان کے ہاتھوں ایسی کتنی ہی ناانصافیوں اور مظالم
کا شکار ہو رہے ہیں اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے اِس وطن میں جو بنا تو
اسلام کے نام پر تھا میں آج چہار سو خوف اور بے برکتی کا دورِ رورہ ہے۔
اللہ تعالی قرآن پاک میں ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرماتا کہ وہ ہرطرح
امن و چین سے بستی تھی۔ ہر طرف سے رزق بافراغت چلا آتا تھا مگر ان لوگوں نے
خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب اُن کو بھوک اور
خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزا چکھا دیا"۔
۔"خان بابا مجھے معاف کردیں، شاید میں اندھا ہوگیا تھا۔ میں آپ سے وعدہ
کرتا ہوں کہ میں اپنی اِس غلطی کا مداوا کروں گا اور ضابطہ خان کی تعلیم
اور اُس کے گھر والوں کی نگہداشت کا ہر ممکن طور بندوبست کروں گا" رحمت خان
کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو اور آواز میں شرمندگی کا لرزہ نمایاں تھا۔
۔"نہیں رحمت خانا، ضابطہ خان والے معاملے میں تو تم سے کافی دیر ہوگئی ہے۔
اب ضابطہ خان میرے پاس ہی رھے گا۔ اُس کی تعلیم اور نگہداشت اب میری نگرانی
میں ہوگی۔ لیکن ہمارے اِس شہر میں ضابطہ خان جیسے بچوں کی کوئی کمی نہیں۔
ہر گلی میں نہ جانے کتنے ضابطہ خان خاک اور دھول اڑاتے پھر رہے ہیں اور ہر
موڑ پر کوئی رحمت خان کھڑا اُن کا استحصال کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے
نہیں دیتا"۔
رحمت خان میں اب خان بابا کی باتیں سننے کا قطعاً حوصلہ نہ تھا۔ وہ مذید
کچھ کہے سنے اٹھا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ خان بابا بس اُسے پکارتے ہی رھ
گئے۔ لیکن وہ کچھ یوں تیزی سے گم سم سا اُن کی کوٹھی سے نکل کھڑا ہوا کہ
بقول فیض جیسے اپنے دونوں جہاں ہارنے کے بعد اب:۔
وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے |