کراچی کو تاریکیوں میں ڈوبے ایک
عرصہ بیت چکا ہے۔دن بدن ظلم و ستم کی پھیلی تاریکی میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔
قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے۔سکون مفقود اور امن و چین کا دور دور تک
کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ انتظامیہ ان مخدوش حالات کے خاتمے میں ناکام و بے
بس دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جب بھی کراچی میں بدامنی کی لہر ٹھتی ہے تو
انتظامیہ اپنی نااہلی کی سزا عوام کو دینے کا فیصلہ کر تے ہوئے ڈبل سواری
پر پابندی لگادیتی ہے۔کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی لگانا انتظامیہ کی
عادت بن چکی ہے۔جتنی بار کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی لگ چکی ہے شاید ہی
دنیا کے کسی اور شہر کے حصے میں اتنی بار پابندی آئی ہو۔ ڈبل سواری پر
پابندی لگانے سے بدامنی میں کمی لانا تو صرف وہم و خیال ہی ہے ،ہاں اتنی
بات ضرور ہے کہ ڈبل سواری پر پابندی لگانے سے مشکلات کے شکار عوام کی
پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
موٹر سائیکل کہ بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غریب اور متوسط طبقے کی سواری
ہے لیکن آئے دن ڈبل سواری پر پابندی عائد کرکے عروس البلادکراچی کے شہریوں
کے لیے اس کی افادیت کو شجر ممنوعہ بنادیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کی نااہلی کی
سزا کراچی کے غریب و متوسط طبقے کو دی جاتی ہے۔حکومتی حلقوں کی طرف سے ڈبل
سواری پر پابندی کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ڈبل سواری سے دہشت گردوں کو
اپنی مذموم کاروائیوں میں مدد ملتی ہے، اس لیے اس پر پابندی عائد رہنی
چاہیے۔ عوام الناس کے نزدیک حکومت کا یہ موقف ”عذر گناہ بدتر از گناہ“ کے
مترادف ہے، امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے
کی بجائے ڈبل سواری پر پابندی لگادینا حکومت کے ذہنی دیوالیہ پن کی عکاسی
کرتا ہے۔
عصر حاضر میں سب سے سستا اور مطلوبہ مقام تک فوری رسائی کا واحد ذریعہ موٹر
سائیکل ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں
کررہی ہیں ایسے میں یہ سواری کم آمدنی اور متوسط گھرانے کے دو افرادیا اس
سے بھی زیادہ کے لیے انتہائی موزوں اور باکفایت ذریعہ آمد و رفت ثابت ہوا
ہے۔ موجودہ صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر شخص یہ کہنے پر مجبور ہے کہ
موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی پر حقیقتاً معصوم شہری ہی پوری طرح عمل
پیرا ہیں جوکہ اس پابندی کے باعث ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں جبکہ
موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی سے کم آمدنی والے حضرات،ملازم پیشہ
افراد اور چھوٹے کاروباری حضرات مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔
ملک کی معاشی شہ رگ کراچی میں روزانہ 12 لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں سڑکوں
پر رواں دواں ہوتی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ساڑھے چھ لاکھ موٹر
سائیکلوں پر ڈبل سواری کی جاتی ہے۔لیکن ڈبل سواری پر پابندی لگنے کے بعد
سرکاری اور نجی اداروں میں عملے کی بروقت حاضری تو بری طرح متاثر ہوتی ہی
ہے، ڈبل سواری پر پابندی سے غریب عوام پر کئی گنا اضافی مالی بوجھ بھی بڑھ
جاتا ہے۔ڈبل سواری سے ایک عام آدمی کو اور مجموعی طور پر قومی خزانے کو بے
حد نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک موٹر سائیکل استعمال کرتے ہوئے غریب گھرانے
کے دو تین لوگ بیک وقت سفر کرکے اپنے کام پر پہنچتے ہیں۔اگر یہ افراد ڈبل
سواری کی وجہ سے موٹر سائیکل استعمال نہ کریں تو کم سے کم ساڑھے چھ لاکھ سے
زائد افراد کو بسوں، ویگنوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ اگر سفر سیدھا ہے تو
کم سے کم 30 روپے اور اگر ایک سے زائد بسیں تبدیل کرنی پڑیں تو پھر 60 روپے
تک کا یومیہ خرچ بڑھ جاتا ہے۔ اسے 40 روپے اوسطاً رکھا جائے تو 40 روپے ضرب
ساڑھے چھ لاکھ.... دو کروڑ 60 لاکھ روپے یومیہ۔ ڈبل سواری پر پابندی کی
صورت میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر فرد پر ہر مہینہ بارہ سو روپے کا
مزید بوجھ بڑھتا ہے اور مجموعی طور پر قومی خزانے پر 78 کروڑ روپے کا مزید
بوجھ بڑھتا ہے۔ یہ ساری رقم بسوں، ویگنوں میں سفر کرنے والے بے چارے غریب
عوام اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ رکشہ، ٹیکسی میں بھی کچھ لوگ سفر کرتے ہیں،
اس کا حساب الگ رہا۔اگر اسپیشل رکشہ کروا کر جانا پڑے توڈیڑھ سو سے زائد
روپے ہی دینے پڑتے ہیں، عام رکشے کا کرایہ بھی بسوں سے تقریباً دوگنا ہوتا
ہے۔ ڈبل سواری پر پابندی کا فائدہ ٹرانسپورٹ مافیا اور پولیس کو ہوتا ہے
اور شہریوں کے حصے میں صرف نقصان ہی آتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ڈبل سواری
پر پابندی سے کوچ مالکان کی آمدنی میں لاکھوں روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے اور
اس آمدنی میں سے ایک متعین حصہ ان حکام بالا کی جیبوں میں جاتا ہے جن کے
رحم و کرم پر موٹر سائیکل سواری ہے، اسی طرح ایک لسانی تنظیم کی سرپرستی
میں چلنے والے سی این جی اور چنگ چی رکشے بھی ہر مہینے کروڑوں روپے اضافی
کمارے ہیں۔
شہرمیں ہونے والی وارداتوں اور عوام کو تحفظ کی فراہمی میں ہمیشہ موقعے سے
غائب رہنے والی پولیس اس پابندی کے لگتے ہی حفاظتی ناکے چھوڑ چھاڑ کر گلی ،
محلوں ، بازاروں اور نکڑوں پر چکر کاٹتی نظر آرہی ہوتی ہے۔ان کی ڈیوٹی کے
مقام پر اس دوران کوئی بم بھی رکھ سکتا ہے اور کوئی واردات بھی ہوسکتی ہی،
لیکن ان کی بلا سے.... وہ تو ڈبل سواری والوں کو پکڑ رہے ہوتے ہیں۔شہر میں
رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہوں یا شہریوں کے ساتھ رہزنوں کی لوٹ
مار، پولیس ہمیشہ دیر سے ہی پہنچتی ہے لیکن بھلاہو اس ڈبل سواری پر پابندی
کا جس کے لگتے ہی پولیس شہریوں کو اس پابندی کی خلاف ورزی کی مد میں آدم بو
آدم بو کرتی ڈھونڈتی نظر آتی ہے، لیکن دہشت گرد، ٹارگٹ کلرز ، موبائل
چھیننے والوں کو اس تیزی سے تلاش و گرفتار نہیں کرتی ۔ دہشت گردوں نے کونسی
سلیمانی ٹوپی پہنی ہوتی ہے جو ہماری پولیس ان مجرموں کو دیکھ نہیں پاتی ،
پولیس کی ساری مستعدی صرف شہریوں کو تنگ کرنے تک محدود نظر آتی ہے۔
موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی کے حوالے سے حکومت ہمیشہ سے یہی راگ
الاپتی نظر آئی ہے کہ اس اقدام سے دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام میں مدد
ملتی ہے، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ دہشت گرد باآسانی اپنی کارروائیاں جاری
رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جو لوگ شہر میں خوف و
ہراس اور دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے موٹر سائیکل پر جدید و خود کار
اسلحہ لے کر نکلتے ہیں انھیں اس بات سے کیا ڈر وخوف ہو سکتا ہے کہ قانون
نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار انھیں روکیں گے ۔اس لیے اس تدبیر کو مسئلے
کا مستقل حل قرار دینا ہرگز درست نہیں۔ڈبل سواری پر پابندی لگا کر قانون
نافذ کرنے والے ادارے محض ٹامک ٹوئیاں مارتے پھرر ہے ہیں۔ حکومت کو اور کچھ
نہیں سوجھتا تو لے دے کر موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کرکے اس
کبوتر کی طرح خود کو خطرے سے محفوظ تصور کرنے لگتی ہے جو بلی کو سامنے دیکھ
کر بجائے اپنا بچاو ¿ کرنے کے آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ کراچی میں مسلسل ڈبل
سواری پر پابندی کے باعث جرائم کی شرح میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کے نتیجے میںایک سال میں 6
ہزار سے زیادہ شہری ملزم بناکر تھانے اور جیل کی ہوا کھانے پر مجبور کیے
گئے ہیں۔ 6 ہزار تو وہ ہیں جن کے مقدمات درج ہوئے ہیں اور روزانہ سڑکوں پر
جو مک مکا ہوتا نظر آتا ہے اس کی تعداد تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔کچھ ہی
عرصے کے دوران 4733 سے زائد نوجوانوں کو ضمانتوں پر رہا کیا گیا ہے۔ ہر
نوجوان کو ضمانت کے بدلے 5 ہزار سے 25 ہزار روپے تک ادا کرنے پڑے ہیں۔
ڈبل سواری پر پابندی کے حوالے سے کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو
چاہیے کہ فی الفور ڈبل سواری پر عائد پابندی ختم کرے۔شہریوں کا کہنا تھا کہ
جرائم کی وارداتیں کرنے والے افراد کار اور دیگر گاڑیوں کا بھی استعمال
کرتے ہیں،اس طرح ان پر بھی پابندی لگادینی چاہیے، صرف موٹر سائیکل پر ڈبل
سواری کی پابندی کا کوئی جواز نہیں۔ اس پابندی سے براہ راست متوسط اور غریب
طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد متاثر ہوتے ہیں۔ بعض شہریوں نے بتایا کہ ہم
تین بھائی ایک ہی فیکٹری میں کام کرتے ہیں، ہم ایک ہی موٹرسائیکل پرسوار
ہوکر فیکٹری جاتے تھے، اس سے ہمارے کافی پیسے بچ جاتے تھے ،لیکن حکومت کی
جانب سے ڈبل سواری پر پابندی کے باعث سب کو بسوں میں سفر کرنا پڑتا ہے
کیونکہ صرف ایک فرد کے لیے موٹرسائیکل میں پڑنے والے پیٹرول کا خرچہ برداشت
نہیں کرسکتے،پہلے کی بنسبت اب ہمارا خرچ تین گنا بڑھ گیا ہے۔
سیلز مین ایسوسی ایشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ڈبل سواری پر پابندی نے
سیلز مینوں کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔پابندی کے باعث آرڈر بکنگ کرنے
والے اور سیکورٹی گارڈ زکو ساتھ لے جانا مشکل ہوگیا ہے۔ سیلز مین لاکھوں
روپے کا کیش بینک میں جمع کرانے کے لیے رِسک اٹھانے پرمجبور ہیں۔ حکومت
دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے ایسے اقدامات کرے جس سے عوام اور
تاجر برادری کو پریشانی اٹھانی نہ پڑے۔جماعت اسلامی کراچی کے رہنماﺅں نے
ڈبل سواری پرپابندی کو بلا جواز اور شہریوں کے بنیادی حق پر ڈاکا قرار دیتے
ہوئے اس پابندی کو فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔پاسبان کراچی کے صدر
شیخ محمد شکیل کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے
کیلئے بلا جواز کراچی میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کی ہے۔
اس وقت شہرکی سڑکوں پر پچیس لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں چل رہی ہیں۔
انتظامیہ بدامنی کو جواز بنا کر بار بار ڈبل سواری پر پابندی عائد کردیتی
ہے جو کراچی کے پچیس لاکھ شہریوں کے معاشی قتل عام کے مترادف ہے۔ڈبل سواری
پر پابندی کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک آئینی درخواست یونائٹیڈ ہیومن رائٹس
کمشن پا کستان کے جنرل سیکرٹری رانا فیض الحسن نے دائر کی تھی جس میں موقف
اختیار کیا گیا کہ اس پابندی کے باعث کراچی کے 20لاکھ سے زائد شہری متاثر
ہو رہے ہیں۔لہٰذا ڈبل سواری پر پابندی فوری ختم کی جائے۔شہری ڈبل سواری پر
پابندی سے سخت پریشان ہیں،ان کا مطالبہ یہی ہے کہ فوری طور پر ڈبل سواری پر
عائد پابندی کو ختم کیا جائے،کئی بار اس پابندی کو ختم کرنے کے حوالے سے
درخوا ست بھی دی جاچکی ہے، لیکن ابھی تک انتظامیہ و حکومت ٹس سے مس نہیں
ہوئی۔ |