تحریک انصاف کی جانب سے وزیر اعلی خیبر پختونخوا نے واضح
بیان دیکر اپنے انتخابی نعرے سے روگردانی کرلی کہ ڈرون حملے گرانا صوبائی
حکومت کی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے۔اسی طرح تحریک انصاف کے صدر
جاوید ہاشمی نے بھی بڑے واشگاف الفاظوں میں کہہ دیا کہ میاں نواز شریف کل
بھی ان کے لیڈر تھے اور آج بھی ہیں۔مسلم لیگ کیجانب سے لوڈ شیڈنگ پر بھی
اطمینان کےساتھ پالیسی جاری کردی گئی کہ لوڈ شیڈنگ گیارہ سالوں کا ملبہ ہے
، اسلئے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا ۔پی پی پی
نے چوڑی والوں کو واپس کردیا کہ وہ چوڑیاں نہیں پہنتے ، کیونکہ ممتاز بھٹو
صاحب نے بھی بڑے کھلے انداز میں کہہ دیا تھا کہ نواز شریف ایک مرتبہ پھر
سندھ میں گورنر راج لگا سکتے ہیںیعنی سندھ حکومت نے حلف اٹھایا ہی نہیں اور
ممتاز بھٹو کی دیرینہآرزو، دل سے بر زبان میڈیا کے توسط سے عوام اور دنیا
تک پہنچا دی گئی ۔ سندھ میں دیہی اور شہری تفریق کا تنازعہ شدت اختیار کرتے
ہوئے اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ سندھ کی تمام شہری آبادی ، دیہی علاقوں کی
کامیاب جماعت کے رحم و کرم پر ہوگی۔یعنی سندھ کےلئے مسلط کیا گیا کوٹہ سسٹم
اب مزید ہنگامہ خیزیاں پیدا کرے گا۔اسی طرح بلوچستان میں اکبر بگٹی کے
قیبلے والے اپنے گھر جانے کےلئے اسلام آباد میں دھرنا دئےے بیٹھے ہیں،
انتخابات سے بائیکاٹ تو وہ پہلے ہی کرچکے تھے،تو دوسری جانب اختر مینگل کے
بیانات میں مزید شدت آتی جار ہی ہے کہ مسخ شدہ لاشوں اور اغوا کرنے کی
واردتوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔بادی النظر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ
پاکستان میں صوبائیت کے نام پر مملکت کے ٹکڑے کر دئےے گئے ہیں ۔سندھ میں
سندھیوں کے نام پر بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی،پنجاب میں پنجابی کے نام پر
مسلم لیگ (ن)،خیبر پختونخوا میں صرف چہرے بدلے اور پختونوں کی دوسری جماعت
تحریک انصاف ، بلوچستان میں بلوچ کا حق حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے ڈاکٹر
عبدالمالک کو اقلیتی جماعت ہونے کے باوجود وزرات اعلی دےئے جانایعنی مسلم
لیگ (ن) نے امن و امان کے حوالے سے پریشان کن صوبوں سے اپنی جان چھڑا کر
سارا ملبہ ، بلوچوں ، سندھیوں،اور پختونوں کے سر پر ڈال دیا ہے کہ امن و
امان قائم کرنے کی ذمے داری صوبائی حکومتوں کی ہے ، اگر صوبائی حکومت ان سے
تعاون طلب کرے گی تو" وفاق" ہر ممکن تعاون کرے گا۔فیصلہ ہو گیا اس لئے ،
پنجاب میں امن قائم رہے گا (اللہ کرے ہمیشہ قائم رہے)۔خیبر پختونخوا میں
سیکورٹی اداروں پر حملے ہوتے رہیں گے اور قبائل پر ڈرون حملے بھی متواتر
جاری رہیں گے کیونکہ یہ کام وفاق کا ہے ۔" عوام" نے اگر تحریک انصاف کو"
ووٹ" دیتی تو پھر دیکھتے کہ امریکہ ، ڈرون" کیسے" گراتا ہے۔ تاہم امریکہ
ویسے ہی ڈرون گراتا جیسے ان کے حلف لینے والے دن گرایا اور یہ سب بغلیں
بجانے کے علاوہ کچھ کر نہیں سکے۔سندھ میں ایم کیو ایم اور لیاری امن کمیٹی
کے نام پر شہر کا وہی حال رہے گا جو سابقہ حکومت میں دونوں جماعتوں کی
اتحادی جماعت ہونے کے باوجود بھی تھا کیونکہ امن کا سوئچ آن و آف ان کے پاس
ہے ہی نہیں۔اب بھی کراچی لہو لہان ہے ، روزانہ بے گناہوں کی ٹکڑے شدہ، سر
بریدہ ، جلائی گئی سوختہ لاشیں ملتی ہیں ، وزیر اعلی صاحب گینگ وار کےساتھ
بیٹھ کر دشمنوں کی لاشوں پر کئے جانے والا مخصوص فاتحانہ رقص کرتے ہیں اور
باور کراتے ہیں کہ انھیں کراچی والوں سے" کتنی" ہمدردی ہے۔پختون قوم پرست
جماعت کے رہنما بوریا بستر لیپٹ کر واپس اپنے گھروں میں لوٹ گئے ہیں کیونکہ
اب ان کے پاس لسانی سیاست کرنے والا فارمولہ بھی ختم ہوچکا ہے۔اے این پی کی
تمام قیادت نائن زیرو جاکرکان پکڑ کر اپنی خطاﺅں کو تسلیم کر چکی ہے جس کے
بعد پختون قوم نے بھی اے این پی کو اپنی اوقات دلا کر یوم نجات منایا۔ تاہم
طالبائزیشن کا ایک سیلاب ضرور کراچی میں امڈ چلا آیا ہے اور ان کی سیاسی سر
پرستی اب تحریک انصاف کر رہی ہے۔کیونکہ تحریک انصاف میں زیادہ تر افراد وہی
شامل ہیں جنھوں نے بعضِ معاویہ میں ایم کیو ایم کی مخالفت کےلئے تحریک
انصاف کو جوائن کیا ۔ سب جانتے ہیں کہ ان کا تعلق کس نام نہاد امذہبی و
سیاسی جماعت سے رہا ہے جس نے لاکھوں پختونوں کو افغانستان میں امریکہ کی
ایما پر افغانوں کی جنگ میں ڈالروں کے خاطر معصوم بچوں کو ٹینکوں کے نیچے
بارود میں خود کش بنا کر روسی ٹینک اڑانے کی تربیت دی اور پھر سری لنکا کے
تامل باغیوں سے خود کش حملوں کی تربیت حاصل کرکے پاکستانی بے گناہ عوام کو
نشانہ بنانا شروع کیا۔غیر ملکیوں نے پاکستان کا رخ کیا اور طویل پہاڑی
علاقوں میں پناہ حاصل کی اور امریکہ کی ایماپر شمالی اتحاد کے حامیوں پر شب
و روز حملے کرتے رہے تو انھوں نے جوابی حملوں میں پاکستان کے تمام عسکری
اداروں میں گھس کر ملکی دفاعی صلاحیتوں کی رٹ کو چیلنج کیا ، جس کے بعد پاک
فوج نے اپنی عسکری دفاعی ترجیحات کو تبدیل کرلیا۔ نئیحکومت امریکہ کے ناظم
الامور رچرڈ ہوگلینڈ کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کرتی ہے کہ امریکہ کو
ڈرون حملوں کے بارے میں اپنی حکمت بدلنا ہوگی۔اور پاکستان نے وہی سابقہ
بیان جاری کیا کہ وہ ان واقعات کی مذمت کرتی ہے کیونکہ اس سے دو طرفہ ممالک
میں تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔خود مختاری کا احترام کیا جائے ، وغیر وغیرہ ۔
وہی سب کچھ جو سابقہ حکومتیں دوہراتی رہی ہیںاور جواب بھی وہی ٹکا سا ملا
کہ جب امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان جنیفر ساکی نے پہلے تو انھیں" مبارک باد
"دی ،تیسری بار وزیر اعظم بننے کی اور پھر کہا کہ "اسکے لئے اہم بات یہ ہے
کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں اپنی سر زمیں پر خود ہی دہشت گردی
کے خلاف کاروائی کرنے کی استعداد بڑھانے کےلئے اپنے دوست ملکوں کے ساتھ
ملکر کام کرے۔"یعنی کھلے الفاظوں میں کہہ دیا گیا کہ پاکستانی اداروں میں
یہ استعداد کار اور صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ دہشت گردی کےلئے اپنی زمیں کے
استعمال کو روک سکیں۔ اس لئے امریکہ جو ان کا "دوست"ملک ہے وہ یہ حملے جاری
رکھے گا ۔ ایسے اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کی جانے والی روپورٹ کی بھی
پرواہ نہیں ، نواز شریف آئے یا عمران خان آئے ، اس کے لئے وہ بھی پرویز
مشرف اور صدر زرداری جیسے ہی ہیں۔اس لئے واضح طور پر یہ پیغام بھی دے گیا
کہ خیبر پختونخوا ، بلوچستان، سندھ علیحدگی پسند جماعتوں، کراچی سے پہلے
نپٹنے کی صلاحیت اور ہمت پیدا کرو ۔ ویسے بھی میاں نواز شریف نے اپنی وزرات
عظمی کی پہلے خطاب میں ، بلوچستان میں اغوا ، مسخ شدہ لاشوں اور طالبان سے
مذاکرات کے حوالے سے مکمل چپ سادھے رکھی اور کچھ نہ بولے تو ڈرون حملوں کی
مذمت چہ معنی کشد۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان تو اپنی بُری شکست کے بعد حلف تک
اٹھانے کے لئے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار نہیں کرسکے ، عوامی حلقوں کا
خیال ہے کہ اگر وہ نواز شریف کو حلف برادری کی تقریب میں شریک ہوتے تو ہو
سکتا تھا کہ انھیں دل دورہ پڑ جاتا اس لئے اچھا ہوا کہ وہ نہیں آئے۔ لیکن
آنا تو پڑے گا کیونکہ میاں نواز شریف اور عمران خان کسی بند گلی میں نہیں
بلکہ مفلوج راستوں میں قدم رنجہ فرما چکے ہیں۔انتخابی مہم کے دوران جو بڑے
بڑے دعوے کئے ابھی تو انھیں اگلے سالوں تک انھیں عوام کا جواب دینا ہوگا
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے!۔ |