پاکستان کا قومی میزانیہ

قومی زبان اردو ہے اور اس کا حلیہ روز بروز تبدیل ہورہا ہے۔ اسے ایوانہائے حکومت سے دھکے مار کر باہر نکالا گیا ۔اب اسکے خدوخال کو بھی مسخ کیا جارہاہے۔ اردو واقعی لشکری زبان ہے کہ جس لشکر کا ریلا آیا وہ اردو لغت میں اپنا گند بلا ڈال گیا اور ہمارے نودولتیئے اور اینگلو پاکستانی اردو کو انگریزی کا تڑکا ضرور لگائیں گے۔میزانیہ انگریزی کی شطرنج کہدیں تو زیادہ مناسب ہے۔ بات میزانیہ کی شروع کی کہ ایک ٹی وی چینل پر میزبان اپنے نئے نویلے مہمانوں سے مخاطب تھا کہ آپ کی حکومت کو چند روز ہوئے اس قلیل عرصے میں آپ قومی میزانیہ(بجٹ) کیسے پیش کریں گے تو وہ فرمارہے تھے کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں وہ تو تیار ہی ہے۔ حکمران تو حکمرانی کے لیئے ہوتے ہیں ۔انکی نشانی بڑی سی کوٹھی،پراڈو اور قومی خزانے سے تنخواہ پانے والے پولیس والے انکے دست بستہ خدام۔جہاں تک کام کا تعلق ہے وہ تو ہمیشہ بیوروکریسی کرتی آئی ہے اور یہ اعزاز اسے ہمیشہ کی طرح آج بھی حاصل ہے۔ وزیر خزانہ کا کام صرف عمدہ انداز میںایوان میں کسی قادرالکلام شخصیت کی تحریر کردہ تقریر کا پڑھ دیناہے۔ میزانیہ کا اصل مطلب یہ ہے کہ محکمہ شماریات کی جانب سے آبادی کی تفصیلات کے مطابق منصوبہ بند ی کے محکمے نے عوامی ضروریات اور سہولیات کا جو تعین کیا ہے انکی کی تکمیل کے لیئے خزانے کے حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے سرمایہ کی فراہمی ہے۔ قومی خزانے کی آمدن اور اخراجات کا میزانیہ تیار کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں میزانیہ کبھی بھی حقائق پر مبنی نہیں آیا۔ اخراجات کی مدات کا جائزہ لیا جائے تو خزانے کا بڑا حصہ حکمران طبقہ کھا جاتا ہے مثلا اراکین اسمبلی کی تنخواہیں ، ٹی اے/ڈی اے، ہسپتالوں کے اخراجات اور حکمرانوں کے بیرون ملک علاج پر، اراکین اسمبلی کا علاقائی ترقیاتی منصوبوں کے نام پر بھاری رقومات کا ہضم کرنا۔ صدر ہاﺅس ، وزیراعظم ہاﺅس دوبڑے سفید ہاتھی ہیں جو لاکھوں روپیہ یومیہ ہضم کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی جیب سے کھانا بھی نہیں کھاتے بلکہ خود، بال بچوں، اعزاو اقارب ، دوست احباب کوبھی قوم کے خزانے کھلاتے ہیں جب کہ قرآن پاک میں دوسروں کا مال کھانا اپنے پیٹوں میں آگ بھرنا ہے۔ میں یہ گذارش کروں گا کہ جو لوگ لینڈ کروزر اور دیگر شاہانہ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں انہیں قومی خزانے سے تنخواہ یا دیگر مراعات لینا حرام ہے انہیں شرم آنی چاہیئے۔ اراکین اسمبلی کی تنخواہیں ، مراعات، صدر ہاﺅس اور وزیراعظم ہاﺅس کا عملہ کم کیا جائے، اخراجات کم کیئے جائیں، قومی خزانے سے کھانے کا سلسلہ فورا بند کریں۔ غیر ملکی مہمانوں کے لیئے بھی سادہ کھاناہو۔ صدر اور وزیر اعظم ایرانی صدر کی تقلید کریں اور اپنے ٹفن میں اپنی بیگم یا بیٹی کے ہاتھ کا پکا کھانادفتر لے کر جائیں۔ پھر دیکھنا کہ کیسی کیسی برکات کا نزول ہوتا ہے۔ رینٹل پاور اور اس جیسے دوسرے منصوبوں کی راہیں بند کردیں۔بجلی اور گیس کے مصنوعی بحران کی وجہ سے صنعتی شعبے کی نمو قومی معیشت میں موئثر کردار ادا کرنے کے قابل ہی نہیں۔ حکومت اپنی زیادہ توجہ صنعتی پہیہ تیز تر کرنے میں صرف کرے اور اس بات کو وزیر اعظم نواز شریف صاحب ایک صنعت کار کی حیثیت سے بہتر جانتے ہیں۔ ہماری قومی معیشت کا اہم ستون زراعت ہے جسے بجلی گیس کے بحران نے متائثر کیا ہے اور دوسرا اہم ستون صنعت ہے جس سے ہم زرمبادلہ حاصل کرتے ہیں۔ سابقہ پانچ سالوں میں ان دونوں اہم ستونون کو کھوکھلا کردیاگیا ۔ دوسری طرف حکمرانوں کی لوٹ مار اور بیرون ملک سرمایہ کی منتقلی نے ملکی معیشت کا ناقابل برداشت نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ کہ عدلیہ کی کوششوں سے لوٹا ہوا مال قومی خزانے کو واپس بھی دلایا۔ لیکن وہ آٹے میں نمک ہے۔ حکمرانوں نے اپنے عزائم کی تکمیل کے لیئے عوام پر ٹیکس لگائے، موبائل کارڈ پر ٹیکس دوگنا کیا،جی ایس ٹی میں اضافہ کیا تو اس سے صارفین پر بلا واسطہ بوجھ پڑگیا اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہوا جس کا اثر غریب عوام پرپڑا۔ تیل پر اجارہ داری پی پی پی کے بڑوں کی ہے، پاور پلانٹس کو تیل کی سپلائی روک دی گئی۔ تیل کی قیمتیں چڑھا کر پاور پلانٹس کو تیل دیا جس سے چند روز بجلی کی فراہمی بہتر رہی مگر پھر وہی عمل بار بار دہرایا گیا۔ اور آج بھی ویسا ہی ہے۔عوام کہتے ہیں کہ الیکشن کے چار دنوں میں پورے ملک میں بجلی کی فراہمی بحال رہی تو بھلا کیسے؟ ملک کو مسائل سے نجات دلانی ہے تو پہلا کام یہ کریں کہ بے جا اخراجات ختم کریں،دوسرا حکمران حلال کھائیں، تیسرالوٹا ہوا مال ملکی خزانے میں واپس لائیں، بجلی گیس چوروں کو سر عام فائرنگ سکواڈ کے سامنے لائیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالی سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتاہے۔ سودی کاروبارسراسر دنیا اور آخرت کا خسارہ ہے جبکہ صدقات(زکوة) دنیا و آخرت کی خیر ہے۔ لھذا سٹیٹ بنک کو سود کی جگہ مضاربت اور شراکت کے اصولوں پر چلایا جائے، نظام زکوة شرعی خطوط پر استوار کیا جائے تو مزید ٹیکسوں کی ضرورت کسی حد تک ختم ہوجائے گی۔ صنعتوں کا پہیہ تیز کریں اور کسان کی سہولیات میں اضافہ کریں تاکہ زراعت ترقی کرے۔ جب ملکی خزانے میں پیسہ ہوگا تو عوام کو ہر چیز سستی ملے گی، تعلیم ، صحت اور دیگر ترقیاتی کاموں کے لیئے سرمایہ ملے گا۔ روائیتی بجٹ کا پیش کرنا اور تقریریں کرنا ، بیوروکریسی کی جمع تفریق کے ہتھیار اب ناکارہ ہوچکے ہیں۔ ویسے بھی جناب میاں محمد نواز شریف صاحب کہ چکے ہیں اللہ مجھ سے کوئی اچھا کام لینا چاہتا کہ مجھے اقتدار دیا ہے۔ جی آپ نے سچ فرمایاکہ اللہ سچا ہے یہی اسکے جلوے اور مظہر ہیں کہ وزیراعظم ہاﺅس کے سامنے جیل جس میں ایک آمر نے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے کو شہید کیا، تو پھر ان کا اپنا انجام بھی باعث عبرت ہے، ملک کو ایٹمی پاور ظاہر کرنے والے کو آمر نے شاطرانہ چال سے جیل کی سلاخوںکے پیچھے دھکیلا ، سزائے موت دینا چاہتا تھا مگر اللہ جو چاہتا ہے وہ ہوکر رہتا۔ پھر آج وہ وقت ہے کہ جسے ظلم کا نشانہ بنایاگیا اسے اللہ پاک نے اقتدار دیا عزت دی تو دوسری طرف آمر صاحب ملزم پس زندان ہیں اللہ جانتا ہے انجام کیا ہوگا؟ مگر معاملہ بڑا عبرت انگیز ہے کہ قلعہ اٹک میں ڈالا جانے والا آج ملک کا منتظم اعلیٰ ہے اور دوسری طرف قید کیا جانے والا چیف جسٹس ملک کی اعلی ترین کرسی عدالت پر عدل گستری کے فرائض سرانجام دے رہاہے۔ ہاں تو رب ہے اور ڈرو اس سے کہ اللہ وحدہ لاشریک کے اقتدار کو دوام ہے باقی خیال خام ہے۔ جو اللہ کے کنبہ کا خیال رکھے گا وہی عزت پائے گا۔

AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 130930 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More