پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف چودہ سال
بعد تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے اس عرصے میں انھوں نے قید
تنہائی کاٹی، جلاوطنی میں رہے، ایک بار ملک واپس آنے کی کوشش میں چکلالہ
ایئرپورٹ سے واپس بھیجے گئے پھر دو انتخابی مہمات چلائیں اور اس میں قوم کے
ساتھ اپنا اعتماد بحال کیا اور ایسے وعدے کیے کہ پنجاب اور دوسرے صوبوں میں
ان کے اتحادیوں نے اپنی تقدیر پھر ان کے ہاتھوں میں دے دی ان چودہ سالوں
میں ملک میں کیا بدلا اس کے لیے حکمرانوں کے پاس اعداد وشمار موجود ہیں
تاہم کچھ ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں بدلی ہیں جو انتخابی نعروں میں نہیں سما
سکتی انتخابی مہمات میں آپ نے پاکستانی قوم کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور
محسوس کیا کہ پاکستانی قوم کو جو چیز سب سے زیادہ عزیز ہے وہ بجلی ہے لوگوں
کو یقین ہو گیا کہ اگر میاں صاحب کی حکومت بن گئی تو پاکستان سے لوڈشیڈنگ
کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ اس سے پہلے جس طرح سابق حکومت نے دسمبر ،دسمبر
پھر دسمبر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنے کا وعدہ کیااور بجلی کی
لوڈشیدنگ تو ختم نہ ہوئی البتہ وہ بیچارے خود ختم ہو گے اور آج کل سنا ہے
کہ وہ بجلی کی تلاش میں ہیں تاکہ اگلی بار جب وہ حکومت میں آئیں تو کم از
کم اس بلا سے تو ان کی جان چھوٹے اب جبکہ حکومت سیٹ ہو چکی تمام وزراء نے
اپنے اپنے اداروں کا چارج لے لیا ہے تو حکومتی پارٹی بننے کے بعد میاں صاحب
کے وزراء نے بھی وہی باتیں کہنا شروع کر دی ہیں جو کوئی بھی وزیر یا مشیر
بننے کے بعد کہنا شروع کر دیتا ہے عجیب ہے نہ کہ جب کوئی بھی پارٹی اپوزیشن
میں ہو تو اس کو حکومت کے تمام کام آسان لگتے ہیں لیکن جب حکومت میں خود
آتی ہے تو خزانہ خالی ہے ،بحران ورثے میں ملے ہیں،کوشش کریں گے ،اور بحران
مہینوں میں نہیں سالوں میں ختم ہوتے ہیں کہ جیسے جملے بولنا شروع کر دیتے
ہیں جس کی وجہ سے عوام میں بھی اب وہ بے چینی نظر آنے لگتی ہے جو کسی بھی
دھوپ میں کھڑے اور مسائل میں گرئے ہوئے شخص کے چہرے پر دیکھی جا سکتی ہے
اگر ایک بار ایک عام آدمی اعلیٰ ایوانو ں سے ہو آئے تو اس کو عام آدمی نظر
ہی نہیں آتے تو وہ جو ہمارے حکمران ہوتے ہیں ان کو عام آدمی اور اس کی
مشکلات کہاں سے نظر آئیں کیونکہ انھوں نے براہ راست کچھ بھی نہیں دیکھنا
ہوتا ان کو جو بھی بتایایادیکھایا جاتا ہے وہ سب بتانے اور دیکھانے والے
کسی نہ کسی مصلحت کی وجہ سے اصل بات چھپا جاتے ہیں اس لئے انھیں تو سب اچھا
کی ہی رپورٹ ملتی ہے اس لئے وہ ازالہ کہاں سے کریں اور کیونکر کریں انھیں
کچھ پتا ہو گا تو کریں گے-
حکومت بنی تو خوشامدی لوگ بھی اپنا اپنا حصہ لینے کود پڑے ایسا تو صدیوں سے
ہوتا آیا ہے کل تک جو کسی اور کے گیت گایا کرتا تھا آج میاں صاحب کے گیت
گانے لگا اور ایسے لوگ ہر جگہ ملتے ہیں ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو سابق
لوگوں کو مشورے دیا کرتے تھے کہ ان کے ساتھ ایسا ہونا چاہیے ایسا ہونا
چاہیے تب کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ثابت قدم رہے اور ڈٹ کر ان مشکلات اور
حالات کا ناصرف مقابلہ کیا بلکہ اپنے سچے جذبے کی مدد سے ان کو بھاگنے پر
مجبور کر دیا مگر افسوس کہ آج وہ لوگ ان خوشامدیوں سے بہت پیچھے بلکہ گم ہو
چکے ہیں اس کی کیا وجہ ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ خودار تھے اور
اپنی خوداری کا سودا وہ کر نہیں سکتے کیونکہ اگر وہ اپنی خوداری کا سودا
اگر کرنا چاہتے تو آمریتوں کے دور میں لگائی جانے والی بولیاں آج کے دور سے
کہیں زیادہ نفع بخش اور پر آسائش تھیں لیکن ثابت قدم رہنا بھی تو ایک اعزاز
ہے جو نئے آنے والے حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے-
حکومت بنی خوشامد شروع ہوئی عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے اخبارات میں
خوشامدی اشتہارات شائع کروائے گئے صرف اس لئے کہ نوکری پکی رہے مگر بھلا ہو
سوشل میڈیا کا جو حقیقی معانوں میں آزاد ہے فورا سے پہلے حرکت ہوئی اور بات
بہت اوپر تک چلی گئی جس پرانکوائری کے آرڈر ہوئے اب دیکھنا یہ ہے کہ عوامی
پیسے سے دیے گئے اشتہارات کی وصولی ان لوگوں سے ہوتی بھی ہے کہ یہ بھی پہلے
والے قصوں کی طرح ماضی کا حصہ بن جائے گاکیونکہ اس ملک میں اکثر ہوتا ایا
ہے کہ عوام کے جیبوں پر ڈاکا ڈالا گیا اور کسی نے پوچھا تک نہیں اگر اب کی
بار ان لوگوں کے خلاف ایکشن ہوا تو ایک بہت اچھی مثال قائم ہو جائے گی -
میاں صاحب آپ کو اقتدار مبارک ہو مگر ایک بات آپ کو بھی یاد رکھنی ہے کہ
عوام آپ سے بہت ہی زیادہ توقعات لگائے بیٹھے ہیں اب کی با ر بھی اگر ان کے
مسائل حل نہ ہوئے تو ان کا وہ بھروسہ جو انھوں نے آپ پر تیسری بار کیا ہے
وہ ٹوٹ سکتا ہے اس کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے آپ کو جنگی بنیادوں پر کام
کرنا ہو گا اور اس دوران اپنے آپ کو ان خوشامدی لوگوں سے بھی بچانا ہوگاجو
ان تما بحرانوں اور مسائل کی اصل جڑ ہیں اور لوگوں کے مسائل پر خود نظر
رکھنی ہوگی بلکل ویسی نظر جیسے آپ کے بھائی نے سابق پنجاب حکومت پر رکھی
تھی یہ راستہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن ہر گز نہیں اور جس طرح عوام نے تیرہ
سال بعدآپ پر ایک بار پھر اعتبار کرتے ہوئے آپ کو منتخب کیا ہے بلکل اسی
طرح ان مسائل کے ستائے ہوئے عوام کی داد رسی بھی آپ نے کرنی ہے اس کے لئے
عوام پہلے بھی قربانی دیتے آئے ہیں اور آئیندہ بھی ملکی مفاد میں ہر قسم کی
قربانی کے لئے تیار ہیں -
اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی عوامی پالیسیوں کو جاری رکھیں اور
خوشامدی لوگوں کے بجائے مخلص لوگوں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنائیں تاکہ قوم کو
ان بحرانوں سے نجات دلائی جا سکے ۔ |