الیکشن ختم ہوئے ایک ماہ کا عرصہ بیت گیا۔ صوبوں میں نئی
صوبائی حکومتیں اورمرکز میں میاں نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کی
نئی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ بہت سی باتیں اور بہت سے اختلاف جنہوں نے الیکشن
کے دوران جنم لیا تھا۔ اب ختم ہو چکے مگر جانے کیوں ایک سوال ابھی تک بہت
سے لبوں پر اُسی طرح قائم ہے اور لوگ ایک دوسرے کو پوچھتے ہیں ”میرا ووٹ
کہاں گیا “۔ یہ ریاضی کا سوال نہیں جو میرے جیسا ریاضی کا طالب علم حل کرے۔
اس سوال کا جواب کہاں ہے اور کیسے مل سکتا ہے کوئی نہیں جانتا ۔ بہت سے لوگ
کہتے ہیں کہ یہ سوال صرف پوش علاقے کے رہنے والے ممی ڈیڈی نوجوان یا ماڈرن
خواتین کی زبان پر ہے۔ عام آدمی کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ پچھلے ہفتے میں
نے ایک پورا دن چوبرجی ، راج گڑھ ، شام نگر ، ساندہ اور ملحقہ آبادیوں میں
گزارا۔ ایک جگہ ایک بزرگ سے یہی بات کہہ دی۔ بزرگ نے مجھے بازو سے پکڑا اور
تھوڑے فاصلے پر ایک گلی کی نکر پر لے گیا اور پھر پوچھا بتاﺅ یہ پوش علاقہ
ہے؟ چھ فٹ چوڑی گلی، تیس چالیس مکان ہیں۔ وہ سامنے دو مرلے پر مشتمل میرے
ایک منزلہ مکان ہے۔ نالیوں سے پانی باہر بہہ رہا ہے۔ گٹر ٹوٹے ہوئے ہیں۔
کچھ پکے اور کچھ شکستہ مکانات ہیں۔ گند میں کھیلتے ننگے بچوں کو بھی دیکھ
رہے ہو۔ یہ ایسا ہی پوش علاقہ ہے۔ یہاں کوئی ممی ڈیڈی نوجوان نہیں رہتا۔
کوئی ماڈرن خاتون نہیں رہتی۔ سب محنت کش ہیں۔ بمشکل گزارہ کرتے ہیں۔ انہیں
بھی شعور ہے۔ یہ بھی اپنی حالت بدلنا چاہتے ہیں۔ اس ملک کے وسائل پر ان کا
بھی اتنا ہی حق ہے جتنا امیروں کا۔ انہیں بھی ہر وہ چیز چاہیے جو اس ملک کی
ایلیٹ کلاس کے پاس ہے۔ غریبی جرم نہیں۔ یہ لوگ بھی تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔
یہ اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں اس گلی میں کس نے کسے ووٹ دیا۔ سب کو پتہ ہے
مگر ساری گلی کے لوگ یہی سوال کرتے ہیں”میرا ووٹ کہاں گیا “ ۔ بزرگ کی
باتوں کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا اس لیے چپکے سے کھسک آیا۔
آج نواز شریف وزیر اعظم ہیں۔ پچیس رکنی کابینہ بھی تشکیل دی جا چکی ہے۔ مگر
اس بار اقتدار پھولوں کی سیج نہیں کیونکہ عوام کی توقعات حد سے زیادہ ہیں۔
اُنہیں موجودہ حکومت سے بھلائی کی بہت اُمید ہے مگر ملک کو مسائل اور
بحرانوں کا سامنا ہے جس کے حل کے لیے حکومتی ارکان کو عزم اور مسلسل محنت
کی ضرورت ہے۔ ڈرون حملے ، لوڈ شیڈنگ کا شدید بحران ،مہنگائی کی لہر۔ بے روز
گاروں کا سیلاب، ڈوبتی معیشت ، کرپشن کا بحر بیکراں اور لا تعداد مسائل ،
ہر مسئلہ اور ہر بحران سنگین سے سنگین تر ہے۔ جو بحران نظر آتے ہیں اُن میں
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈرون حملے سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ ہے کیونکہ
اس سے ملک میں دہشت گردی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ بہت سے لوگ شدید لوڈ
شیڈنگ کو بد ترین بحران قرار دیتے ہیں۔ ہر شخص کا اپنا ایک خیال ہے مگر اس
ملک کا اصل بد ترین بحران جو بظاہر ہر آدمی کو نظر نہیں آتا مگر عملی طور
پر تمام بحرانوں اور مسائل کی جڑ ہے وہ ہماری اشرافیہ میں غیرت اور حمیت کا
فقدان ہے۔ یہ کیسی اشرافیہ ہے کہ جس کا کوئی نظریہ ہے نہ ایمان ۔ فقط دولت
کی ہوس اور اقتدار کی خواہش ہی ان کا سب کچھ ہے۔ یہ سب ٹوانے ، لغاری ،
جمالی، ممدوٹ ، زرداری اور دیگر نام نہاد اشرافیہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن
میں اپنے مفادات کے لیے کام کرتے رہیں ۔ یہ اگر اقتدار میں نہ بھی ہوں تو
حکومت سے بگاڑتے نہیں اور حکومت بھی ان کا احترام کرتی ہے۔ سبھی مخدوم ۔
پیر اور نواب ایک ہی فطرت اور ایک مزاج کے لوگ ہیں۔ ان کی ظاہری سیاسی
سرگرمیاں عوام کے لیے مگر حقیقت میں یہ اپنی ذات کے بچاری ہیں۔ یہی وجہ ہے
کہ آزاد منتخب ہونے والے پنجاب کے ارکان مسلم لیگ (ن) ، سندھ کے ارکان
پیپلز پارٹی میں ، خیبر پختونخواہ کے ارکان تحریک انصاف میں اور بلوچستان
کے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ مفادات کی سیاست ہے اور جب تک اس
اشرافیہ کا جو زمینوں کے ساتھ ساتھ اقتدار بھی وراثت میں لے کر آئی ہے
خاتمہ نہیں ہوتا اس ملک کی حالت بدل نہیں سکتی۔ عام آدمی کے لیے اس سیاست
میں بہت کم گنجائش ہے اور جو کوشش کے نتیجے میں اشرافیہ کی صفت میں شامل ہو
جاتا ہے وہ اُسی رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔
جناب ظفر اللہ جمالی کی مسلم لیگ میں شمولیت اور اس بات کاا قرار کہ پہلے
اُن کے باس پرویز مشرف تھے مگر اب نواز شریف ہیں۔ کمال ڈھٹائی کا بیان ہے
اور موجودہ ایلیٹ کلچر کی نمائندہ بے حسی ۔ایسے بیان پر انہیں شرمسار ہونا
بھی محسوس نہیں ہوتا۔ ایسی ہی صورتحال سندھ کے جناب ارباب رحیم کی ہے۔ مسلم
لیگ (ق) چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے ”لوٹے“ بھی اسی غیرت اور
حمیت سے پاک کلچر کی پیدوار ہیں۔ اس لیے اُن سے گلہ بے معنی ہے۔ ضرورت اس
اشرافیہ نسل کو الیکشن کے ذریعے انجام تک پہنچانے کی ہے اور اگر جمہوریت
جاری و ساری رہی تو یہ وقت بھی شاید جلدی آجائے گا۔ نواز شریف اور عمران
جیسے لیڈوں کو بھی یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی اپنی پارٹیوں میں
ایسے لوگوں کو کم سے کم جگہ دیں۔
میاں نواز شریف نے حلف کے بعد بحیثیت وزیر اعظم جو پہلی تقریر کی اس میں
انہوں نے کہا کہ میں نہ خود کرپشن کروں گا اور نہ کسی دوسرے کو کرپشن کرنے
دوں گا۔ اُن کی بہت سی باتوں میں یہی بات انتہائی امید افزا اور حوصلہ افزا
ہے۔ میاں صاحب کو چاہیے کہ پچھلی کرپشن کا حساب بھی لیں۔ موجودہ نیب مخصوص
لوگوں کے مفادات کے لیے کام کرتی رہی ہے۔ اُس کی تشکیل نو بھی ضروری ہے۔
اُسی تقریب میں امین فہیم نے ایجنسیوں کا شکریہ ادا کیا۔ اُن کے خیال
میںموجودہ حکومت کی تشکیل میں ایجنسیوں کا کردار ہے ،یقینا ہوگا ۔ ایجنسیوں
کے اپنے مفادات ہیں۔ اسی طرح امریکہ اور دیگر ممالک کے اپنے مفادات ہیں۔
اُن مفادات کے حصول کے لیے الیکشن میں ان کا عمل دخل بھی ہوتا ہے۔ شنید ہے
کہ مفادات کے اس کھیل میں چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں
توسیع بھی شامل ہے۔ جو انتہائی افسوسناک عمل ہوگا۔
نواز شریف کی تقریب حلف میں جناب جاوید ہاشمی نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کو
اکاموڈیٹ کیا جائے۔ ہم فرینڈلی اپوزیشن نہیں بنیں گے۔ نئی حکومت نے مسائل
حل نہ کیے تو جنگ ہو گی۔ یہاں تک تو جناب جاوید ہاشمی کا بیان ٹھیک تھا مگر
زور بیان میں انہوں نے نواز شریف کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف
پہلے بھی میرے لیڈر تھے اور اب بھی میرے لیڈر ہیں۔ ہاشمی صاحب کی یہ بات
عوام کو بھی اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو بھی شدید ناگوار گزری۔ سیدھی سی
بات ہے کہ نواز شریف اگر آپ کے مستقل لیڈر ہیں تو آپ نے مسلم لیگ (ن) کو
چھوڑنے اور تحریک انصاف میں شامل ہونے کی جھک کیوں ماری ۔ اصل میں قصور
جناب ہاشمی صاحب کا نہیں۔ ہاشمی صاحب مخدوم ہیں اور اہل اقتدار کے سامنے
جھکنا ،مزید جھکنا اور جھک جھک جانا مخدوموں کے خون میں شامل ہے۔ مخدوم بھی
ہماری ایلیٹ اشرافیہ کا لازمی جزو ہیں ۔ اس لیے اُن سے شکوہ یا گلا کیسا۔ |