ایران میں انتخابی مہم ختم ہوچکی
ہے ، عالمی ذرائع ابلاغ اور سیاسی مبصرین نے ایرانی انتخابات کا نقشہ کچھ
یوں کھینچا ہے کہ سیاسی جلسوں، جوڑ توڑ، مناظروں، ملاقاتوں اور ایک دوسرے
کے حق میں دست بردار ہونے کے بعد اب انتخابی میدان میں صرف چھے امیدوار
باقی ہیں۔ صدارتی امیدوار انجینئر سید محمدغرضی شروع ہی سے ایسے محسوس
ہورہے تھے جیسے وہ انتخابات کھڑے ہی نہیں ہوئے جس کی وجہ شاید یہ رہی ہے کہ
عوام کی طرف سے انہیں کوئی خاص مقبولیت نہیں ملی اسی لیے ان کی طرف سے
عوامی جلسوں سے زیادہ پریس کانفرنسز پر گزارہ کیا گیا۔ عوامی مقبولیت کے
حوالے سے ڈاکٹر رضائی اور ڈاکٹر ولایتی تقریبا ایک جیسی صورتحال اور ایک
جیسی عوامی مقبولیت کے حامل شمار ہورہے ہیں۔ سابق نائب صدر محمد رضا عارف
اور سابق اسپیکر پارلیمنٹ ڈاکٹر حداد عادل مقابلے سے دستبردار ہوچکے ہیں
اور اگر وہ دونوں بھی میدان میں ہوتے تو ڈاکٹر رضائی اور ڈاکٹر ولایتی سے
زیادہ مقبول شمار نہیں ہوتے۔
اب تک کی صورتحال میں تین امیدوار بہت زیادہ مقبولیت حاصل کرچکے ہیں جن میں
سیکیورٹی کونسل کے سربراہ اور ایٹمی مذاکرات کار ڈاکٹر سعید جلیلی، سابق
صدر ہاشمی رفسنجانی اور اصلاح پسندوں کے حمایت یافتہ امیدوار ڈاکٹر حسن
روحانی اور اصول پرست رہنما اور تہران کے میئر ڈاکٹر محمد باقر قالیباف
شامل ہیں۔ ان میں سے کل کون میدان مارے گا کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ مقابلہ
بہت سخت ہوگا اور بعض مبصرین تو اس بات کا بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ انتخابات
دوسرے مرحلے میں چلے جائیں گے کیونکہ کوئی امیدوار بھی پچاس فیصد سے زیادہ
ووٹ حاصل نہیں کرسکے گا اور یوں ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر انتخابات دوسرے
پہنچ جائیں گے۔
انتخابات کسی بھی ملک میں ہوں عالمی ذرائع ابلاغ، سیاسی مبصرین اور عالمی
حالات کے بارے میں دلچسپی رکھنے والے افراد کو اپنی طرف متوجہ ضرور کرتے
ہیں لیکن ایران کے انتخابات صرف انہی چند پہلؤوں سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ
مغرب میں ایرانی انتخابات کو وہاں کے اسلامی نظام جمہوریت کی کامیابی یا
ناکامی کی کسوٹی شمار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کا اعلان ہونے
سے ایک سال پہلے ہی مختلف بہانوں سے ایران کے خلاف نرم جنگ کا آغاز کردیا
جاتا ہے جس میں عوام کو اس بات پر اکسایا جاتا ہے کہ وہ انتخابات کا
بائیکاٹ کریں اور ایران کی انقلابی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیکر اپنا ووٹ
ضائع نہ کریں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ایران کے خلاف
متعدد نئے محاذ کھول دیئے جاتے ہیں کہ فلاں امیدوار کو نااہل کیوں قرار دیا
گیا!فلاں امیدوار ملک کی معاشی حالت کا ستیاناس کردے گا ۔ انتخابات میں
دھاندلی کی جائے گی اور اس قسم کے کتنے ہی ایسے نعرے ہیں جن کا مقصد صرف
اور صرف عوام کو انتخابات سے دور کرنا ہوتا ہے۔
امریکہ اور مغربی ذرائع ابلاغ کے اس پروپیگنڈے کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ
سکتے ہیں کہ ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اصل مقابلہ اصلاح
پسندوں یا اصول پرستوں یا آزاد امیدواروں میں نہیں بلکہ امریکہ ، مغرب اور
ایرانی عوام کے درمیان ہے۔ اگر ایرانی عوام پولنگ بوتھ نہیں آتے اور اپنا
ووٹ کاسٹ نہیں کرتے تو شاید امریکہ اور مغربی ممالک یہ انتخابات جیت جائیں
لیکن اگر ماضی کی طرح اس دفعہ بھی ایرانی عوام نے بھرپور طریقے سے انتخابات
لیا اور جمہوری طریقے سے اپنے نئے صدر کا انتخاب کیا تو پھر جیت کس کی ہوگی
اور شکست کس کا مقدر ٹھہرے گی؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
|