وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر ہم نے بھی پورے
انہماک کے ساتھ سنی لیکن سچ یہ ہے کچھ پلے نہیں پڑا، سیانے لوگ بجٹ کو
الفاظ کا گورکھ دھندا کہتے ہیں اور ٹھیک ہی کہتے ہیں، یہ مداری کی طرح
رومال سے کبوتر نکالنے جیسا فن ہے، مجھ جیسے افراد کو بجٹ تقاریر اور دعوؤں
سے نہیں دکان پر جاکر سمجھ آتا ہے۔ وزیرخزانہ کا خطاب سن کر ایک پرانا
واقعہ یاد آگیا، پرویزمشرف کی جانب سے متعارف کرائے گئے پہلے بلدیاتی
انتخابات میں جیتنے والے ناظمین اور کونسلروں کو کچھ پتا نہیں تھا کہ انہےں
کرنا کیا ہے۔ حکومت نے ان کی تربیت کا انتظام کیا، ہمارے ایک دوست ٹاؤن
افسر بھی منتخب بلدیاتی نمایندوں کو تربیت دیتے تھے، جب ان سے کوئی پوچھتا
”جناب! ہمیں کون کون سے اختیارات ملیں گے“ وہ سب کو ایک ہی جواب دیتے ”بہت
ملے گا، بابا! بہت ملے گا! بس تھوڑا صبر کرو“ اسحاق ڈار صاحب بھی اپنے خطاب
میں عوام کو ”بہت ملے گا“ کی نوید سنا رہے تھے، کیا واقعی ہم عوام کو بہت
کچھ ملنے والا ہے؟
کسی نے کہا تھا:
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
شاعر لوگ کہتے ہیں اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ مکھی باغ میں گئی تو پھول پر
بیٹھے گی، وہاں سے رس چوس کر چھتے میں جاکر شہد بنائے گی، شہد سے موم بنے
گی اور اس سے موم بتی وجود میں آئے گی، موم بتی جلانے سے اس پر پروانہ آئے
گا اور جل مرے گا۔ لہٰذا اگر پروانے کو مرنے سے بچانا ہے تو مکھی کو باغ
میں نہ جانے دو، دوسرے لفظوں میں اگر پروانے کو سبق سکھانا ہے تو اس پر
براہ راست ہاتھ ڈالنے کی بجائے صرف مکھی کو باغ میں جانے دے دو، باقی کام
خود بخود ہوجائے گا۔ ڈار صاحب نے عوام پر کچھ اسی طرح کا گھماپھرا کر وار
کیا ہے۔ اگر وہ براہ راست چیزیں مہنگی کردیتے تو انہیںفوری عوامی ردعمل کا
سامنا کرنا پڑتا۔ وزیرخزانہ نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے سیلز ٹیکس میں
اضافہ کردیا، اب تمام چیزوں کی قیمت میں ازخود 5 فیصد تک اضافہ ہوجائے گا۔
ماہرین کے مطابق چینی، تیل، گھی، ڈبہ پیک دودھ، مشروبات، کتابیں، کاپیاں،
قلم، سگریٹ، پان، چھالیہ، سیمنٹ، رنگ وروغن، ٹائرٹیوب، الیکٹرونکس کا سامان،
صابن اور مصالحہ جات سمیت 85 ایسی اشیاءہیں جن کی قیمتوں میں فوری طور پر
اضافہ ہوگیا ہے۔ پرچون فروشوں پر الگ سے بھی ٹیکس لگایا گیا ہے، لازمی بات
ہے، وہ یہ ٹیکس اپنی جیب سے دینے کی بجائے عوام کی جیب سے نکالیںگے،
آڑھتیوں پر بھی ٹیکس کی شرح میں خاصا اضافہ کیا گیا ہے، وہ یہ ٹیکس
دکانداروں اور دکان دار عوام سے وصول کریںگے۔ گویا ان تمام ٹیکسوں کا اثر
عام افراد پر پڑے گا۔ ایئرکنڈیشنز اور گاڑیاں مہنگی ہوں یا سستی، اس سے عام
افراد کو کوئی سروکار نہیں، وہ بے چارے تو آٹا، دال، چاول وغیرہ سستے داموں
چاہتے تھے، جو نئے بجٹ میں ان کی پہنچ سے مزید دور کردیے گئے ہیں۔
لوڈشیڈنگ اس وقت ملک کا نمبرون مسئلہ بنا ہوا ہے، بلاشبہ توانائی کا یہ
بحران سابقہ حکومتوں کی نااہلی کا کھلا ثبوت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس
بحران سے چند ہفتوں یا مہینوں میں نہیں نمٹا جاسکتا۔ اس لیے نئی حکومت سے
یہ توقع رکھنا مناسب نہیں کہ وہ چند روز میں ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو
پالے گی، البتہ اگر حکومت چاہتی تو بجٹ میں اس حوالے سے عوام کو کچھ نہ کچھ
ریلیف ضرور دیا جاسکتا تھا، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور اس پر دی جانے
والی سبسڈی ختم کرنے کا اعلان لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے عوام پر بجلی بن کر
گرا ہے۔ بجٹ کے بعد سے سرکاری ملازمین کے چہرے پھولے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال
تھا اس بار بھی ان کی تنخواہوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا مگر وزیرخزانہ نے
انہیں مایوس کردیا۔ اخبارات کے مطابق سرکاری ملازمین کی مختلف یونینوں نے
ریلیف نہ ملنے کے خلاف باقاعدہ ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔ انہوںنے سڑکوں پر
بھی آنے کی دھمکی دی ہے۔ اگر واقعتا لاکھوں سرکاری ملازمین جو تھوڑا بہت
کام کرتے ہیں وہ بھی چھوڑچھاڑ کر سڑکوں پر آگئے تو میاں صاحب کی پیشانی پر
پسینہ آئے بغیر نہیں رہے گا۔ کسان بھی اس بجٹ سے ناخوش ہیں۔ بیرون ممالک سے
بیج منگوانے پر ٹیکس بڑھادیا گیا ہے۔ کھادیں بھی مہنگی ہوجائیںگی جبکہ
ٹریکٹر کی قیمت میں بھی کئی ہزار کا اضافہ ہوگا۔ بیج، کھاد اور دیگر زرعی
آلات مہنگے ہونے سے فصلوں پر آنے والی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا جس سے عوام
کو سبزیاں مہنگے داموں ملیںگی۔ البتہ بڑے بڑے جاگیردار ایک بار پھر ٹیکسوں
سے استثناءحاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو
ایسے مواقع فراہم کریں جس سے وہ عبادات اور دیگر مذہبی معاملات آسانی سے
ادا کرسکیں، حج کرنا ہر مسلمان کا خواب ہوتا ہے، لوگ ارض مقدس کی زیارت کے
لیے روپیہ، روپیہ جوڑکر اخراجات کا انتظام کرتے ہیں، سنا ہے کئی اسلامی
ممالک میں حرمین شریفین جانے والوں کے لیے ایسے انتظامات کیے جاتے ہیں جس
سے ان کی جیب پر زیادہ وزن نہ پڑے، مگر ہمارے ہاں سہولیات فراہم کرنے کی
بجائے حاجیوں کی جیبیں کاٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پہلے ایک حاجی سے 35سو
روپے ٹیکس وصول کیا جاتا تھا، اب مسلم لیگ کی حکومت نے ٹیکس میں کمی کی
بجائے مزید1500 روپے کا اضافہ کرکے اسے 5ہزار روپے کردیا ہے۔
ایک اور نکتہ بھی قابل غور ہے، 35کھرب91 ارب کے مجموعی بجٹ میں 1651 ارب کا
خسارہ دکھایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے، بجٹ خسارہ کیسے پورا ہوگا؟ حکومت کا کہنا
ہے 120 ارب روپے تھری جی لائسنسوں کی نیلامی اور اتنے ہی پیسے امرےکا سے
کولیشن فنڈ کی مد میں ملیںگے۔ یہ دونوں مل کر محض 242 ارب روپے ہوئے، باقی
1409 ارب روپے کہاں سے لائے جائیںگے؟ یقینی طور پر حکومت کو کشکول
اٹھاکرعالمی مالیاتی اداروں کے دروازے پر جانا ہوگا۔ عالمی ادارے اور ملک
قرض اظہارہمدردی کے طور پر نہیں دیتے بلکہ ہر چیک کے ساتھ شرائط نامہ بھی
ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ ان شرائط کا خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
لگتا ایسا ہے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے نام پر عوام کی کمر پر مزید بوجھ لادا
جائے گا۔
نئی حکومت نے پی پی حکومت کے جن منصوبوں کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، ان
میں سرفہرست بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے۔ میاں صاحب کی حکومت نے بے نظیر
کا نام حذف کرکے منصوبے کے لیے مختص 40 ارب روپے کی رقم کو بڑھاکر 75 ارب
کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) ماضی میں اس منصوبے کی سخت ناقد رہی ہے، اس جماعت
کے رہنما انکم سپورٹ پروگرام کو کرپشن پروگرام قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔
وہ کہتے تھے منصوبہ صرف جیالوں کو نوازنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ن لیگ اگر
اس منصوبے کو بہتر سمجھتی ہے تو ضرور اسے چلائے لیکن اس میں جن خرابیوں کی
وہ ماضی میں نشاندہی کرتی رہی ہے، ان کی ضرور اصلاح کرنا چاہیے، اگر ایسا
نہ کیا گیا تو اسے کل لیگی کارکنوں کو نوازنے کا پروگرام کا طعنہ سننا پڑے
گا۔
وفاقی بجٹ میں بہت سی قابل ستائش باتیں بھی ہیں۔ 16 وزارتوں، امریکا اور
برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانوں کے خفیہ فنڈ ختم کرنے کا فیصلہ انتہائی
جرا ¿ت مندانہ ہے۔ اس فیصلے کے مطابق اب وزارت دفاع اور انٹیلی جنس
ایجنسیوں کو بھی خفیہ فنڈ کا آڈٹ کرانا پڑے گا۔ وزیراعظم ہاو ¿س کے اخراجات
میں کمی، ریلوے کو دوبارہ چلانے کے لیے ٹھوس اقدامات اور نوجوانوں کے لیے
مختلف منصوبوں کے اعلانات کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ اسی طرح گوادر کو
شمالی سرحدوں سے ملانے سمیت سڑکوں کے بہت سے منصوبے بھی بجٹ کا حصہ ہیں،
یقینا مواصلات کے نظام میں بہتری سے معاشی ترقی میں مدد ملے گی۔
ماہرین بجٹ کے ”پوسٹ مارٹم“ میں مصروف ہیں، اس لیے اصل صورت حال تو اگلے
ایک ، دو دن میں واضح ہوگی، البتہ بجٹ کی جو موٹی موٹی تفصیلات سامنے آئی
ہیں، جن میں سے کچھ کا ذکر اوپر ہوا ہے، ان سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے
کہ نئی حکومت کے معاشی ماہرین کے لیے پہلے بجٹ کو عوام دوست ثابت کرنا آسان
نہیں! |