کوئٹہ کے تین المناک سانحات،غمزدہ قوم وہمارے حکمران..اور بھارت و امریکا

آج بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں، راکٹوں اور خودکش بم حملوں کے نتیجے میں قائداعظم ریزیڈنسی ، ویمن یونیورسٹی اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں پیش آنے والے واقعات نے ساری پاکستانی قوم کو غمزدہ کردیاہے تو وہیں میری قوم کے اِس جذبے کو بھی ضروربیدارکردیاہے کہ آج اگر اِسے اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کی بقا و سا لیمت چاہئے تو اِسے اپنے تمام فروعی ، ذاتی و سیاسی اور رنگ ومذہب کے اختلافات کو بھولاکر ہر صورت میں یک دل اوریک جان ہوناپڑے گا اوراپنی آستینوں میں چھپے اور اپنے اردگرد موجود اُن دہشت گردوں اور اغیار کے ڈالر خریدقاتلوں اور سَرکشوں کا ضرورپتالگاناہوگاجو اپنی انسانیت سُوزاور گھناؤنی کارروائیاں کرکے میرے جنت نظیر وطن کو تباہ اور اِس کے باسیوں کو مارکر اپنے آقاؤں کی خوشنودیاں حاصل کرکے اِن کے عزائم کی تکمیل کررہے ہیں اور جواَب ہمیں بھی مجبور کررہے ہیں کہ اِنہیں باتوں کے بجائے لاتوں سے سمجھایاجائے جن کے بارے میںشاعر نے کیا خُوب کہاہے کہ:-
تعریف غاصبَانِ زمانہ کی ہے یہی
اِنصاف کو، وفا کو، وہ پہنچانتے نہیں
اِن سَرکشوں کا دَہر میں زنداں علاج ہے
لاتوں کے بُھوت، بات کبھی مُانتے نہیں

جبکہ یہاں یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ موجودہ حالات میں میرے مُلک پر عذاب بن کر پھیلے ہوئے سَرکشوں نے اپنی ناپاک کارروائی سے بلوچستان کے علاقے زیارت میں میرے بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کی رہائش گاہ قائداعظم ریذیڈنسی کو بھی نہیں چھوڑا ،لکڑی کی بنی ہوئی اِس خُوبصورت عمارت جس میں قائد اعظم کے نوادرات موجود تھے اِس بنا پر یہ عمارت ہماری قومی ورثے کا درجہ رکھتی تھی اِس قومی عمارت پر مُلک دشمن دہشت گردوں نے جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات ایک بج کر سترہ منٹ پر پانچ بموں سے حملے کئے ، حملے سے کانسٹیبل محمدطاہر شہید اورعمارت مکمل طور پر تباہ ہوگئی، یہ ہماری وہی تاریخی عمارت تھی جس میںبانئی پاکستان حضرت قائد اعظم محمدعلی جناح نے اپنی زندگی کے انتہائی اہم اور آخری ایام گزرے تھے،لکڑی سے بنی اِس خوبصورت عمارت کے کئی کمروں میں قائد اعظم محمد علی جناح کے آخری ایاّم میں زیراستعمال رہنے والی اشیاءکے علاوہ ایسی کئی نادر تصاویرآویزاں تھیں جو بانئی پاکستان محمد علی جناح نے اپنی بہن ، بلوچستان کے قبائلی عمائدین اور اِس وقت کی کئی سیاسی و سماجی سرکردہ شخصیات کے ساتھ کھنچوائی تھیں ،ہمارے اس تاریخی ورثے کو قائد اعظم اور اِن کے پاکستان سے شاید نفرت کرنے والوں نے راکٹ حملوں سے اِس عمارت اور اِس میں موجود قومی ورثے کو جلا کر خاکستر کر دیا،ابھی میری ساری پاکستانی قوم بلارنگ ونسل، سرحد ومذہب کے اپنی ملی یکجہتی کا اظہارکرتے ہوئے اِس عمارت کے خاکستر ہوجانے اور اپنے قومی ورثے کو کھوجانے کے غم میں سراپااحتجاج تھی اور اپنے قائد کی اِس یاد گار اور قومی ورثےکی تباہی پر حکمرانوں سے یہ مطالبہ کررہی ہے کہ اِس میں ملوث عناصر کو جلد گرفتارکرکے نشانِ عبرت بنادیاجائے کہ یہ اطلاعات آئیں کہ قائد اعظم ریزیڈنسی پر حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرلی ہے، جبکہ یہ خبر بھی سامنے آئی کہ یہ1892ءمیں تعمیرہونے والی اِس خوبصورت اور پرقار عمارت کی تباہی کے بعد حملہ آوروں نے اِس عمارت سے پاکستان کا جھنڈااُتارااور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا جھنڈالگادیاجبکہ حکومتی سطح پر اِس واقع سے متعلق تحقیقات کی جارہی ہے اور اُمید کی جارہی کہ اِس واقع میںملوث عناصر تک پہنچ کر آئین پاکستان کے حد سخت ترین سزا تجویز کی جائے گی۔

ابھی قوم زیارت میںقائد اعظم کی ریزیڈنسی کے تباہی کے سانحہ سے نکلنے بھی نہ پائی تھی کہ اِسی روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں دہشت گردوں نے شہر میں دودھماکے کرکے شہر کو لرزادیااور کئی معصوم انسانوں کی زندگیاں چھین لیں،جبکہ ایک روز بعد کوئٹہ انتظامیہ اور پولیس کی تحقیقات کے مطابق پہلادھماکہ بروری روڈ پر واقع سردار بہادرخان ویمن یونیورسٹی کی طالبات کی بس میں طالبہ کے لباس میںایک عائشہ نامی خاتون نے خود کو اُڑاکر کیا اِس دھماکے کو کوئٹہ انتظامیہ اور پولیس ذرائع نے خودکش دھماکہ قراردیا جس کے نتیجے 15طالبات ہلاک اور کئی زخمی ہوگئیںابھی بولان میڈیکل کمپلیکس میں بس حادثے میں زخمی ہوجانے والی طالبات کو طبی امداد دی جارہی تھی کہ اِسی دوران شعبہ حادثات میں ایک اور دھماکہ ہوگیاجِسے کوئٹہ انتظامیہ اور پولیس زرائع ریموٹ کنٹرول کے ذریعے خودکش ببم دھماکہ قرار دے رہے ہیںبولان میڈیکل اسپتال میں ہونے والے دوسرے دھماکے اور فائرنگ کے نتیجے میںابتدائی رپورت کے مطابق ڈپٹی کمشنر کوئٹہ، ایک نرس، 4اہلکار، 2 راہ گیر اورڈاکٹرسمیت 32افرادشہید ہوئے اور دہشت گردوں نے بولان میڈیکل کالج کی ایمرجنسی میںڈاکٹروں اور دیگر لوگوں کو جس طرح یرغمال بناکر گولیاں برسائیں اور دہشت گردی کی اِس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردوں نے بلوچستان کی تباہی اور اِنسانوں کو موت کی وادی میں دھکیلنے کا ٹھیکہ دے لیاہے، اگرچہ دہشت گردوں کے اِس وحشیانہ حملے پر فورسز کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں چار حملہ آور اغیار کے پٹھواور ڈالر خریدقائل واصلِ جہنم ہوئے اور ایک مُلک دشمن شیطان زندہ گرفتارکرلیاگیاجبکہ بس بم دھماکے اور اسپتال پر حملے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسندتنظیم لشکرجھنگوی نے دیدہ دلیر اور اپنی بدمعاشی سے ایسے قبول کرلی ہے جیسے یہ حکومت کو چیلنچ کررہی ہے کہ ہمیں ہماری دہشت گردی کے عزائم سے یہ روک سکتی ہے تو روک لے،اِس پر راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ حکومت کو اپنی رٹ ہر حالت میں قائم کرنے کے لئے ہر وہ اقدام ضروراُٹھاناچاہئے جس سے دہشت گردوں کا قلع قمع ہوسکے گا۔

اَب خواہ اِس میں بی ایل اے اور کالعدم شدت پسندتنظیم لشکرجھنگوی سمیت کسی اور مُلک دشمن گروہ کے ہی دہشت گرد کیوں نہ شامل ہوں اِن سب کا سرتن سے ضرور علیحدہ کرناہوگا،اور ہمیں اپنے وطن کے مرجھائے ہوئے پھولوں اور خشک باغات میں دوبارہ سے تازگی لانی ہوگی ہمارایہ مُلک جس کے ماضی اور حال کے بارے میں شاعر نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اِس طرح سے کیا ہے ۔

وہ گُل کدھ پاک، مہکتے تھے جہاں پھول
سوُکھِی ہُوئی شاخوں کے نشاں دیکھ رہا ہُوں
ہر شاخ و شجر پر، جَہاں جنتّ کا گماں تھا
مُرجھائے ہُوئے پُھول وہاں دیکھ رہاہُوں

اللہ تعالیٰ نے میرے مُلک پاکستان کو کیا کچھ نہیں دیاہے ، ہم اپنے اللہ کی اِس رحمت پر اِس کا جتناشکراداکریں وہ بھی کم ہے،اَب یہ اور بات ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں اور نااہلی کی وجہ سے اپنے صوبوں سندھ، بلوچستان،پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی زمینوں میں چھپے قدرتی وسائل کا استعمال نہیں کرپارہے ہیں ، اور طرح طرح کے مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں ، مگر جن دُشمنوں کی میرے مُلک کی زمینوں میں چھپی معدنیات اور قدرتی وسائل پر گندی نظریں جمی ہوئیں ہیںوہ اپنی طرح طرح کی سازشوں سے اِن پر قبضہ کرنے کی چالیں چل رہے ہیں،اور بلوچستان کو ہم سے علیحدہ کرانے کے لئے ہمارے ہی لوگوں کو اِن میں احساس محرومی بھر کراِس سے اپنے لئے ہر وہ کام کرارہے ہیں جس میرے وطن کے اِنسانوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہاہے اور جس سے اِن مُلک دُشمن عناصر کی سازشوں کو تقویت مل رہی ہے اِس صورت حال میں راقم الحرف کا قوی یقین یہ ہے کہ آج میرے مُلک میں کسی بھی تنظیم کے نام پر دہشت گردی کی جتنی بھی کارروائیاں ہورہی ہیں اِن سب کے پیچھے ہمارے دوست نماپڑوسی اور سات سمندر پار کے وہ ممالک شامل ہیں جو ہماری ترقی اور خوشحالی سے خائف ہیں اور جو میرے مُلک کی سا لمیت اور بقا کبھی نہیں چاہتے ہیںاورجو ایک دوسرے کے کاندھے پر چڑھ کر خطے میںاپنی چوہدراہٹ قائم کرکے ہمیں اپنے اشاروں پر ناچنے والا لٹوبناناچاہتے ہیں اور اِسی طرح ہماری ایٹمی صلاحیتوںکو ہوامیںاُڑاکر ہمیںاپناغلام بناناچاہتے ہیں جبکہ ایساکبھی نہیں ہوسکے گا جیسایہ چاہتے ہیں ، ہماری خاموشی کو زرخرید قاتل مجبوری نہ سمجھیں،مُلک کا ایک ایک بچہ اِن اغیار کے اِن زرخریددہشت گردوں کو واصلِ جہنم کے لئے حکومت کا ساتھ دے گا۔

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972421 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.