ہم کب تک بے بسی کی تصویر بنے رہیں گے؟

نئی حکومت کو اقتدار سنبھالے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ایک پارٹی کی جگہ نئی پارٹی آگئی۔نئے چہرے آگئے۔ نئی کابینہ تشکیل پا گئی مگر ملک میں دہشت گردی اور لاقانونیت کے واقعات اسی تسلسل سے جاری ہیں جن کا گزشتہ دس سال سے پوری قوم سامنا کرتی چلی آرہی ہے۔زیارت، کوئٹہ اور صوابی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے کم از کم یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد بھی دہشت گردوں کے عزائم میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی یا لچک نہیں آئی ہے۔ وہ آج بھی پاکستان میں بدامنی، آگ اور خون کا تماشا اور انسانیت کو تباہ وبرباد ہوتا دیکھنے کے متمنی ہیں۔ ان کا نشانہ ریاست پاکستان، نظریہ پاکستان اور اس کے شہری ہیں۔ وہ پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت کو اتنا پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں جو (خاکم بدخن) ریاست پاکستان کے حصے بخرے کرکے اسے نگل لے ۔ دہشت گردوں کے تازہ واقعات سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو یقینا اس بات کا ادراک ہوگیا ہوگا کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح اسے بھی اپنے دورِ اقتدار میں ان دہشت گردوں سے پنجہ آزمائی کرنا ہوگی اور دہشت گردوں سے بات چیت کے جس دروازے کی طرف وہ امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے، وہ کسی سراب سے کم نہیںہے اور انہیں کھولنے کا مطلب ملک کے درودیوار پر لگی دہشت گردی کی اس مہلک گھن کی حوصلہ افزائی اور اسے مزید پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرنا ہے ۔

زیارت اور کوئٹہ میں ہونے والے افسوسناک واقعات تو اس قدر بزدلانہ اور انسانیت سوز تھے کہ جن کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ زیارت میں بانی پاکستان قائداعظمؒ کی رہائش گاہ کی تباہی ، کوئٹہ میں وویمن یونیورسٹی کی بس اور بعد ازاں بولان میڈیکل کمپلیکس جہاں زخمی طالبات کو ہنگامی طبی امداد کے لئے لایا گیا تھا ، پروحشیانہ حملوں سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ان دہشت گردوں کا تعلق پاکستان سے ہے نہ اسلام سے اور نہ ہی وہ کسی انسانی معاشرے کے فرد ہوسکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق زیارت میں قائد اعظمؒ ریذیڈنسی پر حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی جبکہ کوئٹہ میں وویمن یونیورسٹی کی بس اور بولان میڈیکل کمپلیکس پر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کرلی ہے۔ اگردونوں تنظیموں کی جانب سے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی خبریں سچی ہیں تو یہ انتہائی افسوسناک ہیں ۔ اسلام تو امن اور امان کا دین ہے اور جب بات بچوں،عورتوں، مریضوں ، ضعیفوںاور بے کسوں کی ہو تو اسلام کے واضح احکامات ہیں کہ چاہے اُن کا تعلق دشمن سے ہی کیوں نہ ہو، انہیں کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ان بزدلانہ حملوں نے نواز حکومت پر واضح کردیا ہے کہ یہ دہشت گرد پاکستان، اسلام اور انسانیت کے کسی بھی اصول اور قاعدے میں نہیں آنا چاہتے ان کے مقاصد اور عزائم ان تمام سے قوانین اور ضابطوں سے ماوراءہیں۔ وہ ہر صورت ریاست پاکستان میں شورش اوربغاوت کا کھیل برپا رکھنا چاہتے ہیں۔

ویسے صوبہ بلوچستان میں شورش اور بغاوت میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔اس کی جڑیں بہت پرانی، گہری اور اتنی طویل ہیں کہ سرحد پار بلکہ سات سمندر پار جانکلتی ہیں ۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہاں چند بااثر سرداروں نے اپنے مفادات بٹورنے کی جنگ شروع کردی تھی۔ صوبے میں اقتدار اور وسائل پر قبضے کی جنگ یہاں موجود مختلف قبائل کے درمیان آج بھی جاری ہے۔ مرکز نے بھی یہاں کے مسائل کوکبھی سنجیدگی سے نہ لیا اور یہاں کے مسائل کے حل میں ٹال مٹول سے ہی کام لیتے رہے اور مقتدر حلقوں کو نوازتے رہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے یہاں کے غریب عوام کو یکسر نظر انداز کردیا۔ یہ روش آج بھی جاری ہے۔ جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار میں یہاں انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے نواب اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن کیا اور یہاں کے حالات کو اس قدر خراب کردیا کہ بیرونی طاقتوں کو اس کے پس منظر میںیہاں اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کا موقع مل گیا۔ چونکہ یہ علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے علاوہ ازیں گوادر بندرگاہ اوروسطی ایشیائی ریاستوں سے قربت کی بناءپر کئی عالمی طاقتیں اس پر نظریں جمائے بیٹھی ہیں لہٰذا وہ ہر اس منصوبے اور قدم کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کے لئے اٹھایا گیا ہو۔ یہ طاقتیں ہر وہ دھاگہ کاٹ دینا چاہتی ہیں جو بلوچستان کو پاکستان سے ملاتا ہو۔ قائداعظم ریزیڈنسی کی تباہی اس کی ایک مثال ہے۔ قومی یکجہتی، پیارومحبت اور پاکستانیت کے دھاگے کاٹنے کے لئے ان قوتوں کو بہت سے مقامی افراد دستیاب ہیں جو چند ٹکوں اور مفادات کی خاطر ملکی یکجہتی کو پارہ پارہ کررہے ہیں ۔ اس صورتحال میں حکومت کو انتہائی احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ اقدامات اٹھانے ہوں گے اور اس کے لئے مقامی انتظامی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط اور جدید بنانے کے ساتھ ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ زیارت اور کوئٹہ کے واقعات کے بعد دہشت گرد اب کسی بھی رعایت اور لچک کے مستحق نہیں رہے۔ انہوں نے مذاکرات اور بات چیت کی بھی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر دہشت گردی کی روک تھام کے حوالے سے سیکورٹی اداروں کی مشاورت سے ایک حتمی پلان تشکیل دے اور اس سلسلے میں کسی بھی کشمکش اور گومگوں کیفیت سے نکلا جائے۔ بصورت دیگر یہ مٹھی بھر انسان نما درندے بار بار ہماری سلامتی اور وقار کو جب چاہیں اور جہاں سے چاہیں نوچتے رہیں گے اور ہم یونہی بے بسی اور بے چارگی کی تصویر بنے گلشن کو ویران ہوتا دیکھتے رہیں گے۔
Ibne shamasi
About the Author: Ibne shamasi Read More Articles by Ibne shamasi: 55 Articles with 38900 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.