اصلاح پسندوں اور سابق صدر ہاشمی
رفسنجانی کے حمایت یافتہ امیدوار ڈاکٹر حسن روحانی ایران کے صدر منتخب
ہوچکے ہیں اور دنیا اور خاص طور پر مغربی ممالک میں ان کے انتخاب کو خوش
آئند قرار دیا جارہا ہے۔ مغربی ممالک کی خوشحالی کی بنیادی وجہ ایران کا
ایٹمی مسئلہ ہے اور اب امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو یہ امید ہوچلی ہے
کہ شاید ایٹمی مسئلہ ان کی منشاء کے مطابق حل ہوجائے گا لیکن بعض ذرائع
ابلاغ اور تجزیہ نگاروں کی طرف سے مختلف اندیشوں کا اظہار کیا جارہاہے کہ
ڈاکٹر روحانی مغربی ممالک کو مذاکرات کی بھول بھلیوں میں اسی طرح گھمائیں
گے جیسے وہ ماضی میں گھماچکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی اہم پالیسیاں
آیت اللہ خامنہ ای کے زیر نظر ہوتی ہیں اور ڈاکٹر روحانی صدر منتخب ہونے سے
پہلے آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر تھے چنانچہ وہ اب بھی انہی پالیسیوں پر
گامزن رہیں گے جن پر ایران چل رہا ہے۔ اس اندیشے کا ذکر فاکس نیوز نے بھی
کیا ہے کہ ڈاکٹر روحانی ماضی میں جب ایٹمی مذاکرات کار تھے تو انہوں نے
ایٹمی پروگرام کو متوقف کیا اور نہ ہی مغربی ممالک کو ایران کے خلاف کوئی
قدم اٹھانے کا موقعہ دیا۔
صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد ڈاکٹر روحانی کی ایٹمی پالیسی کیا ہوگی اس
سلسلہ میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن حال ہی میں ان کے ایک قریبی ساتھی
اور مذاکراتی ٹیم کے رکن حسین موسویان نے ایک تجویز کی طرف اشارہ کیا ہے۔
حسین موسویان نے جس تجویز کی طرف اشارہ کیاہے وہ وہی تجویز ہے جو گذشتہ سال
ایران کے وزیرخارجہ ڈاکٹر علی اکبر صالحی پیش کرچکے ہیں۔ اس تجویز کی
تفصیلات کچھ یوں ہیں:
۲۰۰۳ میں آیت اللہ خامنہ نے فتوی دیا تھا کہ ایٹمی اسلحہ بنانا حرام ہے۔
ایرانی حکومت چاہتی ہے کہ اس فتوے کو ایک مذہبی حکم کے ساتھ ساتھ ایک
سرکاری پالیسی میں تبدیل کردیا جائے۔ لیکن یہ سب کچھ اس صورت میں ہوگا جب
اس پالیسی کے بدلے ایران پر سے تمام اقتصادی پابندیاں ہٹا دی جائیں اور این
پی ٹی کے تحت ایران کو یورینیوم کی افزودگی کا حق دیا جائے اور سلامتی
کونسل کی طرف سے ایران کے اس حق کو تسلیم اور اس کی حفاظت کا وعدہ کیا جائے۔
ڈاکٹر روحانی کے قریبی ساتھی کی جانب سے اس تجویز کی طرف اشارے نے ایک
مرتبہ پھر مغربی ممالک میں بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے محتاطانہ بلکہ غیرذمہ دارانہ ردعمل
سامنے آیا ہے۔ اس سلسلہ میں سے سب سے پہلی غلطی امریکہ سے سرزد ہوئی۔
گارڈین اخبار کے تجزیہ نگار جوناتھن اسٹیل کے بقول امریکہ نے مبارکباد کا
پیغام دینے کے بجائے ڈاکٹر روحانی پر توہین آمیز انداز میں دباؤ ڈالنے کی
کوشش کی ہے اور ایران کے داخلہ اور خارجہ امور میں استقلال کی طرف عدم
توجہی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ڈاکٹر روحانی کی ایٹمی پالیسی کے بارے میں ابھی
کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے ابھی سے جس
ردعمل کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلہ کے بارے
میں گفتگو کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ
ایٹمی مسئلہ کو بنیاد بناکر خطے میں کچھ اور اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ |