گذشتہ نو مئی بروز جمعہ ’’ جنگ ‘‘ کی ممتاز
کالم نویس محترمہ کشور ناہید کا مضمون نظر سے گزرا ،جس میں انہوں نے برصغیر
کے علماء کے بارے میں عربی زبان وادب سے ناواقفیت کے حوالے سے اپنے خیالات
کا اظہار کچھ یوں کیا تھا :
’’ میں نے امریکیوں کے کارندے سے پوچھا ،کہ آخر پاکستان سے لے کر انڈونیشیا
تک مولویوں کا کاروبارکیوں اتنا تیز ہے، وہ زیرک انسان تھا ، بولا سعودی
عرب سے لیکر خلیجی ممالک سب کے سب عربی بولتے ہیں، اس لئے وہ قرآن کو
سمجھتے ہیں ، وہاں کا مولوی اس لئے بے ضرر ہے، جبکہ ہمارے سارے ملکوں میں
عربی کسی کو نہیں آتی ، مولوی دو چار آیتیں پڑھ کر مجمع کو ڈرا دیتا ہے،
لوگ سہم جاتے ہیں ، جبھی تو ہے کہ سعودی بادشاہ ، اسرائیلی وزیراعظم سے
ملاقات کرتا ہے ، تو کوئی طوفان نہیں اٹھتا ، پچھلے دنوں قطر اور یمن کے
وزیر اعظم نے بھی اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقات کی ،کوئی نہیں بولا ، کوئی
طوفان نہیں اٹھا ، پاکستانی ملاقات کر لے تو گو یا عذاب الٰہی نازل ہو جاتا
ہے ، ابھی گزشتہ دنوں ڈنمارک کی فلم پہ ہمارے ملک میں غیظ و غضب کا اظہار
اتنا کیا گیا کہ سینیٹر بابر اعوان تو جواباً فلم بنانے کا منصوبہ بنا
بیٹھے ، سوچئے کسی عرب یا خلیجی ملک نے ایک لفظ بھی کہا ؟ تو گویا یہ نتیجہ
نکلا کہ ہماری کم علمی ، کم فہمی اور عربی نہ جاننے کا نتیجہ ، ان کو بھی
القاعدہ بنا دیتا ہے جو سپین میں مسلمان ہوں کہ افریقہ میں ہوں‘‘ ۔
عربی زبان کے حوالے سے یہ بات بھی قابل توجہ ہے، کہ اقوام متحدہ نے جن پانچ
زبانوں کو اپنی باقاعدہ رسمی لینگویجز کا شرف بخشا ہے ، ان میں دوسرے نمبر
پر عربی زبان بھی ہے ، یہ اپنی جگہ مسلم ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے مذہبی یا
فرقہ وارانہ مسائل کی بھر مار اکثر و بیشتر عربی زبان وادب اور قرآن و حدیث
کے لب و لہجے سے نا واقفیت کی بناء پر ہے ، نیز جو عربی اصطلاحات اردو زبان
میں مستعمل ہیں ، ان میں بھی بیشتر کے مفاہیم میں عربی لغت کے ساتھ تضاد
پایا جاتا ہے ، مثلا صداقت اردو میں سچ ، عربی لغت میں دوستی ، بربریت اردو
میں ظلم ، عربی میں بربر قوم کی طرف نسبت ، مدرسہ اردو میں سکول عربی میں
مکتبہ فکر کے لئے بھی بولا جاتا ہے ۔
اور عربی زبان وادب کی اہمیت وضرورت تو ظاہر ہے ، قرآن حکیم عربی زبان میں
ہے ، نماز کے تمام ارکان از اول تا آخر عربی میں ہیں ،عیدین و جمعہ کے خطبے
عربی زبان میں ہیں ، احادیث کا عظیم الشان ذخیرہ عربی میں ہے ، حضور اکرم
صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی نسباً عربی ہے ،عام اسلامی دعائیں ،اذکاراور
درود شریف سب عربی زبان میں ہیں ،اﷲ تعالی کے پیارے ننانوے مبارک نام عربی
میں ہیں ، حجاز مقدس ،مکہ، مدینہ، لبنان ، شام ،مصر ،طرابلس ، الجزائر ،
تیونس ، مراکش ، بحرین ، کویت ، وغیرہ چھوٹے بڑے کئی ممالک کی زبان عربی ہے،
ان سے تعلقات قائم رکھنے کے لئے عربی زبان کی شدید ضرورت ہے ،ان ممالک میں
جو عربی لٹریچر دینی ،تیکنیکی ، اقتصادی اور سیاسی حوالوں سے ہزاروں کتب،
رسائل واخبارات سمعی بصری اور الیکٹرانک میڈیا میں شائع ہورہے ہیں ان کا تو
ٹھکانہ ہی کیا۔
ان ممالک کو معلموں ،انجنیئروں،ڈاکٹروں اور زندگی کے دیگر مختلف شعبوں سے
تعلق رکھنے والے ماہرین کی ضرورت وحاجت ہے ،ان ممالک میں تجارت کے ذرائع
پیدا کرنے، کارخانے قائم کرنے ،اپنے ملکی اور ملی سیاسی مقاصد ومفادات کی
وہاں اشاعت کے لئے عربی زبان کی شناسائی نہایت ضروری ہے ،عالم عرب کے متعلق
روزنامہ جنگ میں وقتاً فوقتاً شائع ہونے والے معروف کالم نویس ثروت جمال
اصمعی ،ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ ، ان کے برادر خورد مرزا اشتیاق بیگ اور انور
غازی کے تجزئے اس پر شاہد عدل ہیں،۔
امام شافعی کے مذہب میں تو کچھ نہ کچھ عربی سیکھنا فرض عین کا درجہ رکھتا
ہے ، ا مام ابو حنیفہ ،امام مالک ،امام احمد بن حنبل نیز علامہ ابن قیم اور
حافظ ابن تیمیہ جیسے اساطین علم وفضل کے نزدیک بھی عربی سیکھنا فرض کفایہ
ہے ،چنانچہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اتحادتنظیمات مدارس دینیہ
پاکستان کے صدر عالم اسلام کے مشہور و معروف عالم دین شیخ الحدیث مولانا
سلیم اﷲ خان کی فکر نہ صرف مذکورہ بالا ائمہ کے ہم آہنگ ہے ، بلکہ انہوں نے
عربی زبان وادب کے فروغ اور نشر واشاعت کے لئے اپنے ادارے جامعہ فاروقیہ
شاہ فیصل ٹاون کراچی اور ملک بھر میں متعدد گراں قدر ایسے اقدامات اٹھائے
ہیں جن میں انہیں اتحاد تنظیمات کے دیگر قائدین ڈاکٹر سرفراز نعیمی ،قاری
محمد حنیف جالندھری ، مفتی منیب الرحمن ،مولانا عبدالمالک منصوری ،پروفیسر
ساجد میر، علامہ ریاض حسین نجفی ، مفتی محمد رفیع عثمانی ، ڈاکٹر عبد
الرزاق اسکندر ، حافظ فضل الرحیم اور مولانا انوار الحق کی تائید وحمایت
بھی شامل حال رہی ہے ۔
ادبی اعتبار سے بھی عربی زبان کی صفات و خصوصیات بے حد لطیف اور تفصیل طلب
ہیں ،کاش روز اول ہی سے ہمارے ملک میں یونیورسٹیز ، کالجز ، سکولز اور
بالخصوص دینی مدارس وجامعات کے ارباب انتظام واختیار اس کے مقام اور مرتبے
کو محسوس کرتے ہوئے اس طرف توجہ دیتے ، توعالم اسلام اور عالم عرب کے
اتحاداور قرآن و حدیث کی تعلیمات کو باحسن وجوہ سمجھنے کے لئے یہ زبان ایک
موثر ذریعہ ثابت ہوسکتی تھی،اب بھی اگر ہمارے حکمراں دین کے لئے نہ سہی
اپنے سیاسی اور دنیاوی مقاصد کے لئے اس زبان پر توجہ دیں تو عالم اسلام میں
پاکستان کی حیثیت کچھ اور ہو۔
نیز1973ء کے آئین کے مطابق حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عربی زبان کی
ترویج واشاعت کی طرف توجہ دے ،آئین کے باب دوم کے آرٹیکل نمبر 31شق 2 میں
مذکور ہے ـ:
(2)The State shall endeavor,as respects the muslims of pakistan (a) to
make teaching of Holy Quraan and islamiat compulsory,to encourage and
facilitate the learning of Arabic language and secure corrct and exat
printing and publishing of the Holy Quraan.
(b) to promote unity and the observance of the Islamic morl
standards;and (c) to sucure the proper organization of Zakat,Ushr auqaf
and mosques."
یعنی ملک میں ایسے اقدامات اٹھا ئے جائیں گے ، جن کی وجہ سے مسلمان اپنی
انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے بنیادی عقائد کے مطابق گزار سکیں ،ملک
میں قرآن کریم اور اسلامیات کی تعلیم لازمی قرار دی جائے گی ، نیز عربی
زبان کی تعلیم و ترویج کی حوصلہ افزائی کی جائے گی ، اورمملکت قرآن کریم کی
طباعت و اشاعت کا بندوبست کرے گی ــــــمذکورہ اقتباس سے عربی زبان کے فروغ
اور نشر اشاعت کے متعلق ہمارے ملک کے آیئنی ودستوری فریضے کی طرف واضح
اشارہ ملتا ہے ۔
ہر چند اس تمام صورت حال کو مد نظر رکھ کر محترمہ کشور ناہید صاحبہ کے
مجموعی فکر سے ہمارا اختلاف ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپنے مضمون میں عام
مسلمانوں خصوصاً اہل علم کے جس نقص کو فوکس کیا ہے ، اس کی وجہ سے ہم ان پر
تنقید کی بجائے ان کے متشکرہیں ، کہ روزنامہ جنگ جیسے وقیع جریدے کے قیمتی
صفحات پر اپنے ہفتہ وار کالم میں اس پہلو کو واضح کرکے حقیقت میں گویا
انہوں نے ایک اہم پیغام دیدیا ۔
اسی مناسبت سے ہم یہاں یہ بھی عرض کرینگے کہ دور جائے بغیر حال ہی میں 6
اور 7مئی کو دار العلوم ندوٰۃ العلماء کے بعد برصٖغیر میں عربی زبان وادب
کے لئے شہرت کے حامل ادارے ’’ جامعہ فاروقیہ کراچی ‘‘ میں دو روزہ عظیم
الشان کانفرنسز منعقد ہوئیں ، جن میں ایک سیکشن عربی تقریری مقابلے کا بھی
تھا ، ویسے تو دونوں دن پروگرام از اول تا آخر عربی ہی میں رہے ، لیکن اس
مقابلے میں جن شرکاء نے حصہ لیا ، ان کی وہ عربی تقریریں قابل دید وشنید
تھیں ، پروگرام میں مقامی علماء کرام کے علاوہ مملکت سعودی عرب کے اسلام
آباد میں قائم مکتب الدعوہ کے ڈپٹی ڈائر یکٹر ممتاز سعودی سکالر شیخ عبد
الرحمن المحمود ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے مستشار رئیس الجامعہ
جناب ڈاکٹر ہزاع بن عبد اﷲ الغامدی اور کراچی میں متعین سعودی کونسل جنرل
جناب ڈاکٹر حسن عبد الرشید العطار مدعو تھے ،میزبان مولاناڈاکٹر محمدعادل
خان کے کلمات تشکر و امتنان سے قبل اور راقم کے کلمات ترحیب کے بعد مہمان
حضرات نے جامعہ فاروقیہ کراچی کے عربی مجلہ الفاروق ، شعبہ تخصص فی الادب
العربی ، معہد اللغۃ العربیہ، ( جہاں تعلیم،تدریس ، امتحانات،باہمی عام
گفتگو اور دیگر متعلقہ ادارتی امور سب عربی ہی میں انجام پذیر ہوتے ہیں )
النادی العربی اور دیگر تمام طلبہ ، مقررین اور انتظامیہ کے بارے میں اپنے
جن مثبت اور حوصلہ افزا تاثرات کا اظہار کیا ہے ، وہ ریکارڈپر ہیں۔ |