لائیو سیاسی شَوز

جب سے پاکستان میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا انقلاب آیا ہے، گویا ہر شخص کے منہ میں لاﺅڈ اسپیکر آگیاہو۔ اس انقلاب نے اسے لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں سامعین اور ناظرین پل بھر میں مہیا کردیئے ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ سیاست اور سیاسی بحث و مباحثہ کو سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے لہٰذا تمام نیوز چینلز ان کا بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسے پروگراموں کو عام طور پر ”کرنٹ افیئرز“ کا نام دیا جاتا ہے اوران میں ملکی و بین الاقوامی سیاسی، داخلی، خارجی اور فوجی امور پر کھل کربلکہ کھل کھلا کر بحث کی جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ بحث اس قدر گرما گرم ہوجاتی ہے کہ اینکر پرسنز کو پروگرام کے بیچ ہی بریک لے کر مشتعل فریقین کو اپنے اپنے اعصاب نارمل رکھنے کے لئے منت سماجت کرنا پڑتی ہے۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ براہ راست پروگراموں کے اسٹیج پربرپا ہونے والی ان ”لڑائیوں“ کا کچھ حصہ عوام تک بھی” اَن کٹ“ پہنچ جاتا ہے۔ جس سے انہیں بھی اپنے نمائندوں کی فری سٹائل شعلہ بیانی کے کچھ مناظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں کہ کس ان کے لیڈر بچوں کی طرح ایک دوسرے کا گریبان چاک کررہے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہوتے ہیںاور مکے لہرالہرا کر دھونس اور دھمکی پر اتر آتے ہیں۔اس طرح ماحول پر سنجیدگی، متانت اور معاشرتی و سیاسی اقدارکی بجائے غنڈہ گردی، اشتعال انگیزی اور لغو زبان کا رنگ غالب آجاتا ہے جو معاشرے پر منفی اثرات کے ساتھ ساتھ خود میڈیا کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔ فریقین عموماََ غیر ضروری باتوں میںالجھ کر ایک دوسرے کی ذاتیات تک جا پہنچتے ہیں اورلائیو کیچڑ اچھالنے میں بھی کوئی شرم یا عار محسوس نہیں کرتے۔ انتخابات 2013ءکے انعقاد سے چند روز قبل ایک پروگرام میں پاکستان کی تین بڑی جماعتوں کی تین خواتین مدعو تھیں جو اپنی اپنی پارٹیوں کے موقف کو درست ثابت کرنے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بھرپور کوششیں کررہی تھیں۔ وہ محترمہ جن کی پارٹی حکمرانی کے پانچ سال پورے کررہی تھی، وہ مسلسل زِچ ہورہی تھیں کیونکہ پانچ سالہ دور میں اس کی کارکردگی صفر تھی۔ عوامی تنقید کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی ان کے خوب لتے لے رہا تھا۔ جبکہ باقی دو خواتین اپوزیشن میں ہونے کے ناطے چونکہ کسی معاملے میں ذمہ دار نہیں تھیں لہٰذا ان کے پاس حکومت کی ناکامی اور ناقص کارکردگی ثابت کرنے کے لئے دلائل کے انبار لگے ہوئے تھے۔ شروع شروع میں تو ماحول بڑا پرسکون رہا مگر جب حکومت کی نمائندہ خاتون کے پاس اپنی صفائی اور پارٹی کے تحفظ کے لئے کسی قسم کے کوئی دلائل نہ بچے تو وہ طعنے بازیوں پر اتر آئی۔ اس طرح کرنٹ افیئرزکا وہ پروگرام یکایک کسی پنجابی فلم کا منظر پیش کرنے لگا۔ وہ اپنی چرب زبانی میں اس قدر گر گئیں کہ انہوں نے مخالف خواتین کے ”افیئرز“ گنوانا شروع کردیئے۔ لگتا تھا کہ کسی گلی محلے کی نکڑ پر عو رتیں بچوں کی لڑائی پر الجھ پڑی ہوں۔ ہماری سیاسی مہذب خواتین کی ”سٹار پلس“ اور” ساس بہو “ طرز کی اس لڑائی کی چند جھلکیاں براہ راست عام ناظرین تک بھی پہنچ گئیں۔ میزبان نے صورتحال کی نزاکت کو جان کر ”بریک پر چلتے ہیں“ کے الفاظ تیزی تیزی سے ادا کئے اور پھر منظرتبدیل ہوگیا۔ ٹی وی سکرینوں پر کمرشل دکھائے جانے لگے ۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں اس وقت اپنی فیملی کے ساتھ پروگرام نہیں دیکھ رہا تھا ورنہ مجھے بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ مگر یقینا بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے ان تمام مناظر کو اپنے گھر کے افراد کے ساتھ بیٹھ کراپنی ٹی وی سکرینوں پر دیکھا ہوگا۔ان کی جو حالت ہوگی، اس کا یقینا ہر ذی شعور اور مہذب شہری اندازہ لگا سکتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لائیو سیاسی پروگراموں کی بہت ریٹنگ ہوتی ہے اوراس دوران ٹی وی چینلز کو ملنے والے اشتہارات کی بہتات بھی ہوتی ہے۔ ان اشتہارات کی قیمت بھی کئی گنا ہوتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسے پروگراموں کے ذریعے فضول بحث و مباحثہ، غیر مدلل گفتگو اور عدم برداشت کے رویوں کو ہمارے معاشرے میں پروان نہیں چڑھایا جارہا ہے؟ ہماری نوجوان اور پڑھی لکھی نسل یقینا اپنے لیڈروں کی اس بدزبانی سے سخت مایوسی کا شکار ہوئی ہوگی ۔ دشنام طرازی ، تنقید برائے تنقید اور میں نہ مانوں کے رویوں نے پوری قوم میں اکتاہٹ پیدا کردی ہے۔ ہمارے میڈیا اور ٹی وی اینکرز کو چاہئے کہ وہ اپنے پروگراموں میں ایسے مہمانوں اور حکومتی اکابرین کو مدعو کریں جو سنجیدہ ہوں اوراپنے اپنے ایشوز پر عبور رکھتے ہوں تاکہ وہ اپنے موقف کو دلائل سے ثابت کرسکیں نہ کہ دشنام طرازی اور لغو زبان کا سہارالے کر خود کو درست ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ بہت سے لوگ صرف سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ان لائیو پروگراموں کے رِنگ میں اتر آتے ہیں مگر اپنی عاقبت نا اندیشی اور لاعلمی کی بدولت وہ اکثر ناک آﺅٹ ہوجاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی بدنامی کے ساتھ ساتھ اپنے پارٹی یا ادارے جن کی وہ نمائندگی کررہے ہوتے ہیں کی رسوائی کا سبب بھی بنتے ہیں۔(ختم شد)
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 63088 views Columnist/Journalist.. View More