ٹیکس بڑھانے پر سپریم کورٹ برہم

بجٹ 2013-14 میں حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس سولہ فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کردیا تھا،پاکستانی عوام اور اپوزیشن نے اس اضافے کو مسترد کردیاہے۔کیونکہ ٹیکس میں اضافے سے تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہونا یقینی ہے۔حکومت کی طرف سے یہ یقین دہانی کروائی جاتی رہی کہ جی ایس ٹی میں اضافے سے اشیاءکی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا، لیکن نئے مالی سال کے بجٹ میں جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے کے اعلان اور حکومت کی طرف سے بار بار عام استعمال کی اشیاءپر اس کا اطلاق نہ ہونے کی وضاحتوں کے باوجود ملک بھر میں ہول سیل مارکیٹوں اور پرچون کی دکانوںپر چائے، چینی، گھی اور دالوں سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ کیاتھا جس کے فوری بعد ملک بھر میں تاجروں نے ہرچیز کے از خود نرخ بڑھا کر من مانی قیمتیں وصول کرنا شروع کر دیں۔ بجٹ پر ہونے والی تنقید کے بعد حکومت کی طرف سے بار بار یہ اعلان کیا گیا کہ اشیائے خورو نوش پر نہ تو جی ایس ٹی لگایا گیا ہے اور نہ ہی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، تاہم اس کے باوجود ملک بھر میں ہول سیل مارکیٹ اور پرچون کی دکانوں پر 30 سے 40 فیصد قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

عوام کی بے چینی اور مشکل کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز ٹیکس میں کیے جانے والے اضافے کا نوٹس لیا ۔سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی طرف سے جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق کہا کہ بادی النظر میں حکمرانوں نے جی ایس ٹی میں اضافے کا فیصلہ خود کیا اس میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہ پیسہ سرکاری خزانے میں جمع ہونے کی بجائے حکمرانوں کی جیبوں میں جائے گا۔سپریم کورٹ نے موجودہ حکومت کی طرف سے جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے پاس اعلامیے کے ذریعے ٹیکس کی شرح میں اضافے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ تیرہ جون سے جی ایس ٹی میں اضافے کے بعد صارفین سے حاصل کی گئی رقم قابلِ واپسی ہے۔ اس عرصے کے دوران جی ایس ٹی میں اضافے کے بعد جتنی رقم بھی اکھٹی ہوئی ہے ا ±س کو قومی خزانے میں جمع کروایا جائے، اس رقوم کی واپسی پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط ہے اور جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے کے بعد جتنی اضافی رقم موصول ہوئی ہے ا ±س کی تفصیلات سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو جمع کروائی جائیں۔سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ جس قانون کے تحت جی ایس ٹی میں اضافہ کیا گیا وہ غیر آئینی ہے اور 1931 کا ایکٹ آئین کے آرٹیکل 77 سے متصادم ہے۔ ضروری اشیاءکی قیمتوں پر کنٹرول رکھنے کی ذمہ داری حکومتِ وقت پر ہے اور حکومت منافع خوروں کے خلاف کارروائی کے لیے اقدامات کرے۔جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کے بعد قیمتوں میں پندرہ فیصد اضافہ کر دیا گیا اور قیمتوں میں اضافے کا بھی حکمرانوں نے نوٹس نہیں لیا۔ جی ایس ٹی میں اضافے سے متعلق بجٹ میں تجویز دی گئی تھی اور ابھی بجٹ تجاویز پارلیمنٹ سے منظور بھی نہیں ہوئیں اور پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔

جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ اگر ایف بی آر اپناقبلہ درست کر لے تو ہر سال ٹیکس کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ حکمران خود سے ٹیکس لگائیں گے تو پارلیمنٹ سے کوئی رجوع نہیں کرے گا۔ پارلیمنٹ کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟ آئین کے تحت ٹیکس لگانے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے حکومت کو آئینی طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے تھا جس طرح عبوری ٹیکس لگایا گیا وہ ناقابل قبول ہے۔ اگر ایف بی آر درست طریقہ سے ٹیکس اکٹھا کرے تو ٹیکس ہی ٹیکس اکٹھا ہو سکتا ہے۔ بجٹ میں جی ایس ٹی ایک فیصد لگانے کی تجویز دی گئی مگر اشیا کی قیمتوں میں پندرہ فیصد تک اضافہ کر دیا گیا۔ ایک بار مہنگائی ہونے کے بعد اس میں کمی کیسے ممکن ہے؟ پٹرول پمپس اور سی این جی پر 26 فیصد ٹیکس ہے مگر 90 فیصد غیر رجسٹرڈ مالکان یہ اپنی جیب میں ڈالتے ہیں، پراسیسنگ، مرمت ورکروں کی تنخواہوں کے اخراجات عوام سے وصول کیے جاتے ہیں۔ سی این جی پر پچیس فیصد ٹیکس لیا جا رہا ہے، ایک فیصد اضافے سے یہ شرح چھبیس فیصد ہو جائے گی۔ اس طرح قیمتیں بڑھتی رہیں تو پچاس کی سی این جی پر پچاس روپے ٹیکس ہو جائے گا۔ ہم آرٹیکل نو کے تحت کسی کا استحصال نہیں ہونے دیں گے۔ریاست 16 فیصد سے زیادہ جی ایس ٹی وصول نہیں کر سکتی۔ ایف بی آر کو ٹیکس کی شرح میں خود سے اضافہ کرنے کا اختیار کس نے دیا؟ ایف بی آر کو ٹیکس لگانے کا کوئی اختیار نہیں، آئین کے تحت صرف پارلیمنٹ ہی ٹیکس لاگو کر سکتی ہے۔وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر کا کہنا تھا کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرتی ہے۔ پارلیمنٹ سے فنانس بل منظور کرائیں گے۔

سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جی ایس ٹی پر عدلیہ کے فیصلے کے بعد اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا جائے، اب حکومت کو اپنا موقف پیش کرنا چاہیے۔ 13جون سے آج تک جو پیسہ عوام کی جیبوں سے نکلا وہ کیسے واپس ہو گا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ ہم نے سیلز ٹیکس کو پہلے ہی غیر قانونی قرار دیا تھا۔ آرٹیکل 77 کے تحت بجٹ منظوری سے پہلے سیلز ٹیکس وصول نہیں کیا جا سکتا۔ شیخ رشید نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرنا خوش آئند ہے۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آئین کی تشریح کرنا سپریم کورٹ کا اختیار ہے۔وزیر قانون زاہد حامد نے یقین دہانی کرائی کہ جی ایس ٹی سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل کریں گے اور ٹیکس سے متعلق 1931 کے ایکٹ میں ترمیم بھی کریں گے۔ معروف صنعتکار اور سابق سینئر نائب صدر لاہور چیمبر عبدالباسط نے کہا ہے کہ ٹیکس پرانے لوگوں پر ہی لگایا گیا ہے۔ کل 18 کروڑ میں سے صرف 18 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے۔ ٹیکس میں اضافہ واپس لینا چاہیے۔ تاجر برادری نے موجودہ حکمرانوں پر اعتماد کیا ہے اس کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے سیلز ٹیکس کو کم کیا جائے۔ جی ایس ٹی میں اضافہ نیا بوجھ ہے اسے ختم کیا جائے۔

دوسری جانب 12 جون کے بعد جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے سے پیٹرولیم مصنوعات اور سی این جی کی قیمتوں میں 40 پیسے سے 1 روپے 35 پیسے فی لٹر کیا گیا اضافہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد واپس لے لیا گیا ہے۔ اس طرح پیٹرولیم مصنوعات یکم جون 2013 کی سطح پر فروخت ہوں گی۔ نوٹی فکیشن کے مطابق پیٹرول پر 80 پیسے اور ڈیزل پر 90 پیسے فی لٹر اضافہ واپس لیا گیا، جس کے بعد پیٹرول 99 روپے 77 پیسے اور ڈیزل کی قیمت 104 روپے 60 پیسے کی سطح پر واپس آگئی۔ مٹی کے تیل کی قیمت میں 80 پیسے اور لائٹ ڈیزل ائل کی قیمت میں 70 پیسے فی لٹر اضافہ واپس لیا گیا، جس کے بعد مٹی کا تیل 93 روپے 79 پیسے اور لائٹ ڈیزل ائل 89 روپے 13 پیسے فی لٹر پر فروخت ہوگا۔ اوگرا نے سی این جی کی قیمتوں میں بھی اضافہ واپس لے لیا، جس کے بعد زون ون میں سی این جی کی قیمت 77 روپے 44 پیسے اور زون ٹو میں سی این جی کی قیمت میں 65 روپے 18 پیسے فی کلو گرام ہوگئی ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700268 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.