آزاد کشمیر کے وزیر خزانہ چوہدری
لطیف اکبر نے مالی سال 2012-13 ء کا ساڑھے 55 ارب سے زائد کا بجٹ پیش کر
دیا ہے، جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے بجٹ کی طرح ملازمین کی تنخواہ
اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ ترقیاتی اخراجات کیلئے 10 ارب
روپے مختص کئے گئے ہیں، خسارہ کے بارے میں وزیر خزانہ کا موقف تھا کہ یہ
وفاقی حکومت کی طرف سے ملنے والی گرانٹ سے پورا کیا جائیگا،انہوں نے مزید
کہا کہ موجودہ بجٹ قوم کے مستقبل، امنگوں اور خوابوں کا آئینہ دار ہے اور
جس طرح حالات جا رہے ہیں ان میں عوام کی توقعات پر پورا اترنا آسان نہیں،
اس موقع پر وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید نے کہا کہ ہم نے بجٹ پیش
ہو رہا تھا اور دوسری طرف آزاد کشمیر ہائیکورٹ نے آزاد کشمیر کونسل میں غیر
ریاستی باشندوں کی تقرریاں کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ کونسل میں
آئندہ صرف ریاست جموں و کشمیر کے باشندے ہی ملازمت کیلئے اہل ہونگے، عدالت
نے حکومت کو فوری طور پر آزاد کشمیر پبلک سروس کمیشن کی تشکیل کا حکم دیا
اور قرار دیا کہ اب ریاستی باشندوں کا حق کوئی غضب نہیں کر سکے گا۔
بجٹ پیش کرنا حکومت کا فرض ہوتا ہے جس میں آنے والے مالی سال کے اخراجات
اور آمدن کا تخمینہ قوم کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، ہر حکومت اپنے بجٹ کو
بہترین عوامی مفاد کا ترجمان قرار دیتی ہے اور اپوزیشن ا سے عوام کے مفادات
کے خلاف تعبیر کرتی ہے، مگر ساری بجٹ سے جب کوئی اسمبلی بجٹ کو منظور کرتی
ہے تو اس کے ثمرات اور تضادات وغیرہ اس وقت کھل کر سامنے آتے ہیں جب اسے
نافذ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے وفاقی بجٹ میں جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد
اضافہ کیا گیا جبکہ اس کے نتیجے میں صرف چند روز میں مہنگائی میں 15 فیصد
اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو ازخود ریکارڈ ہے اور اس کا عدالت عظمیٰ نے نوٹس
بھی لے لیا ہے حکومت نے کیسا بجٹ پیش کیا اس بارے میں اگر قانون ساز اسمبلی
میں اپوزیشن کا موقف جانچنے کی کوشش کی جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ
اسمبلی میں اپوزیشن نے ایم کیو ایم کے وزراء کے ہمراہ بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ
کیا اس بائیکاٹ میں مسلم کانفرنس ممبران بھی شامل تھے۔ مسلم لیگ (ن) کا
موقف تھا کہ حکومت بجٹ میں بھی منافقت کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن لیڈر راجہ
فاروق حیدر خان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے بجٹ پر اپوزیشن کو
اعتماد میں نہیں لیا ہے، آزاد کشمیر اپوزیشن کے اس موقف کو محض یہ کہہ کر
رد نہیں کیا جا سکتا کہ چونکہ اپوزیشن کا کام ہی مخالفت کرنا ہوتا ہے جبکہ
آزاد کشمیر کا ہر شہری جانتا ہے کہ قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن نے ہمیشہ
فرینڈلی کردار ادا کیا ہے مگر بجٹ کے معاملے پر اپوزیشن نے جو موقف اپنایا
ہے اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا اور حکومت نے اپوزیشن کو منانے کیلئے جو
دو رکنی کمیٹی قائم کی ہے یہ ایک اچھا اور مستحسن اقدام ہے۔
آزاد کشمیر کا تین چوتھائی خطہ بارانی ہے جس کا انحصار زراعت اور سیاحت پر
ہے، فردوس بدروئے زمین ہونے کی وجہ سے یہ حسن فطرت کا شاہکار بھی ہے، وزیر
خزانہ چوہدری لطیف اکبر نے اپنی بجٹ تقریر میں سیاحت کے فروغ کیلئے
پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کی بھی بات کی ہے اور سالانہ ترقیاتی
پروگرام میں جاری سیاحتی منصوبوں کیلئے لگ بھگ 10 کروڑ روپے کی رقم مختص
کرنے کی تجویز دی ہے اسی طرح کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے
راولاکوٹ، مظفر آباد، کوٹلی اور بھمبر کے سپورٹس سٹیڈیمز کو ہر قسم کی جدید
سہولیات کی فراہمی کے علاوہ حکومت نے متعدد مڈل اور ہائی سکولوں کی اپ
گریڈیشن، ٹیچرز ٹریننگ کیلئے اکیڈمی کے قیام، کشمیر بینک کو شیڈول بنک
بنانے، بیروزگار نوجوانوں کیلئے گرین کیب سکیم کا اجراء کا بھی اعلان کیا
گیا ہے جو بے حد خوش آئند ہے، ان بہت ساری باتوں پر اسمبلی میں ہونے والی
بحث میں ہی ادراک ہو سکے گا کہ یہ کشمیری عوام کیلئے سود مند ہیں بھی یا
نہیں۔
اب جب بھی قانون ساز اسمبلی کا اجلاس شروع ہوگا بجٹ پر بحث بھی کی جائے
گی۔اس موقع پر وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے کشمیر کونسل کے فنڈز کے آڈٹ
کا بھی عندیہ دیا ہے جبکہ اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر خان کا کہنا ہے کہ
یہ آڈٹ 2006ء سے ہونا چاہئے، کشمیر کونسل کے فنڈز پر عرصہ سے اعتراضات اٹھ
رہے تھے اور آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر بھی اتفاق رائے
رکھتی ہیں کہ کشمیر کونسل کے اختیارات میں کمی کی جائے، اسے آزاد کشمیر کے
مرکز میں مفادات کی نگہبانی کرے اور اس میں صرف کشمیریوں کو ملازمت دی جائے،
ایسے موقع پر آزاد کشمیر ہائیکورٹ نے کشمیر کونسل میں غیر ریاستی باشندوں
کی تقرریوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ آزاد کشمیر میں پبلک
سروس کمیشن قائم کیا جائے اور اسی کے تحت آسامیاں مشتہر کر کے قواعد و
ضوابط کے مطابق تقرریاں کی جائیں، عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ کشمیر
کونسل میں صرف ریاستی باشندہ درجہ اول کو ملازمت مل سکتی ہے تاہم ریاستی
باشندے کی عدم دستیابی پرپاکستانی شہریوں کو عارضی ملازمت دی جائے۔
آزاد کشمیر کی عدالتیں عوام کے حقوق کی محافظ ہیں اور ابھی تک عدالت
العالیہ آزاد کشمیر کے جو بھی فیصلے آئے ہیں وہ کشمیریوں کی امنگوں کی
ترجمانی کر رہے ہیں آزاد کشمیر کونسل کے عاملے پر عدالت کا حکم ایک نظیر ہے
کہ عدالت نے کشمیریوں کے خون پسینے کی کمائی سے چلنے والے ادارے میں
نوکریوں کی بندر بانٹ پر روک لگایا ہے اس سے آزاد کشمیر کے باشندوں کی نہ
صرف حق تلفی ہوئی ہے بلکہ ان میں مایوسی بھی پھیلی ہے، عدالت عالیہ کے
فیصلہ سے یقیناً ان محرومین کے ساتھ زیادتیوں کا ازالہ ہوگا بلکہ حقیقیح ق
حقیقی حقدار تک پہنچ سکے گا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالت العالیہ کے احکامات پر صدق دل سے عمل کیا
جائے ، اس کے علاوہ حکومت نے بجٹ میں جو تجاویز دی ہیں اپوزیشن کو اعتماد
میں لیکر ان کی بھی منظوری حاصل کی جائے اور بجٹ میں عوامی فلاح و بہبود کے
عنصر کو اولیت دی جائے۔ |