ایک اور ادبی تحریک کی ضرورت

یہ دور جس میں ہم جی رہے ہیں مسلسل ٹوٹتے بکھر تے افکا ر وخیالا ت کا ممبہ عظیم ہے ۔ اس دور کی سب سے بڑی خوی یا خرابی یہ ہے کہ اب سرحدوں کی طرح اقدار بھی سکڑ کرچھوٹے بو گئے ہیں تہذیبوں نے اپنی رنگت تبدیل کر لی ہے حقائق و فکشن کا فرق معدوم ہو گئے ہے انسانیت کے جو اعلیٰ مدارج کتابوں میں درج ہیں ان کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں سیاست اور ادب میں فرق مشکل ہے کیونکہ اب ادبی سیایت ہو رہی ہے اور سیاست کو ادب بنانے کا رجحان عام ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ معاشرے میں یہ انتشار پہلی دفعہ بر پا ہوا ہے ایسا پہلے بھی اور تقریباً ہر دور میں ہو تا رہا ہے لیکن پہلے کے دور میں اور آج میں یہ بنیادی فرق ہے کہ پہلے کوئی نہ کوئی گروہ حق گوئی وبے با کی کے لئے ضرور بچ جا تا تھااس دور میں ایسا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا مغربی استعماریت نے ہماری تہذیب کے سارے کس بل نکال دئے اور اب ہمارے گھروں میں ہی ہماری تہذیب کو گالیاں دینے والے نشو نما پا رہے ہیں ایسے میں بار بار ذہن میں یہ بات اٹھتی ہے کہ کیا اس دور میں کسی تحریک کی ضرورت نہیں؟ لیکن پھر یہ سوال سامنے آ کھڑا ہوتا ہے کہ اس دور میں کوئی سجاد ظہیر کہا سے آئے گا جو انگلینڈ میں بیٹھ کر زمانۂ طالب علمی میں ہندوستان کے ادبی صورت حال پر فکر مند ہو گا ۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ چند طالب علموں کے اس گروہ نے جو کام کیا کیا آج بڑے بڑے ادار ے مل کر وہ کام کر پا رہے ہیں ہمیں غور کر نا پڑے گا کہ آخر وہ کیا عوامل تھے جس نے اردو ادب کے منظر نامے میں اتنی بڑے تبدیلی پیدا کر دی ترقی پسند تحریک نے پہلے بار ادب کو سیاست قریب کیا لیکن وہ سیاست بھی کیسی جس سیاست کے ذریعہ عام انسانوں کا استعمال ہو رہا تھا کمزور دن بہ دن کمزور ہو تے جا رہے تھے اور مغربی استعماریت اپنے شہر پناہ کو مزدور کے خون سے سرخ کر نے میں لگی تھی حیرت تو اس پر بھی ہو تی ہے کہ ہمارے ادب اس دور میں بھی شاعری کی اس ڈگر سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا ترقی پسند تحریک نے لوگوں کے دل بدل دئے ذہن میں توانائی پیدا کی اور لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیاکہ ہمارے آس پاس جو ہو رہا ہے اسے نہیں ہو نا چاہئے ۔ میرا یہ مضمون ترقی پسند تحریک سے متعلق شاعروں کے نمائندہ نظموں کی ایک جھلک پیش کر تا ہے تاکہ ہم غور کر ے کہ کیا جو مسائل اس دور میں ہمارے معاشرے کو تھے کیا وہی مسائل آج بدلی ہوئی شکل میں ہمارے سامنے نہیں ہیں؟
افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ اس دور میں جب ترقی پسند تحریک کی شروعات ہو ئی تو لوگ اس حقیقت سے آشنا تھے کہ حق کیا ہے اور عام عوام کو ضرورت کس چیز کی ہے ۔ اچھے اور برے کی تمیز سے لوگ واقف تھے لیکن آج ہمارے ادبا وشعراء بھی امریکی استعماریت کے پینشن یافتہ ہیں ایسے میں یہ راستہ اور زیادہ گزار ہے ۔ آئیے پہلے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر کی جانے والی شاعری کا ایک بار آموختہ کریں ۔
واضح ہو کہ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کل ہند کانفرنس 1936میں لکھنؤ میں منعقد ہوئی اور اس کانفرنس کے صدارتی خطبے میں پریم چند نے کہا کہ:
’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو جو ہم میں حرکت ، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے۔ سلائے نہیں کیونکہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہے‘‘

پریم چند نے یہ خطبہ یوں ہی نہیں دیا تھا 1936کے بہت پہلے 1874میں جب محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی نے موجود شعری منظر نامے میں صنفِ نظم کو متعارف اور مقبول بنانے کی مہم شروع کی تھی تو کہا تھا کہ:
’’اردو شاعری میں کچھ مضامین عاشقانہ ہیں جس میں کچھ اصل کا لطف بہت سے حست و ارمان، اس سے زیادہ ہجر کا رونا شراب، ساقی، بہار، خزاں، فلک کی شکایت اور اقبال مندوں کی خوشامد ہے۔ یہ مطالب بھی بالکل خیالی ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ایسے پیچیدہ اور دور دورکے استعاروں میں ہوتے ہیں کہ عقل کام نہیں کرتی۔ وہ اسے خیال بندی اور نازک خیالی کہتے ہیں اور فخر کی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہیں۔‘‘

یعنی ایک نئی توانا آواز کی ضرورت محسوس کی جانے لگی تھی جو ادب و شعر کے منجمد سطح کو لہراتی ہوئی موجوں میں تبدیل کردے۔

1936میں جس ترقی پسند مصنفین کی بنیاد پڑی اور آگے چل کر جس نے ترقی پسند تحریک کی شکل اختیار کی اس تحریک سے جڑے لوگوں کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ادب کو ہتھیار کی طرح استعمال کرنے کی ضرورت ہے اسے نیند کی گولی نہ بننے دیا جائے۔

لہٰذا انھوں نے فکری تبدیلی اور مواد پر زیادہ زور دیا اور اسلوب یا STYLEکو ثانوی حیثیت دی۔ انھوں نے اظہار کے لیے آسان اور عام فہم الفاظ کا انتخاب کیا وہ اپنی بات کو ایک عام آدمی تک پہنچانا چاہتے تھے اور اس میں انھیں زبردست کامیابی بھی ملی۔ ترقی پسند شعرا نے عوامی زندگی کے مسائل کو اپنا موضوع بنایا۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں سیدھی سچی بات عام فہم انداز میں خطابت کے لہجے میں بیان ہوتی تھی جس سے عوام دشمن طاقتوں کا پردہ بھی فاش ہو اور عام لوگ اس کے حقیقی چہرے سے آشنا ہو کر اس سے نفرت بھی کرنے لگیں۔
رعد ہوں، برق ہوں، بے چین ہوں پارہ ہوں میں
خود پرستار، خود آگاہ، خود آرا ہوں میں
گردنِ ظلم کٹے جس سے وہ آرا ہوں میں
خرمنِ جود جلادے وہ شرارہ ہوں میں


میری فریاد پر اہلِ دول انگشت بہ گوش
لا تبر خون کے دریا میں نہانے دے مجھے

سرِ پُر نخوتِ اربابِ زماں توڑوں گا
شورِ نالہ سے درِ ارض و سما توڑوں گا
ظلم پرور روشِ اہلِ جہاں توڑوں گا
عشرت آباد کا امارت کا مکاں توڑوں گا

توڑ ڈالوں گا میں زنجیر اسیران قفس
دہر کو پنجۂ عشرت سے چھڑانے دے مجھے
(’’باغی‘‘ مخدوم محی الدین)

فیض احمد فیض کو ترقی پسند شاعروں میں اولیت حاصل ہے ان کی آواز میں مخدوم والا طنطنہ تو نہیں لیکن ان کی نظموں کو پڑھ کر اندرونِ دل سے ایک آہ ضرور نکلتی ہے اور سننے والا ظلم اور ظالم دونوں کا دشمن ہو جاتا ہے۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجیے

یہ وہ دور ہے جب پورے ہندوستان میں آزادی کی لڑائی زوروں پر ہے اورانگریز اس جدو جہد کو کچلنے کے لیے اپنی پوری طاقت کا استعمال کر رہے ہیں جہاں ایک طرف نوجوانانِ ہند ان کی گولیوں سے چھلنی ہو کر وطن کی مٹی کو سرخ کر رہے ہیں وہیں ترقی پسند شعرا اپنی شاعری سے ان میں جوش و ولولہ پیدا کر رہے ہیں۔ انھیں اپنی محبوبہ عزیز ہے لیکن جدو جہد کی قیمت پر نہیں۔یہی وہ نمایاں تبدیلی ہے جو ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر اردو شاعری میں ہوئی اور شاعری نے اپنے عہد کے مسائل سے رشتے استوار کر لیے۔ ان کی شاعری میں نہ صرف ملک کے مسائل بلکہ بین الاقوامی مسائل بھی بڑے اہتمام سے داخل ہوئے اور ادب کا حصّہ بن گئے۔ فیض کی شاعری میں افریقہ ہو کہ ہندوستان فلسطین ہو کہ بیروت ظلم کی چکّی جہاں بھی چلتی ہے فیض کا دل پستا ہے اور وہ چیخ پڑتا ہے۔ بیروت کے حوالے سے فلسطینی بچے کی لوری سنیے۔
مت رو بچے
رو رو کے ابھی
تیری امّی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچے
کچھ ہی پہلے تیرے ابّا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے
مت رو بچے
تیرا بھائی اپنے خواب کی تتلی پیچھے دور کہیں پردیس گیا ہے
مت رو بچے
تیرے آنگن میں
مردہ سورج نہلائے گئے ہیں، چندر ماں دفنائے گئے ہیں
امّی ابّا باجی بھائی
چاند اور سورج
روئے گا تو اور بھی تجھ کو رلوائیں گے
تو مسکائے گا تو شاید
سارے اک دن بھیس بدل کر تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے

جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ترقی پسند شعرا کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ عوام کو عوام کی زبان میں ان کے اپنے ہی دکھوں سے آگاہ کر دیا جائے تاکہ وہ کسی الجھن کا شکار ہوئے بغیر اپنے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہو جائیں فیض کی ایک اور نظم دیکھیں۔
جب دکھ کی ندیا میں ہم نے
جیون کی ناؤ ڈالی تھی
تھا کتنا کس بل بانہوں میں
لوہو میں کتنی لالی تھی
یوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے
اور ناؤ پورم پار لگی
ایسا نہ ہوا ہر دھارے میں
کچھ ان دیکھی مجدھاریں تھیں
کچھ مانجھی تھے انجان بہت
کچھ بے پرکھی پتواریں تھیں
اب بھی چاہو چھان کرو
اب جتنے چاہے دوش دھرو
ندیا تو وہی ہے ناؤ وہی
اب تم ہی کہو کیا کرنا ہے
اب کیسے پار اترنا ہے
جب اپنی چھاتی میں ہم نے
اس دیس کے گھاؤ دیکھے تھے
تھا ویدوں پر وشواس بہت
اور یاد بہت سے نسخے تھے
یوں لگتا تھا بس کچھ دن میں
ساری بپتا کٹ جائے گی
اور سب گھاؤ بھر جائیں گے
ایسا نہ ہوا
کہ روگ اپنے کچھ ایسے ڈھیر پرانے تھے
وید ان کی ٹوہ کو پانہ سکے
اور ٹوٹکے سب بیکار گئے۔
(’’تم ہی کہو کیا کرنا ہے‘‘ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘)

اب ان نظموں کی کوئی کیا تشریح کرے سب کچھ صاف اور سیدھی دل میں اتر جانے والی شاعری مخدوم اور فیض کے علاوہ ترقی پسند شاعری کو معیار بخشنے میں مجاز، مجروح، علی سردار جعفری،جوش ملیح آبادی، کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی، سلام مچھلی شہری، عزیز قیسی، جاں نثار اختر، احمد ندیم قاسمی ، وامق جونپوری، احسان دانش اور معین احسن جذبی وغیرہ اہم نام ہیں۔

ان شعرا میں مجاز نے ترقی پسند تحریک کے اوائل عمری میں ہی اسے اپنا سب کچھ دے دیا ان کی نظم ’’انقلاب‘‘ کا یہ بند دیکھیں:
چھوڑدے مطرب بس اب ﷲ پیچھا چھوڑ دے
کام کا یہ وقت ہے کچھ کام کرنے دے مجھے
تیرے ہی نغمے سے وابستہ نشاطِ زندگی
بزمِ ستی کا مگر کیا رنگ ہے یہ بھی تو دیکھ
ہر زباں پر اب صلائے جنگ ہے یہ بھی تو دیکھ
آ رہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوئے
آگ دامن میں چھپائے خون برساتے ہوئے
یا پھر ان کی نظم سرمایہ داری کا یہ بند:
یہ اپنے ہاتھ میں تہذیب کا فانوس لیتی ہے
مگر مزدور کے تن سے لہو تک چوس لیتی ہے
غریبوں کا مقدس خون پی پی کر بہکتی ہے
محل میں ناچتی ہے رقص گاہوں میں تھرکتی ہے
بظاہر چند فرعونوں کا دامن بھر دیا اس نے
مگر کل باغِ عالم کو جہنم کر دیا اس نے
(سرمایہ داری)

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جو شاعری ظہور پذیر ہوئی اس شاعری نے اردو شاعری کو بین الاقوامی شاعری کے شانہ بشانہ کھڑا کر دیا۔ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کے بانی سید سجاد ظہیر جب بٹوارے کے پاکستان چلے گئے اور وہاں ترقی پسند تحریک کا جھنڈا بلند کیے رہے تو یہاں ہندوستان میں علی سردار جعفری نے ترقی پسند تحریک کی کمان سنبھالی۔ مخدوم اور فیض کے بعد سردار جعفری کی شاعری نے بھی اردو شاعری کے دامن کو مضامینِ نو سے پُر بہار کیا ان کی صرف ایک نظم جمہور کا یہ بند نہیں۔
یہ ہندوستاں رشکِ خلدِ بریں

اگلتی ہے سونا وطن کی زمیں
کہیں کوئلہ اور لوہے کی کان

کہیں سرخ پتھر کی اونچی چٹان
یہ گنگا کا آنچل یہ جمنا کا ریت

یہ دھان اور گیہوں کے شادب کھیت
ہمارے مقدر میں افلاس ہے

غلامی کی ہر جسم میں باس ہے
کہیں ماؤں بہنوں کا بے مول تول

کہیں بے حیائی کے بجتے ہیں ڈھول
سردار جعفری کی نظم ہاتھوں کا ترانہ، اودھ کی خاکِ حسیں، مشرق و مغرب، ایشیا جاگ اٹھا ایسی نظمیں ہیں جنھیں پڑھ کر ترقی پسند تحریک کے افکار و نظریات کو سمجھاجا سکتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کا اردو زبان و ادب پر بڑا احسان یہی ہے کہ اس نے اردو کے شعرا و ادبا کو سوچنے اور سمجھنے کے لیے ایک زندگی کا ایک بہت بڑا کینوس دیا اور ہم نے دیکھا کہ آزادی کے بعد سے آج تک اردو کے شعرا نے جس طرح زندگی کے ہر رنگ کو شعری سانچے میں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کیا اس کی وجہ وہی ویژن ہے جو ترقی پسند تحریک نے ہمیں ودیعت کی تھی۔آخر میں ایک بات بتاتا چلوں کہ اس ترقی پسندی نے ہندوستانی فیچر فلموں پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے ہیں آپ چند ناموں سے تو واقف بھی ہیں ان میں کیفی اعظمی ایک اہم نام ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی ترقی پسند تحریک کے لیے وقف کردی ، فلموں کے گانے لکھے لیکن وہاں بھی اپنی بات کہنے سے نہ چوکے اس بات سے کسے انکار ہوگا کہ :
کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو
اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو
کو سن کر بڑے بڑے پتھر دل انسان کی آنکھیں بھی آنسو بہانے لگتی ہیں اور جب وہ کہتے ہیں زندہ رہنے کے موسم بہت ہیں مگر
جان دینے رُت روز آتی نہیں

حسن اور عشق دونوں کو رسوا کرے
وہ جوانی جو خوں میں نہاتی نہیں
آج دھرتی بنی ہے دلھن ساتھیو
اب تمھارے حوالے وطن ساتھیو

کھینچ دو اپنے خوں سے زمیں پر لکیر
اس طرف آنے پائے نہ راون کوئی
توڑ دو ہاتھ اگر ہاتھ اٹھنے لگے
چھونے پائے نہ سیتا کا دامن کوئی
رام تم ہی تم ہی لکشمن ساتھیو
اب تمھارے حوالے وطن ساتھیو
یا پھر وہی شاعر آزادی کے بعد کے ہندوستان کو دیکھ کر پکار اٹھتا ہے۔
ہاتھوں میں کچھ نوٹ لو پھر چاہے جتنے نوٹ لو
کھوٹے سے کھوٹا کام کرو باپو کو نیلام کرو
باپو باپو کرتے رہو نہ ہر دلوں میں بھرتے رہو
پرانت پرانت کو تنگ کرے بھاشا سے بھاشا جنگ کرے
سب کو چاہیے اپنی زمیں ہندوستانی کوئی نہیں
یا پھر
وقت نے کیا کیا حسیں ستم
تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم
جائیں گے کہاں سوجھتا نہیں
چل پڑے مگر راستہ نہیں
کیا تلاش ہے کچھ پتا نہیں
بن رہے ہیں دل خواب دم بدم

ترقی پسند شعری سر مایہ کا یہ نمو نہ آپ کے سامنے ہے کیا اب بھی یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے عہد میں اس پوری دنیا کو امریکی سامراجیت نے جس طرح تہہ و بالا کر نے کا اراد ہ کر لیا ہے اور کر تی چلی جا رہی ہے اس کو دیکھ کر اردو ادب میں پھر ایک زبردست تحریک کی ضرورت ہے تا کہ آنے والی نسل شعرو ادب کی اہمیت کا اقرار کر ے۔ یقیناآ ج امریکہ نے سکندر کی طرح پوری دنیا پر اپنا قبضہ کر نے کا منصوبہ ہی نہیں بنا یا بلکہ اس پر عمل شروع کر چکا ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ترقی پسند تحریک کے ادب سے روشنی لے کر ہم اس امریکی سامراجیت کے خلاف ادب کا محاذ قائم کریں ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہمارا سارا اقدار ہمارے ساری تہذیب ہماراسارا دبی سر ما یہ ، ہمارا اخلاق و کر دار ملیا مٹ کر دیا جائے گا ۔
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 131891 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More