باسمہ تعالیٰ
قومی جمہوری محاذ(این ڈی اے)کاقیام ۱۹۹۸ء میں ہوا۔۱۹۹۶ء کے عام انتخابات
میں جب کانگریس کوبابری مسجدکی شہادت کے غم وغصہ کے نتیجہ میں مسلمانوں کی
جانب سے دھتکار دیاگیااوربی جے پی کوہندتواکے نعرہ کایہ فائدہ ہواکہ وہ عام
انتخابات میں۱۶۱پارلیمانی نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کرابھری ،دستورکے
مطابق اس وقت کے صدرجمہوریہ ڈاکٹرشنکردیال شرمانے بی جے پی کوحکومت سازی کی
دعوت دی لیکن پارلیمنٹ میں اکثریت ثابت نہ کرپانے کی وجہ سے صرف تیرہ دن کے
بعدہی حکومت سے باہرہوناپڑا۔پھرجنتادل کی قیادت میں متحدہ محاذنے حکومت
بنائی جس کی حمایت کانگریس نے بھی کی، ایچ ڈی دیوے گوڑااس حکومت کے
وزیراعظم بنے،اورپھر اندرکمارگجرال، لیکن کانگریس کے حمایت واپس لے لینے کی
وجہ سے ۱۹۹۸ء میں اس محاذی حکومت کابھی خاتمہ ہوگیا،تب بی جے پی نے
تقریباً۲۴؍چھوٹی بڑی جماعتوں کوملاکر۱۹۹۸ء میں این ڈی اے(قومی جمہوری
محاذ)کی بنیاد ڈالی جس کا چیرمین اٹل بہاری باجپئی اورجارج
فرنانڈیزکوکنوینربنایاگیا،اسی اتحادکے سہارے بی جے پی نے دہلی کی سلطنت
پرحکومت کرنے کااپنادیرینہ خواب پوراکیا،لیکن بی جے پی کا یہ خواب اس وقت
چکناچورہوگیاجب اتحادکی ایک اہم رکن محترمہ جئے للیتانے اپنی جماعت
کواتحادسے الگ کرتے ہوئے باجپئی حکومت سے حمایت واپس لے لی اوراس طرح
باجپئی جی کی یہ حکومت بھی۱۹۹۹ء میں صرف تیرہ مہینوں میں ختم ہوگئی۔
قومی جمہوری محاذاتحادکوایک بارپھر۱۹۹۹ء کے عام انتخابات میں بڑی کامیابی
ملی،بی جے پی کو۱۸۲نشستوں پرکامیابی کے ساتھ ایوان میں سب سے بڑی جماعت کے
طورپرابھرنے کا موقع ملا،اس طرح اس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایک بار
پھردہلی کے سلطنت پرقبضہ جمانے کاخواب دیکھااوراس طرح ۲۰۰۴ء تک دہلی کے تخت
پرسیاہ سپیدکی مالک بنی رہی ،وہ تو براہوبی جے پی کے انتخابی
نعروں،انڈیاشائننگ اورفیل گڈکاکہ ان نعروں نے بی جے پی کے ریت پہ بنائے
گھروندے کو۲۰۰۴ء کے عام انتخابات میں بالکل ڈھیرکردیااوراس طرح یہ
اتحاددہلی کے سلطنت سے بے دخل کردی گئی۔
قومی جمہوری محاذکی بنیادکانگریس مخالفت میں پڑی تھی،لیکن بنظرغائردیکھنے
سے یہ بات صاف طورپردکھائی دیتی ہے کہ ہندستانی سیاست میں اخلاقی اقدارکوپس
پشت کردینے والی سیاسی جماعتیں اب کسی نظریہ کے تحت نہیں بلکہ ذاتی مفادات
کے پیش نظرکسی اتحادکاحصہ بنتی ہیں اورجس کی واضح مثال قومی جمہوری محاذکے
اتحادیوں کاآہستہ آہستہ اتحادکوچھوڑنے سے ملتی ہے۔قومی جمہوری محاذکی
بنیاد۲۴؍چھوٹی بڑی پارٹیوں پررکھی گئی تھی لیکن اس وقت صرف دس پارٹیاں ہی
اس اتحادمیں باقی رہ گئی ہیں جن میں سے بعض پارٹی ایسی بھی ہے جس کا دونوں
ایوان میں ایک بھی نمائندہ نہیں ہے،اس وقت اتحادکے اہم اراکین میں صرف بی
جے پی،شیوسینااورشرومنی اکالی دل ہیں۔اتحادکاساتھ چھوڑنے والی اہم پارٹیوں
میں جئے للیتا کی پارٹی جنہوں نے ۱۹۹۹ء میں باجپئی حکومت کوختم کرنے میں
اہم رول اداکیاتھا،انہوں نے ۱۹۹۹ء میں ہی اتحادکوخیربادکہہ دیا،اسی طرح
فاروق عبداﷲ کی نیشنل کانفرنس اوررام ولاس پاسوان کی لوجپانے ۲۰۰۲ء میں،ڈی
ایم کے نے ۲۰۰۴ء میں ترنمول کانگریس نے ۲۰۰۷ء میں اورجھارکھنڈمکتی مورچہ نے
۲۰۱۲ء میں اس اتحادسے اپنادامن چھڑالیا،اورنتیش کمارنے گذشتہ دنوں اتحادسے
بغاوت کرکے تواتحادکی کمرتوڑکررکھ دی ہے۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ جیسے
بھگواخیمے میں زلزلہ آگیاہو،جس کاثبوت ۱۸؍جون کوبہارمیں دیکھنے کوملاکہ کل
تک جوہم نوالہ وہم پیالہ تھے آج وہ ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوئے
تھے،ظاہرسی بات ہے کہ اگرسیاست میں اخلاقی اقداراورنظریات کاپاس ہوتا تویہ
نوبت نہ آتی،بلکہ ان سب کی اہم وجوہات ہیں ملک کے مفادسے زیادہ ذاتی
مفادپرستی۔
بہارمیں جوکچھ ہواوہ غیرمتوقع نہیں تھابلکہ اس کے اشارے اسی وقت سے ملنے
شروع ہوگئے تھے جب نتیش نے بی جے پی اعلیٰ کمان کویہ وارننگ دی تھی کہ کسی
بھی صورت میں مودی کو بہار میں انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جائے
گی،اورراہل گاندھی نے نتیش کی تعریفوں کے پل باندھے تھے،بعض حلقوں کی جانب
سے تواسی وقت چہ میگوئیاں ہوئی تھیں کہ بس اب نتیش جی کانگریس کادامن
تھامنے ہی والے ہیں لیکن نتیش جی کوکسی مناسب موقع کاانتظارتھاتاکہ اس موقع
کواچھے اندازسے آنے والے عام انتخابات اورپھر ریاستی انتخابات میں کیش
کرایاجائے ،اوروہ موقع تھامسلم ووٹ کواپنی جانب راغب کرنے کااورظاہرسی بات
ہے کہ مسلم ووٹوں کوراغب کرنے کااس سے سنہراموقع اور کیا ہوسکتا تھاکہ
ہندستانی مسلمانوں کے دشمن نمبر۱کامدعااٹھاکراتحادسے باہرہوجایاجائے تاکہ
مسلمانوں کی پوری ہمدردی نتیش جی کے ساتھ آجائے ،اورانجنئیربابونے اس موقع
کاخوب خوب فائدہ اٹھایا۔
ہندستانی سیاست سے واقف کارکے لیے این ڈی اے کایہ انتشارکوئی غیرمتوقع نہیں
ہے،اورنہ ہی اسے ہندستانی تاریخ کاکوئی بڑاواقعہ کہاجاسکتاہے،بلکہ ہندستانی
سیاست پرجب سے کانگریس کی گرفت کمزورہوئی ہے چھوٹی اورعلاقائی پارٹیوں
کوابھرنے کاموقع ملاہے،اوران پارٹیوں کے ابھرنے سے اتحاد کی حکومت کانیادور
شروع ہواہے ،یہی وجہ ہے کہ اس وقت خواہ ریاست ہویامرکز، کوئی پارٹی اس
پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اکیلے دم پراپنی حکومت بنالے۔اتحاد کی اس سیاست
نے جہاں ایک طرف کانگریس جیسی مطلق العنان پارٹی کے اثرات کوکم کیاہے وہیں
موقع پرستی اورمفادپرستی کوبھی خوب فروغ ہواہے۔اس وقت اگرہندستانی سیاست
میں اخلاقی قدروں اورسیکولرزم کی بات کی جائے توشایدیہ باتیں دیوانوں جیسی
محسوس ہوں۔اب اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ کون لیڈرکب اپنی وفاداری بدل
لے،یاکون پارٹی کب اتحادختم کرکے دوسرے اتحادمیں شامل ہوجائے،لہٰذااس طرح
کے واقعات اگر رونماہوتے ہیں تواس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں ہونی
چاہیے،بلکہ اب توہندستانی عوام کواس کی عادت ڈال ہی لینی چاہیے۔
بہارمیں ہوئے سیاسی اتھل پتھل کے بعداس وقت دوباتیں عام بحث کاموضوع بنی
ہوئی ہیں،ان میں سے ایک تویہ کہ این ڈی اے کے انتشارکاسب سے زیادہ فائدہ
یانقصان کس کو ہوگا؟دوسرے یہ کہ سیکولرزم کیاہے؟کیوں کہ وہی نتیش کمارجوکل
تک این ڈی اے میں تھے توفرقہ پرستوں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے
غیرسیکولرتھے،لیکن آج جیسے ہی وہ این ڈی اے سے باہرآئے ہمارے من موہنی
وزیراعظم نے انہیں سیکولرہونے کاسرٹیفکٹ جاری کردیا،اورنتیش جی اس سرٹیفکٹ
سے اتنے خوش ہیں کہ وزیراعظم کاشکریہ اداکرتے نہیں تھک رہے ہیں، جب کہ نتیش
جی کے بیان کودیکھاجائے تواس وقت بھی وہ فرقہ پرستوں کے سب سے اعلیٰ
لیڈربلکہ یوں کہاجائے کہ جس نے ہندستان میں فرقہ پرستی کی بیج بوئی اس کی
تعریف میں اب بھی وہ اورشردجی رطب اللسان ہیں،اوران کایہ کہناکہ اگراڈوانی
جی کووزیراعظم کے لیے پیش کیاجائے توہم اتحادمیں واپس آنے کے لیے
تیارہیں،توآخریہ کیساسیکولرزم ہے؟مودی کے سرپرتوصرف ایک فسادکاگناہ ہے لیکن
اڈوانی توسرسے پاؤں تک فسادمیں دھنسے ہوئے ہیں،تومودی ناقبول،لیکن مودی کے
سرپرست اوربڑے فسادی اڈوانی جی قبول؟آپ کومعلوم ہوگاکہ مودی کی وجہ سے صرف
۲۰۰۲ء میں گجرات میں فسادہوا،لیکن جب اڈوانی جی رتھ لے کرنکلے توجہاں جہاں
وہ گئے وہاں خونی فسادات ہوئے اورہزاروں مسلمانوں کواس فساد کا
شکارہوناپڑاتواب بتلائیں کہ بڑافسادی کون ہے؟اورپھرنتیش جی کاسیکولرزم
کیساہے؟اسی طرح آج نتیش جی نے یہ اعلان کرتے ہوئے اتحادختم کیاکہ ہم اپنے
اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرسکتے،توآخران کااصول کیاہے؟ایک طرف تووہ فسادکے
بعد۲۰۰۳ء میں گجرات کے ایک پروگرام میں جب کہ وہ وزیرریل تھے مودی کی تعریف
کرتے نہیں تھکتے ،اورانہیں گجرات سے باہرنکل کرقومی سیاست میں آنے کاکہہ
رہے ہیں اورجب بے چارہ مودی نتیش جی کی دعوت پرقومی سیاست میں آگیاتووہی
نتیش جی کہتے ہیں کہ نہیں ہمیں مودی کی قیادت قبول نہیں،اورجب انہیں ان
کایہ بیان یادکرایاگیاتوکہتے ہیں کہ سیاسی مجبوری تھی،آخرکیامجبوری تھی
وہ؟نتیش جی سے یہ سوال ضرورہوناچاہیے!اس کے علاوہ کیامجبوری ہوسکتی ہے کہ
ان کی نظربہارکی کرسی پرتھی اوراس کے لیے بی جے پی کاسہاراضروری تھا،کیوں
کہ اس وقت کانگریس بھی لالوجی کے ساتھ تھی اورنتیش اتنے مضبوط نہیں تھے کہ
کانگریس انہیں اپنے ساتھ لینے کا جوکھم اٹھاتی،لہٰذانتیش جی بہارکی کرسی
حاصل کرنے کے لیے مودی کی تعریف کرتے رہے۔تواس وقت ہم اگرسیکولرزم کی بات
کریں توصرف ایک ہی شخص ایسانظرآتاہے کہ ہزار خامیوں کے باوجوداس نے
سیکولرزم کادامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑاہے اوروہ ہے
لالوپرشادیادو،لالوپرشادکی بس غلطی یہ ہے کہ جب عوام نے انہیں پندرہ سال
کاسنہراوقت دیاتووہ بھول گئے کہ یہی عوام جوانہیں اس کرسی پربٹھاسکتی ہے وہ
اس کرسی سے اتاربھی سکتی ہے اوربس یہیں پہ وہ مات کھاگئے،اورجوغلطی انہوں
نے کی اس کی سزاآج وہ بھگت رہے ہیں۔
دوسراجوسب سے اہم موضوع ہے وہ ہے کہ این ڈی اے کے انتشارکافائدہ کسے ہے
اورنقصان کسے ہے؟تویہاں پربھی دیکھاجائے تونقصان لالوپرسادیادوجی کاہے،کیوں
کہ اب تک ان کے پاس ایک مدعاتھاسیکولرزم کالیکن نتیش جی نے اتحادسے الگ
ہوکران سے وہ مدعابھی چھین لیااورستم بالائے ستم کہ کانگریس نے اسمبلی میں
سیکولرزم کے نام پرنتیش جی کی حمایت کرکے لالوجی کواوریکہ
وتنہاچھوڑدیا،اتناہی نہیں بلکہ ان کے اتحادی پاسوان نے بھی اسمبلی سے واک
آؤٹ کرکے بی جے پی کی ہمنوائی کاثبوت پیش کردیا۔کانگریس تو کافی عرصہ سے
موقع کی تلاش میں تھی، کیوں کہ لالوپرسادہی وہ شخص ہیں جنہوں نے کانگریس
کوبہارسے باہرکاراستہ دکھایاتھااورکانگریس کایہ زخم آج تک بھرانہیں ہے،بھلے
ہی کانگریس اس سے قبل لالوجی کے ساتھ بہارکی حکومت میں شامل رہی لیکن کہیں
نہ کہیں وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہی کہ کسی نہ کسی طرح لالوسے
پیچھاچھڑایاجائے ،اور۲۰۰۹ء کے عام انتخابات میں لالوجی کی ہٹ دھرمی نے
کانگریس کاراستہ بالکل آسان کردیا،اگراس وقت لالوجی پاسوان کے بہکاوے میں
نہ آتے توآج شایدلالوجی کی یہ درگت نہیں بنتی،لالوجی نے پاسوان کوسمجھنے
میں ضرورغلطی کی ہے کیوں کہ پاسوان ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے۲۰۰۵ء میں مسلم
وزیراعلیٰ کی بے تکی مانگ کی وجہ سے بہارمیں بی جے پی کی راہ ہموارکی،اگراس
وقت پاسوان لالوجی کی حمایت کرکے حکومت بنالیتے توشایدآج دونوں ہی بہارمیں
محفوظ رہتے اورمرکزمیں بھی ان کی حیثیت ہوتی،لیکن لمحوں نے خطاکی صدیوں نے
سزاپائی کے اصول پرآج لالوجی توکہیں نہ کہیں کسی حال میں زندہ بھی ہیں لیکن
اگردیکھاجائے توپاسوان کی سیاسی موت ہوچکی ہے۔این ڈی اے کے اس انتشارسے
اگرسب سے زیادہ فائدہ کسی کوپہونچاہے تووہ ہے کانگریس،کیوں کہ اس وقت
جنتادل یوبہارمیں ایک مضبوط پارٹی ہے اورنام نہادترقی کے نام پرہی سہی
بہارکاایک بڑامسلم طبقہ نتیش جی کے ساتھ ہے، ایسے میں۲۰۱۴ء کاعام انتخاب
کانگریس جدیوکے ساتھ لڑتی ہے تویقینافائدہ ہوگا،لیکن ایک خدشہ اوربھی ہے
اوروہ ہے سیکولرووٹوں کی تقسیم کاخطرہ،کیوں کہ اگرنتیش اتحادمیں آتے ہیں
تویقینالالوجی ساتھ نہیں ہوں گے ایسے میں سیکولرزم کے نام پرووٹ دو حصوں
میں تقسیم ہوجائے گا،ایک توکانگریس اورجنتادل یو،دوسرے لالوجی، اوراس
کاراست فائدہ بی جے پی کوہوگا،کیوں کہ اس وقت ملک کااکثریتی طبقہ بھی پوری
طاقت سے مودی کومرکزمیں لانے کی کوشش کرے گا،جوکہ ملک کی سالمیت کے لیے
انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔
سیکولرووٹوں کی تقسیم کوروکنے کاایک ہی طریقہ ہے اوروہ ہے مسلم قیادت کی
متحدہ کوشش،اگرمسلم قیادت متحدہ طورپرکوشش کرے اورتمام سیکولرجماعتوں کوایک
پلیٹ فارم پرلے آئے تو شایدفرقہ پرست مودی کومرکزمیں آنے سے روکاجاسکے۔کیوں
کہ ایسے حالات میں جب کہ مسلمان کانگریس سے بری طرح دھوکہ کھاچکی ہے،بی جے
پی نے اپنی حکمت عملی سے ثابت کردیاہے کہ مسلمانوں کے لیے اس کے یہاں کوئی
جگہ نہیں ہے تواب مسلمانوں کے لیے ایک ہی امیدکی کرن ہے اوروہ ہے
سیکولرجماعتوں کاوفاقی محاذ، اور چوں کہ تمام علاقائی پارٹیاں مسلم ووٹ
پرمنحصرہیں،اس لیے اگرمسلم قیادت انہیں مسلم ووٹ کی یقین دہانی کرائیں
توامیدہے کہ وہ ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوجائیں،لیکن اس کے لیے سب سے پہلی شرط
ہے خود مسلم تنظیموں کاایک پلیٹ فارم پرجمع ہونا،سیاسی جماعتوں کومتحدکرنے
سے پہلے انہیں خوداتحادکامظاہرہ کرناہوگا،لیکن !مسلم تنظیموں کااتحادکیسے
ہوگا؟کون کرے گاان کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی کوشش؟کیوں کہ مسلم تنظیموں
کوایک پلیٹ فارم پر جمع کرناایساہی ہے جیسے زندہ مینڈکوں کوترازومیں
تولنا!لیکن پھربھی ہمیں کوشش کرنی ہوگی،مسلمانوں کے وسیع ترمفادات کے پیش
نظرہمیں مسلم تنظیموں کومتحدکرناہوگااوریہ ذمہ داری مسلم پرسنل لاء بورڈ
کواداکرنی چاہیے کہ وہ تمام تنظیموں کوایک پلیٹ فارم پرجمع کرے،کیوں کہ
اگریہ متحدہوکراین ڈی اے کے اس انتشارکافائدہ اٹھالیتے ہیں تویادرکھیں کہ
ہندستانی مسلمانوں کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی، کیوں کہ کانگریس
پرپھرسے بھروسہ کرناخودکشی کے مترادف ہوگا، تاریخ کے طالب علم کوپتہ
ہوناچاہیے کہ بی جے پی توظاہری فرقہ پرست ہے اصل میں توسب سے بڑی فرقہ پرست
جماعت کانگریس ہے،کیوں کہ کانگریس ہی گیندکوپاس کرتی ہے بی جے پی توصرف گول
کرنے کاکام کرتی ہے،جیساکہ بابری مسجدکے واقعہ سے ظاہرہے، بابری مسجدکی
شہادت کی بیج تو کانگریس نے ہی بوئی تھی، بی جے پی نے اس کافائدہ اٹھایاہے
،بابری مسجدکی شہادت کے جرم میں دونوں ہی جماعت برابرکی شریک ہے،کیوں کہ
اگرریاست میں بی جے پی کی حکومت تھی تومرکزمیں کانگریس کی جوکہ اس واقعہ
کورونماہونے سے بچاسکتی تھی،لیکن اس نے ایسانہیں کیا،کیوں؟آج تک کسی مسلم
قیادت نے کانگریس سے یہ سوال نہیں کیا،بلکہ اس کے برعکس مستقل اپنی وفاداری
نبھاتے چلے جارہے ہیں۔
لہٰذامسلم قیادت کوچاہیے کہ وہ اپنی شرطوں کے ساتھ تمام سیکولرجماعتوں کے
وفاق بنانے کی راہ ہموارکریں،یقینایہ بڑامشکل کام ہے،لیکن اگرنیت صاف
ہواورقوم وملت کا مفاد پیش نظر ہوتوکوئی بھی کام انسان سے بڑانہیں ہے،ملک
کے موجودہ حالات کے پیش نظرمرکزمیں غیرکانگریسی اورغیربی جے پی حکومت
کاقیام ہی مسلمانوں کے مفاد میں ہے، اور اس وفاق میں ملائم
سنگھ،لالوپرساد،نتیش کمار،ممتابنرجی،عمرعبداﷲ کے ساتھ ایسے تمام رہنماؤں
اورپارٹیوں کوساتھ لیاجائے جوکسی نہ کسی درجہ میں سیکولرزم کادم بھرتی ہیں،
اگر ایسا ہوجاتاہے توہندستانی سیاست کی تاریخ کاروشن ترین باب ہوگااوراس
وفاق سے انشاء اﷲ ثم انشاء اﷲ ہندستان میں مسلمانوں کوایک بارپھرسے
اپناکھویاہواوقارحاصل کرنے کا موقع ملے گا،یادرکھیں!اگرآپ نے اس سنہرے موقع
سے فائدہ نہ اٹھایاتوپھرکبھی ایسازریں موقع آپ کے ہاتھ نہیں آئے
گا،خدارا!اٹھیں،آپسی اختلافات کوبالائے طاق رکھ کرصرف اورصرف ملت کے وسیع
تر مفادات کوپیش نظررکھتے ہوئے پہلے آپس میں اتحادقائم کریں اورپھرمتحدہ
طورپرتمام سیکولرجماعتوں کاایک وفاق بنانے کی کوشش کریں،انشاء اﷲ العزیز،اﷲ
آپ کاحامی وناصرہوگا۔ |