سلطان عَلاﺅالدین خلجی(اواخر)

آغاز

نئے رائٹر جو ڈرامہ لکھنا چاہتے ہیں ڈرامے پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ جب کتابوں کی کسی بڑی سے بڑی دُکان پر چلے جائیے، دنیا بھر کی کتابیں تھوڑی سی تلاش اور جستجو کے بعد تو مل جائیں گی، نہیں ملیں گی تو وہ کتابیں جو ڈراموں سے متعلق ہوں۔ ایک آدھ کتاب مل بھی گئی تو وہ ڈرامہ کی شکل میں اس طرح نہیں ہو گی جیسی قاری چاہتا ہے۔

آپ کیا چاہتے ہیں؟ ہمارا یہ سوال نئی نسل کے ہونہاروں اور ذہین قاری دونوں سے ہے۔ یقینا آپ ڈرامہ کی ایک ایسی عام فہم، مختصر اور جامع کتاب چاہتے ہیں جو دلچسپ بھی ہو اور سبق آموز بھی۔

آپ کے اسی ذوق کی آبیاری کے لیے میں نے بڑی تلاش و جستجو کے بعد ایسے ڈرامے برآمد کر لیے ہیں جو آسان بھی ہیں، دلچسپ بھی اور سبق آموز بھی۔ یہ ڈرامے معروف ادیب، شاعر اور دانشور صفدر میر نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ابتدائی دنوں میں لکھے تھے لیکن ان کی معنویت اور تازگی آج بھی برقرار ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان خوبصورت ، پُراثر ، تاریخی ڈراموں کی پیش کش آپ کے لیے ایک تحفہ ہے اور ہمارے لیے قومی خدمت !

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو صحت مند، ذہین اور کارآمد رکھے اور آپ اس وطن عزیز کا حقیقی جوہر قابل اور انتہائی قیمتی سرمایہ ثابت ہوں۔ آمین۔
دعا گو
عبدالرزاق واحدی

سلطان عَلاﺅالدین خلجی(اواخر)

کردار

ضیاءالدین برنی (راوی) نجم الدین انتشار
سلطان علاﺅالدین خلجی ملک نائب کافور
یعقوب ناظر ملک کمال الدین گرگ
پہلا بنیا الپ خان
دوسرا بنیا ملکہ ¿ جہاں
ایک لڑکا خضر خان
جونا خان غازی ملک تغلق
تاج الدین عراقی قاضی مغیث الدین
_________



سین (1)
شیخ نظام الدین کے جماعت خانے میں
ضیاءبرنی کا حجرہ__ رات
ضیاءبرنی تاریخ فیروز شاہی لکھنے میں مصروف ہے۔
ضیاءبرنی کی آواز: سلطان علاﺅالدین کا نظم وضبط اتنا مستحکم ہوگیا تھا کہ اس کے دارالحکومت میں فسق وفجور ختم ہوگیا۔ سلطنت کے دُور و نزدیک کے علاقوں میں راستے نہایت محفوظ ہوگئے تھے۔ خود مقدم اور چوہدری راستوں پر کھڑے ہوکر راہ گیروں اور قافلوں کی حفاظت کرتے تھے اور مُسافر گھنے جنگلوں میں سے بھی اپنا مال و اسباب، نقدوجنس بے خوف و خطر لے آتے تھے۔ اس کے نظم کی انتہائی سختی کی وجہ سے دارالسلطنت اور مملکت کے جُملہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے سارے اچھے بُرے معاملات اس سے پوشیدہ نہیں رہتے تھے۔ اس کی مملکت کے سب لوگوں کے دلوں میں، خواہ وہ خواص ہوں یا عوام، اس کی سخت مزاجی اور تندخوئی سے خوف بیٹھ گیا تھا۔ دینوی خوش بختی اور اقبال مندی کی بدولت تمام امورِ جہاں داری اس کے حسب مُراد انجام پاتے تھے۔ اس کا ہر مقصد، خواہ اس کے متعلق اس نے غوروفکر کیا ہو یا نہ کیا ہو، اس کی خواہش سے بڑھ کرکامیاب ہوتا تھا۔

لیکن اسی زمانے میں جب اس کو متعدد فتوحات حاصل ہوچکی تھیں اور حکومت کے معاملات اس کے حسب منشا انجام پارہے تھے، قسمت اس کی مُخالف اور نصیب برگشتہ ہوگیا ہرطرف سے اس کے دل کو مصائب نے گھیر لیا۔ اُس کے بیٹے ادب کی حدود سے نکل گئے۔ اور اُنہوں نے کج رفتاری اختیار کرلی–– سلطان علاﺅالدین نے تجربہ کار اور کارگزار وزراءکو الگ کردیا اور رائے لینے اور مشورہ کرنے کا سلسلہ کلیتہً ختم کردیا تاکہ مملکت کی حکومت اور اس کے متعلق جملہ امور اور اس کے خاندان اور اس کے خانہ زادغلاموں کے ہاتھ میں آجائیں۔اور مصالح ملکی کی کلیاّت وجزئیات اور امور جہاں بانی سب ایک ہی ذات میں مرکوز ہوجائیں۔
__________
سین (2)
سلطان علاﺅالدین کا صدر دفتر__دن
منشی اور نویسندے اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے کام کررہے ہیں۔ اُن کے نگراں بھی اِدھر اُدھر آجارہے ہیں۔
سُلطان اپنے چبوترے پر ایک ترازو ہاتھ میں اٹھائے کھڑا ہے۔ چبوترے کے سامنے یعقوب ناظر(شحنہ ¿ منڈی) کھڑا ہے۔ اس کے ساتھ ایک موٹا بنیاہاتھ جوڑے کھڑا کانپ رہا ہے۔ اس کے پیچھے دو محافظ کھڑے ہیں۔
ان کے سامنے ایک چھوٹا سالڑکا (دس سال) اپنے ہاتھ میں ایک گٹھری دبائے کھڑا ہے۔
سلطان: بچے––اِس مردار سے تم نے کتنا آٹا خرید اتھا؟
لڑکا: جی––حضور––دس سیر۔
سلطان: یعقوب !دس سیر کے باٹ ڈالو!
یعقوب باٹ ڈالنے کے لےے آگے بڑھتا ہے۔
سلطان: ٹہرو!––لالہ! یہ ترازو دیکھ رہے ہو؟
ترازوکو اُونچا کرکے اس کا توازن دکھاتا ہے۔
بنیا: (خشک لبوں سے اور خوفزہ آواز سے) جی حضور۔
سلطان: اس میں کوئی کمی بیشی تو نہیں؟
بنیا: (اُسی طرح) نہیں حضور!––
سلطان: یعقوب! دس سیر کے باٹ ڈالو۔
یعقوب ناظر سلطان کے ہاتھ سے ترازو لینا چاہتا ہے۔
یعقوب ناظر: سلطانِ معظم! میں تول دیتا ہوں۔ ترازو مجھے دیجئے سلطان اس کے ہاتھ کو تھپڑمارکر پرے کردیتا ہے۔
سلطان: (غصّے سے) نہیں میں خود تولوں گا–– رکھو باٹ۔ یعقوب ناظر باٹ اُٹھا کر ایک پلڑے میں ڈالتا ہے۔
سلطان: بچے–– اپنی گٹھڑی دوسرے پلڑے میں رکھو! لڑکا دوسرے پلڑے میں اپنی گٹھری رکھ دیتا ہے۔
بنیا: (ایک قدم آگے بڑھ کر گھگیاتے ہوئے) خداوندعالم۔ اس بار میرا قصور معاف کردیں۔ معاف کردیں۔
سلطان: بکومت!
ترازو کو اُٹھا تا ہے۔ چاروں طرف بیٹھے لوگوں کو دکھاتا ہے۔ وزن برابر نہیں ہے۔
سلطان: یہ دیکھ لو۔ تم سب دیکھ لو۔ اس حرام خوربقال نے پیسے دس سیر کے لیے ہیں لیکن جنس کم دی ہے۔ یعقوب !اس پلڑے میں ایک سیر کا باٹ رکھو۔
یعقوب ایک سیر کا باٹ گٹھڑی کے اوپر رکھتا ہے سلطان ترازو اوپر اُٹھاتا ہے۔
سلطان: اب بھی وزن کم ہے–– ایک سیر کا باٹ اور رکھو۔
یعقوب ناظر ایک اور باٹ رکھتا ہے۔ اب ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہیں۔
سلطان: تم لوگوں نے دیکھا دوسیر کم ہے کیوں لالہ۔ یہ دو سیر آٹا اس غریب کے مُنہ سے چھین کرکیا کرے گا؟
بنیا گھٹنوں کے بل گر جاتا ہے۔ سلطان کے پیر پکڑلیتا ہے اور روتے ہوئے گھگیانے لگتا ہے۔
بنیا: سرکار معافی–– حضور معافی––آقا––آئندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا!––
سلطان بنئے کو ٹھوکر مارتا ہے اور ترازو یعقوب ناظر کے حوالے کردیتا ہے۔
سلطان: معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔ قانون بالکل واضح ہے۔ جتنا کم تولوگے–– اُتنا تمہارے جسم سے کاٹ کربرابر کیا جائے گا کیوں یعقوب ناظر! یہی قانون ہے نا؟
بنیا روئے جارہا ہے۔ چیخیں مارمارکر رورہا ہے۔
بنیا: حضور معافی–– حضور رحم۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔
سلطان: (بدستور بغیر آواز بلند کئے اس کے لہجے میں تھوڑی سی کرختگی آجاتی ہے) ویسے بھی اس کے بدن پر ضرورت سے زیادہ گوشت جمع ہو گیا ہے۔ یعقوب! اس کے کولہوں سے دو سیر گوشت کاٹ کر اس ترازو میں ڈال دو تاکہ وزن برابر ہوجائے۔ لے جاﺅ۔
سلطان مڑکر چلا جاتا ہے اور اپنے تخت پر بیٹھ جاتا ہے ۔ سپاہی بنئے کو گھسیٹ کر لے جاتے ہیں۔ وہ دھاڑیں مارمار کر رورہا ہے ۔ اور ”رحم۔ معافی۔ سرکار“ دوہراتا جاتا ہے چھوٹا لڑکا اپنی گٹھڑی اٹھائے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا نکل جاتا ہے۔ سلطان ایک کاغذ اُٹھاتا ہے۔
سلطان: یعقوب ناظر، یہ شکایت ہمارے مشعل خانے کے داروغہ سے آئی ہے–– تیل کے سوداگر نارائن کے خلاف–– اشارہ کرتے ہوئے۔
لاﺅ اُسے––
دو محافظ ایک اور موٹے بنیے ¿ کو پکڑے ہوئے لاتے ہیں۔ وہ رورہا ہے۔ آتے ہی زمین پر گر جاتا ہے اور چیخنے چلانے لگتا ہے۔
نارائن: میں بے قصور ہُوں ۔میں بے قصور ہُوں۔
سلطان: کیوں نارائن؟–– میں نے ہر جنس کی قیمت تم لوگوں سے مشورہ کرکے مقرر کی ہوئی ہے۔ اس میں تمہارا جائز منافع رکھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود تم لوگ حرام خوریوں سے باز نہیں آئے؟
نارائن: میں بے قصور ہوں، میں بے قصور ہوں۔
سلطان: (سب کومخاطب کرکے) اس ”بے قصور“ نے شاہی مشعل خانے سے تیل کے دام مقررہ نرخ سے چار گنا زیادہ وضع کئے ہیں۔ اس کا خیال ہوگا کہ جو جنس منوں کے حساب سے خرچ ہوتی ہے۔ اس میں ہیر پھیر کا کوئی پتہ نہیں چلے گا؟ کون شاہی محل میں بیٹھا ہُوا حساب کرتا ہوگا! اسے معلوم نہیں کہ میں شاہی محل کے خرچ کا حساب رکھتا ہُوں۔ اور منڈی کے نرخوں میں کمی زیادتی کا ہرروز جائزہ لیتا ہوں––کیوں لالہ؟ تم نے اسی طرح ہیر پھیر کرکے شہرنو میں دو حویلیاں کھڑی کرلی ہیں؟–– تم تیل بیچتے ہو یا ہمارا تیل نکالتے ہو؟
نارائن: (بد ستور روتے ہوئے) سرکار–– سلطانِ معظم–– میں بے قصور ہُوں۔ میرے منشی نے حساب میں غلطی کردی ہے۔
سلطان: ٹھیک ہے! —یعقوب ! اس کے منشی کو بھی پکڑ لو۔ اس کی ساری جائداد ضبط کر لو اور ان دونوں کو کولہو میں ڈال کران کا تیل برآمد کرو۔
نارائن یہ سُن کر سکتے میں آجاتا ہے اور پھر چیخ مار کر بے ہوش ہوجاتا ہے۔
__________
سین (3)
برنی کے گھر میں —رات
برنی اپنی گود میں ستار لئے اس کی طربیں کَس رہا ہے۔ اور اُن کے سُرملاکردیکھ رہا ہے ۔تاج الدین عراقی اس کے پاس بیٹھا ہے — جو ناخان اور نجم الدین انتشار کھڑے ہیں۔ جیسے ابھی آئے ہوں جو نا خان ہنس رہا ہے۔
برنی: تم ہنس رہے ہو ! —ہنسی کی کیا بات ہے؟
جوناخان: میںہنس رہا ہوں کہ سلطان علاﺅالدین نے کیسے دُنیا کو سیدھا کردیا ہے۔ اس کی طربیں ایسی کسی ہیں کہ اب کوئی بے سُری آواز کہیں سے برآمد نہیں ہوتی۔ شراب پرپابندی سے اس نظم وضبط میں اضافہ ہوجائے گا۔
برنی: تم ہمیشہ سے سلطان کے پرستاررہے ہو۔ اور ایک عرصہ دلّی سے باہر گزار کر آئے ہو۔ اِس لیے نہیں جانتے کہ یہاں کیا ہورہا ہے اور سلطان کی سختی سے اندر ہی اندر کیا مواد پک رہا ہے۔
جوناخان: کیا ہورہا ہے۔ تمہارے اپنے قول کے مطابق ہرطرف امن و امان ہے۔ چیزوں کی اتنی ارزانی ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ دُکاندار اور تاجر مقرر نرخوں پر اشیاءفروخت کرنے پر مجبورہیں اور ایماندار ہوگئے ہیں۔ تم جانتے ہوکہ اس طبقے کے لیے ایماندار ہونا کتنا مشکل ہے۔ ہرگروہ کے اہل ہنر اور ماہرین دلّی میں جمع ہیں اور اسے رشکِ بغداد اور غیرتِ مصر بنا دیا ہے۔ محکمہ ¿ تعمیرات میں ستر ہزار کاریگر موجود ہیں ۔ جودو ۲تین دن میں محل اور دو ہفتے میں پورا قلعہ تعمیر کردیتے ہیں۔مسجد یں،قلعے برج، حوض، اتنے تعمیر ہوگئے ہیں کہ پہلے کبھی نہ تھے۔ ایک عظیم لشکر بہت تھوڑے خرچ سے منظم اور مرصع ہوچکا ہے۔جس سے حدودِ سلطنت میں استقامت پیدا ہوگئی ہے۔ امراءمیں سے کسی کو سر اُٹھانے کی جرا ¿ت نہیں ہوتی۔ تمام باغی اور سرکش راجہ چودھری اور مقدم اطاعت گذار اور فرماں بردار ہوگئے ہیں۔ دوردراز کی ولایات سلطنت میں شامل ہوگئی ہیں۔ مغلوں کا مکمل استحصال ہوچکا ہے ۔ حتیٰ کہ کابل اور غزنی تک میں سلطان کا سکہ چلتا ہے۔ چاروں جانب کے راستے محفوظ ہیں۔ اور وہی لوگ جوراہزنی کرتے تھے، اب ان راستوں کے نگہبان اور محافظ ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دلّی کے عوام و خواص کے دل نیکی، راستی‘ دیانت ، انصاف اور پرہیزگاری کی طرف مائل ہوگئے ہیں کیا یہ سب کچھ سلطان کی کرامت نہیں؟ اور اب اُم الخبائث کو یکسر ممنوع کردیا ہے — ایسا کبھی‘ کسی زمانے میں ہوا ہے؟
اُس کے قریب بیٹھ جاتا ہے۔
برنی: یہ سب ٹھیک ہے میرے دوست لیکن —
جوناخان: ویسے سلطان خودکیا کرتا ہے؟
برنی: اوروں کے لیے شراب پرپابندی لگانے سے پہلے اُس نے خودشراب ترک کردی ہے۔
جونا خان: واللہ؟
تاج الدین عراقی: عجب نظارہ تھا۔ شاہی مجلس خانے میں سے شراب کے بھرے ہوئے مٹکوں اور قرابوں کو بدایوں دروازہ کے باہر لاتے تھے اور کمال بے دردی سے اسے زمین پربہادیتے تھے۔یہاں تک کہ دور تک کیچڑ ہوگئی۔
نجم الدین انتشار: افسوس! اتنی قیمتی شراب کو یوں ضائع کردیا گیا۔
تاج الدین عراقی: شیشے، بلور، اور چینی کے ظروف ،صراحیاں ،پیالے توڑدئیے گئے — اور وہاں شیشے اور چینی کے ٹکڑوں کا ڈھیر لگ گیا۔
برنی: اب کہیں سے چوری چھپے لائی ہوئی شراب کا سُراغ ملتا ہے تو اُسے ضبط کرکے ہاتھیوں کو پلادیا جاتا ہے۔
نجم الدین انتشار: اور بادہ کش خشک ہونٹوں پر زبانیں پھیرتے ہیں ہاتھیوں پر رشک کرتے ہیں اور سلطان کے ڈرسے خاموش دل ہی دل میں آہ وفغاں کرتے ہیں۔
جونا خان: (ہنستا ہے) واللہ! سلطان کی ستم ظریفی کاجواب نہیں۔
نجم الدین انتشار: ایک قاضی کے قتل نے دُنیا کو اس مصیبت میں گرفتار کردیا ہے۔
جونا خان: قاضی کا قتل؟
نجم الدین انتشار: ایک رات شراب کے نشے میں چور سلطان علاﺅالدین قاضی بہاءاللہ سے ناراض ہوگیا۔ اور اس کے قتل کا حکم دے دیا۔ لیکن صبح کواپنے اس حکم کی غلطی اور زیادتی معلوم ہوئی تو شراب سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرلی۔
تاج الدین عراقی: اور اپنے گناہ کا بدلہ سارے ملک کے بادہ نوشوں سے لے لیا۔
برنی: نہیں یہ اتنی سی بات نہیں تھی۔ شراب پر پابندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ سلطان امرا ¿ کے آپس کے میل جول کوروکنا چاہتا تھا۔ ا س کے خیال میں لوگ شراب کی مجلسوں میں بیٹھ کر فضول باتیں کرتے ہیں اور سازشوں کی داغ بیل ڈالتے ہیں۔ شراب کی محفل تورہی ۔ اب تو ہر قسم کی مجلس سازی پر پابندی ہے۔ کوئی اپنے دوستوں رشتہ داروں کو اپنے گھر بلا نہیں سکتا۔ جب تک کہ سلطان سے اجازت نہ لے لے۔
نجم الدین انتشار: سخت ہیبت ناک منظر ہے۔ دلّی کیا ہے۔ ایک صحرائے بے آب و گیاہ ہے۔
برنی: امرا ¿ آپس میں شادیاں نہیں کرسکتے، جب تک کہ سلطان سے مشورہ نہ کرلیں۔
جونا خان: اور لوگ اتنی کڑی پابندیاں برداشت کرلیتے ہیں؟
برنی: اس لیے کہ ہروقت سرپر تلوار لٹکتی رہی ہے — اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ سلطان کے خوف سے کوئی شخص بازار میں۔یا گھر میں — بلند آواز سے بات نہیں کرسکتا۔ لوگ دربار میں بھی اگر ایک دوسے سے اشارے میں بات کرتے ہیں تو احتیاط سے ۔ کیوں کہ سلطان کے کانوں اور آنکھوں سے کوئی آواز —کوئی حرکت پوشیدہ نہیں۔
جونا خان: تو سلطان بلبن کا زمانہ واپس آگیا ہے۔
برنی: بلبن سے ہزار گناہ زیادہ۔ لاتعداد جاسوس اور مخبر دن رات لوگوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات اس تک پہنچتی ہے۔
جونا خان: ہماری یہ باتیں بھی؟
برنی: کوئی تعجب نہیں کہ کل تم دربار میں جاﺅ تو سلطان تمہیں حرف بحرف ہماری ساری گفتگو کی روئداد سُنا دے۔
جونا خان: خوب! —سلطان کے کمالات کی کوئی حد نہیں۔ وہ مکمل نظم و ضبط قائم کرنا چاہتا ہے۔
نجم الدین انتشار: اس کو نظم و ضبط کہتے ہیں؟ یہ توقید خانے کی کیفیت ہے سلطنت کیا ہے ایک وسع و عریض قید خانہ ہے۔
برنی: اور تعجب یہ ہے کہ لوگ اس قید خانے کوپسند کرتے ہیں۔ اس کی روز بروز توسیع پر خوشیاں مناتے ہیں۔ ملک نائب کافور کی تازہ فتوحات پرہر دلّی والا اس طرح سینہ پُھلاکر پھرتا ہے جیسے خود اسی نے دکن فتح کیا ہو۔
جونا خان: تم خوش نہیں ہو؟
برنی: نہیں (طربیں کستے کستے ایک تار جھنجھنا کر ٹوٹ جاتا ہے) دیکھا؟ اگر ستار کے تاروں کو حد سے زیادہ کس دیا جائے تو کیا ہوتا ہے؟ (ستار کو پرے رکھ دیتا ہے۔ اور اٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے)سلطنت کے تاروں کو بھی سلطان علاﺅالدین نے مکمل نظم وضبط کی خواہش میں اتنا کس دیا ہے کہ شکست و ریخت لازمی ہوگئی ہے۔
جونا خان: تم پُرانے خاندانوں کے لوگ اس نئے زمانے سے ہمیشہ شاکی رہو گے۔
برنی: نئے پُرانے کاسوال نہیں۔ (کھڑکی کی طرف جاتا ہے اور باہر اندھیرے میں دیکھتا ہے) ستاروں کی چال بڑے ہولناک فتنوں کاپتہ دیتی ہے۔ سلطان بےمار رہنے لگا ہے۔ اس سے اس کی بدخوئی اور بدمزاجی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ شہزادہ خضر خاں کو وقت سے پہلے چتر اور دورباش دے کر اس کا محل اور دربار علیحدہ کردیا گیا ہے۔ وہ عیش وعشرت اور ہواو ہوس میں گرفتار ہے۔ ملکہ کابھائی اور خضر خاں کا خُسر الپ خاں‘ ملک نائب کا فور سے خار کھائے ہوئے ہے۔ اور ملک نائب کافور سلطان پراس طرح حاوی ہے کہ جیسے کوئی بدروح اس کے اندر حلول کرگئی ہے۔
__________

سین (4)
سلطان کی مجلس خاص کی ڈیوڑھی__ رات
ملک نائب کافور اور ملک کمال الدین گرگ کھڑے آہستہ آہستہ باتیں کررہے ہیں —ملک کافور چھریرے بدن کا خوبرو جوان ہے۔ بہت مختصر سی داڑھی رکھے ہوئے۔ خط بہت احتیاط سے بنایا گیا ہے۔ اس کے کانوں میں بڑے بڑے بالے ہیں۔ جیسے مرہٹوں کے کانوں میں ہوا کرتے تھے۔اس کی بغل میں کاغذوں کا یک پلندہ ہے — کمال الدین گرگ ایک ادھیڑ عمر سپاہی زادہ ہے۔ اس کی شکل سے وحشیانہ پن اور درشتی نمودار ہے۔
کافور: (مجلس خانے کے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے ) بہت دیر ہوگئی۔ ابھی تک سلطان معظم حرم سراسے باہر نہیں آئے۔
کمال الدین گرگ: کافور میری رائے ہے کہ تم اپنا جانا ملتوی کردو۔
کافور: کیوں
کمال الدین گرگ: بندہ ¿ خدا تم سمجھتے کیوں نہیں۔ تمہارے جانے سے بازی بگڑجائے گی۔
کافور: میرا جانارک نہیں سکتا۔سلطانِ معظم کاحکم ہے۔
کمال الدین گرگ: تم کچھ دن تک رُکے رہو، تو بہتر ہے بےماری کا بہانہ بنالو۔
کافور: اس سے فائدہ کیا ہوگا؟
کمال الدین گرگ: فائدہ کوئی بھی نہ ہو۔ دربار میں الپ خان کی بڑھتی ہوئی طاقت حدکے اندر رہے گی۔
کافور: اور اگر میں یہاں نہ ہوا؟
کمال الدین گرگ: تو ہمارا کام تمام ہوجائے گا۔
کافور: ملک کمال الدین گرگ مجھے افسوس ہے کہ تم ہماری طاقت کا غلط اندازہ لگارہے ہو۔
کمال الدین گرگ: اور تم الپ خان کی طاقت کاغلط اندازہ کررہے ہو جب سے شہزادہ خضر خان سے اس کی بیٹی کی شادی ہوئی ہے۔ اُس کا اثررسوخ بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ نہ بھولو کہ وہ سلطان کا دیرینہ معاون اور یارِغار ہے۔ اس شادی کے بعدتو وہ اپنے آپ کوسلطان کاقائم مقام سمجھنے لگاہے۔
کافور: (ہنس کر) سلطان علاﺅالدین کاقائم مقام؟ الپ خان؟ تم خواہ مخواہ اُسے ہوابنارہے ہو —اس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
کمال الدین گرگ: ڈرنے کی وجہ تو ہے۔ وہ ملکہ ¿ جہاں کا بھائی ہے۔ دلی عہد سلطنت کاخسرہے۔ اور اسی کی سفارش پر شہزادہ خضر خان کوچتر اور دورباش دے کر دربار لگانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
کافور: اس کھیل تماشے میں کیا رکھا ہے؟ سلطان نے محض ملکہ ¿ جہاں کادل رکھنے کے لیے شہزادے کو یہ بے معنی ناٹک رچانے کی اجازت دی ہے۔ سلطان کومعلوم ہے کہ خضر خان کے لیے سلطنت کاکاروبار سنبھالنا ناممکن ہے۔
کمال الدین گرگ: تمہارے جانے کے بعدالپ خان اور خضر خان مل کر یہ کام سنبھال لیں گے۔ ملکہ ¿ جہاں کی یہی مرضی ہے۔
کافور: وہ مل کر کچھ نہیں کرسکتے؟ تمہیں معلوم نہیں خضر خان کی بیوی لڑکراپنے باپ کے گھرواپس چلی گئی ہے۔ کیونکہ خضرخان دیول دیوی سے شادی رچانے پرتلا ہوا ہے۔ الپ خان سخت ناراض ہے۔
کمال الدین گرگ: میرا تو خیال تھا کہ دیول دیوی کامعاملہ ختم ہوچکا ہے۔
کافور: ملکہ ¿ جہاں نے سوچا تھا کہ خضر خان کی شادی اس کی بھتیجی سے ہوجائے تو معاملہ ختم ہو جائے گا۔لیکن شادی کے بعدخضر خان کی آتشِ شوق اور بھی بھڑک اٹھی ہے۔اب وہ دونوں چھپ چھپ کرملتے ہیں اور شہزادہ ضد کررہا ہے کہ وہ دیول دیوی سے شادی کرکے رہے گا۔
الپ خان داخل ہوتا ہے۔
الپ خان: آہا— ملک کمال الدین گرگ — اور نائب تاج الدین! بھئی کیا گھل مل کر باتیں ہورہی ہیں؟
کمال الدین گرگ: آہا — الپ خان!
الپ خان: (ہنسی ہنسی میں) چونک پڑے؟ کوئی سازش کررہے ہو ملک کافور کے ساتھ مل کر؟
کافور: (ہنس کر) تمہارے ہی خلاف سازش کررہے تھے۔
الپ خان: (تنک کر) بیکار ہے۔ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
کافور: (معنی خیز انداز میں) اپنی سی کوشش تو ہم کر رہے ہیں۔
الپ خان: ناکام رہوگے — ویسے تمہیں دکن جانے کا حکم ہوا تھا۔ ابھی گئے نہیں؟
کافور: چلا جاﺅںگا۔ تمہیں کیوں فکر ہے؟
الپ خاں: مجھے فکر کیوں ہونے لگی۔ سلطانِ معظم پوچھ رہے تھے کچھ ناراض بھی تھے کہ دکن میں شورش ہورہی ہے۔ اور تم ابھی تک یہیں بیٹھے ہو۔
کافور: تعجب ہے۔ میں شام کو دربار میں حاضر ہوا تھا ۔ اس وقت تو ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔
الپ خاں: (جھینپ کر) اچھا؟
کافور: (چوٹ کرتے ہوئے) شہزادہ خضر خاں کو کچھ دنوں سے نہیںدیکھا۔ سُنا ہے کچھ طبیعت ناساز ہے۔
الپ خاں: نہیں تو — بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔
کافور: ایک افواہ سی سنی تھی کہ شاید میاں بیوی میں کوئی جھگڑا ہوگیا ہے؟
الپ خاں: تو تمہیں اس سے کیا؟ (برافروختہ ہوکر) تم اپنے کام سے کام رکھو۔
کافور: اوہو —میں معافی چاہتا ہوں ۔ میں نے توازراہ ہمدردی پوچھا تھا۔
الپ خاں: (اور ناراض ہوکر) مجھے تمہاری ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں — اور ہمدردی کس بات کی؟ —آئندہ میرے معاملات میں دخل دینے کی کوشش نہ کرنا۔
پیر پٹختے ہوئے چلا جاتا ہے۔
کافور: اوہو ہو ہو — اتنا غصہ !معلوم ہوتا ہے کہ شہزادہ خضر خاں سے زبردست لڑائی ہوئی ہے ۔یا ہونے والی ہے۔
کمال الدین گرگ: تمہاری اطلاع درست معلوم ہوتی ہے۔ وہ تو شہزادہ خضر خاں کا نام آتے ہی بھڑک اُٹھا۔
کافور: اور تم کہتے ہو کہ یہ مل کر میرے خلاف کام کریں گے؟
کمال الدین گرگ: پھر بھی تمہارا جانا درست نہیں ہے۔
__________

سین (5)
حرم سرا میں ملکہ ¿ جہاں کا ایوان —رات
ملکہ ¿ جہاں مسند پر بیٹھی ہے۔ شہزادہ خضر خاں اس کے قریب نیم دراز ہے — سلطان علاﺅالدین غصے میں اِدھر اُدھر ٹہل رہا ہے۔
ملکہ جہاں: آخر یہ آپ کا بھی بیٹا ہے۔
سلطان: میرا بیٹا ہے ۔لیکن سخت نافرمان ہے۔
خضر خاں: اباجان! خدا کے لیے غور کیجئے۔ یہ میری زندگی اور موت کا سوال ہے۔
علاﺅالدین: تمہارے لیے ہر عورت زندگی اور موت کا سوال بن جاتی ہے لیکن یاد رکھو میں اس معاملے میں کچھ نہیں کروں گا۔
ملکہ ¿ جہاں: آپ کنول دیوی سے دیول دیوی کا رشتہ تومانگ سکتے ہیں۔
علاﺅالدین: یہ میرا کام نہیں ہے۔ اگر تمہیں اتنی ہی خواہش ہے تو خود کیوں نہیں اس سے کہتی؟
ملکہ ¿ جہاں: اگر ایسی ہی بات ہے تو میں خود چلی جاﺅں گی ۔ مجھے اپنے بیٹے کی زندگی اپنی عزت سے بھی زیادہ عزیز ہے۔
علاﺅالدین: لیکن ماہک بےگم! اصل معاملہ دیول دیوی کا نہیں۔ وہ تو بعد کی بات ہے۔ میں الپ خان کو کیا جواب دوں گا؟ ابھی چھ مہینے ہوئے اس کی لڑکی اس گھر میں بیاہ کر آئی ہے اور اب میاں صاحبزادے اس کے اوپر ایک سوت لانے پر اصرار کررہے ہیں۔
ملکہ ¿ جہاں: شہناز میری بھتیجی ہے۔ میں اس کو سمجھا لوں گی۔
سلطان: خاک سمجھا لوگی۔ سخت بے عزتی کی بات ہے۔ چھ مہینے شادی کو ہوئے ہیں اور دلہن کو واپس اس کے باپ کے گھر بھیج دیا۔
خضر خاں: وہ سخت بدزبان عورت ہے ۔میرا س کے ساتھ نباہ نہیں ہوسکتا۔
سلطان: پھر اس کے ساتھ شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
خضر خاں: اماں جان سے پوچھئے — میں تو پہلے ہی اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا —اماں جان نے مجھے مجبور کردیا۔
ملکہ ¿ جہاں: میں تو سمجھی تھی میرے بھائی کی بچی ہے۔ گھر کی بات گھر میں ہی میں رہے گی لیکن وہ تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر آئی تھی۔مجھ پر بھی حکم چلانے لگی۔
خضر خاں: اچھا تو تم خود ہی اس بات کا فیصلہ کرو۔میں جاتا ہوں۔
ملکہ ¿ جہاں: ایسی جلدی بھی کیا ہے؟
سلطان: ملک نائب کے ساتھ کچھ مشورے کرنے ہیں۔
ملکہ ¿ جہاں: تم تو ایسے بھاگ بھاگ کر ا س کے پاس جاتے ہو۔ جیسے اُس پر فریفتہ ہو۔
سلطان: بکومت۔ ہمیں نہایت اہم فیصلے کرنے ہیں (جانے لگتا ہے) ۔
خضر خاں: اور میرا فیصلہ کیا ہوا؟
سلطان: یہ تم اور تمہاری ماں جانو۔ میں اس بکھیڑے میں نہیں آﺅں گا۔
خضر خاں: تو میں خود کشی کرلوںگا۔
سلطان: یہ سب سے اچھی بات ہے۔ جو لوگ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ان کے لیے اس دُنیا میں کوئی جگہ نہیں۔
الپ خاں تیزی سے داخل ہوتا ہے۔ خضر خاں اُٹھ کر بیٹھ جاتا ہے۔
سلطان: (پھیکی سی ہنسی کے ساتھ) آہا —ار —ہوں ۔ توتم آگئے سنجر!
الپ خاں: (روکھائی سے) ہاں۔ سلطانِ معظم۔ میں حاضر ہوگیا۔
ملکہ ¿ جہاں: آئیے۔ آئیے بھائی جان —یہاں بیٹھئے۔
خضر خاں ماموں کے لیے اپنی جگہ خالی کردیتا ہے۔
خضر خان: آئیے۔ ماموں جان ، یہاں بیٹھئے۔
الپ خان: (غصے سے اُسے دیکھتے ہوئے) میں بیٹھنے نہیں آیا۔
سلطان: (موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے) اچھا سنجر۔ تم دونوں بہن بھائی باتیں کرو۔ مجھے اب جانا ہے۔ غازی ملک کو مشورے کے لیے بلایا ہے۔ اور قاضی مغیث بھی آرہے ہیں اور بھی بہت سے لوگ آرہے ہیں۔ تم یہاں سے فارغ ہوجاﺅ تو آجانا۔
الپ خان: میں پوچھنے آیا ہوں کہ میرے لیے کیا حکم ہے؟
سلطان: (حیرت سے) کیا حکم ہے؟ کیا مطلب؟
الپ خان: کیا میں دریا میں ڈوب مروں یا خنجر سے اپنا کام تمام کرلوں؟
سلطان: سنجر — کیسی باتیں کرتے ہو؟
ملکہ ¿ جہاں: بھائی جان۔ خدا کے لیے — ذرا تحمل سے کام لیجئے۔
الپ خاں: تحمل؟ تحمل سے کام لوں؟ سارے شہر میں بات پھیل گئی ہے۔ ابھی میں اوپر آرہا تھا تو ملک نائب نے اسی حوالے سے مجھ پر چوٹ کی۔
ملکہ ¿ جہاں: خدا اسے غارت کرے۔ بھائی جان۔ ایسے جھگڑے گھروں میں ہو ہی جاتے ہیں۔ لوگوں کا کیا ہے !وہ تو باتیں بناتے ہی رہتے ہیں۔
الپ خان: (غصے سے) میں تو یہ پوچھتا ہوں کہ اگر خضر کی مرضی نہیں تھی تو اسے میری لڑکی کی زندگی برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ —
__________

سین (6)
سلطان کی مجلسِ خاص کی ڈیوڑھی — رات
ملک کافور اور کمال الدین گرگ کے علاوہ اب غازی ملک تغلق اور جونا خان بھی کھڑے انتظار کررہے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ آپس میں باتیں کرتے جاتے ہیں۔
غازی ملک تغلق: سلطانِ معظم کو اس معاملے میں فوراً اقدامات کرنے چاہئیں‘ ورنہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔
ملک کافور: آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، غازی ملک! سلطانِ معظم اس خطرے سے آگاہ ہیں۔
غازی ملک: خطرے سے آگاہ ہونا ہی کافی نہیں ہے (اُسے اپنے ساتھ پرے لے جاتا ہے اور ا س کے کان میں سرگوشی کرتا ہے)۔
سلطان داخل ہوتا ہے۔
سلطان: آخاہ — غازی ملک تغلق! —
غازی ملک اور ملک کافور اس اچانک خطاب سے خوف زدہ ہوکر الگ ہوجاتے ہیں۔ اور کورنش کرتے ہیں۔
سلطان: تم لوگ سرگوشیوں میں کیا باتیں کررہے تھے ؟ کیا میرے خلاف کوئی سازش کررہے تھے؟
ملک غازی: خداوندِ عالم! میں نائب کو ایک نہایت خفیہ اطلاع دے رہا تھا۔ جو آج ہی میرے کانوں تک پہونچی ہے۔ اور جس پر فوری اقدام لازمی ہے۔
سلطان: تو آﺅ — بیٹھ کر بات کریں گے (مڑکر دیکھتا ہے) قاضی مغیث کو میں نے طلب کیا تھا۔ وہ نہیں آئے۔
قاضی مغیث داخل ہوتا ہے۔ اور کورنش کرتا ہے۔
قاضی مغیث: سلطانِ معظم!
سلطان: آﺅ۔ قاضی مغیث۔ تمہاری عمر بہت لمبی ہے۔ ابھی میں تمہارے بارے میں ہی پوچھ رہا تھا — آﺅ —
سب لوگ مجلس خاص کے ایوان میں جاتے ہیں۔
__________

سین (7)
مجلسِ خاص کے ایوان کے اندر —رات
سلطان مسند پر بیٹھ جاتا ہے۔ باقی لوگ کھڑے رہتے ہیں ملک نائب سلطان کے قریب جاکر کھڑا ہوجاتا ہے۔
سلطان: غازی ملک! تمہیں بیٹھنے کی اجازت ہے (غازی ملک بیٹھ جاتا ہے) اور قاضی مغیث! آپ بھی تشریف رکھئے (قاضی مغیث بیٹھ جاتا ہے) غازی ملک۔ اب بتاﺅ کیا معاملہ ہے ۔ ملک کافور جھک کر سلطان کے کان میں کچھ کہتا ہے۔
سلطان: (اُس کی طرف دیکھتا ہے۔ پھر غازی ملک کی طرف) بہت خوب ! غازی ملک!
غازی ملک: سلطانِ معظم ! کچھ عرصے سے نومسلم مغل لشکر یوں میں بے چینی پائی جاتی تھی۔ اور مجھے اس کا سبب معلوم نہ ہوتا تھا۔ آج میرے فرزند جونا خاں نے جو میرے ساتھ ہی دلّی آیا ہے۔ اپنے ذرائع سے معلوم کیا ہے کہ معاملہ بہت دُور تک جا پہنچا ہے۔
سلطان: (جونا خان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے) تو جونا خان۔ تم نے آتے ہی معلوم کر لیا ۔تمہارے کان بڑے تیز ہیں۔
جونا خان: خداوندِعالم۔ ہم خانہ زادوں کو ہر وقت یہ جستجو رہتی ہے کہ سلطنت کو پیش آنے والے خطروں کا محاسبہ کرتے رہیں۔
سلطان: تمہارے والد نے اپنی ساری عمر مغلوں کے حملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گزاری ہے۔ ہم اس کے احسانات کا بدلہ نہیں اُتار سکتے۔ اب تم ہمیں مغلوں کی اندرونی سازشوں سے آگاہ کرکے اپنا ممنون احسان بنانا چاہتے ہو۔
جونا خان: سلطانِ معظم کی ذرّہ نوازی اور غریب پروری بے حدو نہایت ہے۔
سلطان: (ہنس کر) اچھا اب یہ درباری تکلفات چھوڑو۔ تمہاری اطلاع کے مطابق ان کا سرغنہ کون ہے؟
جوناخان: (چاروں طرف دیکھ کر) ہوسکتا ہے ۔میری اطلاع درست نہ ہو۔
سلطان: ڈرو نہیں۔ کیا وہ یہاں موجود ہے؟
جونا خان: (پھر دیکھ کر) نہیں۔
سلطان: کون ہے وہ؟
جونا خان: ملک ابا جی مغل —
سلطان: تمہاری اطلاع درست ہے۔ ہمیں علم ہے۔ ہم یہاں بے خبر نہیں بیٹھے ہوئے — اباجی مغل یہاں اس لیے موجود نہیں کہ اُسے آج شام حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اور اُس کے ساتھ اس کے بہت سے ساتھیوں کو۔ ملک نائب کافور نے بہت پہلے سے اس سازش کے بارے میں تمام اطلاعات حاصل کرلی تھیں۔ آج میں نے آپ لوگوں کو اس لیے طلب کیا ہے کہ اس سلسلے میں جو اقدام میں کررہا ہوں اس سے آپ ناواقف نہ ہوں۔
میں نے اس سازش کو جڑسے اکھاڑ پھینکا ہے۔ میں نے حکم دیا ہے کہ کل صبح اباجی مغل اور اس کے سارے ساتھیوں کو سرعام پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس سارے مفسد گروہ کو۔ جنہیں ہم نے اپنے لشکر میں جگہ دی ہوئی تھی۔ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کرنے کے احکام جاری کر دئیے گئے ہیں۔ آج سے ہر شہر میں اور سارے لشکر میں، جتنے بھی مغل موجود ہیں۔ ان کو تہ تیغ کر دینے کا اذنِ عام ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ سلطنت میں کہیں ایک مغل بھی باقی نہ رہے۔
قاضی مغیث: (اُٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے) سلطانِ معظم ! یہ حکم سارے مغلوں کے بارے میں ہے؟
سلطان: ہاں — ایک ایک مغل — مردوزن — بچہ بوڑھا — جوان —ہر ایک مغل —
قاضی مغیث: خداوندِعالم! یہ سب مسلمان ہیں۔ ان سب کا خون واجب نہیں جب تک ان میں سے ہر ایک پر الزام ثابت نہ ہو جائے پھر عورتوں اور بچوں کا قتل کسی صورت بھی جائز نہیں ہے۔
سلطان: (غضب ناک ہو کر آواز بلند کرتا ہے) مجھے معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا۔ لیکن میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ قدم اُٹھایا ہے یہ لوگ ہر وقت میرے خلاف کوئی نہ کوئی فتنہ اٹھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ یہ فطری طورپر میرے اور میری سلطنت کے حریف ہیں، میرے اور اُن کے درمیان کبھی صلح نہیں ہو سکتی۔ اس لیے میں اُنہیں بیخ وبن سے اُکھاڑ کر پھینک دوں گا۔ ان کی نسل تک کو نابود کردوں گا۔ نابود کردوں گا۔ سمجھے۔
قاضی مغیث: سلطانِ معظم! آپ مصلحتِ ملکی کے تحت جوبھی کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ آپ کا اقدام شرع کے حکم کے مطابق ہو!(بیٹھ جاتا ہے)۔
سلطان غور سے اُس کی طرف دیکھتا ہے۔
پھر اُٹھتا ہے۔ بلند آواز سے ڈانٹتے ہوئے اس کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔
سلطان: (چیخ کر) قاضی مغیث!
ایک دو قدم چلنے کے بعد وہ رُک جاتا ہے۔ اور کسی شرابی کی طرح لڑکھڑانے لگتا ہے۔ وہ اپنا ہاتھ اٹھا کر اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتا ہے۔ پھر جیسے گرنے لگتا ہے ملک کافور آگے بڑھ کر اُسے تھام لیتا ہے۔
ملک کافور: سلطانِ معظم! کیا بات ہے؟
سلطان: (آنکھیں جھپک کراس کی طرف دیکھتا ہے) کچھ نہیں۔(مسکراتا ہے) کچھ نہیں۔ ملک کافور!
ملک کافور: (اُسے تخت کی طرف لے جاتے ہوئے ایک غلام سے) پانی — حضور تشریف رکھیں۔
سلطان: (مسند پر بیٹھتے ہوئے) ہاں ۔ اب ٹھیک ہے۔ کچھ دن سے مجھے بیٹھے بیٹھے چکر آجاتا ہے۔
غلام پانی دیتا ہے۔ سلطان پیتاہے۔
سلطان: کوئی فکر کی بات نہیں (آہستہ سے ہنستا ہے) قاضی مغیث تو پڑھا لکھا ضرور ہے مگر تجربہ نہیں رکھتا ۔ میں پڑھا لکھا نہیں۔ مگر تجربہ رکھتا ہوں۔ میں نے اس تھوڑے سے وقت میں اس سلطنت کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے۔میں نے زیردستوں کو زبردستوں کے نیچے سے رہا کیا ہے اور غریبوں پر سے امیروں کا بوجھ دور کیا ہے۔ اس وسیع علاقے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک راستوں پر مکمل امن قائم کردیا ہے۔ میں نے منڈیوں اور بازاروں میں اجناس اور چیزوں کی اتنی فراوانی اور قیمتوں میں اتنی ارزانی پیدا کردی ہے کہ لوگ اُسے عجوبہ اور معجزہ سمجھتے ہیں۔ میں نے نظم وضبط کو اتنا سخت کردیا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے پر ظلم و ستم روا نہیں رکھ سکتا۔ نہ کوئی کسی دوسرے کا محتاج وپابند ہے۔ خودرائے امیرانِ لشکر کو میں نے الگ کردیا ہے کہ اس زمانے میں ایسے لوگ بہت ہوگئے تھے جو سوائے باتیں بنانے اور مونچھوں پر تاﺅدینے کے اور کچھ نہیں کرسکتے۔ میں نے ایسے اصول اور ایسے ضابطے بنادئیے ہیں کہ اُن کی پابندی کے بعد کوئی بھی شخص حتیٰ کہ خانہ زاد غلام بھی حتیٰ کہ ایک کمزور عورت بھی — اقلیمیں اور ممالک فتح کر سکتے ہیں اور اس سلطنت کے کاروبار کو آسانی سے چلا سکتے ہیں۔ میں نے ثابت کردیا ہے کہ سلطنت اور کاروبار سلطنت ترک اور غیر ترک، اعلیٰ نسل اور ادنی نسل،ولایتی اور مقامی کا معاملہ نہیں۔ اصولوں اور ضابطوں اور تنظیم کا معاملہ ہے۔ میں نے اس وسیع سلطنت کو ایک ایسی عظیم کل میں تبدیل کردیا ہے جو کسی بیرونی طاقت کی مدد کے بغیر آپ سے چلتی رہتی ہے۔ جس کاہر پرزہ اور ہر حصہ اپنے فرض کے احساس سے سرشار ہوکر خودبخود اپنے کام میں مصروف اور منہمک رہتا ہے۔ اور میں آرام سے سو سکتا ہوں۔ اور قاضی مغیث۔ یہ سب کچھ میں نے علم کے بغیر — اور علم والوں کی مدد کے بغیر — سرانجام دیا ہے۔
قاضی مغیث: سلطانِ معظم! (اٹھتا ہے) کوئی آپ کے کارناموں کو دیکھ کر تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن —
سلطان: ”لیکن“ (پھر اُٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے) ”لیکن“ یہ سب شرع کے خلاف ہے۔ تم یہی کہنا چاہتے ہونا — (اس کی طرف جاتا ہے اور سارے اہل دربار کے لیے آواز بلند کرتا ہے) اے مولانا مغیث! میں علم سے بے بہرہ ہوں، میں جاہل شخص ہوں۔ سوائے الحمد، قل ھو اللہ، دعائے قنوت اور التحیات کے کوئی دوسری چیز نہیں جانتا۔ میں نے کتابیں نہیں پڑھیں۔ لیکن کئی پشت سے میرا خاندان مسلمان ہے۔ اور میں مسلمان زادہ ہوں۔ میں یہ نہیں جانتا کہ میرے احکام مشروع ہوتے ہیں یا نامشروع ۔ جس چیز میں صلاحِ ملک دیکھتا ہوں اور جو کچھ مصلحتِ وقت کے مطابق نظرآتا ہے ۔ اُسی کا حکم دے دیتا ہوں۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق امن و چین اور خوشحالی سے زندگی بسر کرے۔ میں بغاوت کرروکنے کے لیے ہر طرح کی کوشش کرتا ہوں۔ کیونکہ بغاوت میں ہزاروں آدمی مارے جاتے ہیں۔ اور ملک تباہ ہوجاتا ہے۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ گستاخی اور سرکشی پر آمادہ ہیں اور میرے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ تو میرے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے۔ (وہ پھر لڑکھڑانے لگتا ہے اور اپنے اوپر ضبط قائم کرنے کے لیے اپنی بات کو دہراتا ہے)۔ میرے لیے۔ یہ ضروری ہوجاتا ہے۔ کہ اُن کے خلاف سخت اقدامات کروں۔ سخت اقدامات کروں— تاکہ وہ — تاکہ وہ —
ملک کافور اس کی طرف بڑھتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ اُسے سہارا دے سکے سلطان علاﺅالدین گرجاتا ہے۔ اور بے ہوش ہوجاتا ہے۔ سب لوگ اٹھ کر اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔
ملک کافور: (اس کے پاس دو زانو ہوکر بیٹھتا ہے۔ اور اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے) سلطانِ معظم! سلطانِ معظم!
__________
سین (8)
برنی کے گھر میں —دن
برنی، تاج الدین عراقی، بیٹھے ہیں۔ نجم الدین انتشار پاس کھڑا ہے۔
عراقی : کیا ہم کچھ نہیں کہہ سکتے؟ (دُکھ کے ساتھ) کیا ہم اتنے بے بس ہیں؟ کیا ہم کبھی کچھ نہیں کریں گے؟ ایک مخنث سلطنت کا سربراہ بنا ہوا ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
برنی: کیا؟ — ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
عراقی: حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔
نجم الدین انتشار: (تمسخر کے ساتھ) میرے عزیز!ہم اشراف اور اہل علم کا یہ منصب نہیں کہ سلطنت کے کاموں میں دخل دیں۔ یہ کام تو اب جاہلوں ، بے اصولوں، بازاری لوگوں اور مخنثوں کا ہے کہ سلطنت کو تو سیع دیں، اس میں نظم وضبط قائم کریں۔ اور اس کا رُخ جس طرف چاہیں ادھر موڑدیں۔
عراقی: تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے۔ اور اُدھر ملک کافور سلطنت پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سلطان کو بےمار ہوئے چھ۶ مہینے ہوگئے ہیں اور کافور حاکمِ مطلق بناہوا ہے۔
نجم الدین انتشار: (اُسی انداز میں) ہم لوگ ساکنانِ ساحل ہیں۔ ہم تو صرف ساحل پر بیٹھ کر نظارہ کرسکتے ہیں۔ کہ کون سی کشتی پار لگتی ہے۔ اور کون سی ڈوب جاتی ہے۔
برنی: اور اگرڈوبنے والی کشتی ہماری اپنی کشتی ہو؟
نجم الدین: ہماری کوئی کشتی نہیں ہم اہل علم و دانش کی اپنی کوئی کشتی نہیں۔میں شاعر ہوں۔ ان واقعات پر مثنوی لکھوں گا۔ عراقی مورخ ہے۔ حالات کی تفصیل جس حد تک معلوم ہوسکتی ہے اپنی تاریخ میں درج کردے گا اور تم مدنیت کے نظر یہ ساز ہو۔ بدلتے ہوئے زمانے اور پیش آمدہ حادثات کاتجزیہ کرتے رہو گے۔ بس یہی ہمارا منصب ہے اور یہی ہم کر سکتے ہیں۔
برنی: تو اس کشمکش میں ہمیں کسی کا ساتھ نہیں دینا ہوگا۔
نجم الدین انتشار: تم بتاﺅ کس کا ساتھ دینا چاہتے ہو۔ ایک طرف الپ خان ہے اور اس کا داماد خضر خاں اور اس کی بہن ملکہ ¿ جہاں۔ سلطان بےمار پڑا ہے۔ اور اُنہیں شادیوں سے فرصت نہیں ۔ پہلے خضر خان کی شادی الپ خان کی بیٹی سے ہوئی۔ پھر خضر خاں کی شادی دیول دیوی سے ہوئی۔ اب خضر خاں کے بھائی کی شادی الپ خان کی دوسری بیٹی سے ہوگی اور ابھی دو شہزادے اور باقی ہیں اور ملکہ ¿ جہاں اُن کے لیے لڑکیوں کی تلاش میں ہے ۔ الپ خاں سمجھتا ہے کہ ان شادیوں کے ذریعے سے وہ سلطنت کے کاروبار پر حاوی ہوجائے گا۔ لیکن ملک کافور — یکہ و تنہا ، ایک شخص جس کا آگاپیچھا کوئی نہیں نہ ہو سکتا ہے۔ ملک کافور — ان سب عالی نسب اُمراءاور ان کی شادیوں کی سیاست کے مقابلے میں اکیلا ڈٹا ہوا ہے۔ سب اشراف اُس سے نفرت کرتے ہیں۔ اسے ذلیل سمجھتے ہیں‘ اس لیے کہ وہ مخنث ہے۔ لیکن میری رائے میں اس سارے زمانے میں وہی ایک مرد ہے۔
برنی: ہاں اِس کی ہمت اور کوشش کی داددینی پڑتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے مولانا انتشار کہ تم ملک نائب کے حامی ہو۔
نجم الدین انتشار: اگر میں اس کشمکش میں شامل ہوتا تو یقینا اس کا حامی ہوتا۔ جو ناخان کو دیکھو!
برنی: کیا اس لیے کہ سلطان ملک کافور کی حمایت کرتاہے۔
نجم الدین انتشار: نہیں اس لیے کہ ملک کافور سلطنت کانائب ہی نہیں بلکہ اس کے اصولِ حکومت کابہترین نمائندہ ہے۔ سلطان کے بعد صرف وہی اسے چلا سکتا ہے۔
جوناخان داخل ہوتاہے۔
برنی: مولانا انتشار! تم ملک نائب کے حامی ہی نہیں ، تم تو اُسے تخت سلطنت پر متمکن دیکھنے کے خواہش مند معلوم ہوتے ہو، جونا خان تم دیر سے آئے ۔ مولانا کہتے ہیں کہ ہمیں اس ساری کشمکش سے الگ رہنا چاہیے۔ جو آج کل الپ خان اور ملک نائب کے درمیان جاری ہے۔ اور اس کے ساتھ کہتے ہیں کہ ملک نائب ہی سلطان کے بعداقتدار اعلیٰ کے لائق ہے۔
جونا خان: تم بے کار میں باتیں بنا رہے ہو۔قبل از مرگ واویلا۔ سلطان کی صحت ٹھیک ہو گئی ہے۔ اُس نے آج سارے امراءکو اپنی خواب گاہ میں بلایا تھا۔ اور ہر قسم کے احکام صادر کئے تھے۔ وہ اچھا بھلا ہے۔ اور ابھی بہت عرصے تک اس کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رہے گا۔
__________

سین (9)
سلطان کی خواب گاہ — دن
سلطان اپنے پلنگ پر پڑے پڑے گاﺅتکیوں کاسہارا لئے نیم دراز ہے وہ پہلے کی نسبت کمزور دکھائی دیتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے ہیں لیکن اس کی آواز میں کوئی نقاہت نہیں۔ نہ اس کے مزاج میں کوئی نرمی معلوم ہوتی ہے — اس کے پاﺅں کی طرف ملک کافور کھڑا ہے۔ اس کے ایک جانب شہزادہ خضر خاں اور الپ خاں کھڑے ہیں— ایک میز پر پیالے طشتریاں اور صراحیاں رکھی ہیں۔ ایک اور میز پر جو سلطان کے سرہانے کے قریب ہے کاغذات اور رجسٹر وغیرہ رکھے ہیں ۔ قلمدان اور مہریں بھی اسی میز پر رکھی ہیں — باہر سے طربیہ موسیقی کی آوازیں آرہی ہیں۔ کہیں زور سے۔
سلطان: الپ خان ، میں نے تم کو اور شہزادہ خضر خان کو اس لیے روکا ہے کہ دوسرے امیروں کے سامنے میں وہ باتیں نہیں کہہ سکتا جو میں کہنا چاہتا ہوں۔
الپ خان: سلطانِ معظم! میں ہمہ تن گوش ہُوں۔
سلطان: الپ خان! میں وہ باتیں اوروں کے سامنے بھی کہہ سکتا ہوں۔ لیکن کہنا نہیں چاہتا۔ کیونکہ مجھے ابھی تک وہ زمانہ یاد ہے جب ہم تم میدانِ کارزار کے رفیق تھے۔ کیا تمہیں وہ زمانہ یاد نہیں آتا؟
الپ خان: سلطانِ معظم۔ مجھے ہر ایک چیز یاد ہے۔
سلطان: تم یہ شور بند نہیں کروا سکتے؟
الپ خان: کیسا شور سلطانِ معظم؟
سلطان: یہی — یہ گانے بجانے کا شور —ساری رات، سارا دن ، ہمہ وقت کی طرب نوازی کیا‘ اس میں کوئی کمی نہیں ہوسکتی؟
خضر خان: میں نے بہت منع کیا لیکن اماں جان نہیں مانتیں۔
سلطان: (ہنس کر) اُسے تو سارے شہر کو یہ مژدہ پہنچانا ہے کہ میرے بھائی کی ایک اور لڑکی سے میرے دوسرے لڑکے کی شادی ہورہی ہے۔
خضر خان: (جاتے ہوئے ) میں پھر جاکراُن سے کہتا ہوں۔
سلطان: (اُسے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے) اس کی ضرورت نہیں۔ میں ایک ہفتے سے یہ شور سُن رہا ہوں۔ اب رہنے دو۔ اگر اُسے خود اس کا خیال نہیں تو رہنے دو۔ انسان ہر چیز کا عادی ہوسکتا ہے۔ الپ خان۔ تمہیں یاد ہے تم اس وقت الپ خان نہیں تھے اور نہ میں سلطان تھا۔ اس وقت تم ملک سنجر تھے اور میں ملک علاﺅالدین ۔ اس وقت میں نے تمہاری بہن سے شادی کی تھی اور اپنی پہلی بیوی کے ڈر سے ، سلطان جلال الدین کی بیٹی کے ڈر سے زیادہ لوگوں کو اطلاع نہیں دی تھی ، نہ گانا بجانا ہوا۔ نہ رخصتی ہوئی۔ سب کام نہایت خاموشی سے طے پاگیا(ہنس کر) اب ماہک بیگم اس خاموشی کی کسر نکال رہی ہیں۔ دھوم دھڑکے سے اپنے بیٹوں کی شادی کر رہی ہے۔ اس سے وقت بچتا ہے۔ تو امراءکے بیٹوں بیٹیوں کی شادیاں طے کراتی پھرتی ہیں۔ شہر میں ہر وقت گانے بجانے کا شور اُٹھتا رہتا ہے۔
الپ خان: (ہنس کر) اُسے شادیوں کا خبط ہے۔
سلطان: الپ خان ہم پہلے رفیق تھے‘ پھر خویش بھی ہو گئے۔ ہم نے ہر موقع پر ایک دوسرے کی مدد کی حتیٰ کہ میں سلطان بن گیا۔ اور تم —تم ملک سنجر سے الپ خان بن گئے تمہیں یاد ہے؟
الپ خان: مجھے سب یاد ہے سلطانِ معظم۔
سلطان: (تیز ہوکر) پھر آج تم کیوں میری مخالفت کررہے ہو؟
الپ خان: مخالفت؟ سلطانِ معظم یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟
سلطان: الپ خان! ملک نائب نے تمہیں منع کیا تھا کہ شادی ابھی نہیں ہونی چاہیے۔
الپ خان: سلطانِ معظم! ملک نائب کواس کا حق نہیں پہنچتا۔
سلطان: ملک نائب۔ میرا نائب ہے۔ نائب السلطنت ہے۔
الپ خان: لیکن وہ سلطان نہیں۔
سلطان: ہاںوہ سلطان نہیں۔ لیکن میری معذوری کے وقت اس کا حکم میرا حکم ہے۔
الپ خان: سلطانِ معظم! آپ کی معذوری کے وقت شہزادہ خضر خان ولی عہدِ سلطنت ہی اس منصب کا حق دار ہے۔
سلطان: (ہنس کر) خضر خان؟ جس کو عشق بازی سے فرصت نہیں جو ہر وقت شاعروں، مسخروں اور بھنگڑوں میں بیٹھا وقت ضائع کرتا رہتا ہے — ٹھیک ہے — وہ تمہارا داماد ہے میرا بیٹا بھی ہے ۔لیکن میری زندگی میں وہ محض ولی عہد ہے۔ میں اپنی زندگی میں اُسے سارے کام کو تباہ کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ میرے مرنے کے بعد جو چاہے کرے۔ جب تک میں ہوں ملک نائب کو مکمل اختیارات ہیں۔ تم لوگ سمجھتے ہو میں ناکارہ ہوچکا ہوں۔تم سمجھتے ہو میں اپنے بستر مرگ پر ہوں۔ اس لیے جو چاہو کرسکتے ہو۔
الپ خان: حاشا۔ سلطانِ معظم! میں بالکل ایسی کوئی بات نہیں سوچ رہا ہوں۔ خدا آپ کا سایہ ہمارے سر پر ہمیشہ سلامت رکھے۔
سلطان: تم مجھے غافل سمجھتے ہو۔ اس لیے کہ بےمارہوں۔ کیا مجھے معلوم نہیں کہ تم کیا جال پھیلارہے ہو؟
الپ خان: سلطانِ معظم! میں سمجھ نہیں سکا۔
سلطان: (ہنس کر) تعجب ہے۔ تم نے میرے دوسرے بیٹے سے اپنی بیٹی کی شادی مقرر کرلی۔ اور مجھے پوچھنا بھی گوارا نہ کیا۔
الپ خان: سلطانِ معظم۔ آ پ بےمار تھے۔ اس لیے ہم نے آپ کو اس ذکر سے پریشان کرنا مناسب نہ سمجھا۔
سلطان: بہت خوب — میں اس قدر بےمار تھا کہ مجھے ایسی باتوں سے پریشانی ہوتی؟
الپ خان: یہی بات تھی —سلطانِ معظم۔
سلطان: تو ایسے وقت میں تمہیں جلدی کیا تھی؟ میری شدید بےماری کے وقت تمہاری بہن کو اور تمہیں اپنے لڑکے لڑکیوں کی شادیاں رچانے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا؟ حیف ہے کہ میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوں۔ اور میرا رفیق دیرنیہ اور میری ملکہ اس فکر میں ہیں کہ نئی نئی شادیاں کرکے سلطنت پر اپنا ہاتھ کیسے مضبوط کرسکتے ہیں۔
الپ خان: سلطانِ معظم!
سلطان: خاموش رہو۔ میں نے تمہارے کہنے پر خضر خان کی شادی تمہاری لڑکی سے کردی۔ حالانکہ وہ دیول دیوی سے عشق کررہا تھا۔ اور تمہاری لڑکی کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ پھر میں نے تمہاری بہن کے کہنے پر اُسے ولی عہد بنادیا۔ اس کو چترو دُور باش عنایت کئے اس کو الگ دربار لگانے کی اجازت دے دی تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ میں تمہیں یا تمہارے داماد کو سلطنت کے معاملوں میں بے دست و پاکر نا چاہتا ہوں۔ لیکن تم ملک نائب کی رقابت میں اتنے آگے چلے گئے ہو کہ مجھے نظر انداز کرکے‘ میرے دوسرے بیٹے کو داماد بنا کر سلطنت پر اپنا حق مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہو۔
الپ خان: حاشا۔ سلطانِ معظم!
سلطان: الپ خان! جو انقلاب اس سلطنت میں ہم برپا کر چکے ہیں، اس میں یہ سب کچھ بے معنی ہے۔ نہ قدیم خاندانی شرافت سے کوئی حق بنتا ہے۔ نہ نجیب الطرفین ہونے میں کوئی خصوصیت ہے۔ میں نے تمہیں ایک ایسی سلطنت بنا کر دی ہے۔ جس میںمحض قابلیت اور اہلیت ہی سے کوئی حق قائم ہوسکتا ہے یا قائم رہ سکتا ہے۔
الپ خان: سلطانِ معظم!
سلطان: نہیں — اب جاﺅ — مجھے بہت کام کرنا ہے۔ تمہاری بہن اور تمہارے معاملات پر ضائع کرنے کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے۔ یہ شادی ہولے تو تم اپنے فرض منصبی پر گجرات چلے جاﺅ۔ اور خضر خان۔ تم بھی دلّی میں رہ کر وقت ضائع کررہے ہو۔ تم اپنی دنوں بیویوں کو لے کر امرو ہے چلے جاﺅ۔ اور وہاں کا انتظام سنبھالو — اب جاﺅ —
خضر خان اور الپ خان خاموشی سے کورنش بجا کر چلے جاتے ہیں۔
سلطان: ہاں ملک نائب۔ منڈی کے کاغذات پیش کرو۔
ملک کافور: سلطانِ معظم! منڈی کے کاغذات سے کہیں زیادہ توجہ کا طالب دیو گیر کا معاملہ ہے۔ راجہ رام دیو کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے نے سلطنت کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے ۔ وہاں فوری طور سے کسی نائب کی ضرورت ہے۔ جو دکن میں دوبارہ امن قائم کرسکے۔
سلطان: اور وہ نائب تم ہو؟ —نہیں کافور —تم یہیں رہو گے۔ مجھے یہیں تمہاری ضرورت ہے۔ ایسے وقت میں کہ میں موت و حیات کے درمیان لٹک رہا ہوں‘ میں صرف تم پر اعتماد کرسکتا ہوں کہ میرے اصولوں اور ضابطوں کے مطابق سلطنت کوقائم رکھ سکو۔
ملک کافور: سلطانِ معظم کی ذرہ نوازی ہے۔ لیکن حضور میں دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ مجھے دلّی سے کہیں دور بھیج دیں۔ میرے وطن کے قریب — میرے اپنے لوگوں کے درمیان۔ میں یہاں بہت خوف زدہ ہوں۔
سلطان: تمہیں کیا خوف ہے؟
ملک کافور: سلطانِ معظم! الپ خان اور شہزادے میرے اختیارات کی وجہ سے مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ لوگوں میں طرح طرح کی افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ آپ کے مجھ پر احسانات کو عجیب و غریب رنگ میں پیش کر رہے ہیں۔ مجھے ہر وقت اپنی جان کا خطرہ لگا ہے۔ میں تو اب جمعہ کی نماز کے لیے جاتا ہوا بھی ڈرتا ہوں۔
سلطان: تعجب ہے — چھ مہینوں میں یہ حالت ہو گئی ہے؟ میرے نائب کو اپنی جان کا خطرہ ہے؟ تو ٹھیک ہے۔ اس کا تدارک کردیا جائے گا۔
ملک کافور: حضور!آج جس طرح آپ نے شہزادہ خضر خان اور الپ خاں سے خطاب کیا ہے۔ وہ اور بھی میری جان کے دشمن ہو جائیں گے اور مجھے ختم کرنے میں اور بھی مستعد۔
سلطان: تو پھر —میں اُن کو ختم کردوں گا۔ جو میرے سارے کام میری عمر بھر کی محنت پر اس لیے پانی پھیر دینا چاہتے ہیں کہ میں اپنے وفا دار غلاموں پر بھروسہ کرتا ہوں۔ اور انہیں میرے غلاموں سے نفرت ہے۔ تم بالکل کوئی فکر نہ کرو۔ تمہارے دشمن میرے بھی دشمن ہیں۔
ملک کافور: (مسکراتا ہے) سلطانِ معظم کی عنایات اس غلام پر اس قدر ہیں کہ اب میری موت یقینی ہے۔
__________

سین (10)
مجلس خاص کے ایوان کے باہر ڈیوڑھی میں__رات
جونا خان اور ملک کمال الدین گرگ کھڑے باتیں کررہے ہیں۔ دور سے گانے بجانے کی آواز آرہی ہے۔
کمال الدین گرگ: سلطان کی حالت پھر خراب ہوگئی ہے۔
جونا خان: پھر توبڑی مشکل ہو گئی — مجھے اجازت لے کر دیپال پور جانا تھا۔ اباجان نے سخت تاکید کر کے بلایا ہے ۔
کمال الدین گرگ: تو کوئی بات نہیں۔ ملک نائب سے اجازت لے لو۔
جونا خان: ملک نائب سے؟
کمال الدین گرگ: ہاں! سلطانِ معظم نے اُنہیں مکمل اختیارات دے دئیے ہیں۔ اب وہ ترقی و تنزلی اور تبدیلی ¿مناصب۔ ہر کام کر سکتے ہیں۔
جونا خان: اچھا —
__________

سین (11)
مجلسِ خاص کے ایوان کے اندر —رات
ملک کافور تخت سلطانی کے ایک طرف کھڑا ہے اور اُسے غور سے دیکھ رہا ہے۔ کمرے میں اور کوئی نہیں ملک کافور کے چہرے پرایک عجیب مسکراہٹ ہے فاتحانہ اور کسی حدتک خفت آمیز، وہ تخت کی جانب چلنے لگتا ہے ۔ تخت اس کی طرف آرہا ہے۔ وہ تخت کے قریب پہنچ کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ پھر مڑکر دیکھتا ہے۔ اُس کے چہرے پر جھجک اور خوف ہے۔ وہ قدم بڑھاتا ہے۔ ملک کافور تخت کی سیڑھیاں چڑھتا ہے اور تخت کے سامنے تخت کی طرف پیٹھ کرکے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کے چہرے پر عزم ہے۔ وہ تخت پر بیٹھ جاتا ہے۔ اور سامنے دیکھنے لگتا ہے۔ اچانک کمرے میں دربار سج جاتا ہے اور مختلف درباری صف بستہ اپنی اپنی جگہ پر کھڑے نظرآتے ہیں۔ ملک کافور کے چہرے پر مسکراہٹ ہے۔
جونا خان کی آواز: ملک تاج الدین!(دربار کامنظر اچانک غائب ہوجاتا ہے)۔
کافور تڑپ کر تخت سے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
وہ جو نا خان کی طرف دیکھتا ہے جو اندر آچکا ہے۔
جونا خان: ملک نائب۔ میں ایک ضروری کام سے حاضر ہواتھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ سلطانِ معظم کی طبیعت خراب ہے۔
کافور: آﺅ — آﺅ — جونا خان۔
جونا خان: اباجان نے مجھے دیپال پور طلب کیا ہے۔ میں سلطانِ معظم سے اس بارے میں اجازت لینا چاہتا ہوں۔
کافور تخت کی سیڑھیوں سے نیچے آتا ہے۔
کافور: میں اس کا ابھی انتظام کرتا ہوں۔ تمہیں مہرشدہ فرمان صبح سویرے مل جائے گا۔ اب مہر سلطانی میری تحویل میں رہتی ہے۔
جونا خان: (مسکراتے ہوئے) مبارک ہو!
______________
abdul razzaq wahidi
About the Author: abdul razzaq wahidi Read More Articles by abdul razzaq wahidi: 52 Articles with 86984 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.