آغا شاعر دہلوی کی ناول نگاری

ادب ایک ایسا ساگر ہے جس میں دنیا جہا ن کے خیالات کے دریا آکر گرتے ہیں ۔ ان کا سوتا کہیں پھوٹتا ہے ۔ چادر آب کہیں بنتی ہے اور چشمہ کہیں اور جاری ہوتا ہے ۔ اردو ادب ہر دور میں نشیب و فراز سے گزرتارہا ہے ۔ لیکن ہر دور میں شاعروں اور ادیبوں نے اس کے لیے نت نئی راہیں ہموار کی ہیں اور ترقی کے راستے پر اسے گامزن کرتے رہے ہیں ۔ اس طرح شاعروں اور افسانے کے ناول کی صنف بھی ان ہی کا وشوں کا نتیجہ ہے ناول کے لغوی معنی Novella کے ہیں جو کہ اطالوی زبان کا لفظ ہے جس طرح افسانے کے بارے میں مختلف ناقدین نے اپنی آراپیش کی ہیں ۔ اسی طرح اردو ناول میں بھی مختلف ناقدین کی تعریفیں مختلف اندازمیں ملتی ہیں ۔ چنانچہ رابن سن کر وسو کے غیر فانی مصنف ڈینیل ڈنونے اس فن کی بنیاد ڈالتے ہوئے دو چیزوں کا خاص طور سے لحاظ کیا ہے ایک تو یہ کہ قصہ حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ اسے کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق دینا چاہیے ۔ اس لیے کہ اگر قصہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوگا تو جھوٹا ہوگا اور اس کی تصنیف کے ذریعے مصنف جھوٹ بولنے کا عادی ہو جائے گا ۔ وہ کہتا ہے کہ
’’ قصہ بنا کر پیش کرنا بہت بڑا جرم ہے یہ اس طرح کی دروغ بینی ہے جوآہستہ میں ایک بہت بڑا سراخ کر دیتی ہے جس کے ذریکے چھوٹ آہستہ آہستہ داخل ہو کر ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔‘‘
فیلڈ نگ جو انگریزی ناول کے عناصر ا ربعہ میں سے ہیں یوں رقم طراز ہیں
’’ ناول نثر میں ایک طربیہ کہانی ہے ۔‘‘

یعنی اس کے نزدیک المیہ کہانی ناول کے موضوع سے باہر ہے۔ اس طرح چر ڈسن کے اس نقطۂ نظر کو رد کرتا ہے کہ کہانی کی غرض نیکی اور اخلاق کا سدھارنا ہے ۔ فیلڈنگ اسے ہنسنے اور ہنسانے کا ذریعہ سمجھتا ہے اس لئے وہ اس میں طربیہ کی شرط لگا دیتاہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ تعریف بھی تا مکمل ہے ۔اس کا ایک ہم عصر اسمولٹ اس نئے فن کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے ۔

’’ ناول ایک پھیلی ہوئی بڑی تصویر ہے جس میں ایک مقررہ پلاٹ کو وضح کر نے کے لیے زندگی کے کردار مختلف جمایتوں کے ساتھ رکھ کر مختلف پہلوؤں سے دکھائے جاتے ہیں ۔‘‘

یہ تعریف بھی نا کافی ہے اس لیے کہ اس میں سارازور پلاٹ پر ہے۔ چنانچہ انگلستان کی ایک مشہور ادبیہ کلار ا ایوز اس فن کی تعریف یو ں کرتی ہیں ۔

’’ ناول اس زمانے کی زندگی اور معاشرے کی سچی تصویر ہے جس زمانے میں لکھی جائے۔‘‘

پروفیسر بیکر نے ناول کے لیے چارشر طیں لازم کر دیں ۔ قصہ ہو ، نثر میں ہو ، زندگی کی تصویر ہواور اس میں ربط و یک رنگی ہو یعنی یہ قصہ نہ صرف نثر میں لکھا گیا ہو بلکہ حقیقت پر مبنی ہو اور کسی خاص نقطۂ نظریا مقصد کو بھی پیش کر تا ہو۔حقیقت میں ناول وہ صنف ہے جو حقیقت کی عکاسی کر تا ہو۔ زندگی کی سچائی کو بیان کر تا ہو۔ صنف ناول نے کئی رنگ بدلے ہیں ۔ کبھی اس نے رومانی شکل اختیار کی تو کھی تاریخی ناول کی ، کبھی عصری ناول کی تو کبھی رزمیہ وسیاحتی، کبھی اسراری اور کبھی نفسیاتی ناول کی ۔ غرض یہ مختلف رنگ اختیار کر تا رہا اور دو ر حاضر تک اردو ناول کے ذخیرے کو مالامال کر تارہا۔

ناول کے فن کو مکمل کر نے کے لیے جن اجزاء کا ہوناضروری ہے ان میں قصہ ، پلاٹ، کردار، مکالمہ، مناظر فطرت، زمان و مکاں ، نظریہ حیات اور اسلوب بیان کو اہمیت حاصل ہے ۔ اگر ان میں سے ایک بھی جز کم ہو توایسا ناول مکمل ناول نہیں کہلائے گا۔

اردو میں ناول کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ صنف ادب برائے زندگی کی ترجمانی کرتی ہے۔ جب بھی کوئی ناول نویس لکھتا ہے تو وہ کوئی نئی دنیا اپنی خواہش کے مطابق نہیں بنا تا بلکہ وہ ہماری ہی دنیا سے بحث کر تا ہے وہ وہی چیزیں پیش کر تا ہے جن کا ہماری زندگی سے تعلق ہوتا ہے ۔ یعنی کہ جس میں دکھ ہو سکھ بھی ہو جنگ بھی ہو صلح بھی ہو موت بھی پیدائش بھی ۔ ناول نگار نہ صرف تخلیل میں پر واز کر تاہے بلکہ اس کے قصے کی بنیاد روز مزہ کی زندگی پر استوار ہوتی ہے ۔ کردار بھی ہمارے جیسے گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں ۔

ناول ادب کی اہم صنف ہے جو بقول ڈاکٹر سلام سندیلوی ہماری زندگی کی مختلف گتھیوں کوسلجھا نے میں مددیتی ہے ۔ 1 ناول انگری لفظ ہے انگریزی ادب کے ساتھ ہمارے یہاں آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے ادب پر چھا گیا ہے ۔2 ناول میں پرانے قصوں ، افسانوں اور داستانوں کے برعکس انسانی زندگی کا قصہ ہو تا ہے اس لئے اسے مو جودہ عہد کا رزمیہ بھی کہا جاتا ہے ۔3 انگریزی زبان میں ناول کا آغاز اٹھا رہویں صدی میں ہو چکا تھا مگر اردو میں اس کا وجود انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہی ممکن ہو سکا۔ مولوی نذیر احمد کی ناول ’’ مراتہ العروس‘‘ کو اردو کا پہلا ناول مانا جاتا ہے جس کی تصنف 1860ء میں ہوئی تھی اردو ناول نگاری کا فن آج اپنے بام عروج پر پہنچ چکا ہے ۔ اردو میں کئی ایسے ناول عالم وجود میں آچکے ہیں جنہیں بقائے دوام حاصل ہوچکا ہے اور انہیں دنیا کے بہترین ناولوں کی صف میں فخر سے رکھاجا سکتاہے ۔ اردو ناول کے فن کو جہاں شرر، سرشار، نذیر احمد اور پریم چند نے پروان چڑھا یا وہیں آغا شاعر دہلوی نے بھی اس صنف میں اپنا خون جگر صرف کیا۔ اگر چہ آغا شاعر نے اور لوگوں کے مقابلے بہت بعد میں اس میدا ن میں قدم رکھا پھر بھی ناول کے ارتقاء میں ان کا تعاون فراموش نہیں کیا جا سکتاہے۔ ان کا یہ تعاون قابل ستائش ہی نہیں بلکہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔

آغا شاعر نے بیسویں صدی کے آغا ز میں ناول نگاری شروع کی ۔ انہوں نے فن اور موضوع دونوں اعتبار سے اس صنف کو مالامال کیا ہے ۔ ان کے ناولوں میں فنی دسترس کا احساس بھی ہوتا ہے اور مقصدیت بھی نظرآتی ہے ۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں خاندانی نزاع کے بنیادی مسائل کو پیش کیا ہے وہ اپنے ناولوں کے ذریعہ تعلیم و تربیت نیز سماجی اخلاقی اور معاشرتی خامیوں کو دور کر نے کی بھر پور کوشش کی ہے ان کے یہاں میں سماج کا جاہل ہونا ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ اگر سماج تعلیم یافتہ ہوگا تو عام لوگ کامیاب زندگی گذار سکین گے اس کے علاوہ انہوں نے سماج کی کہنہ فرسودہ رسم و رواج کی طرف بھی ذہن کو مبذول کرایا ہے کہ اکثر اس کا انجام پریشان کن اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے ۔ اس طرح انہوں نے اپنے ناول کے ذریعہ سماج کے اندر خانگی ذمہ داریوں کے احساس کو جگانے کی کوشش کی ہے اور زبر دستی شادی کے خظرناک نتائج کو اجاگر کرتے ہوئے تعلیم و تربیت پر کافی زور دیا ہے ۔ ان کے خیال کے مطابق تعلیم یافتہ سماج اپنے معاشرہ کی گندگی کو اپنے عقل وشعورکے ذریعہ حتم کر سکتا ہے اور اپنی زندگی کو خوشگوار بھی بنا سکتا ہے ۔

آغا شاعر دہلوی کے ناولوں میں نئے زمانے اور نئے تقاضے کی پکار سنائی دیتی ہے ۔ ساتھ ہی حقیقت پسندی اور فنکار انہ روش کا آغاز بھی ان کے ناولوں میں ماحول کا صحیح مشاہدہ اور اس مشاہدہ کا منطقی تجزیہ اور پھر ان دونو ں کے ساتھ غور و فکر بھی پایا جاتا ہے ۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں گھریلو زندگی اور اس کے مسائل اور گھر کی چہار دیواری سے باہر گلی کوچوں، بازاروں، شاہراہوں میں گونجنے والے نعروں کو بھی پیش کیا ہے۔اس صنف میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے ان کے یہاں خالی خولی جذبات نگاری نہیں ملتی بلکہ ان کے خیالات فکر کے تابع نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں اپنے رجحانات و میلانات اورفلسفہ حیات کا عکس پیش کیا ہے ۔ آغا شاعر کے کردار میں جو نفسیات اور تجزیاتی جھلک ملتی ہے وہ اپنے آپ میں مثال ہے ۔ ماحول کا اثر انسان کی زندگی پر کیسے پڑتا ہے اسے انہوں نے اپنے ناولوں میں بڑی چابک دستی سے پیش کیا ہے ۔ اس لئے آغا شاعر کے ناولوں کو اردو میں جس حد تک نظر انداز کیا گیا ہے غالباً اس حد تک نہیں کر نا چاہئے تھا ۔

آغاشاعر اپنے دور کے نمایاں ناول نگاررہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں متوسط طبقہ میں پروان چڑھنے والے لڑکے اور لڑکی کی محبت ، نفسیاتی جذباتی زندگی اور وہ ماحول جس میں کہ وہ پروان چڑھتے ہیں۔ اس قدر تکمیل کے ساتھ اور فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ان کی ناول نگاری اردو ناول نگاری کی تاریخ میں ایک خاص مقام حاصل کر لیتی ہے۔ ان کے یہاں اخلاقی تقاضے اور قد امت پسندی کا سراغ ملتا ہے ۔ اس طرح مشرق پسندی کے اعتبار سے آغا شاعر کو اردو ناول نگاری میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔

آغا شاعر کے ناولوں میں ہندستانی رنگ نمایاں ہے وہ انگریزی ادب سے بخوبی واقف تھے اس لئے ان کے ناولوں میں مغربی تکنیک اور انداز فکر کا بھی اشارہ ملتا ہے ۔ ان کے ناول مشرقی حسن کے رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں انہوں نے فرد کی زندگی اس کی ذہنی اور جذباتی کیفیتوں کو موضوع بنا یا ہے ۔ آغا شاعر نے اردو ناول نگاری کے کینوس کو وسیع کیا اور اس سلسلے میں ان کی اہمیت مسلم ہے ۔ موصوف اردو ناول کی دنیا میں ایک بے باک اور باغی ناول نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ان کے ناول خاندانی ٹکراو، بغض، کینہ، کشیدگی اور سماجی روایت سے بغاوت کے حامل ہیں ۔ خصوصیت کے ساتھ دہلی کے روایتی ماحول اور متوسط طبقہ کے معاشرہ میں ایسے اختلافات کے موضوعات پر انہوں نے کھل کر نشتر زنی کی ہے کہ کبھی کبھی ان کی بے باکی حد کو پار کر جاتی ہے ۔ لیکن اکثر و بیشتر وہ حق گوئی سے بھی کام لیتے ہیں ۔ ان کے ناولوں میں زیادہ تر اخلاقی اصلاح بھائی چارگی، اخوت و مروت کے پہلو نمایا ں ہیں مگر ان کے ناولوں میں جنس کا پہلو بھی کچھ کم نہیں ہے ۔ اس کی مثال ان کے ناول ’’ ہیرے کی کنی‘‘ ہے اور ہو بھی کیوں نہیں کیا عورت اور مرد کے درمیاٰن جنس ایک فطری جذبہ نہیں ۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کہ بعد انسان شادی کر تاہے یہ انسان کی چوتھی اور اہم ضرورت ہے ۔ پھر اتنے اہم موضوع کو کیوں نظر انداز کردیاجائے اس طرح آغا شاعر صاحب بیسویں صدی کے مقبول ترین ناول نگاروں کی صف میں کھڑے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ بیسویں صدی کے سماج کے بیشتر مسائل پر بڑی چابک دستی سے قلم اٹھایاہے ۔ ان کے ناولوں میں موضوع اورفن دونوں کا تنوع ملتا ہے انہیں کر داری نگاری کا بھی بڑا سلیقہ آتا ہے ۔ ان کے ناولوں میں انسان کے نازک احساسات و جذبات پیچیدگی اورالجھاو کی زد میں ہے ان کے علاوہ موجود ہ دور میں آغا شاعر کہ بعدبہت سے نام ہیں جو اردو ناول نگاری کے افق پرستاروں کی مانند اپنی بھر پور چمک دمک کے ساتھ موجود ہیں ۔ غرض یہ کہ ناول نگاری اور ناول نگاروں کا ایک کارواں سانظر آتا ہے جو اپنی منزل کی جانب بڑی تیزی سے رواں دواں ہے ان ناولوں میں عہد حاضر کی منتشر اور مضطرب زندگی کے احوال کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار زندگی کا خواب بھی پنہاں ہے ۔ اس میں حسن اخلاق اور حسن عمل پر بھی زور دیا گیا ہے اور بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ہم اہنگی کا درس بھی ملتا ہے جو مو جودہ دور کے ناول کا سب سے بڑا امتیاز ہے ۔ ان ناول نگاروں نے موضوعات کی رنگارنگی اور وسعت کے ساتھ ساتھ اردو ناول کو دلچسپی اور دلنشینی سے بھی ہم کنار کیا ہے ۔ اردو ادب کے مشہور ناقد وقار عظیم نے بھی اس کی حمایت کی ہے ۔

آغاشاعر دہلوی کی ناول نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر دھرمیندر ناتھ ایوان اردو شمارہ 5ستمبر 2002صفحہ 32پر یوں رقم طراز ہیں ۔

’’آغا صاحب کے ناولوں میں نثر نگاری دلکش اور معتدل ہے موسم کی مر قع کشی فردوس گوش و نظرہے ۔ بیانات ضروری اور مختصر ہیں ، مکالمے فطری ، دلچسپ، بر محل اور برجستہ ہیں ۔ ناول میں ڈرامائی انداز کافی ہے ۔ عشق وہی رسمی ہے لیکن قصے میں واقعیت کم تخلیقیقت زیادہ ہے ۔

ڈاکٹر سہیل بخاری آغاشاعر کی ناول نگاری پر تبصرہ کر تے ہیں کہ:
’’ ان کی زبان ٹکسالی ، پاکیزہ، شستہ اور رنگین ہے ۔ اس پر روز مرہ محاورے خصوصاً بیگماتی زبان پر بڑی قدرت ہے ‘‘۔ شاعر صاحب نے ڈرامہ نگار کی حیثیت سے بھی اپنا سکہ جما لیا ۔ تمثیل نگاری اور ڈرامہ نگاری میں مقبول زمانہ کہلائے ‘‘

غرضیکہ فن ،مواد، موضوع، اور اسلوب ہر اعتبار سے آغا شاعر کی ناول نگاری نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ ناقابل فراموش بھی ہے جسے ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ انہوں نے مسلمانوں کی نا اتفاقی اورنزاع،خستہ حالت، غفلت پر مبنی’’ ارمان‘‘ اور ناہید جیسے عمدہ ناول لکھے اور ’’ ہیرے کی کنی ‘‘ شعورکے روپر مبنی تخلیق کی ہے ۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں اسلامی سوسائٹی ، خاندان کی اندرونی معاشرت کا نقشہ کھینچا ہے ۔ ان کے ناولوں میں کردار صفات کے مطابق ہوتے ہیں ۔ آغا شاعر یوں تو اردو ادب کی مختلف اصناف میں مہارت رکھتے ہیں مگر سب سے پہلے وہ ناول نگار ہیں ۔ اخلاقی اصلاح تعلیم اخوت و مروت ان کے ناول کی بنیاد ہیں ۔ ان کے یہاں کردار نگاری اور پلاٹ کی بہتات ہے ۔ مکالمے دلچسپ دل کش اور موزوں ہیں ۔ آغا شاعر قومی اصلاح کے بہت بڑے حامی تھے ۔ ان کے ناول بیسویں صدی عیسوی میں عورت اور مرد دونوں طبقوں میں بے حد مقبول ہوئے جن کا اچھا اخلاقی اثر پڑا ۔ آغاشاعر کی تحریروں میں روزمرہ محاورے کی صفائی اور زبان کے دلکشی ملتی ہے ۔ آغاشاعر کی زبان دلفریب اور پر کشش ہے ان کا اپنا الگ رنگ ہے اور وہ اسی رنگ میں نمایاں نظر آتے ہیں ۔بیسویں صدی کے ناول نگاروں میں آغا شاعر منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ ویسے ناقدین نے موصوف کو سرے سے نظرا ندازکر کے نا انصافی کی ہے ۔اگرکوئی چاہے کہ اردو ادب میں نفسیاتی ناول کے ارتقاء کو سمجھے تو بغیر اس ایک قدم ا بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یو ں تو انہوں نے کل پانچ ناول لکھے ہیں ۔ ایک ’’ طلسمی بدلہ‘‘ انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہے ۔ ’’نقلی تاجدار‘‘ ہیرے کی کنی ’’ ارمان‘‘اور ناہید طبع زاد ناول ہیں ۔ جو ناول کے فن پر مکمل اترتے ہیں اور اردو ناول میں مقبول بھی ہیں ۔ اس بات کی صراحت یوسف سرمست نے بھی اپنی تصنیف بیسویں صدی میں اردوناول صفحہ98کے چوتھے سطر میں کی ہے یہاں یکے بعد دیگر ے ان کے ناولوں کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے ۔

’’ ارمان‘‘
آغا شاعر دہلوی کا ناول ’’ ارمان‘‘ اردو ناول کی تاریخ میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس ناول میں دو کردار ’’ جولی ‘‘ اور ناصر کی سچی محبت کو آغا شاعر نے پیش کیا ہے ۔ گرچہ ’’ ارمان‘‘ دوسرے دور کا ناول ہے مگر فنی لوازمات کے اعتبار سے اپنے آپ میں مکمل ہے ۔ آغا شاعر کے ناولوں کی خشت اول ہے جسے آغا شاعر نے اپنی باریک بینی نکتہ رسی اور جامعیت کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ جس کے سبب ’’ ارمان‘‘ اپنے اصل سے کئی گناپر لطف اورپر تاثیر ہو گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ناول کو اردو میں نفسیاتی ناول کے اعتبار سے اولین درجہ حاصل ہے ۔’’ارمان‘‘ آغاشاعر کا پہلا ناول ہے جو 1900ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا ۔ اس کا رنگ حد درجہ رومانی ہے جیسا کہ پہلے بھی ذکر آچکا ہے کہ یہ ناول نفسیات بشری پر مبنی ہے ۔ پلاٹ کردار نگاری، مکالمے ، زبان وادب ہر لحاظ سے دلچسپ اور مقصدی ناول ہے جس کا موضوع ایک خاندانی نزاع کا غمناک اوردرد ناک نتیجہ ہے ۔ ناول ’’ ارمان‘‘ میں آغا شاعر نے یہ ذہن نشین کرانے کی کامیاب کو شش کی ہے کہ خاندان کے ہر فرد کو متحد ہونا چاہئے۔ ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کی جائے ۔ والدین اپنی اولاد کی مجبوریوں کو سمجھیں۔ اس کے لیے والدین کو بغض،کینہ، حسد سے دور رہ کر اپنا کردار مثالی بنانا چاہئے۔

ناول’’ ارمان‘‘ بائیس مختلف ابواب پر منقسم ہے ہر باب کا تسلسل دوسرے باب سے ہے ۔ ہر باب کا اختتام کسی نہ کسی نتیجہ اور انجام پر ہوتا ہے ۔ اس ناول میں آغا شاعر نے انیسویں صدی کے آخراور بیسویں صدی کے اوائل کی ہندوستانی مسلم گھرانوں کی روایت کو ملحوظ رکھا ہے ۔ اس زبانہ میں مسلم سماج میں جو رسم رواج عقیدت، مذہبی، سیاسی، اقتصادی، معاشی عیش و عشرت۔ خاندانی نزاع انانیت غیروں سے دوستی۔ اپنوں سے بیر اور خصوصاً مخلوط خاندان کے اندرونی انتشار اور آپسی رنجشوں کو بڑی چابک دستی اور فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے جس میں خاندانی نزاع پر بڑی اچھی کشمکش ملتی ہے ۔ پہلے باب کا خلاصہ اس طرح ہے ۔

ڈپٹی کمشنر بہادر جنگ نواب بہت بڑے شرفا میں ہیں۔ خدا کا دیا ہوا سب کچھ ہے ۔ اپنی پر مسرت زندگی مع اہل و عیال کے گذارتے ہیں ان کی دو اولاد میں پروفیسر مظہر اور خورشید عالم ہیں ۔ مظہر اعلی تعلیم حاصل کر کے پروفیسر ہوئے اور خورشید پرانی دلی کی روایت کے مطالق علم سے نا آشنارہ جاتے ہیں ۔ دونوں بھائی شادی شدہ ہیں ۔ پروفیسر مظہر کی بیوی کا نا حیدری خانم ہے بیٹے کا نام ناصر احمد ، محسن وغیرہ ہے ۔اس کے بر عکس خورشید کی بیوی کا نا م امراؤ بیگم اور ایک حورچہرہ بیٹی جوئی ہے ۔ ڈپٹی کمشنر اور اس کی بیگم اپنے وارثوں کے ساتھ کافی خوش ہیں مگر یہی دارالسرور جہاں خورشید کشمکش حیات میں مبتلا ہے ۔کچھ دنوں بعد کمشنر کا انتقال ہو جاتا ہے اور خورشید کس وجہ سے قید و بند کی زندگی گذارنے لگتا ہے اس کی بیوی مغموم رہا کرتی ہے ۔ جوئی اپنے تمام رشتہ داروں کے درمیان باپ کی غیر موجودگی میں مفلوک الحال رہا کرتی ہے اس برعکس پروفیسر اپنے اہل عیال کے ساتھ پر مسرت زندگی گذارتا ہے ۔

اس طرح آغا شاعر نے پہلے باب میں پرانی دہلی گھریلو مسائل کو بے باکی سے بیان کیا ہے جس میں کمشنر اور ان کی بیگم کے حالات اور دونوں بیٹوں کا احوال بیان کیا ہے جیسا کہ ناول کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک بیٹا تو کافی خوش ہے ۔ دوسرا قید وبند میں اور ان کی بیگم اور بچے مصیبت میں دن گذارتے ہیں ۔ پھر یہ نیک صالح عورت امراؤ بیگم خدا پر بھروسہ کرتی ہے اور اپنے خاوند کو یاد کر کے خدا کا شکر ادا کرتی ہے جس کی تصدیق مندرجہ ذیل شعر سے ہوتی ہے ۔
ہائے جس طرح گذاری ہے ہمیں جا نتے ہیں
کہاں ڈھونڈوں تجھے اے ناز اٹھانے والے

بحر حال یہ شعر امراؤ بیگم کی مصیبت پر صادق آتا ہے ۔البتہ اس کشمکش اور آشوب زدہ ماحول میں مظہر کا لڑکا ناصر اور خورشید کی بیٹی’’ جوئی ‘‘ رشتہ کے چچازاد بھائی بہن ہونے کی حیثیت سے بہت میل جول کے ساتھ کھیلتے ہیں دوسرے باب میں صبح کی منظر کشی کی گئی ہے۔ کوئل کوکتی ہے باد صبا جھوم جھوم کر چلتی ہے دل و دماغ کو فرحت بخشتی ہے۔پھولوں کے مسکان اور کلیوں کے چٹخنے کی آوازیں آرہی ہیں ۔ نمازی صبح کے فرائض سے فارغ ہو کرچہل قدمی کر رہے ہیں۔ سبھی کی زبان خدا کے ورد میں رطب اللسان ہے اور ایک گلشن ہے جو سر سبز اور شاداب ہے اس کے درمیان لوگوں کو سکون حاصل کر نے کے لئے چوکی دراز ہے اس موسم میں ناصر اور جوئی بھی ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جوئی کی عمر گیارہ اورناصر کی تیرہ سال ہے اس دل گد گدانے والے موسم میں دونوں کے محبت کی ابتدا ہوتی ہے سبھی باتوں باتوں میں ایک دوسرے سے ہم آغوش ہوتے ہیں پھر گھومنے لگتے ہیں تو کبھی تبخت پر جاکر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جیسا کہ آغا شاعر نے دونوں کی محبت کے بارے میں مندر جہ ذیل شعر کہا ہے ؂
وہ تاڑگئے اب تو خبر چھپ نہیں سکتی
کمبخت محبت کی نظر چھپ نہیں سکتی

غرضیکہ دونوں باغ میں ٹہلتے اور پھول توڑ تے ہیں اور پھر جوئی ناصر سے واپس کے لئے اجازت چاہتی ہے اور کہتی ہے ’’ میں گھر جارہی ہوں ورنہ پریشانی ہوگی ‘‘ ناصر روکتا ہے اور کہتا ہے ’’ کیا بے رخی ہے تم جارہی ہوں‘‘ جوئی جواب دیتی ہے ۔

مجھے اب گھر جانے دو دیر ہوجاتی ہے تو ماں مارتی ہے اور وہ رونے لگتی ہے ناصر اس کی کلائی پکڑ کر کپڑا اٹھا کر مار کا نشان دیکھتا ہے اور نشان کو اپنے ہونٹوں سے چومتا ہے اس موقع پر آغا شاعر کا مندرجہ دیل شعر ملاحظہ کریں ؂
آستین ہٹکے برق چمکی ہے
کیا کلائی ہے کیا کلائی ہے

ان نشانوں کو دیکھ کر ناصر آہ وزاری کر نے لگتاہے اور کہتا ہے تمہاری ماں تم پر ظلم وستم کر رہی ہے آخر کیوں ۔ میرے بھی تو ماں باپ ہیں۔ جوئی کہتی ہے تم امیر ہو میں غریب ہوں تم پر سب کا سایہ ہے اور میں لاوارث ہوں ۔ یہ سن کر ناصر کانپ جاتا ہے اور جوئی کے لئے اس کے دل میں محبت کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ جوئی اس طرح دل دکھانے والی بات نہ کرو۔ تمہاری بات سن کو میں کانپ سا جاتا ہوں اور جوئی وہی پرانی بات دہراتی ہے ۔ تم میرے ساتھ کیوں کھیلتے ہومیں تو ایک لاوارث لڑکی ہو ں تم امیر باپ کے بیٹے ہو تمہارا ہمارا کیا ساتھ اور جوئی رونے لگتی ہے اور گھر کی طرف چل دیتی ہے ۔ ناصر اس کا پیچھا کر تا ہے اور خوش آمد انہ لہجہ میں کہتا ہے کہ جوئی تم ناراض مت ہو چچا کوئی چھ ماہ میں آنے والے ہیں تمہاریے لئے اچھے کپڑے اور سامان لائینگے اس جگہ آغا شاعر نے دونوں کی طفلانہ محبت کو بڑی چابک دستی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ جب جوئی ناصر سے خوب متاثر ہوتی ہے تو وہ خوش ہو کر ناصر سے لپٹ جاتی ہے اور پھر دونو ں پھول تو رنے میں محو ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک بھونرا جوئی کو ستا نے لگتا ہے اور ناصر کہیں چھپ کر سب کچھ دیکھتا رہتا ہے جب جوئی پریشان ہوجاتی ہے تو ناصر کو آواز دیتی ہے ۔ ناصر جوئی کو اپنے بازو میں بھر لیتا ہے اور بھونرے سے کہتا ہے ’’ مان جا بھونرے مان جا ‘‘ ۔جوئی پھولوں کی مالا بنا کرناصر کے گلے میں ڈال دیتی ہے اوردونوں اپنے گھر کی طرف چلے جاتے ہیں۔ پھر تیسرے باب میں آغا شاعر نے کمشنرکی پر مسرت زندگی کو پیش کیا ہے ۔ برسات کا موسم ہے عالی شان محل رؤسا لوگ ہیں۔ ساون کا مہینہ ہے لوگ رنگ رلیاں منا رہے ہیں عیش و مستی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ یہاں ناول نگار نے گلی قاسم جان کی رنگا رنگی کو دلکش پیرا ئے میں بیان کیا ہے ۔ بوڑھے جوان، عورت مرد سب مستیاں لے رہے ہیں وہیں ناصر اور جوئی اور ان کے والدین اپنے آبائی گھر میں نمایاں نظر آرہے ہیں ۔بیگم کمشنر گا ؤ تکیہ لگائے پلنگ پر دراز ہیں چند بیبیاں ۔۔۔۔۔ ان کی خدمت میں یک ساعت عفلت نہیں برتنی اور چند قصہ کہا نیاں کہتی ہیں ۔ موسمی ہوائیں چل رہی ہیں غضب کی چہل پہل ہے ۔ یہاں ہر طرح کی بیبیاں گور نمکین جوان لڑکی دو شیزہ، لال گلابی، سرمئی کلک ریزی رنگ برنگ کے دوپٹے اوڑھے ہوئے ملبوس گل اندام نمایاں نظر آرہی ہیں ۔ کچھ ضعیفہ عورتیں سفید پوش مختلف قسم کی ترکاریاں چھیل رہی ہیں ۔ دوسری طرف میٹھی ٹکیاں سموسے گلگلے تلے جارہے ہیں ۔ دستر خوان میں لوازمات قرینے سے سجے ہوئے ہیں ۔ مہمانوں کو رسوم کے مطابق ہاتھ دھلائے جارہے ہیں لوگ کھانا تناول فرما کر کمشنر کے ممنون ہورہے ہیں ۔ کمشنر کا گھر ہر دن عید اور رات شب برات ہے۔ اس جگہ ہی ناصر اور جوئی اپنے والدین ساتھ نمایاں نظر آتے ہیں جیسا کہ اس سے قبل بیان کیا جا چکا ہے ۔ اس ہماہمی میں ناصر جلوہ افروز ہو تا ہے اور اپنی ماں کو آڑو پیش کر تا ہے ماں ناصر کو کوستی ہے کہ تم نے اپنے کپڑے گندے کر لئے ۔ ناصر کی بہن ذکیہ بھی کو ستی ہے اور کپڑے دھونے کی تلقین کر تی ہے ۔ ناصر اپنے کپڑے دھولیتا ہے اور آڑو تقسیم ہو نے لگتے ہیں ۔ حیدری خانم اپنے حصہ کے آڑو جوئی کو دے دیتی ہے اس پر ذکیہ الجھ جاتی ہے اور کہتی ہے کہ جوئی کو ایک زیادہ ملا ہے ۔ ناصر جوئی کی حمایت کر تے ہیں ۔ جوئی ایک آڑو ذکیہ کودیتی ہے اس پر ذکیہ جھلا تی ہے اور امراو بیگم جوئی کو ڈانتی ہے ۔ جوئی شرمندہ ہوتی ہے ناصر جوئی کی حمایت کر تا ہے تو امراو بیگم ناصر کو ڈاٹتی ہے اور کہتی ہے کہ تم کون ہوتے ہو جوئی کی حمایت کر نے والے ادھر حیدری خانم ناصر کو ڈاٹتی ہے اور ناصر ماں کے ڈرسے باہر چلا جاتا ہے او ر جوئی بے زبان گھٹ گھٹ کر خون کے آنسوپیتی ہے ۔ ذکیہ منرے سے آڑو چھیل کر کھاتی ہے ۔ جوئی اور ناصر ایک دوسرے کے درد میں غرق ہیں اس موقع پر آغا شاعر نے ایک شعر میں دونوں کی ہمدردی ظاہر کی ہے ؂
درد مندوں کو فقط اشارہ ہی کافی ہے
آہ کی ٹھیس لگی آبلہ دل ٹوٹا

جوئی ماں کے ڈر سے دور سے جنگل میں گھومتی ہے جہاں ناصر سے ملاقات ہوتی ہے دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر محبت کا دم بھرتے ہیں ناصر کہتا ہے کہ تم یہاں گھوم رہی ہو میں تیری فرقت میں گھٹا جارہا ہو ں ۔ دونوں کوئل کی میٹھی آواز کو یکسوئی سے سنتے ہیں اور اس میں محو ہو جاتے ہیں چوتھے باب میں خورشید قید سے رہا ہو کر پرائیوٹ نوکری کرتا ہے اور خوشیوں اور شاد مانیوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اس کی عکاسی مندرجہ ذیل شعر سے ہوتی ہے ؂
دنبالہ ان کی تند نگاہی میں آگیا
کھنچ کر کماں سے تیر گواہی میں آگیا

دیکھتے ہی دیکھتے بیگم کمشنر کا انتقال ہو جاتا ہے ۔ اس کے اقرباء ماتم کر تے ہیں ۔ حیدری بیگم اور مظہر دکھاوے کا واویلا مچاتے ہیں بہ نسبت خورشید اور امراو ء بیگم کے ۔ دونوں فریق میں نفرت کا جذبہ یہیں سے شروع ہوتا ہے ۔ پانجویں باب میں ناصر اور جوئی کی محبت بام عروج پر پہنچ جاتی ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے بیقرار اور بیتاب رہتے ہیں ۔ دونوں کی بیباکی دیکھ کر دونوں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے اور دونوں چہاردیواری کے اندر ایک دوسرے سے الگ قید و بند کی زندگی گذارتے ہیں۔ ایک دن جوئی سیر کو جاتی ہے وہاں ناصر بھی آجاتا ہے ۔ دونوں کی ملاقات تنہائی میں ہوتی ہے دونوں آپس میں خوب باتیں کر تے ہیں ۔ جوئی بھائی کے خوف سے درخت کی اوٹ میں چھپ جاتی ہے ۔ ناصر اس کا آنچل پکڑ کر کھیچتا ہے کہ اس وقت احمد اور مقبول آجاتے ہیں اور ناصر واپس بھاگ جاتا ہے ۔ چھٹے باب میں احمد ناصر اور جوئی کے متعلق سب کچھ ما ں سے بتلا دیتا ہے ۔ امراو بیگم اسے کوستی ہے اور سخت پابندی لگا دیتی ہے ۔

دونوں ایک دوسرے کے لئے پریشان ہوتے ہیں اس طرح ان کے عشق کا پردہ فاش ہو جاتا ہے اور ساتواں باب شروع ہوجاتا ہے !

کیا تصور ہے واہ رے تصویر
اتر آئی ہیں دل میں یار کی آنکھیں
یاں پہ لب لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
واں ایک خاموشی تیری سب کے جواب میں

آٹھویں باب کی شروعات کچھ اس طرح کی ہے ۔ دونوں قید و بند میں پریشان ہیں اس کی نشاند ہی جوئی کی اس گنگناہٹ سے ہوتی ہے ۔
’’ چپ رہ دل ناصر ناصرنہ کیا کر ‘‘

نویں باب میں کشمیری دروازہ کا منظر ہے ناصر کالج میں پڑھتا ہے جہاں اس کے جگری دوست محسن سے ملاقات ہو تی ہے اور محسن ناصر سے ہم کلام ہوتے ہوئے یہ شعر پڑھتا ہے ؂
شباب آنے نہ پایا کہ عشق نے مارا
ہمیں بہار کے لالے پڑے خزاں کیسی

دسویں باب میں مظہر اور حیدری بیگم اپنے فرزندارجمند کے بارے میں سوچتے ہیں کہ کس طرح اس کو اس راہ سے ہٹایا جائے تاکہ انٹر نس پاس کر لے آخر یہ بات طے پاتی ہے کہ والدین نے مکان میرے نام کر دیا ہے اس میں خورشید کا کوئی حق نہیں اس طرح خورشید کو اس مکان سے بے دخل کر دیتا ہے ۔ گیارہویں باب میں مظہر اپنے بیٹے کو جادو ٹونے سے بچانے کے لئے ایک پیر صاحب کے پاس لے جاتاہے اس کے ساتھ اس کی اہلیہ بھی ہوتی ہے وہاں پیر صاحب ان کے ملازم اور دیگرمدعا خواں سے بات ہوتی ہے اور حیدری خانم تعویز لے کر لوٹتی ہے ۔ بارہویں باب میں مظہر کسی عشق کا ذکر ہے اور پھر ناصر جوئی کو خط لکھتا ہے اور جوئی رو رو کر آخری سلام کے ساتھ معزرت خواہ ہوتی ہے۔تیرہویں باب میں ناصر اور جوئی کی شادی کی بات ہوتی ہے مگر ناصراس شادی سے انکار کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جب میں خود کفیل ہو جاؤں گا پھر شادی کر وں گا۔

یہاں آغا شاعر سے بھول ہو گئی ہے کہ جو لڑکا اپنی معشوق کی جدائی میں اپنی جان دے دیتا ہے اس کو قبل اس کے شادی سے انکار کرتے ہوئے دکھایا ہے ۔ اس سے ناصر کے کردار میں فتور پیدا ہو گیا ہے ۔ جو عاشق اپنی معشوق کے بچھڑ جانے سے خودکشی کر سکتا ہے وہ اپنی معشوق سے شادی سے کیسے انکا رکر سکتا ہے ۔ صرف اس بنیاد پر کہ خود کفیل بن جاؤں جبکہ لڑکی کے کردار کو آغاشاعر نے بڑی دلکشی سے پیش کیا ہے جب ناصر خود کشی کر لیتا ہے تو جوئی اپنا گلا کاٹ کر اس سے ہم آغوش ہو جاتی ہے جس پر تھوڑی دیر کے لیے یقین کر نا ممکن نہیں مگر یہاں معاشقہ کا بیان ہے جوئی کے دل میں سچی محبت رہی ہو ممکن ہے والدین کی وجہ سے چھپا رکھی ہو مگرجس سے تجاوز کر نے پر وہ بیباکی کے ساتھ اس محبت کا اعلان کرتی ہے اورنتیجتاً خود کشی کر لیتی ہے۔

اس طرح جوئی بے وفائی کے باوجود باوفا ثابت ہوتی ہے مگر ناصر پیہم وفا کے راستے پر گامزن رہ کر بھی شادی سے انکار کر نے پر بے وفا ثابت ہوتا ہے ۔ یہاں آغاشاعر نے فن اور تکنیک کو بالائے طاق رکھکر جذبات سے کام لیا ہے ۔

بہر کیف ناصر شادی سے انکا ر کرتا ہے ۔امراؤبیگم اور حیدی خانم میں جھڑپ ہو تی ہے اور اختلاف زور پکڑتا جاتا ہے چو دھویں باب میں خورشید مقدمہ ہار کر اپنے اہل و عیال کے ساتھ دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے ۔ ناصر کی عمر اٹھارہ اور جوئی کی سولہ ہے اس بات میں آغا شاعر نے پرانی دلی کے پر فضاماحول رنگینی کے ساتھ پیش کیا ہے جس میں رسم و رواج کے طور طریقہ غرضیکہ زندگی کے تمام شعبہ کی عکاسی کی ہے ۔ مظہر اور حیدری خانم نے اطمینان کا سانس لیا مگر کہاں بلا تو اب آرہی ہے ۔ ناصر آشق نا مراد جو جوئی سے ملنے کی تاک میں تھا ۔ ناصر اپنے دوست محسن کے گھر جاتا ہے حو لالہ پیارے لال کا کرایہ دار تھا اس کے گھر کی چھت کے ذریعہ جوئی تک پہونچتا ہے جوئی اپنے بام پر انگڑائیاں لے رہی تھی ۔ دونوں کی ملاقات ہوتی ہے ۔ پندرہویں باب میں مظہر ناصر کو اعلی تعلیم کی ترغیب دیتا ہے ۔ سولہو یں باب میں ناصرکے اوپر ظلم و تشدد کا ذکر ہے اس کی ذہنی کیفیت کی عکاسی آغا شاعر کے اس شعر سے ہوتی ہے ؂
گرے پڑتے ہیں پہلے سایہ سے
کچھ عجب اپنا حال ہے اب تو

ناصر کی والدین تین دن کے سفر سے واپس آتے ہیں اور بیٹے کے احوال سنکر ما ں باپ کی محبت عود کر آتی ہے ۔ دروازہ کھلتا ہے پھر سبھی لوگ ناصر سے لپٹ جاتے ہیں ۔ادھر خورشید اورجوئی کی منگنی بلی ماران کے ڈاکٹر اولاد علی کے صا حب زادے محمود علی سے ہو جاتی ہے۔یہاں آغا شاعر نے فتح پوری ، بلی ماران، چاندنی چوک ساتھ ہی دریبہ کلاں، کوچہ بلاقی بیگم کا بہت دل کش منظر کھینچتا ہے اس طرح اس باب میں شادی کی بات پکی ہو جاتی ہے ۔ مگر جوئی بہت پژ مردہ ہے اس کے بر عکس ناصر اٹھارہویں باب میں اپنے والدین سے نالا ں ہے ۔ وہ جوئی سے شادی کے لیے باپ کو خط لکھ کر ماں کے ذریعہ بھیجواتا ہے ۔ مظہر کالج سے واپس آتے ہیں تو سارا ماجرا حیدری خانم سناتی ہے ۔ مظہر صاحب کہتے ہیں جوئی کی شادی طے پا گئی ہے جو کم ذات ہے گھر میں ڈومنیاں اور ہجڑے ناچتے ہیں۔ اچھا ہوا میرا لڑکا بچ گیا ۔ ناصر کا خظ پڑھ کر بہت آبدید ہ ہوتا ہے ۔ اپنی اہلیہ سے منشی گل باز گی بیٹی کے متعلق بات کر نا ہے حیدری خانم کہتی ہے کہ لڑکا کسی حال میں تیار نہیں ہے ۔ ناصر صرف جوئی سے شادی کرے گا ۔ورنہ اس نے اپنی رائے لکھ دی ہے ۔مظہر چارو نا چاراپنے بھائی خورشید کو منسوب کے بارے میں خط لکھتا ہے ۔ انیسویں باب میں خورشید اس رشتہ کو منظور کر لیتا ہے اور ایک مقرر تاریخ کے بارے میں کہہ دیتا ہے کہ اس ناریخ تک میں انتظار کروں گا ۔ اتنے میں خورشید کو تار ملتا ہے کہ مہاراجہ بیکانیر نے یا دکیا ہے وہ وہاں کے لئے روانہ ہو تا ہے ۔ بیسویں باب میں جوئی کی حرما نصیبی مجبوری، اضطرابی بے چینی کو بڑے درد بھرے انداز میں پیش کیا گیاہے ۔ وہ صرف ناصر کی یاد میں بے ہوش پڑی رہتی ہے ۔ اکیسویں باب میں مظہر کو خورشید کاخط ملتا ہے کہ تو اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ دیکھو اچھا ہوا اب لڑکے پر پابندی لگا دو کہ کہیں جانے نہ پائے ۔ جوئی کی شادی فلاں تاریخ کو ہو جائے گی پھر سب کچھ بھول جائیگا۔ ناصر پر پابندی لگ جاتی ہے مقررہ تاریخ ٹل جانے سے جوئی کی شادی محمود علی مڈل فیل سے ہوگئی ۔ اس بات ناصر کو صدمہ پہنچتا ہے اور وہ اپنے والدین سے شکایت کرتا ہے کہ آپ وعدہ کر رکھا تھا کہ تیری شادی صرف جوئی سے ہوگی مگر ناصر کے والد کی مکاری دیکھئے کہ اس نے اس سے لا علمی ظاہر کی ۔ آخر کچھ دن تو ناصر نے خوب رو رو کر جی ہلکان کیا اور گھر کے سارے افراد کو خوب بہ دعائیں دیں کہ تم لوگو ں نے میرے ساتھ دھوکہ کیا پھر ایک دن وہ عاشق انتقال کر گیا۔ جب ناصر کے انتقال پر ملال کی خبر جوئی کوملی تو جوئی نے بیباکی کے ساتھ سسرال اور دنیا والوں کو ٹھکر ا کر اپنی سچی محبت کی گواہی دینے ناصر کی میت تک پہنچتی ہے اور خنجر سے اپنے حلقوم کاٹ کر ناصر سے ہمیشہہ کے لئے مل جاتی ہے ۔

اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ ناصر اور جوئی کی محبت سچی تھی اگر اس دنیا میں نہیں تو عالم برزخ میں دونوں ایک دوسرے کے ہوگئے ۔ آغاشاعر کے اس ناول کے انجام سے ذہن شوق لکھنؤی کی مثنوی زہر عشق اور میر کی مثنوی شعلہ عشق کی طرف جاتا ہے کہ دونوں مثنویوں کا انجام بھی اس طرح کا ہے ۔

ناصر جوئی ، امراؤبیگم، حیدر ی خانم، مظہر ناول’’ ارمان‘‘ کے مرکزی کردار ہیں جن کے گرد ساری کہانی گھومتی ہے اس کے علاوہ خورشید احمد ، محسن منیر ذکیہ وغیرہ معاون کر دار ہیں جو وقتاً فوقتاً بہ قدر ضرورت نمودار ہوتے ہیں۔اس ناول میں ایک پورے خاندان کو جگہ دی گئی ہے ۔ جتنا اثر ناصر اور جوئی کے کردار پڑتا ہے اتنا کسی پر نہیں اس صورت میں ہم ناصر کو ہیرو اور جوئی کو ہیروئین کہہ سکتے ہیں ۔ جوئی اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی ہے ۔ جیسا کہ ناصر نے بغاوت کر کے انا نیت کی دیوار توڑ دی ۔ جوئی سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے والدین اور رسم ورواج کی پابندی فرض سمجھ کرکرتی ہے ۔ ایک طرف جوئی کا کردار اہم ثابت ہوتا ہے کہ جہاں وہ اپنے والدین کی عزت رکھ لیتی ہے تو دوسری طرف محبت کی خاطر بغاوت نہ کر کے اپنے کردار کو کمزور بناتی ہے جوئی کے لئے یہ ممکن نہ تھا اس لئے کہ وہ مجبورتھی وہ جوئی کہ کردار سے آغا شاعرنے بیسویں صدی کے مسلمانوں کی مشرقی روایت کو زندہ رکھا ہے کہ لڑکا اپنے رومانس کی خاطر بغاوت کر سکتا ہے مگر ایک مشرقی خاتون ایسا نہیں کر سکتی ۔

دوسرا کردار مظہر کا ہے جو اپنے عہد کا نمائندہ ہے وہ ہر وقت اپنی بلندی پر رہنے والا انسان ہے اس کا ذہن نبجے آنے کو تیار نہیں ہے ۔ اپنے متبکرانہ مزاج کی وجہ سے خون کو خون نہیں سمجھتا اپنی انا کی خاص بھائی کو تباہی کے راستے پر چلا تا ہے اور بیٹے کے جذبات کو ٹھیس لگا کر لقبمہ اجل کا مزہ چکھا دیتا ہے ۔اس کے کردار میں مکاری عیاری ، دغابازی بھری پڑی ہے ۔ مظہر کا کردار ناول کو جلاتو بخشا ہے مگر تنقیدی نقط نگاہ سے ذلیل اور بدمزہ کردار ہے ۔

ناصر کا کردار جوئی کے کردار کے برعکس بے حد اہم اور نمایاں ہے جو ناول کے اور اق میں درخشندہ ستارے کی مانند چمک رہا ہے ۔ مگر ناصر کا کردار بھی ایک جگہ کمزور پرتا دکھائی دیتا ہے کہ اس نے شادی سے صرف اس لئے نکار کیا کہ وہ خود کفیل نہیں تھا ۔ یہ غدر سچے عاشق کے لئے جائز نہیں۔ ناصر کا باپ اس کے حال سے متاثر ہو گیا تھا اگر ناصر شادی کر لیتا تو مظہر ہو حال میں اس کی کفالت برداشت کر سکتا تھا۔ چند دن دقت ہوتی مگر اس کے بعد حالات سازگار ہوتے چونکہ ناصر کی ماں اس شادی کے لئے من و عن تیار تھی ۔ یہ سچ ہے کہ عورت کے سامنے مرد کو جھکنا ہی پرتا ہے ۔ ناصر کی ماں اس کی حمایت کرتیں۔ حالات سازگار ہوتے اور ناصر بھی تو روزی کمانے کے لئے کچھ کر سکتا تھا ۔ تنقیدی نقطٔ نگاہ سے ناصر کا کرداربھی کچھ ڈھیلاڈھالا ہے مگر جہاں وہ زہر کھالیتا ہے تو دنیا میں اپنا مقام بنا تا ہے ۔ اس کے برعکس حیدری خانم کا کردار شروع سے آخر تک صاف ہے ۔ جیسا کہ ناول کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ حیدری خانم امراؤبیگم کے تعلقات ہمیشہ سازگار رہے ہیں ۔ مگر ایک جگہ جہاں ناصر آڑو لیکر نمودار ہو تا ہے۔ اس جگہ ناصر کی اپنی بہن سے جھڑپ ہو جاتی ہے مگر جوئی کے ساتھ اس کا رویہ مناسب ہے اور اپنا آڑو جوئی کو دے دیتی ہے دوسری جگہ امراؤ بیگم اور حیدری خانم کے درمیان شادی کی بات ہو تی ہے تو حیدری اپنے بیٹے کی نالائقی پر امراؤبیگم سے الجھ جاتی ہے اور ناصر کا تعلق جوئی سے ختم کر نے کے لیے تعویز لیتی ہے ۔ اس طرح خانم کا کردار بھی نقص سے پاک نہیں ہے لیکن موہم سا نقص ہے جوکوئی معنی نہیں رکھتا ۔ اس طرح خانم کا کردار بھی نمایاں ہے امراؤبیگم کا کردار بھی شروع سے معصوم اور سادہ نظر آتا ہے ۔ مجموعی طور پر جب ہم تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں تو دونوں کا کردار اس میں جہاں باہمی رقابت ہی نہیں بلکہ مروت ، محبت ملتی ہے اس طرح خورشید کا کردار اہمیت کا حامل ہے کہ مظہر نے مقدمہ کر کے زمین سے بے دخل کر دیا شادی کا پیغام دے کر بھی دغا کیا سب کچھ خورشید نے برداشت کیا صرف اتنا کہ سکا کہ بھائی ہے اس طرح اس نے انسانیت کا ثبوت دیا ۔بقیہ سبھی کردار ناول کی طوالت کے لئے ضمنی طور پر دئے گئے ہیں ۔

ارمان ایک نفسیاتی ناول ہے اس کا تذکرہ پہلے بھی ہو چکا ہے جو آغاشاعر کی زرف نگاہی کی پیدا وار ہے ۔ آغاشاعر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان تحریروں میں ا س سماج کی عکاسی ہے ۔ انہوں نے اپنے دور پر بھی زبر دست طنز کیا ہے ۔ آغا شاعر کا ناول’’ارمان‘‘ دلچسپی اور دلکشی بھی رکھتا ہے ان کے اس ناول میں چند چھوٹے کردار کے علاوہ سارے کر دار شروع سے ناول سے ناول کے صفحات پر ہمارے سامنے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم اس کی ذہنیت اور شخصیت سے بخوبی واقف ہو جاتے ہیں ۔ جیسے حیدری خانم ایک معاون کر دار بھی حیدری کے کردار سے کچھ کم اہم نہیں ہے ۔ ناول ’’ ارمان‘‘ میں جذبات نگاری کی بہتات ہے جس کی بنیاد نفسیات انسانی پر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آغا شاعر کی ناول نگاری کو رومانی کہا گیا ہے منظر کشی اس ناول کازیور ہے جو واقعات و کردار سے قریب تر معلوم ہو تی ہے جس میں حسن و عشق کا دریا تلاظم حیز ہے ۔

جس طرح شرر ناول کے دریعہ تاریخ کے حوالے سے اسلام کی عظمت کو بروئے کا ر لائے ہیں اورراشد الخیری نے مشرقی روایات کو قائم رکھنے کی جستجو کی ہے اسی طرح آغا شاعر نے اپنے ناولوں کے ذریعہ اس عہد کے مسلمانوں کی رومانی معاشرتی اور نفسیاتی زندگی پر تبصرہ کر نے کی کوشش کی ہے ۔ دراصل موصوف کا یہ رجحان مغربی تہذیب و تمدن کی یلغار سے محافظت کے حوالے سے و جود میں آیا تھا ۔ انہوں نے ناول ’’ ارمان‘‘ کے دزیعہ وہی کا م انجام دیا جس کی تلقین اکبر الہ آبادی کی شاعری میں ملتی ہے اس ناول سے آغا شاعر نے مشرقی تہذیب کی مستحکم حمایت کی ہے ۔ انسانی شعور کی رو کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ یہ ناول فن اور تکنیک کے اعتبار سے مکمل او ر مستحکم ہے ۔ ’’ ارمان‘‘ کے مطالعہ سے فلسفہ حیات کا پتہ چلتا ہے کہ ۔ وہ تعلیم یافتہ سماج کی بنیاد ڈالا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے وہ تعلیم نسواں کو ضروری قرار دیتے ہیں ۔ اس لئے کہ ماں کا گود ہی بچوں کا اولین مدرسہ ہوتا ہے ۔ اس کے متعلق والگ اور وارن نے کہا ہے ’’ خاندان ہی انسان کی زندگی کے بارے میں سارے تصورات کی تشکیل کر تا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آغا شاعر نے ایک خاندان کے نزاع کو روحانی پیارمیں پیش کیا ہے ۔ جس میں آغا شاعر نے دکھایا ہے کہ والدین کی بے توجہی اور نفرت کے سبب کئی معصوم جانیں ضائع ہو سکتی ہیں ۔

اس ناول میں مظہر کے کردار سے پتہ چلتاہے کہ وہ تعلیم یافتہ مسلم ضرورہے مگر اس کے خیالات مغربی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ناصر کی شادی جوئی سے نہیں ہونے دیتا۔ اس مغربی رنگ کی بنا پر بھائی سے نفرت کر تا ہے ۔اس طرح مظہر کا کردار آغا ز سے اختتام تک مغرب پرستی کانمائندہ بن گیا ہے ۔کبھی سفر میں ہے تو کبھی کالج یونی ورسٹی میں کبھی شرفا کی مجلس میں نظر آتے ہیں اس طرح آغا شاعر کا ناول ’’ ارمان‘‘ مشرقی پائداری اور قدامت پسندی کی حمایت او رمغرب پرستی سے انحراف کا آئینہ دار ہے اس کے علاوہ جتنے بھی کر دار ہیں سبھی کر دار مشرقی پائداری کی اچھی مثال ہیں اس طرح آغا شاعر کے ناول اپنی طرز میں کامیاب کہے جا سکتے ہیں ۔ یہ ناول ان کو خوب شہرت بخشتی ہے۔

آغا شاعر جس کی اہتمام اور شدومد سے ارمان اورنفسیات کا اہتما م کر تے ہیں ۔ یہ ناول ’’ ارمان‘‘ میں پوری طرح رواں دواں ہے ۔ اپنی انا کی خاصرجولوگ معصوموں کی قربانی دیتے ہیں اس کے خطرناک انجام کو آغا شاعر نے ناول ’’ ارمان‘‘ میں خوبصورت پیرائے میں پیش کر دیا ہے ۔ اناکے ہجاری والدین کے درمیان کشمکش کی چکی میں دو معصوم پھول کس طرح پستے ہیں مگر انہیں اس کا احسا س تب ہوتا ہے جب وہ پھول ٹہنی سے بچھڑ کر خاک کے دامن میں سما جا تاہے ۔ انہیں باتوں پر ناول کا پورا پلاٹ گرد ش کر رہا ہے ۔

ناول’’ ارمان‘‘ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آغاشاعر مشرق کے دلداد ہ تھے ہی مگر ساتھ ہی وہ مغربی تہذیب کی رنگارنگی سے اپنی ضرورت کی چیز حاصل کر نے میں گریزنہیں کر تے تھے ان کا ناول ’’ ارمان‘‘ مشرقیت پر مبنی ہے مگر مغر بیت کا رنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے جیسے مظہر کا کردار جو پوری طرح مغرب پر ست ہے اور پھر اپنے اندر آغا شاعر نے مشرق اور مغرب کی خصوصیات کو پرودیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آغاشاعر رومانی تحریک سے وابستہ رہے ہیں ۔ مگر اس کے اثرات کو قبول نہیں کیا ۔

آغاشاعر نے 1903ء میں ’’ ارمان‘‘ کے علاوہ ہیرے کی کنی اور دیگر ناول لکھے۔ ان کے ناول اردو ناول کی ترقی میں اہم مقام رکھتے ہیں ۔ ارمان میں خاندانی نزع اور افراد کی کشمکش کو بڑی چالاکی سے قلمبند کیاگیا ہے ۔ فر د اور سماج میں جو آویزش ہوتی ہے اس ناول میں پیش کیا گیا ہے ۔ دونوں کی کشمکش سے اس تہذیبی امتزاج کا نقشہ سامنے آتا ہے جو بیسویں صدی کے پہلے سے ہی ہندوستان میں زور پکڑ رہا تھا ۔ جس طرح ناصر کا کردار بدلتے ہوئے معاشرہ کا شکار ہے جیسا کہ مشہور ہے بیسویں صدی میں جسم و روح مادیت اور روحانیت کی کشمکش میں عام انسان کا اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا ہے ۔ اس طرح اس عہد میں معاشرے کی تبدیلی سے فر د کی نفسیا ت پر جو اثرات پڑے اس کو ارمان میں بڑی فنکار انہ خوبیوں سے پیش کیاگیا ۔ مقصد کے بارے میں کانٹ نے بھی ضرروی اور اہم بتایا ہے یہ اور بات ہے کہ فن مقصد یت کا شکار ہو جاتا ہے مگر ناول میں مقصد کا ہونا فن کا نقصان نہیں کسی مقصد یا نظریہ کے بغیر کسی فن پارہ کی تخلیق نہیں ہو سکتی ۔ اس بارے میں ارتھر کو سلو کا یوں کہنا ہے ۔ ہم کو فن کی مقصدیت کے متعلق کوئی اقتباس نہیں رکھنا چاہیئے کیوں کہ فن کے پیچھے کوئی نہ کوئی نظریہ ضرور ہو تا ہے ۔

ارمان مقصد ی ناول ہے یہ اور بات ہے کہ ناول نگاروں کی نظر سے دور طاق نسیاں کی زینت بنا رہا ہے اس کا کردار اور پلاٹ اس نوعیت کا ہے کہ خودقاری اس سے نتیجہ اخد کر لیتا ہے کہ اس رول کی اہم ترین خصوصیت کر داروں کی نفسیاتی پیشکش ہے ۔ فوسٹر نے کہاہے کہ ’’ پوشیدہ جذبات کو پیش کر نا ناول نویس کا عظیم کام ہے -

ڈیوڈ سیل نے کہا ہے ’’ انسانی فطرت سے مکمل آگہی ظاہر کر نا ناول نویس کا کام ہے ۔9 انسانی فطرت اور نفسیات سے آگہی آغاشاعر کے یہاں بھی ملتی ہے جیسا کہ اس عہد کے دوسرے ناول نویسوں کے یہاں بھی ۔ ایسا اس لئے ہوا ہے کہ آغا شاعر نے انسانی نفسیات کا بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا ۔ اس لبے کہ وہ انگریزی منطق ، ادب فلسفہ تاریخ غرض ہر شعبہ میں کامل دستر س رکھتے تھے ۔ ارمان میں کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ شروع سے آخر تک موجودہے ۔ فرائڈ نے کہا ہے کہ ’’فنکار تصور کی دنیا میں اس لئے محو ہو جا تا ہے کہ وہ حقیقی دنیامیں اپنی خواہشات کی تسکین نہیں کر سکتا۔ 10 اور یہی چیز ارمان میں پیش کی گئی ہے اس طرح ناولوں میں کرداروں کی خواہشوں کی تکمیل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ۔

مگر ناول ارمان کا ہیرو منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتا ہے وہ جذبات و خواہشات دبا لیتا ہے ۔ جو فرائیڈ کے متعلق صرف الم سے بچنے کے لئے دب جاتی ہے ۔11اس لئے کہ اس کو بر قرار رکھنے سے سماجی قوت اسے تکلیف پہنچا سکتی ہے ۔ اس لئے ایس خواہش رد کر دی جاتی ہے ۔12 مگر یہ لاشعور میں باقی رہتی ہے اس ناول میں جوئی ناصر کی فطرت کواپنی مرضی کے مطابق موڑ دیتی ہے جبکہ ناصر کے لاشعور میں فطری خو ا ہش پنہاں ہے اس کے برخلاف جوئی ناصر کی موت کی خبر سنتی ہے تو غیر شعوری طورپر اپنی محبت کا انکشاف کر دیتی ہے اس طرح آغا شاعر نے بالکلیہ نفسیاتی اسباب ظاہر کئے ہیں دونوں ہی خوش گوار زندگی گذارتے تھے مگر دونوں ذہنی مریض تھے کہ دونوں ایک دوسرے میں ضم ہو جانا چاہتے تھے جس کاپودہ بچپن میں ہی لگ چکا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ یونگ نے کہا ہے کہ’’ ہر مردایک عورت کی تمنا رکھتا ہے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ لاشعور میں چھپی اس عورت کو تخیلی طور پر کسی وقت بھی جسمانی صورت دی جاسکتی ہے ۔12 اس طرح ناصر نے بھی جوئی کو اپنے تصور میں بسا لیا تھا ۔یہ تصویر جوئی کی طرح تھی تو دل دے دینا لازمی امر تھا جیسا کہ دونوں بچپن سے ہی ایک دوسرے پر جان چھڑک رہے تھے اس لئے جب ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو جذباتی ہوکر ملتے ہیں ۔ یونگ کا قول ہے کہ والدین اپنی اولاد کو ایسی زندگی گذارنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ جس کو وہ خود حاصل کر نا چاہتے تھے مگر نہ کر پائے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت زیادہ اخلاق پر زور دینے والے ما ں باپ کے بچے غیر اخلاقی حرکتوں میں منہمک ہو جاتے ہیں یا پھر اس کے برعکس ہوتا ہے ۔13مظہر کی سخت گیری نے ناصرکے کردار میں یہی بات پیدا کر دی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ساری بندشوں اور قبود کو توڑ کر آزاد ہو جانا چاہتا ہے اور اپنی نفسیاتی حالات کے ساتھ جوئی کی یاد میں محو رہتا ہے ساتھ ہی یہا ں ایک اور اہم واقعہ پیش آتا ہے کہ جوئی کی ماں ناصر کو یہ کہکر کوستی ہے کہ جوئی کون ہے تمہاری جو اس کی حمایت کر تے ہو۔ جو ناصر کو گراں گذرتا ہے۔ اس طرح آغا شاعر نے مخلوط خاندان کے ایک اہم نفسیاتی پہلو کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ آغاشاعر نے اس ناول میں جگہ جگہ نفسیاتی بصیرت کا ثبوت فراہم کیا ہے اور زندگی کی حقیقت شعار انہ عکاس کی ہے جیسا کہ سہیل بخاری نے ناول ارمان کے متعلق لکھا ہے۔

’’ ارمان بھی ایک رومانی ناول ہے جس میں ایک خاندان کے نزاع کے المناک نتائج دکھائے گئے ہیں ۔اس ناول میں بڑی چابک دستی سے متوسط طبقہ کی خانگی معاشرت کی نقشہ کشی کی گئی ہے ۔ مصنف نے جس اہتمام کے ساتھ دو معصوم دلوں میں محبت کابیج ہویا ہے اور جس نفسیاتی انداز میں ان کی عمر کے ساتھ ساتھ اس ننھے سے پودے کو پروان چھڑھایا ہے وہ تاثیر درد او کسک میں آپ اپنی مثال ہے اول الذ کر ناول کی جملہ خوبیوں کے علاوہ اس میں آغا شاعر کی حقیقت نگاری کا بھی کمال نظر آتا ہے ۔ یہ ناول اپنی معصوم رومان کی دلکش آغاز اور فطری انجام لطیف و بلیغ کتابوں نفسیاتی اشاروں حقیقی مرقع کشی۔ واقعیت نگاری ڈرامائی انداز بیان اور کرداری ارتقاء اور پر تا ثیر مکالموں اعلی انشا پردازی کے باعث اردو ادب کا ایک نادر شاہکار ہے ۔13

’’ہیرے کی کنی‘‘
ناول ’’ہیرے کی کنی‘‘ اردو ناول نگاری میں آغا شاعر کا وہ قیمتی سرمایہ ہے جس پر انسانی فلسفہ حیات کی بنیاد ہے ۔ اس ناول کا پلاٹ ایک سولہ سالہ لڑکی کی نازیبا حرکت اور جنسی خواہشات کی لذت پرمبنی ہے اور نواب جہانگیر احمد کی نازیباحرکات پربھی اس ناول کی نوعیت دلکش اور دلفریب ہے ۔ ناول کہ مطالعہ سے قاری کا دل و دماغ خوش رنگ ہو جاتا ہے ۔ اس کے متعلق آغا شاعر نے لکھا ہے کہ ہیرے کی کنی ایک ایسا ناول ہے جس میں بیسویں صدی کی حکومت ہند کے ولی عہد کی ناشائستہ حرکات اور رومانس کو دلچسپ بنا کر پیش کیا گیاہے ناول ہیرے کی کنی انیس باب پر مبنی ہے ۔ ہر باب کا ربط و تسلسل ایک دوسرے سے یکساں او ر قریب ہے ۔ ساتھ ہی مفصل اور متعین نصب العین بھی اس میں کثرت سے نظر آتا ہے ۔ ہیرے کی کنی میں جس ماحول کی عکاسی کی گئی ہے اس کا نصب لعین ہندوستانی حکومت کے ولی عہد کی نازیبا حرکات غیر ذمہ دار اور نا عاقبت اندیشی ہے جس کی آگ میں پوری ریاست جل رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آغا شاعر کا ناول ہیرے کی کنی جس میں بیسویں صدی کے اوائل ہندوستانی روایت ، رسم ورواج، حکومت سیاست کا رنگ سماجی، معاشی سیاسی تعلیمی، مذہبی اقتصادی زنذگی کا عکس نظر آتا ہے ۔ اس میں آغا شاعر نے دلی کے قدیم تہذیب و معاشرت کی عکاسی کی ہے ۔ ادنیٰ اعلی کی سوسائٹی امرا ’’ روئسا‘‘ کی محل سراؤں، گلی کوچو ں بازاروں کی رنگ بر نگی زندگی کی مرقع کشی بڑے دلکش انداز میں کی گئی ہے ۔ نواب جہاں گیر اور سلطانہ بیگم ناول کے مخصوص کر دار ہیں جو ررومان کا مرکز ہے ۔ دلی کی پرانی معاشرتی اور لاابالی پن فضا کا پروردہ ہے دوسری طرف دہلی کے نوابین کی مصا جین کا نمائندہ ہے ۔ دوسر ے نمبر کا کردار کبریٰ کا ہے ۔جس کی بنیاد بے وفائی پر ہے ۔ مگر نواب جہانگیر دار ہو س کا شکار ہو نے کی و جہ سے کبریٰ کو دل وجان سے چاہتا ہے اور پھرآخرمیں کبریٰ کے بے وفائی بے حد شرمندہ ہو تا ہے اورپریشان رہنے لگتا ہے کہ سلطانہ بیگم جو کہ بچہ ایاز بن کر نواب کی خدمت میں آتی ہے وہ نواب کو صداقت پر مبنی زندگی گذارنے کی تلقین کرتی ہے اور اسے درس دیتی ہے کہ انسان کا فلسفہ حیات کیا ہے اور اس کے پیچھے خدا کی مرضی کیا ہے اس کو سمجھئے اور اسکے مطابق زندگی گذارئے دنیا تو فرضی ہے ۔ ابدی زندگی تو عالم برزخ ہے اس کا سامان حیار کرو اسطرح سلطانہ بیگم کو بھی اس ناول کا اہم کردار مانا جا سکتاہے جو مختلف حرب وضرب میں ماہر ہے سچا عاشق اور باغی دوشیزہ ہے حسین صحت مند ہے۔ سچائی کا ثبوت فراہم کر نا اس کاشغل ہے مجموعی طورسے ناول ’’ ہیرے کی کنی‘‘ فنی اعتبار سے بڑے پایہ کی چیز ہے یہ اور بات ہے کہ اس میں رومان کا پہلو زیادہ ہے ۔ مگرامراؤ سے لے کر غربا تک کی زندگی کا آئینہ دار ہے جو بیسویں صدی کی ٹھاٹھ باٹھ پر محیط ہے ۔ یہاں ہیرے کی کنی کے پلاٹ کو مختصر طور پر قلم بند کر تاہوں اس سے ناول کی نوعیت کا اندازہ ہو سکتا ہے ۔

پہلے باب میں ناول نگار نے ایک سولہ سالہ لڑکی حمیدن کو پیش کیا ہے جو اپنی ماں کی بنائی میٹھی ٹکیا کھا رہی ہے اور اپنے عاشق کے متعلق سوچتی ہے اور والدین کو کوستی ہے کہ یہ لوگ میری شادی نہیں کر اتے ۔ اس جگہ حمیدن جذبات کی حد کو پار کر گئی ہے۔ آغا شاعر نفسیات کہ ماہر نظر آتے ہیں اس عالم میں لڑکی کھانے پینے سے بے بہرہ ہے وہ ہمیشہ اپنے الجھن کے بارے میں سوچتی ہے کہ کہیں ہمارے پیار کو پڑوسی کی نظر نہ لگ جائے ۔ اچھن ایک سپاہی ہے جو حمیدن کا عاشق ہے جوروزانہ چھپ کر اس سے ملتاہے مگر حمیدن چوری کی ملاقات سے گریز کرتی ہے ۔ وہ تو شادی کر نا چاہتی ہے شادی کی تکمیل نہ ہونے پر اپنے والدین کو کوستی ہے ۔ نازیبا الفاظ استعمال کر تی ہے اور خواہ مخواہ احساس کم تری کا شکار ہو کر پڑوس سے نفرت کر تی ہے اس باب میں ناول نگارنے لڑکی کے جذبات کو وسعت نظر سے پیش کیا ہے ۔ اس ناول میں فنی تکنیک کو بھی ملحوظ رکھا گیاہے جس کی مثال باب اول میں ملتی ہے ۔ ساتھ ہی بیسویں صدی کے معاشرت کو بر قرار رکھنے کے لیے ایک سولہ سالہ لڑکی اس طرح کی بات سوچتی ہے جو اپنے جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے سب کچھ کر گذرنے کو تیار ہے ۔ اس لڑکی کا باغیانہ پن ظاہر ہوتاہے یہی آغا شاعر کی خوبی ہے کہ وہ جس عہد کی بات کرتے ہیں اس کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں ۔

اس باب میں ناول نگار نے نواب جاگیردار کے کردار کوپیش کیا ہے جو دہلی کے جلیل القدر نواب کا لڑکا ہے جس کا حسن یوسف ثانی اورعدل نوسیرواں جیسا ہے وہ شروع سے ہی کبریٰ سے عشق کر تا ہے ۔ والد کی زندگی تک اظہار نہ کر سکا والد کے رخصت ہو تے ہی پہلا حکم صادر کیا وہ کبریٰ سے شادی کے متعلق تھااس پر وزرا میں چہ مگوئیاں ہوتی ہے اس کی ماں نے اپنے خاندان کی عزت کا حوالہ دیکر سمجھا یا مگر نواب نہ سمجھ سکا۔ سبھی نے عزت خاندان و و قار کا حوالہ دیا مگر بے سود لیکن ان کا ایک ہی جواب تھا ملا حظہ ہو ؂
گر جہ بد نا مبست نزد عاقلاں
مالمے خواہم ننگ و نام را

چنا نچہ شادی کی تجویز ہوتی ہے طے شدہ تاریخ سے قبل ایک بڑی رقم خزانہ عامرہ میں سے پر بھو مالی کو نذر کیا جاتا ہے تا کہ اپنی برادری کے لوگو ں کی آو بھگت کر سکے اس طرح جہاں گیر اور کیسری کی شادی ہو جاتی ہے ۔

یہاں آغا شاعر نواب اوباشی کو بیان کر تے ہیں جو اپنے والد کے انتقال کے بعد کر رہاہے اس وجہ سے حکومت کا شیرازہ بکھر جاتاہے ۔ اور مزید یہ بھی بتانا چاہاہے کہ اگر کوئی ادنی لڑکی کو اپنا نا چاہے تو اس کا کیا طریقہ تھا ۔ لڑکے کی طرف سے بارات نہیں جانی تھی بلکہ لڑکی کے والد اپنے ہاتھو ں سے بیٹی کا ڈولا پہنچا تے تھے ۔ ساتھ ہی انسانی جذبات کی تحلیل نفسی بھر پورانداز سے کی ہے کہ انسان کا دل کسی پر بھی آ سکتا ہے ۔مقولہ مشہور ہے ۔
دل نہ مانے اچھوت ذات
پیاس نہ مانے دھوبی گھاٹ

آغا شاعر نے بیسویں صدی کے نوابوں باد شاہوں کے کارناموں کو دکھلایا ہے جس سے ان لوگوں کی نجی زندگی سامنے آتی ہے ۔

تیسرے باب میں ریاست بھوپال کا منظر ہے جس کے ولی عہد کو بھی کچھ اس طرح کا مزاج ورثہ میں ملا ہے وہاں محفل سجی سے رقص و سرود کا دور دورہ ہے یا یوں کہا جائے کہ عیاشی کا سامان موجود ہے بھوپالی رسم و رواج کے مطلق شاہجہاں پوری ، عربی ، فارسی ترکی لکھنؤی وغیرہ اہم بڑے بڑے فلسفی تشریف رکھنے ہیں جہاں جہانگیربھی مہمان خصوصی میں شامل ہے ۔ شاہزادہ بھوپال جلوہ افروز ہوتے ہیں لوگ مودب اور خاموش ہیں ایک نوجوان موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے گرمی کو گفتگو کا موضوع بناتا ہے جس کی بنیاد فلسفہ پر ہے ۔ لفظ گرمی سے گفتگو کا موضوع نقط زبان بن جاتاہے وہ اس طرح کے ایک لکھنؤی فرماتے ہیں ’’ ہم سے کوئی گرم ہو کر آیا کرے گا دنیا ہمار ا لوہا مانے ہوئے ہے ؂
دعوی زباں کا لکھنؤ والوں کے سامنے
اظہار بوئے مشک غزالاں کے سامنے
اس کے بر عکس جو ایک دہلی والے تھے ان کو بڑابرا لگا فوراً فقرہ چست کیا ؂
زبان لکھنؤ دہلی سے اچھی
ہماری بلی اور میاؤں ہمیں سے

اس طرح زبان کا مسئلہ ختم ہوتا ہے تو زر کا مسئلہ آتا ہے۔ زر کے توسط سے برے بڑے عربی فارسی داں طرح طرح کی مثال سامنے لاتے ہیں اور زر کو دنیا کی سب سے بڑی چیز ثابت کرنے کے لئے کوشا ں ہیں ۔ تشبیہہ، استعارہ، مجاز مرسل ۔ یعنی علم و عروض علم بلاغت کا پور ا پور ا سہارا لیتا ہے مگر اس کا انداز تجا ہل عارفانہ ایک دوسریے کے ساتھ نو ک جھونک یعنی بحث سے ایک دوسرے کو زیر کر نا ہوتا ہے انہیں باتو ں پر تیسرے باب کا اختتام ہوتا ہے سب اپنے وطن کو کوچ کر تے ہیں ۔

چوتھا باب جہاں گیر دار کا بھوپال سے واپسی پر لکھا گیا ہے نو اب موصوف شان و شوکت سے گھوڑے کی سواری پر واپس ہو رہے ہیں ۔ راستہ میں سلطانہ بیگم کا محل ہے حو اپنے محل سے دیکھتی ہے اور سوچتی ہے کہ یہی ماہتاب ہے جس کی گود میں کیسری مالن مجھلتی ہے کاش یہ مجھے نصیب ہو تا یہی لڑکی سلطانہ ناول کی کامیابی کا راز ہے اچانک گھوڑے کا ر کاب ٹوٹنے سے جہاں گیر حو اس باختہ ہو جاتا ہے ۔ آغا شاعرنے نواب کی واپسی شام چھ بچے بتلایا ہے ۔ دلی والے نواب کی شان و شوکت گھوڑے کی تعریف پر کھارت کا شباب جنگل جھاڑی چرند و پرند کی آواز سر سبز پھولوں کی وادی دونو نواب کی دوستی جہانگیر کو مکمل گھوڑ سوار اور سلطانہ کی اضطراری کیفیت کواتنادلکش بنا کر پیش کیا ہے کہ منظر نگاری کا ہل باندھ دیا ہے ۔ آغا شاعر کے اندر وہ صلاحیت موجو د ہے کہ ایک جملہ کو کئی طرح سے کہہ سکتے ہیں ۔ دلی کی ٹکسالی زبان پر مہارت ہے اردو تو گھر کی لوندی تھی ہی ۔

پانچویں باب میں احاطہ قلعہ معلی میں نظام احمد خان یعنی سلطانہ بیگم کے چچا کا عالیشان مکان ہے ۔ جہانگیر مدعو ہے سلطانہ جہانگیر اور کیسری کے بارے میں سوچتی ہے کہ ایک مالن نے کیا مقا م پایا ہے اور نواب کی تعریف میں شعر کہتی ہے ؂
چشم یہ دور ہیں کس درجہ میں پیاری آنکھیں
میری آنکھوں سے کوئی دیکھے تمہاری آنکھیں

یہ دوشیزہ سلطانہ بیگم اپنے والدین کی لاڈلی اور اکلوتی دختر نیک اختر ہے باپ کا سایہ اٹھ چکا ہے اپنے چچا کے دامن عاطفت میں اپنی جائداد کے ساتھ آزادی کی زندگی بسرکرر ہی ہے وہ دنیا کے ہر ہر علم وفن کی ماہربے ، حسن مجسم،اخلاق کا پیکر دور اندیشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔شام ہوتے ہی تقریب ختم ہو جاتی ہے سبھی محو آرام ہیں۔ سلطانہ بیگم جو نواب پر فریفتہ ہے یہ سوچ رہی ہے کہ کس طرح میر ملا قات نواب سے ہو جائے او ر نواب صاحب کی جوانی کو لوٹ لیا جائے ۔ مگر وضع داری کا خیال کر کے درد قلب میں مبتلا ہو کر یہ شعر پڑھتی ہے ؂
سر میرا دیوانگی سے ہے یہاں دیوارجو
واں وہ فرق ناز محوبالش کم خواب ہے

آخر سرہانے جاکر ایک پیش بہا انگوٹھی اپنی انگلی سے اتار کر پہنا رہی تھی کہ نازک کلائی کی لوازمات سے نواب لطف اندوز ہو رہاتھااور پھر بیدار ہو جاتا ہے ۔ سلطانہ آدھی انگلی میں انگوٹھی چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے اور نواب جو کچھ دیکھا اس کا شاعر اس شعر میں ہے ؂

سہ چوری بد مست آں نگارے
بد شاخ صندلیں پیجید ہمارے

چھٹے باب میں کیسری بن سنور کر اس طرح بیٹھی ہے کہ جنت کی حور دھوکہ کھا جائے اس کے حسن اور آرائش کو شعری پیکر میں یوں ڈھالا ہے ؂
خدا جانے یہ آرائش کر ے گی قتل کس کس کو
طلب ہو تا ہے شانہ آئینے کو یاد کر تے ہیں

جہانگیر کمرہ میں داخل ہو کر کیسری سے پیار و محبت کی بات کر تے ہیں کیسری دیہاتی زبان استعمال کرتی ہے تو نواب اصلاح زبان کی تاکید کر تے ہیں اچانک کیسری کی نگاہ انگوٹھی پر پڑتی ہے وہ فریفتہ ہو جاتی ہے تو نواب انگوٹھی کیسری کی انگلی میں ڈال دیتے ہیں اور نواب آہ بھر تے آہ ملیح ہے تو صببح ہے ؂
لگاویں کیوں نہ ایسی جنس پر ہم جان شریں کو
نمک بھاتا ہے ہم کو سانولی صورت پہ مرتے ہیں

ساتویں باب میں سلطانہ بیگم مردانہ لباس میں جہاں گیر کے دربار میں غلام محمد خان کی سفارش پر نوکری کے لئے داخل ہوتی ہے ۔ نواب کو آداب بجالاتی ہے ۔ اپنا نام ایاز بتاتی ہے نواب ہنس کر کہتاہے مجھے بھی اپنا تخلص محمود رکھناہی پڑیگا مگر نواب یہ سمجھ گیا ہے کہ یہ بچہ وہی سلطانہ بیگم ہے۔ آخر کار نواب اپنی بات ختم کر کے شب گذاری کے لئے معذ رت خواہ ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اس وقت میری غیر حاضری کے لبے صبح تک معاف کر دو اور ازراہ کر م اس غریب خانہ پر آرام فرمائیے۔ حسرت اور کنکھیوں سے اس حور کو دیکھتے ہوئے محل کو تشریف لے گئے ۔ آٹھویں باب میں نواب باغ میں جلوہ افروز ہیں یہ باغ باد شاہوں کا منظور نظر شاہ جہاں آباد سے کوئی تین چار میل دور ہے ۔ نواب حوض کے پاس پانی سے کھیل کر لطف لے رہے ہیں۔ وہاں جوگی بچہ ایاز بھی محو گفتگو ہے نواب سچائی جاننے کی کوشش کر تا ہے مگر سلطانہ ہر حال میں اپنے کو ایاز ہی متعارف کر اتی ہے اور تجا ہل عارفانہ انداز میں بیزار ہوکر کہتی ہے ۔

فقہ رہوں یہ نہیں عادت سوال جی نواب شکریہ ظاہر کر تا ہے اور کہتاہے کہ یہ انداز تکلم قبل اس کے بھی میری کانوں میں گونج چکاہے اور یہ مصرع ادا کرتا ہے ۔
ظالم تیری باتوں میں قیامت کا اثر ہے ! نواب عالم اضطراری میں ایاز کو آغوش میں
لئے کر اس کے ہونٹ کو اپنے ہونٹ سے چومتا ہے اوریہ شعر کہتا ہے ؂
تمکنت یہ بھی کہے جاتے ہیں کوہ تمکین
ناز کی یہ ہے کہ غمزے بھی اٹھائے کوئی

اس طرح نواب اپنی محبت ایاز پر آشکارا کر دیتا ہے اور کہتا ہے میں کیسری سے نفرت کر تا ہو ں اور کہتا ہے کہ جہانگیر نہیں تو نہیں مگر محمود زندہ ہے اس لئے تم مجھے چھوڑ کر یا بھول کر مت جاو گے اس جملہ پر آٹھواں باب مکمل ہوتاہے ۔ نویں باب میں کیسری نواب کے گھر میں قدم رکھتے ہی نواب کو اپنے جوبن سے مسحور کر کے ہر چیز پر قبضہ کر لیتی ہے نواب کو باغ عیش میں عیش مناتے ہوئے تین دن ہوتے ہیں اس دن سے کیسری نے بھی عیش و نشاط کی محفل سجا رکھی ہے ۔

کیسری نے سکندر خاں کے ساتھ عشق کا چکر چلا رکھا ہے ۔ جہاں نواب سیر سپاٹے کو گئے ادھر کیسری بھی سکند ر کے ساتھ عشق کر نے لگی ایسے موقع سے کیسری کی آوارہ گردی کو آغا شاعر کے اس شعر کے ذریعہ بیان کیا ہے ؂
ہر روزِ عید ہے ہر شب شب برات
سوتا ہوں ہاتھ گردن مینا میں ڈال کر

حتی کہ دونوں شراب و کباب میں مست ہو کر بہک بہک کر باتیں کر تے ہیں اور سوسو طرح سے اپنی جوانی ایک دوسرے پر قربان کرتے میں ۔ ایک دوسرے سے جدا ہونے سے خوف زدہ ہو کر یہ شعر پرھتے ہیں ؂
ہے وصل میں بھی سحر کا کھٹکا لگا ہوا
جھونکے خزاں کے آتے ہیں فصل بہار میں

اور بڑی مایوسی سے کیسری نوجوان کو دیکھتی ہے کہ نواں بات احتتام کو پہونچتا ہے اور دسواں باب ’’ ایاز ہے تو جہاں ہے ‘‘کی صدا کے ساتھ نمو پذیر ہو تا ہے ۔ نواب صاحب ایاز کو حکم دیتے ہیں کہ کیسری کو بلائے (جب سلطانہ ایاز کے بھیس میں کیسری کو یہ خبر دیتی ہے تودونوں میں نوک جھونک ہوتی ہے خیر کسی طرح کیسری نواب کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے اور اپنی شوخی سے نواب کو مجبور کر کے ایاز کونکال دینے کی التجا کرتی ہے نواب اس پر برہم ہو تا ہے اس سے کیسری سہم جاتی ہے مندرجہ شعر پر باب ختم ہو تا ہے ۔
خا کساران جہاں رابحقارت منکر
تو جہ داتی کہ درمیں گرد سوارے باشد

گیارہویں باب کا آغا اس طرح ہوتا ہے کہ نواب جہا نگیر ایاز اور وزیر نواب حبیب خاں سج دھج کر شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ گھوڑے پر سوار شکار کو جاتے ہیں ۔ راستے میں ایاز اور نواب کے مابین بہت ساری باتیں ہوتی ہیں ۔ ایاز کیسری کی بے وفائی کا بھی ذکر کر تی ہے اس پر نواب کو بد گمانی ہوتی ہے البتہ شکار میں شیر کے خوفناک حملہ سے ایاز نواب کو بچالیتی ہے اور بہادری پر خوش ہو کر رباعی پڑھ کر داد تحسین دیتا ہے بارہویں باب کا آغا ز یوں ہوتاہے کہ کیسری نے نواب کے ڈانٹنے پر رو رو کر اپنا خون کرلیا ہے ۔ نواب کو شکار میں گئے ہوئے تیسرا دن ہے ایک ضعیفہ نازل ہوتی ہے اور کیسری کوبتاتی ہے کہ تمہارا پردہ فاش ہو گیا ہے ۔ ایاز نے سارا قصہ نواب کو تمہاری بے وفائی کا بتا دیا ہے جس کی خبر حبیب خاں وزیر کو بھی ہو گئی ہے تیرہویں باب میں ایک اچکا لڑکا سکندر جاہ بیگ کی انگوٹھی فروخت کر نے جاتا ہے جو نواب کی انگلی سے نکال کر کیسری نے پہن رکھی تھی اس نے سکندر جاہ کو تحفہ میں دی تھی ۔ بازار میں مول چند اور اس کی بیوی جئی دئی کے درمیان کافی تکرار ہوتی ہے ۔ چودھویں باب میں سکندر جاہ یعنی کیسری کا عاشق ایک ضعیفہ کو اس بات پر معمو ر کرتا ہے کہ ایاز جہا نگیر کا قتل کر دیا جائے ۔ اس لئے ضعیفہ سکندر جاہ کے پاس جاتی ہے اور وہ ساری کہانی کہہ سناتی ہے کہ کسیری کا برا حال ہے اس لئے کہ ایاز نے تم دونوں کے عشق کا پردہ نواب کے سامنے فاش کر دیا ہے سکند جاہ ضعیفہ سے کہتا ہے کہ جاو کیسری کو تشفی دو ۔کھان کھلاؤ اور بے فکر رکھو جوگی بچہ یا نواب جہاں گیر کی اوقات ہی کیا ہے ۔ جب تک میں زندہ ہو ں کیسری کا بال بانکا نہ ہو گا ضعیفہ کہتی ہے کہ مجھ سے کیسری نے یہ بھی کہا ہے کہ جب تک جہانگیر دار کو یا ایاز کو قتل نہ کر و گے تو میں زہر کھالوں گی۔ سکندر جاہ کہتا ہے تم جاو اور سکندر جاہ نے جہانگیر کے قتل کر نے کا منصوبہ بنا یا ۔

پندرہویں باب میں جئے دئی ایک اوباش عورت ہے جو بنیا مول چند کی بیوی ہے سید خاں سپاہی یعنی حمید کا باپ جہا نگیردار کی نوکری کرتا ہے جو کیسری کا پہریدار ہے ۔ رات کوئی ڈیرھ بجے کا عمل ہے سید خان جمعراتی دروازہ کی طرف سے آواز لگا تے ہو ئے معشوقہ سے ملنے جاتا ہے وہاں جئی دئی اور سید خان میں بات چیت پیار ومحبت کی ہوتی ہے ۔ جئی دئی وہی انگوٹھی دکھاتی ہے جس کو اس نے مسلمان چوراچکے سے خریدا ہے واپس گھر لوٹ کر انگوٹھی اپنی بیوی کو دیتا ہے مگر اس کی بیٹی حمیدن ضد کرکے ماں سے لے لیتی ہے اور عاشق اچھن کو تحفہ میں دے دیتی ہے جو نواب جہانگیر کا سپاہی ہے ۔سولہویں باب کا آغا شام کا منظر چرند و پرندکا شورو غل کارخانوں کی آوازیں چمنی کا دھواں چھوٹے چھوٹے باغ کے مناظر سے شروع ہوتا ہے یہاں نواب صدیق حسن خاں صاحب کا مقبرہ ہے اس وقت اس مقبرہ کے رو برو دوسوار آپس میں باتیں کر تے جارہے ہیں یہ نواب جہانگیر اور ایاز کی گفتگو تھی۔اچانک سکندر جاہ موقع پاکر حملہ کرتا ہے اور پہلے ہی وار میں جہانگیر دار گھائل ہو جاتا ہے ۔ نواب کا یہ حال دیکھتے ہیں ایاز تاب نہیں لاسکا اپنا ریوالورنکال کر سکندر جاہ پر وار کرتا ہے جس سے اس کا بایاں ہاتھ اور گردن جسم سے الگ ہو جاتا ہے ۔۔۔ اس شعر پر سولہویں باب کا احتتام ہو تا ہے ؂
جان پر کھیل کے عاشق کوبچالیتے ہیں
تم نے دیکھے ہی نہیں نازو نزاکت ولے

سترہویں باب میں تین دن سے پتلی گھر کے پاس ایک لاش پڑی ہے پولس والے تنقیش کر رہے ہیں مگر لاش کی شناخت نہیں کر سکے اس لئے کہ سر ہی غائب ہے جیب سے ایک کارڈ نکلتا ہے جس سے شناخت کیا گیا کہ سکندر جاہ ہے ۔ آخراس کے بوڑھے مامو ں نے اس کی تجہیز و تکفین کردی اس کے بعد خفیہ پولس والے ان کے وراثوں سے مرحوم کے متعلق یوچھ تاچھ کرتے ہیں یہ بات غلام احمد یعنی سلطانہ بیگم کے چچاکو بھی معلوم ہوئی جو کافی پریشان ہوا کیونکہ وہ ابھی ابھی وارثوں کو صبر کی تلقین کر کے آئے ہیں اور اپنے کمرہ میں گئے یہ کہکر کہ سلطانہ کو میرے پاس بھیج دو اتنے میں سلطانہ گلدستہ لئے شوخی کے ساتھ نازل ہوتی ہے اور مندرجہ ذیل شعر پڑھتی ہے ؂
گل گلدستہ کر کے آئی ہے ووہ صحن باغ سے
تفریح ٹپکی پڑتی ہے ان کے دماغ سے

غرض مسکر اتی ہوئی چچا کے کمرہ میں جاتی ہے دونو ں چچا بھتیجی میں بات چیت ہوتی ہے اور اس حال میں واپس ہوتی ہے اپنے کمرہ میں جاکر الماری سے ڈھکا ہو ا ایک خوان اور ایک سربند خواچہ نکالتی ہے اور مسٹنڈی سیاہ فلم عورتوں کو لے کر لیسری کی خدمت میں بھیجدیتی ہے ۔ اور سلطانہ خوش و خرم دن گذارتی ہے اٹھارہویں باب میں نواب جہانگیردار اپنے محل میں ہے اور ایاز کے فراق میں غمگین ہے ایاز اس وقت اس کی مصاحبت سے غائب ہو گیا جب سکندر جاہ کا قتل کر کے اس کا سر حاصل کر لیا اور نواب جہانگیر ہوش میں آیا تو وہ اکیلا تھا مگر اس کے سامنے اس کا دشمن گر کرتڑپ رہا تھا ۔ نواب موصوف کو اسی وقت انداز ہ ہو گیا کہ ایاز نے ہی میری جان بچائی ہے سارے درباری نواب کی مزاج پرسی کر تے ہیں جن میں اچھن بھی ہے ۔ اچھن خیریت پوچھکر نبض دیکھنے لگتا ہے کہ نواب کی نگاہ انگوٹھی پر پڑجاتی ہے اور پوچھنے لگتا ہے کہ اچھن یہ انگوٹھی تمہارے پاس کہا ں سے آئی ۔ یہ وہی اچھن ہے جس کا ذکر پہلے باب میں آچکا ہے جس پر سولہ سالہ لڑکی حمیدن قربان جاتی ہے اور شادی کے رسم ورواج سے گذر کر اچھن کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتی ہے مگراچھن جہانگیردا رکے یہاں ملازمت کر تا ہے جس کی وجہ سے آزادکی زندگی گذارنا مشکل ہے ۔ اچھن اور حمیدن کے تعلقات ناجائز ہیں مگر نکاح سے بے بہرہ اس طرح دیکھا جاتا ہے کہ سید خاں سپاہی سے مول چندکی بیوی اور سیدخاں کی بیٹی حمیدن اچھن سے عشق فرماتی ہیں جن لوگوں کے دل میں عشق کا دریا طلاطم خیز ہے آغا شاعر کایہی نکتہ ان کے ناولوں میں نفسیاتی اور رومانی ناول نگاری کا سراغ دیتا ہے ۔

انیسویں باب میں نواب صاحب وہ انگوٹھی اچھن کے ہاتھ میں دیکھکر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور اچھن سے سوال کرتے ہیں کہ سچ بتا تو نے یہ انگوٹھی کہاں سے حاصل کی فوراً اس کو گمشدہ ایاز کا خیال آگیا جس نے اس سے کہا تھا کہ آپ کو اپنی منکو حہ کی پاکدامنی پر کس درجہ یقین ہے ۔ اب دہ سوچنے لگا کہ یہ انگوٹھی کیسری کو دی تھی اور اب یہ اچھن کے پاس ہے ۔ قبل اس کے یہ بھی معلوم ہو ا کہ کیسری بد چلن ہے بس کیا تھا نواب جلال میں آگئے مگر حاضرین مجلس کا احترام کرتے ہوئے اچھن سے انگوٹھی کے بارے میں نرمی سے پوچھا اچھن نے شرماتے ہوئے کہا کہ یہ انگوٹھی میں نے سید خاں سپاہی کی بیٹی سے حاصل کی ہے اس کے بعد سید خاں کو بلایا جاتاہے ۔ دریافت کرنے پر دہ بتلاتا ہے کہ مجھے یہ انگوٹھی مول چند بنیا کی بیوی نے دی تھی یہ میری بیوی کے پاس تھی ہو سکتا ہے میری بیٹی نے ماں سے ضد کر کے لے لی ہو مگر پیر و مرشد آپ تک کیسے آئی پھر یاد آیا شاہ نے مول چند کے بارے میں معلوم کیا کہ بنیا کون ہے ۔سید خاں نے بتا یا کہ مول چند ایک بنیا ہے جس کی بازار میں دکان ہے ۔ نواب کے حکم سے دوسپاہی بنیا کو لے کر عالم پناہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ بنیا بتا تا ہے کہ حضور ایک مسلمان چھوکرا جو مفلس تھا بیچنے کو آیا تھا میں نے خرید لی اس کے علاوہ انگوٹھی کی بابت میں اور کچھ نہیں جاتا ۔

بیسویں باب میں نواب صاحب اپنے باغ میں بیٹھا انگوٹھی کے متعلق سوچتا ہے کہ ایک انگوٹھی کی وجہ سے کیسری کی بھی جان گئی اور سکندر جاہ کی بھی وہ غمگین ہو جاتاہے اس عالم میں ان کا ملازم اسے ایک خوشنما لفافہ پیش کر تا ہے جسے کھول کر وہ پڑھنے لگتا ہے ۔

اکیسویں باب میں نواب جہانگیر دار سلطانہ کا خط مزے لے لے کر پڑھ رہے ہیں جس کا پہلا جملہ ہی اس شعر سے شروع ہوتا ہے ؂
عید آتی ہے کہ آئی ہے گھڑی ہیرے کی
کیا گلے ملتی ہے اک ایک لڑی ہیر کی

جوگی بچہ کے بچھڑ جانے سے نواب جو خود کشی پر آمادہ تھا خوشی سے باغ باغ ہو گیا اور شاہانہ جوڑے میں ملبوس غلام احمد خان کے یہاں جلوہ افروز ہوا ۔ جہاں ان کاشاندار استقبال ہوا اور سلطانہ نے پس پردہ کیسری اور سکندر جاہ کی موت کاماجرہ سنایا بس اب کیا تھا نواب جوپہلے ہی سے سلطانہ بیگم کے حسن پر ہزار جان سے فریفتہ تھا مگر اس کی جرات ودلبری اور حیرت انگیز کا رنامہ دیکھ کر غلامی لکھ دینے پر آمادہ ہو گیا اور فوراً شادی کی تیاری ہوئی اور شادی ہوگئی اور بھوپال میں یہ خبر پھیل گئی کہ نواب جہانگیر دار نے سلطانہ بیگم غلام احمد ان صاحب مقصد خاص کی ایک لائق و فائق تیر دل عدیم المثال بھتیجی سے شادی کر لی اس طرح اس شعر پر ناول کا احتتام ہوجاتا ہے ؂
بشر کو صبر نہیں ورنہ یہ مثال سچ ہے
کہ چپ کی داد غفور الرحیم دیتا ہے

جیسا کہ اس سے پہلے بھی ذکر آچکا ہے کہ ’’ ہیرے کی کنی‘‘ منصف کا طبع زاد ناول ہے جو حددرجہ رومانی ہے ۔ ویسے اس ناول میں صنفی طور پر بہت سے کردار دیکھنے کو ملتے ہیں مگر خاص طور سے جہانگیر دار اور سلطانہ کا کردار اہم ہے اس میں سلطانہ بیگم کے کردار کو اولیت حاصل ہے ۔ یہی دونوں کردار ناول کی روح ہے جو پورے ناول کے گردطواف کر تے ہیں یہ ناول پورے اکیس باب پر مشتمل ہے ہرباب کا اختتام ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اگر کوئی قاری چاہے کے چند باب پڑھ کر کوئی فیصلہ صادر کرے تو یہ ممکن نہیں۔ ناول ہیرے کی کنی میں آغا شاعر نے تسلسل قائم رکھنے کے لئے اپنی غیر معمولی استعدادکا استعمال کیا ہے ۔ اس ناول کے تنقیدی مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ حمیدن اچھن، جئی دئی، مسیت خان ، نواب جہانگیر دار سکندر جاہ سب کے سب عشق کے دلدادہ ہیں جو ہمہ وقت کسی نہ کسی صورت میں عشق کی آگ میں جل ر ہے ہیں مگر سب کا عشق چوری چوری ہے مکمل آزاد نہیں ہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں مسلم گھرانوں میں بے پردگی نہیں تھی ۔ آغا شاعر نے بیسویں صدی کی رسوم کوملحوظ رکھا ہے اور اس زمانے کی زندگی کا ہر شعبہ سمٹ کر سامنے آجاتا ہے ۔ جیسا کہ دوسرے باب میں نواب جہانگیردار شادی کے لئے تیار ہے اور اس کی ماں خاندان کی وضع داری ختم ہو نے کے خوف سے منع کرتی ہے مگر نا اہل بیٹے کی کر توٹ پر مجبور ہو کر ماں کیسری کو گھر لاتی ہے ۔ یہاں جذبات کو خاص دخل ہے کہ ایک ماں بیٹے کو ہر حال میں قبول کر تی ہے ۔ جہا ں ذات کے مسئلے پر وزیروں میں چہ مگوئیاں ہوتی ہیں کہ ایک مسلم نواب ہندو لڑکی سے شادی کرتاہے اس سے سیاست کا خوفناک نتیجہ بر آمد ہو سکتا ہے ۔ کہ غریب پر بھومالی کی زبان بندہے اور وہ اپنی لڑکی کا ڈولا نواب کے یہاں پہنچا دیتا ہے ۔ تیسر ے باب میں آغا شاعر نے امیرزادی کی مجلس ناچ گانے اور عیش کے لوازمات کو پیش کیا ہے اور بھوپال کی مجلس عاملہ کی منظرکشی چابک دستی سے کی ہے جس سے ان کی فن پر دستر س کا ثبوت ملتا ہے ۔منظر نگاری میں موصوف کو قدرت ہے چاہے کسی جگہ کی ہو اس کو پر اثر انداز میں پیش کر تے ہیں ۔جب ہم ان کی ناول کا مطالعہ کر تے ہیں تو اس کی منظر نگاری آنکھیوں کے سامنے ہو تی ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس ناول میں منظر نگاری کر کے آغا شاعر نے منظر نگاری کے باب کا دروازہ کھول دیا ہے اور مکالمہ نگاری کے موتی پرودیئے ہیں اس ناول کے ہ تنقیدی مطالعہ سنے اس نتیجہ پر پہونچا جا سکتا ہے کہ نواب صاحب کے گھر کیسری ایک رکھیل کے طورپر رہی ہے اس لئے ناول میں کہیں بھی کلمہ اور عقد پڑھانے کا ذکر نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ نواب صاحب کی ماں نے رسم کے مطابق کیسری کو اٹھا کر دیوان خانہ میں پہونچا دیا اس سے شادی ہونا قطعی ظاہر نہیں ہوتا ہے اس ناول میں بنیا وغیرہ کا کردار صرف ناول کو طول دیتے ہیں اور قصہ کو دلچسپ بنا نے کے لئے پیش کیا ہے ۔ غلام محمد خاں کا کردار صاف اور سادہ نظر آرہا ہے ۔ جیسا کہ اس نے سلطانہ کو نواب کے گھر نوکری دلا کر سلطانہ بیگم کی مدد کی ۔ اس ناول میں آغا شاعر نے خاص طورسے طبقہ اعلی کہ معا شقہ کو اس طرح بیان کیا ہے کہ شرفاً کو گھر میں بھی رنڈیاں ناچتی ہیں جو اپنے آپ کو عزت دار جانتے ہیں مگر انہیں شرفا میں سلطانہ بیگم ایک مرحوم نواب کی اکلوتی بیٹی ہے ۔ ناول میں اس کا کردار سب سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے جس کا ذکر اس سے قبل بھی آچکا ہے ۔ عزت و شرافت کے ساتھ اس کے دل میں شادی کاجذبہ موجزن ہے جس کی بدولت وہ مختلف قسم کی اذیت اٹھاتی ہے ۔ ناول ’’ ہیرے کی کنی‘‘ کا پورا پلاٹ اسی کے ارد گرد گھومتا ہے اس کے برعکس نواب کا کردار ارتقائی ہے انہوں نے عالم شباب میں نگاہ عشق کا شکار ہو کر ایک مالن کو اپناتو لیامگر بعد میں بھید کھلا تو اپنے فیصلے پر کر افسوس بھی کیا اور جب عشق کا نشہ زائل ہو ا تو اپنی خاندانی شرفت یاد آنے لگی اور آخر میں نواب کیسری سے کنارہ کش ہو کر جوگی بچہ ایاز یعنی سلطانہ بیگم کی طرف رجوع ہوئے ۔

آغا شاعر کچھ اس انداز سے اپنے کرداروں کو ابھارتے ہیں کہ ناول ’’ ہیر ے کی کنی ‘‘ شروع ہو تا ہے لفظ ’’ میں ‘‘ سے یہ ایک کنواری لڑکی کا ’’میں ‘‘ ہے اس کے شعور کی روسے اس کا کردار اس طرح جلوہ گر ہوتا ہے ۔

’’میں یہ میٹھی ٹکیا جو اماں نے بڑی چاو سے پکائی ہے ، کھا تورہی ہو ں لیکن رہ رہ کر تم یادآ رہے ہو قسم ہے نوالہ حلق سے نہیں اتر تا ۔ حیران ہو ں کہ ان کی بیچینیوں کا ایک دن کا کیا نتیجہ نکلے گا اچھا میں کہتی ہو ں کنوار پنا تو ساری دنیا کا ہوتا آیا ہے یہ خدائی مار ہمارا کنوار پنا کون ناری کا حسن چلا ہے کہ ایک گھڑی نگوری چین سے نہیں کٹتی۔ تو یہ ہے اماں باو ا آپ تو چین کر تے ہیں لیکن ہمیں یوں ہی پچھتا وا کر کے بٹھا رکھا ہے کہیں کوئی بات ہی نہیں سمجھ میں آتی ۔4 1
وہیں آغا شاعر ایک دوسری لڑکی کے کردار کو اس طرح بیان کر تے ہیں

’’ شاید وہ لڑکی ایسی ہی قبول صورت ہو جس پر ایک دیکھنے والے کی نگاہیں قربان ہو جاتی ہوں پھر توتعجب نہیں ہے اگر نواب اس پر جان دیتا ہے لیکن ہائے امید میں کہتی ہوں ہر شخص تو قربان ہو جائے جوتی کی نوک سے ہو جائے نواب جہانگیر جیسا بھی تو حسن مجسم ہے خود پھر اس کی بلا کو کیا غرض پڑی تھی جو اس رذیل قوم سے آنکھیں لڑائی توبہ ہے ۔‘‘ ح15

اس طرح آغا شاعرکاناول ’’ہیرے کی کنی‘‘نہایت دلفریب ہے مکالمے فطری برا محل اور بر جستہ ہیں ناول میں ڈرامائی انداز نمایاں ہے ۔

’’ ناہید ‘‘
’’ ناہید‘‘بھی آغا شاعر کا اہم ناول ہے جو دو پلاٹوں پر مشتمل ہے ۔ پہلے پلاٹ میں ناہید اور جہاندارکے عاشقی کا احوال ہے اور دوسرے پلاٹ جہاندار کی خواہر اور ’’ ناہید ‘‘ کے بھائی منجھو صاحب کے پیار و محبت کا ذکر خیر ہے دونوں دو الگ الگ خاندان کے افراد ہیں ۔ دونوں خاندانوں میں کشمکش صدیوں سے اس دور کی روایت کے مطابق چلی آرہی ہے ٹھیک اس طرح جس طرح ’’ ارمان‘‘ میں ایک ہی خاندان کی خانگی معاشرت کی وجہ سے المناک نتائج وجود میں آتے ہیں اس کے برعکس ’’ ناہید ‘‘ میں دو خاندانوں کے مابین دشمنی کی چنگاری ایک مدت سے بھڑ کتی ہے وہ اچانک بہت ہی خوش آئید اور عمدہ تعلقات میں بدل جاتی ہے قصہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ناہید کے گھر آگ لگ جاتی ہے جہاندار ایسے موقع سے بعض و نفرت کو بالائے طاق رکھ کر بہادری اور دلیری سے ’’ ناہید‘‘ کو بچالیتا ہے اور اس کی صحت یابی کے لئے اپنی ہمشیرہ اختر کے ساتھ زنانہ لباس ذیب تن کر کے سو سو طرح سے ناہید کی تیمارداری کر تا ہے۔ جہاندار ناہید سے محبت کا دم بھر نے لگتا ہے اور ناہید بھی اس کے لئے کمر بستہ ہو جاتی ہے ۔ یعنی جہاندار اور ناہید ایک دوسرے کی محبت کے اسیر ہو جاتے ہیں جب دونوں کا راز کھلتا ہے تو ناہید کے والدین اس کو قید میں ڈال دیتے ہیں ہزارہا پابندیاں عاید کر دی جاتی ہیں کہ جہاندار سے ملاقات نہ کرے اور نہ اس کا نام لے مگر جب جہاندار کو اس کی خبر ملتی ہے تو وہ ناہید کو اس دوزخ سے آزاد کر انے کی ترکیب سوچتا ہے ۔ چونکہ جہاندار کے لئے ناہید سادہ لوح معشوقہ ہے جس کو وہ کھونا نہیں چاہتا اس سے جہاندار کو سچی محبت ہے ۔ بحر حال جہاندار کی فریادباران سے رحمت جوش میں آتی ہے اور ایک دن جہاندار ناہید کو اس کے والدین کے شکنجے سے نکا لنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور دونوں ہم آغوش ہو کر خوب رو روکر جی ہلکا کر تے ہیں اور اسلامی شرع کے مطابق دونوں ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ہو جا تے ہیں یعنی شادی ہو جاتی ہے مگر کچھ دنوں تک دونوں کو جلا وطن رہنا پڑتا ہے ان دنوں جہاندار ناہید بنارس کانپور، اٹاوہ، آگرہ، دہلی وغیرہ کا طواف کرتے رہتے ہیں ۔ ان کی اس حر کت کو کچھ لوگ غلط تصور کر تے ہیں مگر نہیں ایسے وقت میں ان کے لئے ایسا کرنا موزوں تھا اس لئے کہ ان دو خاندان میں نفرت و دشمنی کی آگ ایک عرصہ سے بھڑک رہی ہو وہاں معاشرے کے ذریعہ شادی ہو جائے تو یقینی بات ہے کہ تنازعہ اور بڑھے گا اس لحاظ سے جہاندا نے اچھا کیا کہ شادی کے فوراً بعد ناہید کو لے کر شہر سے دور چلا گیا اور خون خرابہ سے دونو ں خاندان بیچ گئے اور جب دونوں کے والدین مطمئین ہو گئے تو دونوں نے مستقل سکونت اختیار کرلی دوسرا پلاٹ بھی کچھ اسی طرح کا ہے کہ ادھر جہاندار کی بہن ناہید کے بھائی منجھو پر عاشق ہو جاتی ہے جہاندار اور ناہید کی بہ نسبت ان دونوں کی عاشقی دھیرے دھیرے پروان چڑھتی ہے ۔ متعدد بار دونوں ملاقاتیں کر تے ہیں ۔ اتنی عروج پر محبت جلی جاتی ہے گویا دوجسم ایک قالب ہو ں ۔ ابھی تک دونوں چوری چوری ملا قاتیں کرتے ہیں اچانک منجھو شدید طور پر بیمار ہو جاتاہے اس کی خبر اختر کو ہو تی ہے مگر وہ کیا کر سکتی ہے وہ تو مجبور ہے اس لئے کہ وہ لڑکی ہے اور والدین کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتی ہے پھر خاندانی شرافت بھی مانع ہے اس کے بھائی کے کارنامے سے اس کی خاندان کی شرافت پر آنچ آچکی تھی وہ مزید اس آنچ کو بھڑ کا نا نہیں چاہتی تھی آخر اس کی عقل میں بھی یہی بات آئی کہ وہ بھی اپنے بھائی کی طرح مر دانہ لباس میں ملبوس ہو کر اختر کی تیماداری کو جاسکتی ہے اور وہاں پہنچ کر پہیم اختر کی تیماداری کرتی ہے منجھو جو بیماری سے گھبرا کر زندگی سے عاجز آچکا ہے خود کشی کے درپے ہو چکاتھا اس مقصد کو پورا کر نے کے لیے منجھو نے ایک دن زہر پینا چاہا مگر اختر اپنی دور اندیشی اور حکمت سے منجھو کو زہر پینے سے باز رکھتی ہے اور منجھو کو اختر کی بے پناہ محبت کا احساس ہو تا ہے اور وہ سو سو بار ہمدردی اور محبت سے اس پر قربان جاتا ہے اور زمانے سے جو خاندانی مخاصمت چلی آرہی تھی اس کو آن کی آن میں محبت اخوت ویکجہتی میں تبدیل کر کے نفر ت کی دیوار گر ادیتا ہے اس کے بعد اختر کی شادی منجھو اور ناہید کی شادی جہاندار سے ہو جاتی ہے ۔ اس ناول میں بھی آغا شاعر نے ہیرے کی کنی کی طرح اعلی طبقہ کی سیرت پیش کی ہیں ۔ جیسا کہ ناول ناہید میں اختر منجھو کی عاشق ایک ملازم کی طرح مر دانہ لباس میں تیمارداری کر تی ہے یہ مقام بالکل ایسا ہی ہے جیسا ’’ ہیرے کی کنی‘‘ میں سلطانہ بیگم جوگی بچہ ایاز بن کر نواب جہانگیر احمد کی مصاحبت میں رہتی ہے ناول ناہید کا کوئی ایک کردار بھی ایسا نہیں جو دیر پا ہو یا دلچسپ ہو یہ بحث اور ہے مگر جب تنقیدی نقظ نگاہ سے غور کیا جائے تو پہلے پلاٹ میں جہاندار اور دوسرے پلاٹ میں اختر کا کردار نمایاں اور خاص اہمیت کا حامل ہے ۔

آغاشاعرکا یہ ناول ان کی فنون لطیفہ سے دلچسپی کا ثبوت فراہم کر تا ہے ۔دراصل یہ ناول یوپی کے تعلقہ د ار خاندان کی تاریخ ہے جس میں اس عہد کی معاشرت تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے اس معاشرت پر جہالت کے ساتھ ساتھ جذبات کا رنگ بہت گہر ا ہے یہاں تک کہ خاندان کے افراد کے سوچنے کا طریقہ جاہلانا ہے جس میں جذبات کو خاص دخل ہے اس کی مثال ہے کہ آن کی آن میں دشمنی کی دیوارمسمار ہو کر محبت اور رفاقت میں بدل جاتی ہے ناول میں مکالمہ نگاری اور منظر نگاری خاص درجہ رکھتی ہے کسی بھی ناول کی جانچ پر کھ مجموعی طور پر کی جاتی ہے ۔ح16۔ اس اعتبار سے بھی ’’ ناہید‘‘ ایک اچھا ناول ہے جس میں ابتدا سے انتہا تک قاری کی دلچسپی بر قرار رہتی ہے ۔ اس بات کو سہیل بخاری نے مصنف کے کمال سے تعبیر کیا ہے ۔17۔اور وارن بیچ نے کہا ہے کہ ہر ا چھے ساخت کا ناول اچھا نہیں ہو تا ہے ۔ح۔18۔ اور مام روسو کی کو اچھا ناول نگار کہہ کر خراب فنکا ر ٹہرا تا ہے ۔ح19ان تمام ناقدوں نے ناول کے بارے میں جو خیالات پیش کئے ہیں اس کی روشنی میں آغا شاعر کا ناول ناہید ایک ناول ہے اس میں ایک اچھے ناول کے ساتھ ناول کے سارے عناصر موجود ہیں ۔ عشق ومحبت تجسس، سنسنی خیزی سراغ رسانی پھر ہیرو ، ہیروئین کا ملاپ جیسا کہ ناول کے موضوع سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ’’ ناہید‘‘ ناول کا اہم کردار ہے جو صورت وسیرت میں کامل ہے ۔

ایک اچھا ناول نگار داخلی اور خارجی کائنات پر غور کرتا ہے وہ کائینات کہ مدعا کو موضوع بنا کر پیش کرتا ہے جو کہ عام انسانی زندگی کے لئے کار ٓمد ثابت ہو ۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جہاں لاتعداد ناول نگاروں نے مروجہ روایات اور نقطہ نظر کے تحت ناول نگاری میں اپنی شناخت بنائی ۔ وہیں آغا شاعر دہلوی نے اپنے چار اہم ناول ارمان ہیرے کی کنی، ناہید اور نقلی تاجدار لکھے اور اردو ناول نگاری میں رومان نفسیات اور سماجیات کو شامل کیا یہ الگ بحث ہے کہ وہ دوسرے درجہ کے ناول نگار ہیں اس سے مجھے اختلاف نہیں لیکن درجہ دوم کے ادیبوں کے بغیردرجہ اول کے مصنفوں کی کوششوں کو سراہنا بھی مشکل کا م ہے یوسف سرمست کا خیال ہے کہ آغا شاعر کے ناول ناہید کو اردو کے قدیم ناول نگاری میں جو مقام ملنا تھا وہ تو درکنار غور طلب بات یہ ہے کہ ناقدین اس ناول کا مو ہوم سا اشارہ بھی ناول پر لکھے جانے والے مضامین میں نہیں کرنے جبکہ ان کے ناول اردو ناول نگاری میں اضافہ کر تے ہیں ۔آغا شاعرکے بیشتر ناولوں میں نوجوانوں کی جذباتی اور ذہنی زندگی کی کشمکش کو اپنے ناول کا موضوع بنا یا گیا ہے ۔ ناول کی شان و شوکت اس کی ہیروئن کی نفسیاتی اور ذہنی کیفیات کے اظہار سے تیار کیا گیا ہے ۔ ناہید کی زندگی کہ نفسیات کو قلم بند کر تے ہوئے آغا شاعر نے جدید نفسیاتی علم کا سہار ا لیا اور اس کی روشنی میں اس کے کردار کی تحلیل نفسی کی ہے ۔

یہ ناول آغاشاعر کی ناول نگاری کی صلاحیت پر روشنی ڈالتا ہے اور بیسویں صدی کے ناول نگاری کے ان تمام رجحانات کو سامنے لاتا ہے جس کا تذکرہ پچھلے صفحات میں تفصیل سے ہو چکا ہے ۔ آغا شاعر کے اس ناول کے مطالعہ سے اندازہ ہو تا ہے کہ اگر وہ پوری سنجیدگی سے اس طرف متوجہ ہو تے تو یقینا اردو ناول نگاری میں بہترین اضافہ کر تے پھر ان کے یہ چند ناول اردو ناول نگاری میں اہمیت رکھتے ہیں ۔

انہوں نے اپنے ناول ’’ ناہید‘‘ میں ایک ایک کردار کو نمایاں کرنے میں جس تحلیل نفسی سے کام لیا ہے وہ ان کے اس ناول کو بڑی اہمیت بخشتی ہے ۔ جیسا کہ ناقدوں کی رائے ہے کہ ایک اچھا ناول لکھنے والا تخلیقی واقعات میں مواقع پیدا کر کے ایک بصیرت پید ا کر تا ہے ۔ یہی بصیرت آغا شاعر کے ناولوں میں ملتی ہے ۔ البتہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ آغا شاعر کے ناول کے بغیر بیسویں صدی کی ناول کو سمجھنا مشکل ہو گا ۔

آغا شاعر نے اپنے ناول میں انسان کے نفسیاتی اور سماجی پہلو کو جس انداز سے بیان کیا ہے اس سے اردو ادب کے کسی بھی نقاد کو اختلاف نہیں ہو سکتا اب یہاں تجزیہ کر نا ہے کہ کیا و ہ اپنے آپ میں ایک کامل ناول نگار ہو سکتے ہیں کہ نہیں یہ ایک الگ بحث ہے ۔لیکن یہ امر مسلم ہے کہ کسی بھی ناول کے لئے ایسے موضوع کا ہو نا ضروری ہے کہ جو کسی بھی سماج معاشرہ اور حکومت کی صحیح تصویر پیش کر سکے جس میں ناول نگار کا مزاج، خیالات، نقطہ نظر پنہاں اور اس کی کا میابی کا راز پوشیدہ ہو تا ہے ۔ ہر قاری یا ناقد کسی بھی تخلیقی ورثہ کو اپنے نقطۂ نگاہ سے جانچ پرکھ کر کے اس کی کامیابی کا حکم صادر کر تا ہے ۔آغاشاعر کے ناولوں میں کامیابی کے سبھی عناصر موجود ہیں اور اس بنیاد پر یہ رائے پیش کی جاسکتی ہے کہ آغاشاعر اپنے موضوع اور مزاج کے اعتبار سے صف دوم کے ناول نگاروں میں اہمیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ناول کے موضوعات عا م انسانی زندگی سے لیے ہیں اس لئے ان میں قاری کے لئے دلچسپی بھی ہے اور تجسس بھی۔ آغا شاعر نے اپنے ناولوں میں فنی اصول کا خاص خیال رکھا ہے اردو ادب کے ناقدوں اور ادیبوں کی رائے حق بہ جانب ہے کہ ایک اچھا ناول نگار ناول تخلیق کر تے وقت فنی اصول کا بہت خیال رکھتا ہے اور ہر ناول نگار فنی آہنگ کو اپنے ناولوں میں اپنے اپنے طور پر مختلف طریقے سے نبھاتے ہیں ۔ اس اعتبار سے آغا شاعر اپنے آپ میں مکمل ہیں لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ آغا شاعر نے اپنے ناولوں میں فن کاری کا بہت زیادہ خیال نہیں رکھا ہے ۔

حوالے
1۔ادب کا تنقیدی مطالعہ ڈاکٹر سلام سندیلوی
2۔تنقیدی اشارے ۔آل احمد سرور
3۔آج کل نئی دہلی اکتوبر 1986ء
4۔تھیوری آف لٹریچر صفحہ 101
5۔تھیوری آف لٹریچر صفحہ 251
6۔کورست’’ کوارٹرلی ‘‘ اپریل ، جون 1959ء
7۔کالیکٹیٹ پیپرز دولیم فورتھ صفحہ9
8۔کالیکٹیٹ پیپرز دولیم فورتھ صفحہ92
9۔کالیکٹیٹ پیپرز دولیم فورتھ صفحہ96

10۔کالیکٹیٹ پیپرز دولیم فورتھ صفحہ95

11۔کالیکٹیٹ پیپرز دولیم فورتھ صفحہ102
12۔کانٹری بیوشن ٹوانلاسیکل سائکولوجی صفحہ199
13۔کانٹری بیوشن ٹوانلاسیکل سائکولوجی صفحہ191
14۔اردو ناول نگاری صفحہ115-116
15۔ہیرے کی کنی صفحہ 1
16۔ہیرے کی کنی ’’ آغا شاعر صفحہ
17۔فکشن اینڈ پبلک صفحہ213
18۔اردو ناول نگاری سہیل بخاری صفحہ 118
19۔دی ناول ان دی سینٹووی صفحہ121
20۔گریٹ ناولسٹ اینڈ اولس صفحہ202










نمبر شمار کتاب کا نام مصنف معلم اشاعت سن اشاعت
-1 آغاشاعر حیات و شاعری مرتبہ مجتبی حسین خاں لاہور 1970ء
-2 اردو ناط کی تاریخ ڈاکٹر محمد احسن فاروقی لکھنؤ لکھنؤ 1962ء
-3 انگریزی عہد میں ہندوستان عبداﷲ یوسف علی الہ آبادی 1936ء
-4 اردو ادب میں رومانی تحریک ڈاکٹر محمد حسن لکھنؤ 1950ء
-5 اردو ادب جنگ عظیم کے بعد ڈاکٹر سید عبداﷲ لاہور 1941ء
-6 ادب کا تنقیدی مطالعہ ڈاکٹر سلام سندیلوی لکھنؤ 1986ء
-7 اردو ناول نگاری سہیل بخاری دہلوی 1972ء
-8 اردو نثر کی داستانیں گیان چند جین کرانچی 1945ء
-9 اردو زبان اور فنی داستان گوئی کلیم الدین احمد پٹنہ
-10 اردو کا افسانوی ادب بہار اردو اکیڈمی پٹنہ 1987ء
-11 اردو ناول سمت ورافتار سید حیدر علی الہ آباد 1977ء
-12 ارمان آغا شاعر قزلباش دہلی 1903ء
-13 امراؤ جان ادا مرزا ہادی رسوا دہلی 1958ء
-14 ایام عرب عبدلحلیم سرر لکھنؤ 1915ء
-15 ایامی ڈپٹی نظیر احمد دہلی 1991ء
-16 ابن الوقت۔ مرتبہ سید ڈپٹی نظیر احمد لاہور 1961ء
-17 بہار کا اردو ادب ڈاکٹر ارتضیٰ کریم دہلی 1986ء
-18 بیسویں صدی میں اردو ناول یوسف سرمست حیدرآباد 1973ء
-19 پریم چند شخصیت اور کارنامے پروفیسر قمررئیس دہلی 1987ء
-20 ترقی پسند ادب بچاس سالہ سفر پروفیسر قمررئیس دہلی 1987ء
-21 تنقیدی اشارہ آل احمد سرور علی گڑھ 1942ء
-22 ٹیڑھی لکیر عصمت چغتائی علی گڑھ 1945ء
-23 خمکدہ خیلم کتب پر نٹر ز اینڈ پبلیسرز لیمیڈیڈ کرانچی 1976ء
-24 خدائی فوجدار رتن ناتھ شرسار لکھنؤ 1903ء
-25 داستان مے افسانے تک وقار عظیم لاہور 1960ء
-26 ذات شریف مرزاہادی رسوا لکھنؤ 1921ء
-27 اوبائے صادق ڈپٹی نذیر احمد دہلی 1899ء
-28 سرشار کی ناول نگاری ڈاکٹر سید لطیف حسین ادیب کرانچی 1961ء
-29 سونیئر آغا شاعر میموریل سوسائٹی دہلی 1983ء
-30 صبح گلشن مطبوعہ شاہ جہانی بھوپال 15-12ہجری
-31 عبدالحلیم شررسحمہ یتاروفن ڈاکٹر شریف احمد دہلی 1989ء
-32 عجائبا لقصص تنقیدی مطالعہ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم دہلی 1987ء
-33 فسانہ آزاد رتن ناتھ سرشار لکھنؤ 1935ء
-34 مقدمہ شعر و شاعری الطاف حسین حالی لاہور 1945ء
-35 میدان عمل منشی چند دہلی 1952ء
-36 مراتہ العروس ڈپٹی نذیر احمد کانپور 1886ء
-37 محمد علی طیب حیات اور تعانیت ڈاکٹرعبدالحی دہلی 1989ء
-38 ناہید آغا قزلباش دہلی 1903ء
-39 ہندوستان کا اردو ادب ڈاکٹر محمد ذاکر دہلی 1981ء
-40 ہیرے کی کنی آغاشاعر قزلباش دہلی 1903ء
-41 پریم چند کا تنقیدی مطالعہ قمررئیس دہلی
بحیثیت ناول نگار
-42 قرۃالعین حیدر ایک مطالعہ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم دہلی
-43 انتظار حسین ایک دبستان ڈاکٹر ارتضیٰ کریم دہلی


’’رسائل‘‘
’’چمنستان‘‘ 1940-41-46ء دہلی
’’ نقد ونظر‘‘ 1942ء آگرہ
’’منادی‘‘ 1942ء دہلی
’’سیپ‘‘ 1964ء کراچی
’’آج کل‘‘ 1947-84ء دہلی
’’انجام‘‘ 1964ء کراچی
’’شعلہ وشبنم‘‘ 1952ء دہلی
’’گوشت‘‘ کواٹر لی 1959ء بمبئی






BIBILOGRAPHY OF ENGLISH BOOK
1. Aspect lf the Novel - E.M. Forster - 1962 - London.
2. The Art of Novel - Pelhan Edgar - 1933 - New York
3. The Advance of the English Novel - W. Lyon Philips -1916 - New Yark
4. The Living Novel - Pritchett - 1954 - London
5. Munshi Prem Chanda - Madan Gopal - 1964 - Delhi
6. Modern Novel - Walter Allem - 1964 - New York
7. Collection Papers Vol - IV - Sigmond Frend - 1948 - London
8. Contribution to Analytical Psychology - C.G. Jung, Trasnlated by H.G. and Carry F. Baynes
9. The Novel in the Twelth Century- Joseph Warren - 1932- Beach New York
10. Theory fo Literature - Warren
11. Piction and reading Public
12. Great Novelist and their Novel's
13. Novelist on the Novel - Ed Miriam Allett - 1954 - London
14. The Novel Today - Philip Hinderson - 1936 - London
15. The Rise of the Novel - I am watt - 1957 - London
16. Reading a Novel - Walter Allen -1956 - London
17. The English Novel - I.B. Priestly - 1905 London
18. The Novel and the people - Rolf Fox -1956 - Moscow
19. The story of a Novel - - Thoms Wolf - 1936 - New York
20. The technique of the Novel - Thomars H. Uzzel - 1947 - U.S.A

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90699 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.