پاکستان میں نیا بجٹ آچکا ہے۔ اس بجٹ کے مطابق جہاں اور
بہت ساری چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے وہیں موبائل فون
صارفین پر وود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بھی 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کردی گئی
ہے۔
اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جن کا کہنا ہے کہ اسے
حسن اتفاق کہیے یا ’دل کی آواز‘ موبائل فون پر ٹیکس بہت سے حلقوں میں۔۔خاص
کر بزرگ شہریوں کے درمیان اسے ’خوش آئند‘ قرار دیا جارہا ہے۔ |
|
گو کہ مہنگائی میں اضافے یا ٹیکس میں بڑھوتی کو کبھی بھی اور کہیں بھی اچھا
قرار نہیں دیا جاتا لیکن چونکہ کچھ لوگوں۔۔خصوصی طور پر معاشرے کے بزرگوں
کو گلی گلی آسانی سے دستیاب، موبائلز، سستی سے سستی کالز کے مقابلوں، زیادہ
سے زیادہ فری منٹس اور ”ٹکے سیر ایس ایم ایس“ کی بھرمار سے شکایت تھی کہ ان
کی بدولت نوجوان نسل کسی کام کی نہیں رہی۔۔ اس ٹیکس کے لگنے سے انہیں امید
ہو چلی ہے کہ شاید نوجوان نسل میں اس کا بے دریغ استعمال کچھ کم ہوجائے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے سے کراچی کے ایک رہائشی 65 سالہ بزرگ سردار
احمد نے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا ” پاکستان میں روٹی مہنگی اور فون کال
سستی ہے۔ رات رات بھر نوجوانوں کو فون سے جڑے رکھنے کے پیچھے ’سستے پیکیجز‘
کا ہاتھ ہے۔۔۔ یہ ذہنی ہی نہیں مالی عیاشی بھی ہے۔۔۔ لیکن نیا بجٹ آنے کے
بعد لگتا ہے کہ اب اس عیاشی اور فراخدلی کے دن گنے جا چکے ہیں۔“
|
|
سردار احمد کے علاوہ بھی بہت سے بزرگ خواتین اور مرد شہریوں کا کہنا ہے کہ
پاکستان میں اچھی چیز کا بھی بے جا استعمال ہو رہا ہے۔ آج ٹی وی، ریڈیو،
اخبار، ہورڈنگز، انٹرنیٹ ۔۔جدھر دیکھو موبائل فونز کے چرچے ہیں۔ یہ مفید
چیز ہے لیکن اس سے نوجوان نسل بگڑ بھی تو رہی ہے۔ آج کراچی میں غالباً ہر
پانچواں، چھٹا قتل موبائل فون کے سبب ہو رہا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے جرائم کے
پیچھے’موبائل کی سہولت کا ناجائز استعمال‘ ہے۔۔۔اسے ڈیٹونیٹر کے طور پر
استعمال کرنا کہاں کا قانون ہے۔۔“
وضح کردہ قانون کے مطابق یکم جولائی سے ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافے کے
نتیجے میں صارفین کو سو روپے مالیت کے پری پیڈ کارڈ پر ساڑھے اکتالیس فیصد
ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں موجودہ اضافے کے بعد ٹیلی
کام سیکٹر پر ٹیکسوں کی مجموعی شرح چونتیس اعشاریہ پانچ فیصد تک پہنچ جائے
گی۔
|
|
اس طرح صارفین کو سو روپے کے پری پیڈ کارڈ پر پندرہ فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس،
سات فیصد سیلولر چارجز اور انیس اعشاریہ پانچ فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ادا
کرنی ہوگی، یعنی سو روپے کا کارڈ چارج کرنے کے بعد ان کا بیلنس صرف اٹھاون
روپے پچاس پیسے رہ جائے گا۔
اس تمام صورتحال پر ایک اور شہری کامران عباسی جو بینک میں ملازم ہیں ان کا
کہنا ہے”جو چیزیں ضروری اور عام آدمی کے روزمرہ استعمال کی نہیں ان پر ٹیکس
کی شرح بڑھانا درست ہے مثلاً سگریٹ ، سگار اور تمباکو ۔۔ان چیزوں کے بغیر
انسان گزرہ کرسکتا ہے لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں فون ”عیاشی “ یا
”آسائش“ نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ ہاں ٹیکس لگنے سے اتنا ضرور ہوگا کہ لوگ اسے
بجلی کی طرح احتیاط سے استعمال کرنے لگیں گے۔۔“
|
|
ایک اور اطلاع کے مطابق ملک میں امپورٹ ڈیوٹی میں اضافے کے سبب موبائل فون
کی درآمد میں کئی فیصد کمی آگئی ہے۔ صدر میں عبداللہ ہارون روڈ پر موبائل
فون کے کاروبار سے وابستہ تاجر عرفان احمد کا کہنا ہے کہ نئی حکومت نے آتے
ہی امپورٹ ڈیوٹی میں اضافہ کردیا ہے جس سے موبائل فون کی آمد بری طرح متاثر
ہوئی ہے۔ اگر یہی حال رہا تو کاروبار بالکل ہی ٹھپ ہوجائے گا۔
کیا آپ کی نظر میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ درست ہے؟ کیا واقعی موبائل کے غیر
ضروری استعمال میں کمی واقع ہوگی؟ یا پھر اس اضافے کی وجہ سے ضرورت مند
افراد بھی مشکل میں آجائیں گے؟
|