ایک دانشور بڑی حیرانی کے ساتھ ایک چرواہے سے پوچھتا ہے کہ تم سنگلاخ
پہاڑیوں کی خوفناک اور مہیب تنہائی میں صبح سے لے کر شام تک یکہ و تنہا
پہاڑ جیسا دن کیسے گزار لیتے ہو- چرواہا ہنستے ہوئے کہنے لگا ‘کون سی
تنہائی‘- میرے پاس بھیڑیں ہوتی ہیں پھر پہاڑیاں ہیں اور ان پہاڑیوں پر
جھاڑیاں ہیں- جھاڑیوں میں پرندے ہیں چڑیاں ہیں- دانشور نے کہا، وہ تو ٹھیک
ہے مگر وہاں بندہ ہوتا ہے نہ بندے کی ذات، آخر باتیں کس سے کرتے ہو؟ چرواہا
پھر ہنسا اور کہنے لگا، ‘جی باتوں کا کیا ہے، وہ تو میں خود سے کر لیتا ہوں-
اپنی آواز سننے میں بڑا مزہ آتا ہے‘- یہ کہہ کر وہ چلا گیا مگر دانشور دیر
تک سوچتا رہا کہ واقعی تنہا وہ نہیں ہے بلکہ تنہا ہم ہیں- کیونکہ وہ تو ہمہ
وقت اپنے ساتھ رہتا ہے جبکہ ہم دوسروں کے ساتھ رہتے ہیں، وہ اپنی آواز کا
خود سامع ہے جبکہ ہم اپنی آواز دوسروں کو سناتے ہیں-
بہت سے لوگ فطرتآ تنہائی پسند واقع ہوتے ہیں اور ان میں ایک خاکسار بھی ہے-
لیکن اس تنہائی پسندی کو دیکھ کر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مَیں کم حوصلہ ہوں
اور زندگی سے کَٹا ہوا ہوں اس لیے الگ تھلگ رہتا ہوں- مگر یہ کیوں ہے کہ
اپنے کمرے میں آ کر مجھے اپنا رشتہ باہر کی دنیا سے استوار معلوم ہوتا ہے-
بلکہ مجھے تو اس رشتے کا احساس ہی کمرے میں داخل ہونے کے بعد ہوتا ہے اور
جب میں کمرے سے باہر ہوتا ہوں تو سہما سہما صرف اپنے بارے میں خوف کی سوچ
سوچتا رہتا ہوں- مجھے کمرے سے باہر یوں لگتا ہے جیسے بیرونی دنیا کا دباؤ
مجھے اپنے ہی اندر دھکیل دیتا ہے اور کمرے میں آ کر میں آزاد ہو جاتا ہوں-
مجھے گھر سے باہر رہ کر اپنی گمشدگی کا احساس ہونے لگتا ہے- کمرے میں یہ
احساس نہیں ہوتا- کمرے میں بیٹھے ہوئے تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں نے
خود کو ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو پا لیا ہے- یہ کمرہ جیسے کسی روح کا ہاتھ
ہے جو مجھے مادہ پرستی، فرقہ بندی، لسانیت پرستی، نسل پرستی، جاہ پرستی،
مذہب پرستی اور اشیاء کے ڈھیر سے جس میں مَیں گُم ہو جاتا ہوں، ڈھونڈھ
نکالتا ہے-
لوگ کہتے ہیں میں اس لیے چُپ چُپ اور الگ تھلگ رہتا ہوں کہ میرے پاس یقین و
خود اعتمادی و حوصلہ کی وہ دولت نہیں جو لوگوں کو میسر ہے- عین ممکن ہے لوگ
درست ہی کہتے ہوں- لوگ کہتے ہیں میں زندگی میں ڈوبنے کا حوصلہ نہیں رکھتا
اور زندگی کو محسوس کرنے اور جاننے کے لیے اس میں ڈوبنا ضروری ہے- لوگ کہتے
ہیں میں زندگی کو نظر انداز کرکے زندگی کا عَکس دیکھتا ہوں، مجھے شے نہیں
شے کا تصور عزیز ہے- لیکن پتا نہیں کیوں لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ سمندر یا
دریا کا نظارہ اس میں ڈوب کر تو نہیں ہو سکتا-
کیا میں واقعی زندگی سے کَٹ گیا ہوں؟ کیا انسان جیتے جی زندگی سے کَٹ سکتا
ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ہے اور جس صورت میں بھی ہے وہ سب زندہ
ہے اور زندگی سے مربوط ہے؟
زندگی کے سمندر کے سامنے مَیں ایک قطرہ ہوں اور اگر دنیا صحرا ہے تو مَیں
ایک ذرہ ریگ ہوں- مَیں قطرے کو سمندر سے اور ذرے کو ریگستان سے الگ رکھنا
چاہتا ہوں، کیونکہ جب تک قطرہ سمندر سے اور ذرہ ریگستان سے الگ ہے اسکی
اپنی ہستی کا طلسم قائم ہے- سمندر قطرے کو کھا جاتا ہے اور صحرا ذرے کو- یہ
صورتحال بہت گھمبیر ہے اس لیے میں اس صورتحال سے ڈرتا ہوں- لیکن ڈرتا تو
میں ہجوم پسند لوگوں سے بھی ہوں- کیونکہ ان لوگوں میں اتنی قوت موجود ہوتی
ہے کہ اگر مَیں انہیں اپنے بہت زیادہ قریب آنے دوں تو وہ مجھے کھا جائیں گے
جیسے سمندر قطرے کو کھا جاتا ہے- میں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے،
لیکن میں مرنا نہیں چاہتا- مَیں ‘ہونے‘ کا احساس رکھتا ہوں اور مَیں اس
احساس کو قائم رکھنا چاہتا ہوں- میرے لیے کائنات کا وجود اپنے وجود سے ہے-
کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ‘نفی ذات‘ کے حوالے سے ہی کائنات کے امکانات کا
انکشاف کیا جا سکتا ہے- مَیں نہیں ہوں تو کچھ نہیں ہے- باوجود اس حقیقت کے
کہ قطرہ ختم ہو جاتا ہے اور سمندر قائم رہتا ہے لیکن پھر جو قطرہ نکلتا ہے
وہ پہلا قطرہ کبھی نہیں ہوتا اور نہ ہی کبھی ہوسکتا ہے-
مَیں ایک عجیب اور پیچیدہ صورتحال کا اسیر ضرور ہوں لیکن یہ اسیری ہی میری
بقاء کی ضامن ہے- مچھلی پانی میں اسیر ہے لیکن یہ اسیری ہی اسکی زندگی ہے-
اس لیے مجھے اپنی صورتحال کا افسوس نہیں ہے- بس یہ سمجھ لیں کہ مَیں ایک
چھوٹی سے مچھلی ہوں اور یہ کمرہ میرا بحراوقیانوس ہے-
لوگ سمجھتے ہیں کہ میرے اندر نفرت بھری ہوئی ہے- نہیں ایسا نہیں ہے- مَیں
دنیا کو فاصلے سے ضرور دیکھتا ہوں لیکن اس سے نفرت نہیں کرتا- مَیں اپنے
انفرادی مزاج کے تابع ضرور ہوں اس لیے فاصلے سے چیزوں اور لوگوں کو چاہتا
ہوں- قریب ہو کر سب کچھ گُڈ مُڈ ہو جاتا ہے، پھر کوئی چیز الگ حیثیت کا
مالک نہیں رہتی، مجھے اس صورتحال سے خوف آتا ہے- جب مَیں اپنی انفرادیت کے
ساتھ الگ پیدا ہوا ہوں اور اپنی الگ قبر میں جاؤں گا تو مَیں کیوں نہ زندگی
میں بھی اپنی الگ حیثیت کو مکمل طور پر قائم رکھوں- وہ قرب موت سے مختلف
کیسے ہے جو فرد کی الگ حیثیت کو ختم کر دیتا ہے؟؟؟
طوفان کی وہ بڑی بڑی لہریں جو فاصلے سے خوبصورت نظر آتی ہیں، قریب ہوں تو
موت بن جاتی ہیں- اس لیے ہر شے کو اپنے مقام پر رہنا چاہیے- مجھے زندگی
عزیز ہے اور مَیں اپنی دنیا کو دیکھنا چاہتا ہوں تو مَیں کنارے پر لہروں سے
اتنی دُور ضرور ہوں گا جہاں تک یہ لہریں پہنچ نہ سکیں- سورج اپنی تابانی
اور خوبصورتی کا تاثر فاصلے ہی کے ذریعے دیتا ہے، اس کے قرب میں موت ہے،
جہنم ہے- اور بالکل اسی طرح اپنی ذات میں ہر شخص بھی ایک سورج ہے، دوسروں
کو خاکستر کردینے کی صلاحیت رکھتا ہے-
لوگ کہتے ہیں کہ اگر مجھے تنہا کسی دوسرے ستارے پر بھیج دیا جائے یا اگر اس
دنیا میں صرف مَیں ہی اکیلا رہ جاؤں تو کیا مَیں بہت خوش رہوں گا؟ نہیں
ایسا ممکن نہیں، مَیں خالی دنیا میں نہیں رہ سکتا، میں زندگی میں اس طرح
نہیں ڈوب سکتا جیسے بعض لوگ ڈوب جاتے ہیں- لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ
مَیں زندگی سے نفرت کرتا ہوں یا اس میں دلچسپی نہیں لیتا- سمندر خوبصورت ہے
اور اگر سمندر نہ ہو تو وہ کنارا یا ساحل کہاں سے آئے گا جس پر کھڑے ہو کر
سمندر کو دیکھا اور اس میں ڈوبنے کی خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے-
میری صورت میری تنہائی کے آئینے میں دیکھ
انجمن کی گَرد میں کس کو نظر آؤں گا مَیں |