ماں

ماں کیا ہے؟ اس کا کام کیا صرف ہماری ذمہ داریوں پورا کرنا ہے؟

اب اگر ہم اپنے اوپر ایک نگاہ ڈالیں تو کیا ہم اپنی ماں کا اسی انداز میں خیال رکھتے ہیں جیسے کے وہ مارا رکھتی ہے۔ بظاہر دیکھا جائے تو سب کی ایک ہی ماں ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت میں اللہ نے ہمیں دو ماؤں سے نوازا ہے۔ ایک تو وہ جس نے ہمیں پیدا کیا اور دوسری ہماری دھرتی ماں جس نے ہمیں پہچان اور نام دیا۔ کیا ہم اپنی دونوں ماؤں کے فرائض پورے کر پا رہے ہیں جو ہم پر فرض ہیں۔

پہلے بات کرتے ہیں اس ماں کی جس نے ہمیں اس دنیا میں جنم دیا۔ جس کے پیروں تلے جنت ہے۔ اللہ کا انمول تحفہ کی صورت میں ہم کو عطا کی گئی۔ وہ ماں جس نے ہماری نگہداشت اس وقت کی جب ہم کسی قابل نہ تھے رونے سے پہلے ہی ہماری بھوک کو مٹانا اس کی خواہش ہوتی تھی۔ رات رات بھر جاگ کر جس نے ہمیں پروان چڑھایا۔ بے تحاشہ قربانیوں کے بعد اس قابل بنایا کہ ہم معاشرے میں اونچا مقام بنا سکیں۔ اتنی قربانیاں دینے والی ماں کا ہم کتنا خیال رکھتے ہیں۔ زمانے کی بھاگ دوڑ میں اتنا وقت بھی نہیں نکال پاتے کہ اس کے پاس بیٹھ کر اس کا حال چال پوچھ سکیں اور رہی سہی کسر بیوی آنے کے بعد پوری ہوجاتی ہے کہ ہر برائی ماں میں ہی کیوں نظر آنے لگتی ہے۔ ایسی اولاد بہت بدنصیب ہوتی ہے جس کے پاس ماں جیسی نعمت تو ہو لیکن وہ اس کی قدر نہ کر پائے۔ ہمارے معاشرے میں ایسی مثالیں بہت عام ہیں کہ جب والدین بوڑھے ہوئے نہیں اور بدقسمت بچے انہیں ایدھی سینٹر چھوڑ آتے ہیں، یا والدین کی باتیں بری لگنے لگتی ہیں اور اولاد کی نظروں میں سب کھٹکنے لگتا ہے۔ ایسے نافرمان اولاد کے لئے سوائے جہنم کے اور کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اس پر بھی اس ماں کی عظمت کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دعا ہی دیتی ہے۔ لیکن ایسی دنیا میں چند ایسے بھی بچے ہوتے ہیں جو اپنے والدین کی خدمت بے لوث کرتے ہیں اور ان سے بےتحاشہ محبت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ والدین، بیوی اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق کو توازن کے ساتھ پورا کرتے ہیں۔ ایسے بچے دنیا اور آخرت میں اونچا مقام حاصل کرتے ہیں۔

اب ہم نظر ڈالیں اپنی دھرتی ماں پر کہ ہم اس کے ساتھ کتنا انصاف کر پا رہے ہیں۔ جب سے آزادی حاصل کی اس وقت سے لیکر اب تک ہم نے اپنی ماں کو دونوں ہاتھوں سے خوب لوٹا ہے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم نے دنیا میں کوئی نام نہیں بنایا اور اگر بنایا بھی تو کرپٹ اور دہشت گرد کے نام سے آج ہمیں پکارا جاتا ہے۔ پاکستانیوں پر کوئی ملک اعتماد نہیں کرتا۔ پاکستانیوں کو ان کے اپنے خراب کرتوتوں کی وجہ سے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس ماں نے جس نے ہمیں ایک نام اور پہچان دی ہم آج کس مقام پر لے آئے ھیں کہ لگتا ھے کسی بھی وقت ھمارا ملک خدانخواستہ ٹوٹ سکتا ھے۔ سونے پر سوہاگہ جو بھی ہمارے لیڈران آئے انہوں نے بھی اپنے بینک بیلنس بھرنے کے علاوہ اور کچھ نہ کیا۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی جذبہ حب الوطنی سے متعلق کوئی خاص پڑھائی نہیں کی جاتی کہ جس سے بچے کو اپنے ملک سے پیار ہو یا وہ اس کی قدر جان سکے۔ ایک ١٤ اگست منانے سے ہم ان میں اپنے وطن سے محبت کا جذبہ نہیں بھر سکتے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی قدروں کو جانیں اور اس پر عمل کر کے اپنے ملک و قوم کا نام روشن کر کے اس دھرتی ماں کا کچھ قرض تو اتار سکیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب ایک قوم بن کر اس دنیا کو بتادیں پاکستانی قوم ایک غیرت مند قوم ہے اور آئندہ آنے والا وقت ہمارا ہے۔ ہم سب مل جل کر اس کو ترقی کی راہ پرلے کر جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کا فرماں بردار بنائے اور ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم اپنے ملک کا نام روشن کر سکیں آمین

دنیا میں آئے ہو تو کچھ کر کے جانا
اپنے والدین اور ملک کا نام روشن کر کے جانا
Huma Imran
About the Author: Huma Imran Read More Articles by Huma Imran: 12 Articles with 21011 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.