اروند جی کی عام آدمی پارٹی

ابتداء میں جب مشہور سماجی کارکن انا ہزارے اور عام آدمی پا رٹی کے صدر اروند کجریوال نے ملک میں بڑھتے ہو ئے کرپشن کے خلاف تحریک شروع کی تھی ۔ تو اسی وقت ہم کو اس آندولن کے اہم مصدقہ اور باوثوق ذرائع سے یہ معلوم ہو گیا تھا ۔کہ اس تحریک سے جڑے ہو ئے لوگ آگے چل کر اپنی سیا سی پارٹی بنا ئیں گے ۔ہمیں ا گر چہ اس وقت ان لوگوں کی رائے پر کچھ تردد ہوا ۔لیکن ان کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی ۔اور اروند جی کی عام آدمی پا رٹی وجود میں آگئی۔ لیکن اب سوال یہ تھا کہ پارٹی کوکیسے وجود میں لایاجائے ۔اور کیسے اس پارٹی پر عام لوگوں کا اعتماد بحال کیا جائے۔جس سے لوگ اس پارٹی کے سیاسی وجودکو تسلیم کر لیں۔ اس جواز کو پید کر نے کے لئے مختلف لائحہ عمل تیار کئے گئے ۔ بہت سی چالیں چلی گئی۔ قومی میڈیا کاسہارا لیا گیا۔ او ر ایک لمبی اورطویل جدوجہد کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ جن لوک پال بل کی شرطوں کو اتنا سخت بنا کر پیش کیا جائے کہ حکومت اس کو کسی قیمت پرماننے کے لئے تیار نہ ہو ۔یہی ہوا کہ جن لوک پال میں جو شرطیں رکھی گئی ان شرائط کو حکومت نے ماننے سے انکا ر کر دیا ۔اور یہ انکا ر صحیح بھی تھا۔ کیونکہ ان شرائط کو قبول کر لینے سے نہ صرف اس ملک کی جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی تھی ہے بلکہ یہ ملک آسانی سے فرقہ پرستوں کے ہا تھوں میں چلاجاتا ۔ضمناً ہم کچھ مثالیں اپنے اس دعوے کو ثابت کر نے کے لئے د ینگے ۔ جن لوک پال کی شرطوں کے مطابق ملک کاوزیر اعظم نہ صرف لوک پال کے چیر مین کے دائرۂ ا ختیار میں ہوگابلکہ وزیر اعظم کے تمام اختیارات اس کے چیئرمین کو حاصل ہوں گے ۔اگر وزیر اعظم کوئی فیصلہ لینا چاہے گا تووزیر اعظم کو پہلے لوک پال کے چیر مین سے اجا زت لینی ہو گی ۔ اور لوک پال کے چیر مین کی اجازت کے بغیر وزیر اعظم ملک کے باہر یااندر کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا ہے ۔اسی طرح چیف جسٹس آف انڈیا بھی اس کے ماتحت ہو گا ۔یعنی جن لوک پال کا چیر مین چیف جسٹس آف انڈیا سے بھی کسی معاملے میں جواب دہی کر سکتا ہے ۔یہ اگر چہ دو ہی مثالیں ہیں ۔لیکن پورے ملک کی جمہوریت ۔او رملک کا جمہوری نظام انہی دونوں پر موقوف ہوتا ہے ۔ اگر ان دونوں کی آزادی یا اختیارات سلب کرلئے جا ئیں ۔یا انکے فیصلوں میں کسی جواب دہی کا امکان باقی ہو تو اس ملک کو جمہوری کہنا یا جمہوریت سے تعبیر کرنا بڑی نا سمجھی ہوگی۔ کیونکہ عدلیہ اور عوام کے چنے ہوے نمایندے ہی جمہوریت کی آبرو اور اس کی بقا کی دلیل ہوتے ہیں ۔اور ملک کے انہی دونوں اہم ستونوں کو جن لوک پال کی شرطوں سے خطرہ لاحق تھا ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اروند جی کی یہ پارٹی۔ عام آدمی پارٹی ہے یا خاص۔یہ سوال ہمارے ذہنوں میں اسی وقت سے ہے جب سے یہ آندولن شروع ہوا تھا ۔ اور آج تک اروند جی یا ان کے متعلق جو لوگ ہیں کبھی انہوں نے اس کا جواب نہیں دیا بلکہ مبہم طور پر آگے بڑھتے رہے ۔ اور نہ ہی وہ اس کا جواب دے سکتے تھے ۔کیو نکہ اس کی وضاحت اور جواب دینے سے غبارے کی تمام ہوا نکل جا تی ۔ ویسے ہمارے پاس اس مذکورہ سوال کا جواب دینے کے لئے مصدقہ ذرائع سے بہت سی ایسی اہم شہادتیں موجود ہیں ۔جس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ عام آدمی پارٹی نہیں بلکہ اس کا وجود پہلے دن سے ہی ایک خاص طبقے کے لئے ہے ۔اور وہی اس کی پشت پنا ہی اور باگ ڈو ر سنبھا لے ہوئے ہیں ۔ہو سکتا ہے کچھ لوگ ہماری اس رائے سے اتفاق نہ کریں ۔لیکن اس پارٹی کے لوگوں کا رجحان ،سوچ ، اور آج تک کے ان کے عملی کارنامے ایک خاص فکر کی خود گواہی دیتے رہے ہیں ۔ کیونکہ انا ہزارے اور ان کے قریبی دوست اروند جی نے آج تک اپنے اسٹیج سے ایک لفظ بھی اقلیتی طبقے کے لئے نہیں بو لا ۔ ہمارے خیال میں وجہ شاید اس کی یہی رہی ہو گی کہ اگر ہمنے مسلمانوں کے حوالے سے ایک لفظ بھی اپنی زبان سے ان کی ہمدری میں کہدیا ۔تو وہ خاص طبقہ جو اس ملک میں اکثریت رکھتا ہے نالا ں ہو جا ئیگا اور اس کی ناراضگی کئی اعتبار سے نقصان دہ ثابت ہوگی ۔اگر بالفرض انا ہزارے یا اروند جی اس وقت مسلمانوں سے کچھ نیم ہمدردی کا اظہار کر بھی دیتے تو اس خاص طبقے کا ووٹ بینک اور ساتھ ساتھ اس کی مدد اور اس مجوزہ پارٹی کے تئیں ان کا لگاؤ کیسے حا صل ہو پاتا ۔ جس کا خاکہ اورپلان اروند جی اور اناکے ذہن میں پہلے سے ہی تھا ۔اس لئے وہ کو ئی ایسا قدم اٹھانا نہیں چاہتے تھے ۔ جو مستقبل میں کسی قسم کے نقصان کا باعث بنے۔

کیا اس پوری تحریک کے ر و ح رواں انا ہزارے اروند جی کو پارٹی بنا نے کے تمام جواز فراہم کر کے خود بظاہر سیا ست اور پارٹی سے الگ ہو گئے ۔ جب کہ ہمارے خیال میں انا ہزارے ،اروند، اور عام آدمی پارٹی کے درمیا ن وہی رشتے ہیں اور رہیں گے جو آرایس ایس اور بی جے پی کے درمیان ہیں ۔ یعنی وہ اس پارٹی کے فکری رہنما ہیں۔اور پارٹی کو فکری غذا باہر سے ہی فراہم کر تے رہے گے ۔ اس لئے ان کے الگ ہونے کا معاملہ محض ایک ڈرامہ ہے ۔ کیونکہ جو کام پارٹی کے لئے وہ باہر سے انجام دیتے رہیں گے اتنا وہ پارٹی میں اندر رہ کر بھی نہیں کر پا ئیں گے انا ہزارے کے با رے میں یہ ہماری اپنی رائے ہے ممکن ہے ہم غلطی پر ہو ں۔ بہر حال اروند جی اب آپ کی سیا سی پارٹی منظر عام پر آگئی ۔جو کہ پہلے سے طے تھا اور خوشی کی بات یہ ہے کہ آپ نے اپنے الیکشن لڑنے کا ارادہ اور ساتھ ساتھ پارٹی کے ایجنڈے بھی ظاہر کردیے ہیں ہم آپ کو اس پر مبارک باد دیتے ہیں ۔لیکن آپ نے جو اپنی پار ٹی کے ایجنڈے پیش کیے ہیں ۔ ان میں بجلی پانی کا بحران آپ نے سرفہرست رکھا ۔اروند جی بجلی اور پانی کا یہ بحران صرف دہلی تک ہی محدود نہیں بلکہ پورا ملک تقریباً ساٹھ سال سے اس بحران میں غوطے لگا رہا ہے ۔اور کوئی حل شاید آج تک نہیں نکلا۔اچھی بات ہے کہ آپ نے بھی اپنے ایجنڈے میں اس کو شامل کر لیا ہے ۔خدا کرے آپ ہی کے توسط سے یہ مسئلہ اور بحران حل ہو جا ئے ۔ لیکن اروند جی ہمیں اس ملک میں بجلی اور پا نی سے زیادہ انصاف کی اشد ضرورت ہے ۔ کیونکہ اس ملک میں مسلسل ساٹھ سال سے اقلیتوں کے ساتھ نہ انصافی ہو رہی ۔ابھی بھی ہزاروں نوجوان جیلوں میں بند ہیں ۔اور عدم تحفظ کی یہ صورت حال ہے کہ اب جیلوں کے اندر بھی محفوظ نہیں ۔حال ہی میں خالد مجاہد سمیت کتنے نوجوان جیلوں میں مارے جا چکے ہیں ۔گجرات میں کتنی بڑی تعداد میں لوگ مودی کے ظلم کا شکار ہو گئے ۔عاطف اور ساجد کا بٹلہ ہاوس میں انکاونٹر کردیا گیا ۔لیکن آج تک آپ نے کو ئی بات انصاف کی نہ اسوقت کہی جب آپ صر ف سماجی ہوا کر تے تھے ا ور اب تو خیر آ پ سے امید ہی نہیں کیجا سکتی ہے کیونکہ اب آپ سیا سی ہو گئے اور آپ کی مصلحتیں بھی مزید بڑھ گئی ہو ں گی ۔ یہ تمام باتیں ہم صرف اس لئے کہہ رہے ہیں کہ آپ عام آدمی کی بات کر رہے ہیں ۔یا مسلمان انصاف کے اعتبار آپ کی عام پارٹی کے رجحان سے خارج ہیں۔اور دیگر پار ٹیوں کی طرح مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک ہی سمجھ رہے ہیں ۔اگر آپ یقیناً یہی سوچ رکھتے ہیں اور آپ کے قول وفعل سے بھی آج تک یہی ثابت ہوتا رہا ہے ۔ تو نتیجہ آپ کے سامنے آجائیگا۔

عا م آدمی پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا۔کیا معاصر پارٹیوں کی صف میں یہ پارٹی کھڑی نظر آئیگی۔اس پرابھی کوئی رائے دینا یا کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔لیکن آزاد بھارت میں پہلی مرتبہ ایسا ہورہا کہ بیورو کریٹ اور کارپریٹ طبقہ سیا ست کے میدان میں مکمل طور سے داخل ہورہا ہے ۔ان دونوں طبقوں کی تاریخ فرقہ پرستی اور قومی عصبیت سے بھری پڑی ہے ۔بابری مسجد کی شہادت سے لیکر گجرات کے خونی فساد تک انہی دونوں کے ہا تھ بے گناہوں کے خون سے لت پت ہیں ۔ ہزاروں مسلم نوجوان انہی کے بنائے ہوئے من گھڑت جھوٹے فلسفوں کے تحت جیلوں میں بند ہیں ، اور وقتاًفوقتاً ہندوستان کو فرقہ پرستی کی آگ میں داخل کر نے کے منصوبے انہی کے توسط سے عمل میں آتے رہتے ہیں ۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے بانی و محرک اس مذکورہ سوچ اور فکر سے مستثنی ہو ں ۔ لیکن اس پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔

ہمیں عام آدمی پارٹی کے وجود پر کوئی اعتراض نہیں جمہوری ملکوں میں ہر انسان کو یہ حق حاصل ہوتا ہے ۔کہ آزادی کے ساتھ ملک کی قومی سلامتی کی بقا اور تحفظ کا خیال کرتے ہوئے وہ کچھ بھی کرے ۔لیکن عام آدمی پارٹی کے صدر کبھی کبھی ملک کے قانون سے اوپر اٹھ کر بلکہ قانون کو ہاتھ میں لیکر چلنے لگتے ہیں ۔ مثلاً لوگوں سے کہتے ہیں کہ بجلی اور پا نی کا بل ادا نہ کیا جا ئے ۔جبکہ یہ حق عام آدمی پارٹی کے صدر کو بالکل نہیں ۔ہا ں ا ن کو یہ حق ہے کہ حکو مت پر دباؤ بنا ئیں۔کہ بجلی اور پا نی کی جو قیمتیں ہیں ان کو کم کیا جائے۔نہ کہ لوگوں کو بل دینے سے روکا جائے ۔کیونکہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ بلکہ اس سے ملک کی لاء اینڈ آڈر کی صورت حال مزید خراب ہو گی۔ جس سے بد امنی جنم لیگی۔ لوگ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھ نے لگے گیں۔جس کا نقصان یقیناً ملک کی قومی سلامتی کو ہوگا۔ اور ساتھ ہی اس مشن پر برا اثر پڑیگاجس کو ٹھیک کر نے کے لئے نے یہ پا رٹی بنائی گئی ۔ بقول ٹیم اروند کے سسٹم کو ٹھیک کر نے کے لئے یہ پارٹی بنائی گئی ہے۔ ایمان داری کی سیا ست کا وہ دعوی اور پرچار بھی کر رہے ہیں ۔ بلکہ اس پرچار میں کئی تھری ویلر چالان کی شکل میں بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔اور معاملہ اتنا سنگین ہو چکا کہ ٹیم عام آدمی پارٹی نے ان کے تحفظ کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکا دیا ۔جہاں تک بات جمہوری ملکوں میں پرچار کی ہے تو یہ حق اخلاق کے دئرے میں رہ کر عام آدمی پارٹی سمیت سب کو حاصل ہے ۔پو لیس کے اس رویے سے جانبداری کا احساس ہوتا ہے۔ ۔ کہ وہ عام آدمی پارٹی کے پر چار کر نے والے تھری ویلروں کا چالان کاٹ رہی ہے اسکی مذمت کی جانی چاہیے۔

بہر حال ابھی بھی عام آدمی پارٹی کی طرف سے دہر ا معیار مسلسل دیکھنے کو مل رہا ہے ۔تو پھر عا م آدمی پارٹی میں اور دوسر ی سیاسی پارٹیوں میں کیسے فرق کیا جا ئیگا ۔ جبکہ عام آدمی پارٹی کو وہ طریقۂ سیاست اختیار کرنا چاہیے تھا جو ہندوستان کی موجودہ سیا ست کے لئے آئیڈیل اور نمونہ بن سکے ۔تب سسٹم بد لے گا ۔لیکن اگر عام آدمی پارٹی کے لوگ اپنی سیا سی دکان اور کاروبار بڑھا نے اور ساتھ ساتھ مال ودولت کے تحفظ کے لئے سیاست کا راستہ اپنا یا ہے ۔تو پھر سسٹم کو بدلنے کی بات کرنا دھوکا ہے ۔

Fateh Muhammad
About the Author: Fateh Muhammad Read More Articles by Fateh Muhammad: 30 Articles with 33810 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.