پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے جب 2008میں حکومت سنبھالی
تھی تو میڈیا کے ذریعے اِس بات کا پرچار کیا گیا کہ پاکستان میں بجلی کے
بحران کی اصل وجہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی ہے اِس لیے
سپلائی ڈیمانڈ سے کہیں کم ہونے کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کا عذاب سہنا پڑ رہا ہے۔
اور چونکہ سابقہ حکومتوں نے بجلی کے پیداوار کے نئے منصوبوں پر خاطر خواہ
کام نہیں کیا اِس لیے سپلائی ڈیمانڈ کو پورا نہیں کرپا رہی چنانچہ اُس وقت
یہ ظاہر کیا گیا کہ اگر فوری طور پر بحران پر قابو پانا ہے تو رینٹل پاور
کے مہنگے منصوبوں کو قبول کرنا ہوگا۔ تاہم اُس وقت کی حکومت اور اپوزیشن کی
باہمی کشمکش میں یہ منصوبے پایہ تکمیل کو نہ پہنچے اور قوم کے اربوں روپے
کرپشن کے ذریعے حکمرانوں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوگئے جبکہ عوام بدستور بجلی
کے بحران کے سبب عذاب میں مبتلا رہے۔ مگر جیسے ہی سابقہ حکومت ختم ہوئی اور
نگران سیٹ اپ قائم ہوا، اِس بحران کی تشخیص یکسر بدل گئی اور شدومد سے یہ
کہا جانے لگاکہ پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت ڈیمانڈ سے کہیں زیادہ
ہے، اخبارات میں اعدادوشمار شائع ہوئے اور عوام کو بتایا گیا کہ 2008میں
پیداواری صلاحیت لگ بھگ بیس ہزار میگا واٹ کے قریب تھی جو اب بڑھ کر ساڑھے
اکیس ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ پاکستان کی ڈیمانڈ سردیوں میں 13ہزار کے لگ
بھگ جبکہ گرمیوں میں ساڑھے 16ہزار کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ اِس کے ساتھ ہی یہ
کہا جانے لگا کہ اصل مسئلہ گردشی قرضہ ہے، جو بجلی کی مد میں دی جانے والی
بھاری سبسڈی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں بقایاجات
کے حصول کے لیے بجلی کی پیداوار یا تو روک دیتی ہیں یا پھر اپنی مرضی کی
مقدار میں پیدا کرتی ہیں اور نتیجتاً پاکستان کے عوام کے لیے لوڈشیڈنگ کا
عذاب مقدر بن چکا ہے ۔ اور وہ تمام سیاست دان جو کبھی بجلی کی پیداواری
صلاحیت کا رونا روتے تھے اب گردشی قرضے کا راگ الاپ رہے ہیں۔چاہے اُن کا
تعلق سابقہ حکومت سے ہے یا موجودہ نئی حکومت سے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ آخر تشخیص میں اِس تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ تبدیلی اُس
وقت شروع ہوئی جب فروری 2013میں پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان
پرانے قرضے کی ادائیگی اور نئے قرضے کے اجراء کے حوالے سے بات چیت کا آغاز
ہوا ، جہاں آئی ایم ایف کی طرف سے یہ بات واضح ہوئی کہ پرانے قرضوں کی ری
شیڈولنگ اور نئے قرضوں کے اجراء کے لئے آئی ایم ایف کی بتائی ہوئی معاشی
اصلاحات کا نفاذ ضروری ہے جن میں ٹیکسوں میں اضافہ اور حکومت کی طرف سے دی
جانے والی سبسڈیز کا خاتمہ سرفہرست تھا۔ چنانچہ اِن مزاکرات کے بعد پاکستان
کے طول وعرض میں لوڈشیڈنگ میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو ملا اور نگران حکومت
نے واضح طور پر اِس بات کا اعلان کردیا کہ پاور سیکٹر کو ادائیگیاں نہیں
ہوپارہی جس کی وجہ سے ایسا کرنا پڑ رہا ہے، حتیٰ کہ بجلی پیدا کرنے والی
کمپنیوں کی طرف سے قومی اخبارات میں اشتہارات شائع کئے گئے کہ ادائیگیاں نہ
ہونے کی وجہ سے اُن کے پاور پلانٹ مکمل طور پر بند ہیں اور ادائیگیاں نہیں
ہونگی تو بجلی بھی پیدا نہیں کی جائے گی۔ اصل میں لوڈ شیڈنگ میں اضافہ اور
گردشی قرضوں کی ادائیگیوں کے مسئلے کو اجاگر کرنا نئی آنے والی حکومت کے
لیے وہ راہ ہموار کرنا تھی تاکہ لوڈشیڈنگ کے ستائے لوگ نئی حکومت کی طرف سے
آئی ایم ایف کے حل کے نفاذکو قبول کرلیں۔ چنانچہ نئے بجٹ کو پیش کرتے ہوئے
وزیر خزانہ نے واضح اعلان کیا کہ اُن کی حکومت گردشی قرضوں کے مسئلے کو حل
کرنے کے لیے پاور سیکٹر میں دی جانے والی سبسڈی کو جلد از جلد ختم کردے گی۔
چنانچہ یہ ضروری تھا کہ 19جون کو آئی ایم ایف کے وفد کی آمد سے قبل کچھ
ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے اُن کو یقین ہوکہ نئی حکومت اُن کی طرف سے دی
جانے والی معاشی اصلاحات کے نفاذ کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں
نئے بجٹ میں ٹیکسوں کی مد میں ہوش ربا اضافہ کیا گیا وہیں اُس کے فوراً بعد
وزیراعظم کی طرف سے بجلی کی قیمتوں میں ڈھائی روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری
دینے کے ساتھ ساتھ باقی ماندہ سبسڈی کے خاتمے کا منصوبہ بھی طلب کرلیاگیا۔
19جون کو آئی ایم ایف کے وفد کی پاکستان آمد ہوئی اور مزاکرات کے نتیجے میں
قومی اخبارات میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ پچھلے قرضوں کی ری شیڈولنگ اور
نئے قرضوں کے اجراء کو ٹیکسوں میں اضافے اور ہر طرح کی سبسڈی کے خاتمے سے
مشروط رکھا گیا ہے۔ حکومت نے اِس بات کا اعلان کیا ہے کہ سبسڈی کے خاتمے سے
بجلی کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہے چنانچہ وہ آئی ایم ایف کی تجاویز سے
متفق نظر آتی ہے۔ آئی ایم ایف کی معاشی اصلاحات اِس سادہ فارمولے پر ہوتی
ہے کہ معاشی خسارے کو لوگوں پر اضافی ٹیکس لگا کر اور اُنہیں دی جانے والی
سبسڈی کو ختم کرکے پورا کیا جائے اور اُنہیں اِس بات کی پرواہ بالکل نہیں
ہوتی کہ جن پر اضافی ٹیکس لگایا جارہا ہے وہ پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے
سسکیاں لے رہے ہیں۔ چنانچہ آئی ایم ایف کے اِس حل کے نفاذ سے لوگوں کی
مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ اِس کا صحیح حل اسلام کی معاشی اصلاحات سے ہی
ممکن ہے جس میں ایک طرف عوامی اثاثہ جات کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کی
ممانعت ہے، رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم یوں ہے کہ تین چیزیں تمام
انسانوں کی مشترکہ ملکیت ہیں، پانی ، چراگاہیں اور آگ(انرجی ریسورسس)‘‘
چنانچہ وہ تمام چیزیں جن پر ایک معاشرے کا انحصار ہوتا ہے اُنہیں نجکاری کے
نام پر پرائیویٹ ہاتھوں میں نہیں دیا جاسکتا بلکہ اُنہیں اُن کی لاگت پر
عوام الناس میں دینا لازم ہوتا ہے یوں پرائیویٹ کمپنیوں کی ان عوامی اثاثہ
جات میں اجارہ داری کا خاتمہ ہوتا ہے اور دوسری طرف اسلام ہر اُس
آرگنائزیشن میں شمولیت سے منع فرماتا ہے جہاں اسلام کے علاوہ کفر اور کفار
کا غلبہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ اللہ کافروں کو
مسلمانوں پر کوئی غلبہ یا اختیار نہیں دیتا ، یوں اسلام آئی ایم ایف جیسے
استعماری اداروں سے انسانوں کو نجات دلاتا ہے ۔ یہی وہ واحد حل سے جس سے
پاکستان کے مسلمان لوڈشیڈنگ جیسے مسائل سے نجات پاسکتے ہیں۔ |